محسن وقار علی
محفلین
فائل فوٹو
الیکشن ہوگا یا نہیں اس بارے میں تو ابھی شکوک باقی ہیں لیکن دھماکہ روز شام کو بہت باقاعدگی سے ہوتا ہے۔
بم حملوں میں اتنی باقاعدگی آ گئی ہے کہ اگر کوئی زوردار آواز سنائی دے تو لوگ یہ نہیں پوچھتے کہ کیا ہوا ہے بلکے یہ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہوا ہے۔ فیض صاحب زندہ ہوتے تو جانے کیا کہتے لیکن فی الحال نظامِ بست و کشاد یہ ہے کہ چناؤ سے دو ہفتے پہلے سیاسی دفتر بند ہیں اور وہ جنہیں بند کیا جانا چاہیے تھا چھٹے پھرتے ہیں۔
ہمارے بد خواہ اور انسانی حقوق والے ہر شام پانچ سات سیاسی کارکنوں کے مارے جانے پر اعتراض کر رہے ہیں لیکن ایک تو ان کا کام ہی کیڑے نکالنا ہے اور دوسرے اگر سیاست کے جہان سے سیکولرازم کا خس کم ہو جائے تو کیا برا ہے۔ ویسے بھی جناب کیانی نے افغان صدر سے امریکہ میں ملاقات کو جانے سے پہلے ہی یہ پالیسی بیان جاری کروا دیا تھا کہ پاکستان اور اسلام کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
لوگ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست کے دل ہو یا نہ ہو لیکن ایم کیو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی ہی کا جگر ہے کہ وہ اب بھی الیکشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کیونکہ پنجاب میں انتخابی مہم اور باقی صوبوں میں صرف گولیا ں چل رہی ہیں۔
سیاست دانوں کو ہمارا پڑھا لکھا پنجاب اکژ یہ طعنہ دیا کرتا ہے کہ یہ شادیوں اور جنازوں کی سیاست کرتے ہیں۔ اس الیکشن میں یہ شکوہ کم سے کم دور ہو گیا ہے۔ لوگوں نے شادیاں الیکشن کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دی ہیں اور رہے جنازے تو صبح ایک جنازہ پڑھ کے جو ووٹ پکا کرتے ہیں شام کو اسی ووٹ کا جنازہ پڑھنے دوبارہ آنا پڑتا ہے۔
ووٹر لسٹوں سے جعلی ووٹوں کو تو الیکشن کمیشن نے خارج کر دیا تھا اصلی ووٹوں کو خارج کرنے کی ذمہ داری طالبان نے اپنے کندھوں پر لے لی ہے، اکیلا الیکشن کمیشن کس کس کام کو دیکھے۔ جو امیدوار ریٹرننگ افسروں کی سکروٹنی سے بچ گئے تھے ان کو بھی طالبان نے کلمے پڑھوا دیے ہیں۔
ووٹ ڈالنے کو مفتی اعظم پاکستان جناب حکیم اللہ محسود صاحب کفر اور شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب گناہِ کبیرہ قرار دے چکےہیں لیکن ابھی یہ فتوی آنا باقی ہے کہ انتخابی دفتر کے باہر دھماکے میں مارے جانے والے کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
ویسے تو علما جمہور کا داڑھی کی لمبائی سے شلوار کی اونچائی تک کسی بات پر متفق ہونا مشکل ہے لیکن اگر جمہوریت کی مخالفت کی طرح عالمِ اسلام اس مسئلے پر بھی اتفاق کر لیتا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران مارا جانے والا ووٹر لسٹ کے ساتھ ساتھ اسلام کے دائرے سے بھی خارج ہو جاتا ہے تو بقول ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کے 11 مئی کو نیا پاکستان بنے نہ بنے نئے قبرستان کئی بن چکے ہوں گے۔
سیاست اور رومانس کا تعلق ختم ہوئے ایک عرصہ گزرا لیکن اقتدار کا رانجھا راضی کرنے کے لیے طاقت کا اندھا استعمال کرنے والوں کی طرف سے جانتے بوجھتے آنکھیں بند کرنے والوں کی پلاننگ کو آج بھی صاحباں کی مرزا سے ملنے کی پلاننگ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
دروغ بر گردنِ روای صاحباں کا پلان یہ تھا کہ اگر فقیر کی ہمہ وقت چاؤں چاؤں کرنے والی کتیا بمع پانچ سات پولیٹیکل قسم کی ہمسائیوں کے دار فانی سے کوچ کر جائے، باقی ماندہ ہمسائیوں کو مرزا کے عشق کے علاوہ کسی بھی قسم کا بخار چڑھ جائے اور الیکشن کمیشن کے بنیے کی دکان کو وہاں جلنے والے دیے کی لو لپیٹ لے تو گلیاں سنسان اور مرزا کے بلا خوف گھومنے کا سامان ہو سکتا ہے۔
رہے لوگ تو وہ ماشااللہ ٹرین ہو چکے ہیں ‘کہاں ہوا’ کے بعد بھی اگر کسی کو بہت سوال پوچھنے کا شوق ہوا تو زیادہ سے زیادہ یہی پوچھے گا کہ کتنے مرے اور بس۔
تحریر:سلمان حیدر
بہ شکریہ ڈان اردو