نیرنگ خیال
لائبریرین
جمعہ کی نماز پڑھ کر جیسے ہی مسجد کے دروازے سے پاؤں باہر نکالا تو دیکھا کہ گداگروں کی اک بھیڑ ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہر جمعہ نماز کے بعد دروازے پر اس تعداد میں بھکاری ہوتے کہ حیرانی ہوتی۔ اکثر سوچتا کہ یہ یکدم آتے کدھر سے ہیں۔ اور پھر پندرہ سے بیس منٹ کے دوران غائب کدھر ہوجاتے ہیں۔ اس کی عادت تھی جمعہ پر وقت سے آدھے پونا گھنٹہ پہلے مسجد چلے جانا۔ اور جمعہ کی دو رکعت پڑھتے ہی مسجد سے نکل آنا۔ بقیہ نماز دفتر میں مسجد کے لیے مختص کی گئی جگہ پر پڑھنا۔ اس دن اک بھکارن پر نظر پڑی۔ کچھ تو مختلف تھا اس میں۔ جس کی بدولت اس نے توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ اجلی رنگت اور سیاہ عبایا پہنے وہ لڑکی کا سر جھکا ہوا تھا۔ اور آنکھوں سے آنسوؤں کی اک لڑی جاری تھی۔ وہ بالکل دیوار کے ساتھ لگ کر سب سے آخر میں کھڑی تھی۔ نہ تو اس نے دامن پھیلا رکھا تھا۔ اور نہ کوئی سوال اس کے لبوں پر تھا۔ بس ہچکی سے سانس اکھڑ رہا تھا۔ اور روئے جا رہی تھی۔
"آپ غلط سمجھے صاحب۔ "
ہمیشہ صبر کو رسوا کیا ہے بھیگی آنکھوں نے
ضرورت چیخ پڑتی ہے گداگر کچھ نہیں کہتا
اس کے قدم رک گئے اور وہ بغور جائزہ لینے لگا۔ کہ کہیں پیشہ ور بھکاریوں کے نت نئے طریقوں میں کسی طریقے کا اضافہ تو نہیں ہونے والا۔ لیکن ظاہری حال احوال کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا۔ ساتھ اک دفتری ساتھی نے ساتھ سے گزرتے ہوئے کہنی مارتے ہوئے کہا۔۔۔ اب چلے گا بھی یا ادھر کھڑا اسے ہی دیکھتا رہے گا۔ اس کو احساس ہوا اور کچھ شرمندگی بھی۔ اس نے جیب سے اک بڑا نوٹ نکالا اور ساتھ سے گزرتے ہوئے اس لڑکی کو تھما دیا۔ حسب عادت اک مسکراہٹ دینا بھی ضروری سمجھا۔ جب وہ نوٹ تھما رہا تھا۔ تو اس لڑکی نے آہستہ سے کہا۔ضرورت چیخ پڑتی ہے گداگر کچھ نہیں کہتا
"آپ غلط سمجھے صاحب۔ "
اس کا سارا جسم پسینے میں بھیگ گیا۔ اور شرمندگی سے سر جھک گیا۔ چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ عبادت گزاروں اور خدا ترسوں کی آنکھوں میں چھپی نیکی کی حقیقت اس پر آشکار ہو چکی تھی۔
آخری تدوین: