خطاطی کو ایک نئی جہت عطا کرنے والے خطاط
صادقین
لاہور میوزیم اور تربیلا ڈیم پاور ہاوس میں موجود ان کے فن پارے دیکھنے کے لائق ہیں
حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا
صادقین پاکستان کے ان اہلِ فن میں سے تھے کہ جنہیں زندگی میں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ وہ بنیادی طور پر امروہہ کے رہنے والے تھے اور قیامِ پاکستان کے وقت اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کراچی آگئے۔ انہوں نے آرٹ کی تربیت حاصل کرنے کے لیے بہت سے سفر کیے۔ خاص طور پر انہوں نے فرانس جیسے فن شناس ملک میں بہت زیادہ تجربہ حاصل کیا اور نئی تکنیک سے اپنے فن پاروں پر کام کا آغاز کیا۔
وہ بنیادی طور پر مصور تھے مگر خاندانی پس منظر کے حوالے سے ان کی بہت زیادہ توجہ خطاطی کی طرف تھی۔ انہوں نے اپنے فن پاروں میں خطاطی کے معنوی استعارے بھی شامل کیے جس سے خطاطی اور مصوری میں ایک خاص امتزاج پیدا ہوگیا۔ اگرچہ اس اندازِ خطاطی کی ابتدا حنیف رامے کر چکے تھے۔
صادقین کو مرزا غالب سے بہت زیادہ عقیدت تھی۔ ان کا گھرانہ چونکہ ادبی و علمی تھا اس لیے آپ کو شعر و ادب اور موسیقی سے بہت رغبت تھی۔ غالب کے کلام کی تشریح وہ بہت عمدہ انداز میں کیا کرتے تھے۔
عام طور پر وہ کہا کرتے تھے کہ قرآنی خطاطی میں ان کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ کوئی غیبی طاقت ان سے یہ آیات لکھواتی ہے۔
صادقین کو دیواری تصویروں اور خطاطی کے فن پاروں میں بہت مہارت حاصل تھی۔ ان کے فن پاروں میں رنگ آمیزی کا انداز مغربی ہے جس کی وجہ فرانس سے حاصل کردہ تربیت ہے۔
صادقین بنگال سکول آف آرٹ سے کافی متاثر تھے۔ لاہور میوزیم کی چھت اور دیواروں پر آپ نے خطاطی کے بے پناہ جوہر دکھائے ہیں۔ علاوہ ازیں تربیلا ڈیم پاور ہاوس میں ان کے نمونے دیکھنے کے قابل ہیں۔
فیصل مسجد اسلام آباد موجود ان کا فن پارہ قابلِ دید ہے۔
صادقین اپنی علیحدہ طرز اور رنگ آمیزی میں پہچانے جاتے تھے۔ وہ ان تھک محنت کرنے والی شخصیت تھے۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے امراء نے انگریزوں کی نقل کرتے ہوئے قرآنی خطاطی کے فن پاروں کو گھروں سے نکال دیا تھا اور وہ انگریزوں کی طرح تصویروں کو گھروں میں سجانے لگے تھے۔ صادقین کے فن پاروں کی بدولت دوبارہ امراء کے گھروں میں قرآنی خطاطی آگئی اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
جو لوگ پاکستان بننے کے بعد خطاطی سے نفرت کرنے لگے تھے اور "اولڈ" کہہ کر اس کی توہین کرنے لگے تھے ، صادقین کے حسین فن پاروں کی بدولت وہ اپنے منفی پروپگنڈے سے باز آگئے اور ان لوگوں کے گھر صادقین کے فنی شاہکاروں سے جگمگانے لگے۔
صادقین نے حکومتی اداروں کو بھی خطاطی کے حسن کی طرف متوجہ کیا۔ وہ بہت کھلے دل کے مالک تھے اور دوستوں کو آیات اور اشعار مفت لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ان کے بستر کی چادر پھٹی ہوئی تھی جو میں نے خود دیکھی ہے اور ان کے کپڑے اور رہنے کا انداز فقیرانہ تھا اور خود کو بطور عجز فقیر لکھا کرتے تھے۔
آج بھی بعض لوگ صادقین کے فن کی مخالفت میں دلائل دیتے ہیں مگر یہ صرف حسد کا اظہار ہے۔ فن وہی ہوتا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لے اور صادقین کے فن پارے بلاشبہ لوگوں کو متوجہ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطاطی کے اندر موسیقی اور ادب دونوں بجا طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ اس فن کو اہلِ بیت اور مسلمانوں کا ورثہ قرار دے کر اس کی قدر ومنزلت کرتے تھے اور عموما تنہائی میں بیٹھ کر خطاطی کی بہت زیادہ مشق کرتے تھے اور نئے نئے تجربات کرتے رہتے تھے۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کو صادقین سے محبت کا دعوی تھا مگر میں جانتا ہوں کہ یہ محبت محض الفاظ تک محدود تھی۔ ان لوگوں کی محبت صادقین کی وفات کے بعد اچانک بیدار ہوگئی اور ان کی عقیدت کے نام پر ان کا ذکر محض تجارت کے لیے ہوا۔
صادقین 1988ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔