الف عین
لائبریرین
سورج کی کرنیں
روز دستک دیتی ہیں
پھر بھی شبنم کا
دروازہ نہیں کھلتا
یہ موسم بہار کا نہیں
یہ موسم خزاں کا بھی نہیں
سوکھے پتےّ
قدموں کےتلے چیخ کر
اپنی سرسبزی کی تمناّ کا
اعلان بھی نہیں کرتے
تم نے خزاں میں آنے کا وعدہ کیا تھا
لیکن مارچ میں تو بہار آ جاتی ہے
شاید
جس مارچ میہں خزاں ہوگی
تم اسی مارچ میں آؤ گی
٭
اور جب
بکھرتے زرد پتوّں سے
گزرتی کرنیں
درختوں کو چھید دالیں گی
کچھ نیزے
مجھے بھی اٹھا لیں گے
جب یہ نیزے اسی خزاں کے ہوں
تب
خدا کی ساری شاعری
اس لطف کے سامنے
پھیکی پڑ جاتی ہے
لیکن
’تم اس کی کون کون سی نعمتوں کو ٹھکراؤ گے‘
٭
جدا ئی گیت تب تک تھا لبوں پر
تمھارے خط نہ جب تک آئے تھے
تمھارے پیارے پیارے خط
بہاروں کی ہوا ئیں ہیں
کہ جس دن بھی تمھارا خط نہیں آتا
یہ لگتا ہے
خزاں آ ئی
(اور تم خود ہی چلی آؤ)
دعا مانگو
کہ اپنے پھولتے پھلتے جہاں میں
(باغِ وفا میں)
کبھی موسم نہ بدلے
نہ آ ئندہ خزاں نیزے چبھوئے
چلو
ہم اس دعا کو
ان ہرے پیڑوں پہ لکھ دیں
اپنے
دو ناموں کے نیچے
٭
ذرا جنگل تک آؤ
چاندنی راتیں
یہاں کتنی سہانی ہیں
مجھے تو دھوپ میں چھاؤں کی نسبت
چاندنی راتوں کے ٹھنڈے سائے پیارے ہیں
چلو
ہم دونوں
اس چھاؤں میں بیٹھیں
چاندنی کی پتیاّں
ہم پر نچھاور ہوں
(کہ اپنا پیار بھی
اس چاندنی کی طرح اجلا ہے)
مجھے تم سے
بہت سی باتیں کہنی ہیں
جو اب تک کہہ نہیں پایا
تو لگتا ہے
کہ جیسے
ان گنت صدیوں سے
تم سے مل نہیں پایا
سنو
یہ باتیں
ان راتوں سے
اجلی ہیں
اور ان میں
رات کی رانی سے بھی زیادہ مہک ہے
یہ باتیں
آج ہم تم کہہ سکیں
موسم بدل جائے
بہاروں کی ہوا آئے
بہاروں کی ہوا آئے
تو ہم باغِ وفا میں
کلی بن کے
صبا بن کے
مہک اٹھیّں
بہاروں کی ہوا آے
ہمارے پیار کے
غنچے کھلیں
آنکھوں میں سرگم سی اتر آئے
بہاروں کی ہوا آئے
سبک سرگوشیوں سے
ننھے ننھے دیپ جل اٹھیں
بہاروں کی ہوا آئے
٭
روز دستک دیتی ہیں
پھر بھی شبنم کا
دروازہ نہیں کھلتا
یہ موسم بہار کا نہیں
یہ موسم خزاں کا بھی نہیں
سوکھے پتےّ
قدموں کےتلے چیخ کر
اپنی سرسبزی کی تمناّ کا
اعلان بھی نہیں کرتے
تم نے خزاں میں آنے کا وعدہ کیا تھا
لیکن مارچ میں تو بہار آ جاتی ہے
شاید
جس مارچ میہں خزاں ہوگی
تم اسی مارچ میں آؤ گی
٭
اور جب
بکھرتے زرد پتوّں سے
گزرتی کرنیں
درختوں کو چھید دالیں گی
کچھ نیزے
مجھے بھی اٹھا لیں گے
جب یہ نیزے اسی خزاں کے ہوں
تب
خدا کی ساری شاعری
اس لطف کے سامنے
پھیکی پڑ جاتی ہے
لیکن
’تم اس کی کون کون سی نعمتوں کو ٹھکراؤ گے‘
٭
جدا ئی گیت تب تک تھا لبوں پر
تمھارے خط نہ جب تک آئے تھے
تمھارے پیارے پیارے خط
بہاروں کی ہوا ئیں ہیں
کہ جس دن بھی تمھارا خط نہیں آتا
یہ لگتا ہے
خزاں آ ئی
(اور تم خود ہی چلی آؤ)
دعا مانگو
کہ اپنے پھولتے پھلتے جہاں میں
(باغِ وفا میں)
کبھی موسم نہ بدلے
نہ آ ئندہ خزاں نیزے چبھوئے
چلو
ہم اس دعا کو
ان ہرے پیڑوں پہ لکھ دیں
اپنے
دو ناموں کے نیچے
٭
ذرا جنگل تک آؤ
چاندنی راتیں
یہاں کتنی سہانی ہیں
مجھے تو دھوپ میں چھاؤں کی نسبت
چاندنی راتوں کے ٹھنڈے سائے پیارے ہیں
چلو
ہم دونوں
اس چھاؤں میں بیٹھیں
چاندنی کی پتیاّں
ہم پر نچھاور ہوں
(کہ اپنا پیار بھی
اس چاندنی کی طرح اجلا ہے)
مجھے تم سے
بہت سی باتیں کہنی ہیں
جو اب تک کہہ نہیں پایا
تو لگتا ہے
کہ جیسے
ان گنت صدیوں سے
تم سے مل نہیں پایا
سنو
یہ باتیں
ان راتوں سے
اجلی ہیں
اور ان میں
رات کی رانی سے بھی زیادہ مہک ہے
یہ باتیں
آج ہم تم کہہ سکیں
موسم بدل جائے
بہاروں کی ہوا آئے
بہاروں کی ہوا آئے
تو ہم باغِ وفا میں
کلی بن کے
صبا بن کے
مہک اٹھیّں
بہاروں کی ہوا آے
ہمارے پیار کے
غنچے کھلیں
آنکھوں میں سرگم سی اتر آئے
بہاروں کی ہوا آئے
سبک سرگوشیوں سے
ننھے ننھے دیپ جل اٹھیں
بہاروں کی ہوا آئے
٭