صادق آبادی
محفلین
صاف کب امتحان لیتے ہیں
وہ تو دم دے کے جان لیتے ہیں
یوں ہے منظور خانہ ویرانی
مول میرا مکان لیتے ہیں
تم تغافل کرو رقیبوں سے
جاننے والے جان لیتے ہیں
پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں
اب بھی گر پڑ کے نالے
ساتواں آسمان لیتے ہیں
تیرے خنجر سے بھی تو اے قاتل
نوک کی نوجوان لیتے ہیں
اپنے بسمل کا سر ہے زانو پر
کس محبت سے جان لیتے ہیں
یہ سنا ہے مرے لئے تلوار
اک مرے مہربان لیتے ہیں
یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک
اس میں تیری زبان لیتے ہیں
وہ جھگڑتے ہیں جب رقیبوں سے
بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
مستعد ہو کر یہ کہو تو سہی
آئیے امتحان لیتے ہیں
داغ بھی ہے عجیب سحر بیاں
بات جس کی وہ مان لیتے ہیں
وہ تو دم دے کے جان لیتے ہیں
یوں ہے منظور خانہ ویرانی
مول میرا مکان لیتے ہیں
تم تغافل کرو رقیبوں سے
جاننے والے جان لیتے ہیں
پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں
اب بھی گر پڑ کے نالے
ساتواں آسمان لیتے ہیں
تیرے خنجر سے بھی تو اے قاتل
نوک کی نوجوان لیتے ہیں
اپنے بسمل کا سر ہے زانو پر
کس محبت سے جان لیتے ہیں
یہ سنا ہے مرے لئے تلوار
اک مرے مہربان لیتے ہیں
یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک
اس میں تیری زبان لیتے ہیں
وہ جھگڑتے ہیں جب رقیبوں سے
بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
مستعد ہو کر یہ کہو تو سہی
آئیے امتحان لیتے ہیں
داغ بھی ہے عجیب سحر بیاں
بات جس کی وہ مان لیتے ہیں