ابن رضا

لائبریرین
حاصل یہ ہے کہ غزل اپنی ہیئت کے اعتبار سے ’’نظم‘‘ ہے۔ اور اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک خاص مزاج رکھتی ہے۔

۔۔۔ بہت آداب
برائے توجہ جناب الف عین۔

استاد محترم یہاں یہ تشنگی رہتی ہےکہ اگر شعروں پر غزل کے قاعدوں کا اطلاق ہو چکا ہو تو پھر اس کو غزل کہنے کی بجائےنظم کہنا بجا ہو گا؟ اگر درست ہے تو غزل کی ہیت پر کہی گئی نظم کو کس نام سے موسوم کیا جاتا ہے جیسے کہ نظم کی دیگر اصناف ہیں ،مثنوی، معریٰ وغیرہ
 
شاید ’’مفعولات فعولن فعلن ‘‘ یا ’’فعلن فعل فعولن فعلن‘‘ ۔۔ مزمل شیخ بسمل صاحب سے اکتسابِ فیض کیا جائے۔
ہم تو غیر مانوس بحروں سے بھاگتے ہیں۔

غیر مانوس بحر تو کہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ تو عام فعلن کی تکرار ہے۔ جیسا کہ اکثر نظموں اور غزلوں میں ہوتی ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
غیر مانوس بحر تو کہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ تو عام فعلن کی تکرار ہے۔ جیسا کہ اکثر نظموں اور غزلوں میں ہوتی ہے۔
لیکن محترم مزمل شیخ بسمل بھائی ، اسامہ بھائی نے اسے یوں تقطیع کیا ہے تو کیا یہ فعلن کی ہی تکرار رہے گی ؟؟؟؟
ان اللہ مع الصابریں پڑھ
2 2۔۔ 2 11۔۔ 2 2۔۔ 11 2
استاد جی! اگر صابریں کے نون کو نون غنے کے طور پر لے کر ”ی“ کا اسقاط کیا جائے تو ”بریں پڑھ‘‘ فَعِلُن کے وزن پر بن سکتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شاید ’’مفعولات فعولن فعلن ‘‘ یا ’’فعلن فعل فعولن فعلن‘‘ ۔۔ مزمل شیخ بسمل صاحب سے اکتسابِ فیض کیا جائے۔
ہم تو غیر مانوس بحروں سے بھاگتے ہیں۔
میرے ذاتی خیال میں اس میں ۔۔فعلن فعلن فعلن فعلن۔۔ اور۔۔ فعلن فعلن فعل فعولن ۔۔کو بھی جمع کرنا جائز اور مناسب ہوگا۔
اس بارے میں ۔احباب کی رائے میرے لیے دلچسپ ہوگی۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ان اللہ مع الصابریں پڑھ
2 2۔۔ 2 11۔۔ 2 2۔۔ 11 2
استاد جی! اگر صابریں کے نون کو نون غنے کے طور پر لے کر ”ی“ کا اسقاط کیا جائے تو ”بریں پڑھ‘‘ فَعِلُن کے وزن پر بن سکتا ہے۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب ۔


پہلے مصرعے پر دو باتیں ہیں بھائی۔ اول تو یہ کہ یہ وزن میں زیادہ ہے۔ دوم یہ کہ پوری نظم میں کوئی اور لفظ اتنی ثقالت کا نہیں، خاص طور پر بچوں کے لئے مشکل بات ہو جاتی ہے۔
آیاتِ قرآنی کو شاعری میں لانا بالکل بجا مگر آپ کے قاری کی سطح کیا ہے، یہ امر بھی بہت اہم ہے۔

نظم پر مزید محنت کی ضرورت تھی۔ میرا خیال ہے کہ اگر ردیف ’’پھل ہے‘‘ رکھی جائے اور قافیہ میں ذرا سی تبدیلی کر کے الف کو پورا بولنے دیا جائے تو شاعر کے لئے بھی سہولت ہو گی اور قاری (بچے) کے لئے بھی۔
ان اللہ مع الصابرین ۔ والے شعر میں بہتر ہے کہ اس کے ترجمے کو کسی مناسب طرح موزوں کردیا جائے۔کیونکہ چھوٹی بحر میں صابریں کے نون کو غنہ کرنے کے باوجود صابر کا الف کچھ متاثّر ہو رہاہے۔
ضمناً بچوں کو آیت بھی پتہ چل جائے گی۔
 
ذرا وضاحت فرمائیں مزمل بھائی تاکہ میں اپنی غلطی پہچان سکوں۔

گو کہ اب عروضی حوالے سے گفتگو سے پرہیز ہی کرتا ہوں۔ مگر آپ کے حکم پر تھوڑی وضاحت سے لکھ رہا ہوں۔ توجہ فرمائیں:
در اصل یہاں متقارب اور متدارک ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں۔ رکن فعِلُن متدارک کا ہے جس میں تسکینِ اوسط سے ایک مزید رکن فعلن بسکون عین نکل کر آتا ہے۔ متدارک میں محض یہی دو ارکان ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس متقارب جو آپکی نظم کی مرکزی بحر ہے اس کے ارکان اصل حالت میں یوں ہیں::
فعلُ فعولُ فعولُ فعولن
اب اس میں اگر تمام ارکان میں یہ تسکینِ اوسط کارفرما ہوگا تو صورتحال کچھ یوں ہوگی:
فعلف عولف عولف عولن
یعنی:
فعلن فعلن فعلن فعلن
اگر تمام ارکان کی بجائے ایک یا ایک سے زائد جگہ یہ عمل ہو تو کچھ اس طرح کی تراکیب سامنے آئیں گی:
فعلن فعلُ فعولن فعلن
فعلُ فعولن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعل فعولن
وعلی ہذا القیاس

لیکن اس میں کوئی طریقہ ایسا نہیں جس سے ہمیں فعِلُن حاصل ہوتا ہو۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
گو کہ اب عروضی حوالے سے گفتگو سے پرہیز ہی کرتا ہوں۔ مگر آپ کے حکم پر تھوڑی وضاحت سے لکھ رہا ہوں۔ توجہ فرمائیں:
در اصل یہاں متقارب اور متدارک ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں۔ رکن فعِلُن متدارک کا ہے جس سے ایک مزید رکن فعلن بسکون عین نکل کر آتا ہے۔ متدارک میں محض یہی دو ارکان ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس متقارب جو آپکی نظم کی مرکزی بحر ہے اس کے ارکان اصل حالت میں یوں ہیں::
فعلُ فعولُ فعولُ فعولن
اب اس میں اگر تمام ارکان میں یہ تسکینِ اوسط کارفرما ہوگا تو صورتحال کچھ یوں ہوگی:
فعلف عولف عولف عولن
یعنی:
فعلن فعلن فعلن فعلن
اگر تمام ارکان کی بجائے ایک یا ایک سے زائد جگہ یہ عمل ہو تو کچھ اس طرح کی تراکیب سامنے آئیں گی:
فعلن فعلُ فعولن فعلن
فعلُ فعولن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعل فعولن
وعلی ہذا القیاس

لیکن اس میں کوئی طریقہ ایسا نہیں جس سے ہمیں فعِلُن حاصل ہوتا ہو۔
اتنی مفید معلومات رسانی سے پرہیز بالکل بھی اچھی بات نہیں مزمل شیخ بسمل بھائی ۔ شمع کا کام جلتے رہنا اور اندھیروں سے لڑتے رہنا ہے۔ اس طرح ہم جیسے بھولے بھٹکوں کو راہ سجھائی دیتی رہتی ہے اور آپ جیسوں کو دعائیں دیتے ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
جزاک اللہ
تشکر بسیار
 
آخری تدوین:
گو کہ اب عروضی حوالے سے گفتگو سے پرہیز ہی کرتا ہوں۔ مگر آپ کے حکم پر تھوڑی وضاحت سے لکھ رہا ہوں۔ توجہ فرمائیں:
در اصل یہاں متقارب اور متدارک ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں۔ رکن فعِلُن متدارک کا ہے جس میں تسکینِ اوسط سے ایک مزید رکن فعلن بسکون عین نکل کر آتا ہے۔ متدارک میں محض یہی دو ارکان ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس متقارب جو آپکی نظم کی مرکزی بحر ہے اس کے ارکان اصل حالت میں یوں ہیں::
فعلُ فعولُ فعولُ فعولن
اب اس میں اگر تمام ارکان میں یہ تسکینِ اوسط کارفرما ہوگا تو صورتحال کچھ یوں ہوگی:
فعلف عولف عولف عولن
یعنی:
فعلن فعلن فعلن فعلن
اگر تمام ارکان کی بجائے ایک یا ایک سے زائد جگہ یہ عمل ہو تو کچھ اس طرح کی تراکیب سامنے آئیں گی:
فعلن فعلُ فعولن فعلن
فعلُ فعولن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعل فعولن
وعلی ہذا القیاس

لیکن اس میں کوئی طریقہ ایسا نہیں جس سے ہمیں فعِلُن حاصل ہوتا ہو۔
مزمل بھائی آپ کا یہ پرہیز ہمارے لیے بدپرہیزی سے زیادہ نقصان دہ ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top