سید رافع
محفلین
صبر برداشت کا نام نہیں ہے اور نہ ہی صبر دماغ سے کیا جاتا ہے بلکہ یہ دل کا فعل ہے جو معرفت الہی سے پیدا شدہ خشیت سے واقع ہوتا ہے۔
2:45 اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو، اور بیشک یہ گراں ہے مگر (ان) عاجزوں پر (ہرگز) نہیں (جن کے دل محبتِ الٰہی سے خستہ اور خشیتِ الٰہی سے شکستہ ہیں)۔
دماغ سے سوچ کر کی جانے والی برادشت مشقت محض ہے اسکا معرفت الہی سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان چھوٹی سے چھوٹی بات میں اگر اللہ کی مدد چاہنے لگ، چاہے گم ہوٗے جوتے کے تسمے سے متعلق ہی ہو تو اس کے دل کی زمین صبر کا بیج بونے کے لائق بنتی ہے۔
2:153 اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔
انسان جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو جنگ جیسے معاملے میں اللہ سے صبر کی خوب فراونی مانگتا ہے۔ کیونکہ جنگ میں توجہ الی اللہ نہ ہونے کے اسباب کی فراوانی ہوتی ہے۔
2:250 اور جب وہ جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابل ہوئے تو عرض کرنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر میں وسعت ارزانی فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما۔
صبر کی فراوانی ایک سیراب کرنے والے چشمے کی مانند ہے۔ صالحین پر کفار کے طعنے اور جنگ اثر نہیں کرتی کیونکہ ان پر صبر کی فراوانی کی جا چکی ہوتی ہے۔
7:126 اور تمہیں ہمارا کون سا عمل برا لگا ہے؟ صرف یہی کہ ہم اپنے رب کی (سچی) نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں۔ اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اٹھالے۔
عظیم حادثات پر دماغ سے برداشت سے کام نہیں چلتا بلکہ ایک طویل ریاضت سے جس پر صبر کی فراوانی ہو جائے وہ ہی ان کٹھن وادیوں سے گزر سکتا ہے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا مثالی صبر اللہ سے مدد چاہنے کی واضح مثال ہے۔
12:18 اور وہ اس کے قمیض پر جھوٹا خون (بھی) لگا کر لے آئے، (یعقوب علیہ السلام نے) کہا: (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے (حاسد) نفسوں نے ایک (بہت بڑا) کام تمہارے لئے آسان اور خوشگوار بنا دیا (جو تم نے کر ڈالا)، پس (اس حادثہ پر) صبر ہی بہتر ہے، اور اﷲ ہی سے مدد چاہتا ہوں اس پر جو کچھ تم بیان کر رہے ہو۔
دنیا میں امید صبر سے ہے اور صبر بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے کام میں اللہ کی مدد شامل حال ہونے کے یقین سے ہے۔
12:83 یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: (ایسا نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے، اب صبر (ہی) اچھا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔
مخلص لوگ شرکش لوگوں کی شرکشی پر رنجیدہ ہوتے ہیں اور انکی مکاریوں سے سینے میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔ اس مقام سے خوش اسلوبی سے گزرنا محض صبر کے ذریعے ممکن ہے۔
16:127 اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں۔
صبر علم کا نام ہے۔ صبر معرفت کا نام ہے۔ صبر غیب کی خبر ہو جانے کا نام ہے۔ ہر انسان علم، معرفت اور غیب کی خبر میں دوسرے سے جدا ہے۔
18:67 اس (خضرعلیہ السلام) نے کہا: بیشک آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے۔
چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا۔
18:72 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے۔
اور مکرر فرمایا۔
18:75 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے۔
مختلف لوگوں کی مختلف صبر کے درجے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو صبر نہ کر پا رہا ہو اسکو ان خبروں سے آگاہ کر کے جدا ہو جانا بہتر ہے۔
18:78 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت) ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کئے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔
سیدنا خضر علیہ السلام واقعے کی تفصیل بتاتے ہیں اور صبر کی تفصیل کرتے ہیں۔
18:82 اور وہ جو دیوار تھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں، اور میں نے (جو کچھ بھی کیا) وہ اَز خود نہیں کیا، یہ ان (واقعات) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔
مومن پر شکوے جاری رہتے ہیں۔ یہ شکوہ کفار کا کسب ہے سو اس کی اجازت ہے۔ اس منزل سے بھی اللہ کی طرف سے عطا صبر جمیل کی بدولت ہی گزرا جا سکتا ہے۔
70:5 سو (اے حبیب!) آپ (کافروں کی باتوں پر) ہر شکوہ سے پاک صبر فرمائیں۔
مومنین کا شیوہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ہوتا ہے۔ یعنی واقعے کے بجائے معرفت الہی پر توجہ رکھیں۔ دنیا کے بجائے جنت کی نعمتوں پر غور کریں۔ دل کی زمین نرم کریں۔
90:17 پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّ و جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیں۔
مومنین کا کسب صبر کی تلقین ہوتا ہے۔ اگر ایک مومن پر کوئی حادثہ گزرے تو وہ یا تو خود ہی معرف الہی میں ڈوب جائے گا یا پھر دیگر صبر کیے مومنین اسکے قلب کو صبر کی طرف متوجہ کر دیں گے۔ جو دنیا میں آیا ہے اسکو جانا ہے۔
103:3 سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے۔
جاری ہے۔۔۔
2:45 اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو، اور بیشک یہ گراں ہے مگر (ان) عاجزوں پر (ہرگز) نہیں (جن کے دل محبتِ الٰہی سے خستہ اور خشیتِ الٰہی سے شکستہ ہیں)۔
دماغ سے سوچ کر کی جانے والی برادشت مشقت محض ہے اسکا معرفت الہی سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان چھوٹی سے چھوٹی بات میں اگر اللہ کی مدد چاہنے لگ، چاہے گم ہوٗے جوتے کے تسمے سے متعلق ہی ہو تو اس کے دل کی زمین صبر کا بیج بونے کے لائق بنتی ہے۔
2:153 اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔
انسان جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو جنگ جیسے معاملے میں اللہ سے صبر کی خوب فراونی مانگتا ہے۔ کیونکہ جنگ میں توجہ الی اللہ نہ ہونے کے اسباب کی فراوانی ہوتی ہے۔
2:250 اور جب وہ جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابل ہوئے تو عرض کرنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر میں وسعت ارزانی فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما۔
صبر کی فراوانی ایک سیراب کرنے والے چشمے کی مانند ہے۔ صالحین پر کفار کے طعنے اور جنگ اثر نہیں کرتی کیونکہ ان پر صبر کی فراوانی کی جا چکی ہوتی ہے۔
7:126 اور تمہیں ہمارا کون سا عمل برا لگا ہے؟ صرف یہی کہ ہم اپنے رب کی (سچی) نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں۔ اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اٹھالے۔
عظیم حادثات پر دماغ سے برداشت سے کام نہیں چلتا بلکہ ایک طویل ریاضت سے جس پر صبر کی فراوانی ہو جائے وہ ہی ان کٹھن وادیوں سے گزر سکتا ہے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا مثالی صبر اللہ سے مدد چاہنے کی واضح مثال ہے۔
12:18 اور وہ اس کے قمیض پر جھوٹا خون (بھی) لگا کر لے آئے، (یعقوب علیہ السلام نے) کہا: (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے (حاسد) نفسوں نے ایک (بہت بڑا) کام تمہارے لئے آسان اور خوشگوار بنا دیا (جو تم نے کر ڈالا)، پس (اس حادثہ پر) صبر ہی بہتر ہے، اور اﷲ ہی سے مدد چاہتا ہوں اس پر جو کچھ تم بیان کر رہے ہو۔
دنیا میں امید صبر سے ہے اور صبر بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے کام میں اللہ کی مدد شامل حال ہونے کے یقین سے ہے۔
12:83 یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: (ایسا نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے، اب صبر (ہی) اچھا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔
مخلص لوگ شرکش لوگوں کی شرکشی پر رنجیدہ ہوتے ہیں اور انکی مکاریوں سے سینے میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔ اس مقام سے خوش اسلوبی سے گزرنا محض صبر کے ذریعے ممکن ہے۔
16:127 اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں۔
صبر علم کا نام ہے۔ صبر معرفت کا نام ہے۔ صبر غیب کی خبر ہو جانے کا نام ہے۔ ہر انسان علم، معرفت اور غیب کی خبر میں دوسرے سے جدا ہے۔
18:67 اس (خضرعلیہ السلام) نے کہا: بیشک آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے۔
چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا۔
18:72 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے۔
اور مکرر فرمایا۔
18:75 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے۔
مختلف لوگوں کی مختلف صبر کے درجے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو صبر نہ کر پا رہا ہو اسکو ان خبروں سے آگاہ کر کے جدا ہو جانا بہتر ہے۔
18:78 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت) ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کئے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔
سیدنا خضر علیہ السلام واقعے کی تفصیل بتاتے ہیں اور صبر کی تفصیل کرتے ہیں۔
18:82 اور وہ جو دیوار تھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں، اور میں نے (جو کچھ بھی کیا) وہ اَز خود نہیں کیا، یہ ان (واقعات) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔
مومن پر شکوے جاری رہتے ہیں۔ یہ شکوہ کفار کا کسب ہے سو اس کی اجازت ہے۔ اس منزل سے بھی اللہ کی طرف سے عطا صبر جمیل کی بدولت ہی گزرا جا سکتا ہے۔
70:5 سو (اے حبیب!) آپ (کافروں کی باتوں پر) ہر شکوہ سے پاک صبر فرمائیں۔
مومنین کا شیوہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ہوتا ہے۔ یعنی واقعے کے بجائے معرفت الہی پر توجہ رکھیں۔ دنیا کے بجائے جنت کی نعمتوں پر غور کریں۔ دل کی زمین نرم کریں۔
90:17 پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّ و جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیں۔
مومنین کا کسب صبر کی تلقین ہوتا ہے۔ اگر ایک مومن پر کوئی حادثہ گزرے تو وہ یا تو خود ہی معرف الہی میں ڈوب جائے گا یا پھر دیگر صبر کیے مومنین اسکے قلب کو صبر کی طرف متوجہ کر دیں گے۔ جو دنیا میں آیا ہے اسکو جانا ہے۔
103:3 سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے۔
جاری ہے۔۔۔