ابوشامل
محفلین
چند روز قبل صبیحہ گوکچن کے بارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ حیرت ہوئی کہ ترکی سے تعلق رکھنے والی اس خاتون ہوا باز (Pilot) کو دنیا کی پہلی جنگی ہوا باز (Combat Pilot) ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بارے میں اردو وکیپیڈیا پر لکھا گیا مضمون معلومات میں اضافے کے لیے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ اصلاح کی ضرورت ہو یا کوئی دعویٰ بے بنیاد ہو تو ضرور آگاہ کیجیے گا۔ اس مضمون کے اردو و انگریزی روابط یہ ہیں:
صبیحہ گوکچن
Sabiha Gokcen
صبیحہ گوکچن (پیدائش: 22 مارچ 1913ء، بورصہ، انتقال: 22 مارچ 2001ء، انقرہ) ترکی کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں جنہوں نے کسی جنگ میں حصہ لیا۔ وہ ترکی کے پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک کے گود لیے گئے آٹھ بچوں میں سے ایک تھیں۔
ترک ذرائع اور صبیحہ گوکچن کے مطابق وہ مصطفٰی عزت بے اور خیریہ خانم کی صاحبزادی تھیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر ہانس-لوکاس کیسر کا کہنا ہے کہ وہ آرمینیائی نژاد تھیں۔
1925ء میں جب اتاترک نے بروصہ کا دورہ کیا تو وہ صرف 12 سال کی تھیں اور انہوں نے اتاترک سے گفتگو کرنے کی اجازت چاہی اور ایک بورڈنگ اسکول میں پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کے والدین کے پسماندہ معاشی حالات اور خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اتاترک نے انہیں گود لینے کا فیصلہ کیا اور صبیحہ کے بھائی کی اجازت سے انہیں اپنے ساتھ انقرہ لے آئے۔ انقرہ میں وہ صدارتی رہائش گاہ میں اتاترک کی دیگر چار گود لی گئی بیٹیوں زہرہ، عفت اور رقیہ کے ساتھ رہائش پذیر ہوئیں۔ انہوں نے پہلے چنکایا پرائمری اسکول، انقرہ میں اور بعد ازاں اسکودار کیز لسیسی (اسکودار گرلز اسکول)، استنبول میں داخلہ لیا۔
21 جون 1934ء کو خاندانی نام اختیار کرنے کے قانون کے بعد اتاترک نے اسی سال 19 جون کو صبیحہ کو گوکچن کا خاندانی نام دیا۔ ترک زبان میں گوک کا مطلب "آسمان" ہوتا ہے اس لیے گوکچن کا مطلب ہوا "آسمان سے نسبت"۔ انہوں نے یہ نام اختیار کرنے کے چھ ماہ بعد ہوا بازی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
مصطفٰی کمال اتاترک ہوا بازی کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے 1925ء میں ترکش ایروناٹیکل ایسوسی ایشن قائم کی۔ 5 مئی 1935ء کو ترکشو (طائرِ ترکی) فلائٹ اسکول کی افتتاحی تقریب کے موقع پر وہ صبیحہ کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ اس موقع پر کئی ممالک کے گلائیڈرز اور چھاتہ برداروں کو مدعو کیا گیا تھا جس میں صبیحہ نے انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اتاترک کے سامنے اپنی اڑان کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسکول کے سربراہ فواد بولجا کو صبیحہ کو پہلی خاتون تربیتی کارکن کی حیثیت سے بھرتی کرنے کی ہدایت کی۔ صبیحہ ہوا بازی کی تعلیم مکمل کی اور بعد ازاں سات مرد ہوا بازوں کے ساتھ روس روانہ ہوئیں اور وہاں تربیتی مکمل کی۔
ماسکو میں قیام کے دوران انہیں زہرہ کے انتقال کی خبر ملی جس نے انہیں ذہنی طور پر بہت زیادہ متاثر کیا اور وہ ترکی واپس آ گئیں اور کچھ عرصے سے معاشرتی سرگرمیوں سے بالکل کٹ گئیں۔
1936ء کے آغاز میں اتاترک نے انہیں فضائیہ میں شمولیت کی ہدایت کی تاکہ وہ ترکی کی پہلی خاتون پائلٹ بن جائیں۔ انہوں نے اسکی شہر کے ہوائی اڈے کی پہلی ایئر کرافٹ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور ہوائی جہاز اڑانے میں مہارت حاصل کرتی گئیں۔ 1937ء میں ایجین اور تھریس کی مشقوں میں حصہ لے کر اپنے تجربے میں اضافہ کیا۔ اسی سال انہوں نے درسم فسادات کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن میں حصہ لیا اور اس طرح دنیا کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں جنہوں نے کسی جنگ میں حصہ لیا۔
1938ء انہوں نے بلقان کے ممالک پر 5 روز تک پرواز کی اور اس کارنامے پر دنیا بھر میں سراہی گئیں۔ بعد ازاں انہیں ترکشو فلائٹ اسکول میں اعلٰی تربیت کار کے طور پر تعینات کیا گیا جہاں انہوں نے 1955ء تک خدمات انجام دیں اور اس دوران ترک ہوابازی کے ادارے کی ایگزیکٹو بورڈ کی رکن رہیں۔ صبیحہ گوکچن 1964ء تک 28 سال دنیا بھر میں محوِ پرواز رہیں۔ ان کی کتاب "اتاترک کی راہوں پر زندگی" 1981ء میں اتاترک کی 100 ویں سالگرہ پر شائع ہوئی۔
ترک فضائیہ میں اپنے دور میں انہوں نے 22 مختلف اقسام کے جہازوں میں 8 ہزار سے زائد گھنٹے پرواز کی جس میں 32 گھنٹے جنگوں میں صرف کیے۔
وہ 1996ء میں امریکی فضائیہ کے شائع کردہ پوسٹر تاریخ کے 20 عظیم ترین ہوا باز میں واحد خاتون تھیں۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں واقع دوسرا بڑا ہوائی اڈہ ان کے نام سے "صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈہ" کہلاتا ہے۔
صبیحہ گوکچن
Sabiha Gokcen
صبیحہ گوکچن (پیدائش: 22 مارچ 1913ء، بورصہ، انتقال: 22 مارچ 2001ء، انقرہ) ترکی کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں جنہوں نے کسی جنگ میں حصہ لیا۔ وہ ترکی کے پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک کے گود لیے گئے آٹھ بچوں میں سے ایک تھیں۔
ترک ذرائع اور صبیحہ گوکچن کے مطابق وہ مصطفٰی عزت بے اور خیریہ خانم کی صاحبزادی تھیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر ہانس-لوکاس کیسر کا کہنا ہے کہ وہ آرمینیائی نژاد تھیں۔
1925ء میں جب اتاترک نے بروصہ کا دورہ کیا تو وہ صرف 12 سال کی تھیں اور انہوں نے اتاترک سے گفتگو کرنے کی اجازت چاہی اور ایک بورڈنگ اسکول میں پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کے والدین کے پسماندہ معاشی حالات اور خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اتاترک نے انہیں گود لینے کا فیصلہ کیا اور صبیحہ کے بھائی کی اجازت سے انہیں اپنے ساتھ انقرہ لے آئے۔ انقرہ میں وہ صدارتی رہائش گاہ میں اتاترک کی دیگر چار گود لی گئی بیٹیوں زہرہ، عفت اور رقیہ کے ساتھ رہائش پذیر ہوئیں۔ انہوں نے پہلے چنکایا پرائمری اسکول، انقرہ میں اور بعد ازاں اسکودار کیز لسیسی (اسکودار گرلز اسکول)، استنبول میں داخلہ لیا۔
21 جون 1934ء کو خاندانی نام اختیار کرنے کے قانون کے بعد اتاترک نے اسی سال 19 جون کو صبیحہ کو گوکچن کا خاندانی نام دیا۔ ترک زبان میں گوک کا مطلب "آسمان" ہوتا ہے اس لیے گوکچن کا مطلب ہوا "آسمان سے نسبت"۔ انہوں نے یہ نام اختیار کرنے کے چھ ماہ بعد ہوا بازی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
مصطفٰی کمال اتاترک ہوا بازی کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے 1925ء میں ترکش ایروناٹیکل ایسوسی ایشن قائم کی۔ 5 مئی 1935ء کو ترکشو (طائرِ ترکی) فلائٹ اسکول کی افتتاحی تقریب کے موقع پر وہ صبیحہ کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ اس موقع پر کئی ممالک کے گلائیڈرز اور چھاتہ برداروں کو مدعو کیا گیا تھا جس میں صبیحہ نے انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اتاترک کے سامنے اپنی اڑان کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسکول کے سربراہ فواد بولجا کو صبیحہ کو پہلی خاتون تربیتی کارکن کی حیثیت سے بھرتی کرنے کی ہدایت کی۔ صبیحہ ہوا بازی کی تعلیم مکمل کی اور بعد ازاں سات مرد ہوا بازوں کے ساتھ روس روانہ ہوئیں اور وہاں تربیتی مکمل کی۔
ماسکو میں قیام کے دوران انہیں زہرہ کے انتقال کی خبر ملی جس نے انہیں ذہنی طور پر بہت زیادہ متاثر کیا اور وہ ترکی واپس آ گئیں اور کچھ عرصے سے معاشرتی سرگرمیوں سے بالکل کٹ گئیں۔
1936ء کے آغاز میں اتاترک نے انہیں فضائیہ میں شمولیت کی ہدایت کی تاکہ وہ ترکی کی پہلی خاتون پائلٹ بن جائیں۔ انہوں نے اسکی شہر کے ہوائی اڈے کی پہلی ایئر کرافٹ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور ہوائی جہاز اڑانے میں مہارت حاصل کرتی گئیں۔ 1937ء میں ایجین اور تھریس کی مشقوں میں حصہ لے کر اپنے تجربے میں اضافہ کیا۔ اسی سال انہوں نے درسم فسادات کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن میں حصہ لیا اور اس طرح دنیا کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں جنہوں نے کسی جنگ میں حصہ لیا۔
1938ء انہوں نے بلقان کے ممالک پر 5 روز تک پرواز کی اور اس کارنامے پر دنیا بھر میں سراہی گئیں۔ بعد ازاں انہیں ترکشو فلائٹ اسکول میں اعلٰی تربیت کار کے طور پر تعینات کیا گیا جہاں انہوں نے 1955ء تک خدمات انجام دیں اور اس دوران ترک ہوابازی کے ادارے کی ایگزیکٹو بورڈ کی رکن رہیں۔ صبیحہ گوکچن 1964ء تک 28 سال دنیا بھر میں محوِ پرواز رہیں۔ ان کی کتاب "اتاترک کی راہوں پر زندگی" 1981ء میں اتاترک کی 100 ویں سالگرہ پر شائع ہوئی۔
ترک فضائیہ میں اپنے دور میں انہوں نے 22 مختلف اقسام کے جہازوں میں 8 ہزار سے زائد گھنٹے پرواز کی جس میں 32 گھنٹے جنگوں میں صرف کیے۔
وہ 1996ء میں امریکی فضائیہ کے شائع کردہ پوسٹر تاریخ کے 20 عظیم ترین ہوا باز میں واحد خاتون تھیں۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں واقع دوسرا بڑا ہوائی اڈہ ان کے نام سے "صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈہ" کہلاتا ہے۔