صحت مند مشاعرہ ۔ فاروق قیصر کے قلم سے

شمشاد

لائبریرین
صحت مند مشاعرہ ۔ فاروق قیصر کے قلم سے

پچھلے دنوں اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ہیلتھ کا انٹرنیشنل ڈے منایا گیا۔ ہیلتھ کا یہ میلہ اسلام آباد میں منانا ایسا ہی تھا جیسے کسی امیر بندے کو صحت و صفائی کے بارے مطلع کرنا۔ ہمارے ہاں صحت و صفائی کا مسئلہ چھوٹے شہروں میں ہے۔ بہرحال میلہ بڑی خوبصورتی سے سجانے کے لیے محکمہ صحت نے بہت محنت کی، جس کے لئے اس کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ میلے میں "انکل سرگم ٹیم" کو بھی مدعو کیا گیا تھا جس کے بارے میں نہ تو کوئی پبلسٹی کی گئی اور نہ اس کا کہیں ذکر ہوا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انکل سرگم چوری چھپے پرفارم کر رہے ہوں، حالانکہ سرگم ٹیم نے اس سے پہلے ہیلتھ کے دو ہزار شو کئے جن میں زیادہ تر ملک کے دور دراز علاقوں میں ہوئے۔ ان میں بہت سے علاقوں میں تو بجلی تک نہیں تھی اور لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ساؤنڈ کے لئے کار کی بیٹری استعمال کرنا پڑتی تھی۔ ہیلتھ شو کے سلسلے میں پچھلے دنوں سرگم ٹیم نے ٹی وی کے لیے چھبیس شو ریکارڈ کیے جنہیں پی ٹی وی پر دکھایا گیا اور ناظرین نے بہت پسند بھی کیا۔ اسی ہیلتھ میلے میں سرگم ٹیم نے آٹھ پروگرام اسٹیج پہ پرفارم کئے جن میں ایک پروگرام آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

سرگم : متاثرین صحت، آج ہمیشہ کی طرح چونکہ دفتر میں کام کوئی نہیں، اس لئے ہم نے سوچا کہ ٹائم پاس کرنے کے لئے آج پتلی مشاعرے کا اہتمام کیا جائے۔ اس مشاعرے میں جو شعرا حصہ لے رہے ہیں، ان میں، میں ہوں، یعنی مشاعرے کا میزبان انکل سرگم عرف افسر اسلام آبادی اور میرے ماتحت کام کریں گے، سوا لکھ، اور ان کے علاوہ مشاعرے کا اسٹاف وہی ہے جنہیں آپ جانتے ہیں یعنی بونگا بخیل اور راجہ مزمل آف گلڈنہ اور ہمارے ٹیکو جی۔

راجہ : یار سرگم افسر اسلام آبادی، تم نے مشاعرے کو بھی دفتر کاروائی بنا دیا خود افسر بن کر؟

سرگم : افسر سر پہ نہ ہو تو دفتر میں کام کون کرتا ہے؟ چلو کام کرو۔

سوالکھ : بابا لوکا تکلیف دہ افسر بنو گے تو لوگ تمہیں افسر نہیں اُف سر کہیں گے۔ مشاعرہ شروع کرو جلدی سے۔

(جاری ہے۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
سرگم : قاعدے قانون کے مطابق سب سے پہلے میں اپنی نظم پیش کروں گا۔ میری یہ نظم میرا پی اے سنائے گا۔

راجہ : کیوں جی؟ تمہارا پی اے کیوں سنائے گا؟ تم خود کیوں نہیں سناؤ گے؟

سرگم : میں ایک افسر ہوں اور افسر صرف اپنے سے بڑے افسر کو ہی سنا سکتا ہے۔ میری نظم بھی پروٹوکول کے تحت میرا پی اے سنائے گا، چلو بھئی پی اے، میری نظم پُٹ اَپ کرو۔

سوا لکھ : سرگم سر جی، اصل نظم سے پہلے اس کا ڈرافٹ پیش کرتا ہوں۔ سرگم صاحب کی نظم کا نمبر ہے زیرو زیرو ایٹ سیون ڈیٹڈ اٹھارہ دس صفر پانچ اور اس کا سبجیکٹ یعنی عنوان ہے "ہم کیا کریں؟"

عرض کیا ہے :

پکے ملازم ہیں سرکار کے ہم
کوئی آئے کوئی جائے ہم کیا کریں؟

تم کو کاہے کی اتنی جلدی ہے؟
فائل پھنس جائے تو ہم کیا کریں؟

دفتر میں رشوت ہم کبھی نہ لیں
کوئی گھر دے کے جائے تو ہم کیا کریں؟

جان بچاتے ہیں حفاظتی ٹیکے
کوئی نہ لگوائے تو ہم کیا کریں؟​

سرگم : یہ تھے میرے پی اے سوالکھ جو میری نظم سنا رہے تھے اور اب میں آفس آرڈر کرتا ہوں بونگے بخیل کو۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
بونگا : استاد جی اجازت ہے؟

سوالکھ : آجکل تو اجازت ہی اجازت ہے، جمہوریت شروع ہو چکی ہے، اب سب کے منہ کھل چکے ہیں۔

بونگا : میں آپ سے اجازت مانگ رہا ہوں سرگم استاد جی، نظم سنانے کی۔

سرگم : تم کیس تو پُٹ اَپ کرو پھر دیکھ لیں گے تھرو پراپر چینل۔

راجہ : یار سرگم، یہ تھرو پراپر چینل کوئی ٹی وی کا نیا چینل کھلا ہے؟

سرگم : ٹی وی کا چینل تو 1964 میں کھلا تھا۔ تھرو پراپر چینل تو وہ ہے جو انگریز چھوڑ کر گیا ہے اور اب تک چل رہا ہے۔

سوالکھ : انگریز کا چینل ہے تو پھر تو اس میں انگریزی پروگرام چلتا ہو گا، سوالکھ واری؟

سرگم : پروگرام انگریزی ہی ہے، اس میں ایکٹر اب دیسی ہوتے ہیں۔

بونگا : آپ اپنی سیاسی گفتگو میں میری ادبی حس کیوں مارنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ میری بھی تو سنو۔ میری نظم کا عنوان ہے "گرمی سردی میں"، عرض کیا ہے :

میرے پیارے اللہ میاں، سردی اور جب پڑے گی
امیر ہیٹر لگائے گا، عوام یونہی ٹھرے گی

گرمی جب بھی بڑے گی، منجی چھت پہ چڑھے گی
غریب جونہی سوئے گا، بارش سر پہ پڑے گی​

سرگم : یہ تھے غریب عوام کے ترجمان بونگا بخیل جی اور اب باری ہے راجہ مزمل جی کی۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
راجہ : یارا جی میری نظم کا عنوان ہے "جیو، چاہے ڈھیٹ بن کے"، عرض کیا ہے :

مجھ کو بخار اب نہیں چڑھتا

بونگا : حفاظتی ٹیکے لگوا لئے ہوں گے ناں، بخار کیسے چڑھے گا؟ چلو فیر ساہنوں کی؟

راجہ : یارا جی، میرے شعر سنو گے یا مجھ سے کچھ اور سنو گے؟

سوا لکھ : یار سرگم، تم بتاؤ اس سے ہم کچھ اور نہ سن لیں؟

سرگم : میں تو کہتا ہوں شعر ہی سن لو، یہ صرف شعر ہی تہذیب والے کہتا ہے۔

راجہ : عرض کیا ہے :

مجھ کو بخار اب نہیں چڑھتا
میں جو اخبار اب نہیں پڑھتا

کھانا پینا ہی چھوڑ ڈالا ہے
مجھ پہ ادھار اب نہیں چڑھتا

تحفہ دے کر منانا پڑتا ہے
میں تو بیوی سے اب نہیں لڑتا​

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
سوالکھ : بیوی سے مجھے یاد آیا، مجھے بیوی سے بہت ڈر لگتا ہے، اس لئے مجھے اب اجازت دو۔

سرگم : بیٹے، بیاہ کیا تو ڈرنا کیا؟ ڈرتے تھے تو شادی کیوں کی تھی؟

سوا لکھ : ڈر اتارنے کے لیے کی ہو گی میری طرح۔

راجہ : یار، جو ڈر گیا وہ مر گیا۔

سوالکھ : نہیں پُتر آج کل جو گھر گیا وہ مر گیا، بیوی کے ہاتھوں۔

سرگم : بڑے خوش نصیب ہو سوالکھ جو تمہیں زندگی میں ہی اپنے قاتل کا پتہ چل گیا۔

بونگا : آجکل تو لوگوں کو قاتلوں کا پتہ بھی ہوتا ہے مگر وہ اس سے بچنے کے بجائے ان کے ہاتھوں مرنا پسند کرتے ہیں۔

راجہ : اوئے بونگے تم کون سے قاتلوں کی بار کر رہے ہو؟

بونگا : وہ جو بچوں کی صحت کو قتل کرتی ہیں، بچوں کی سات خطرناک بیماریاں۔

سرگم : ان کا مقابلہ صرف حفاظتی ٹیکے ہی کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
سوالکھ : ناظرین اب اپنا کلام سنانے وہ تشریف لاتے ہیں جنہیں دیکھ کے جھوٹ بھاگ جاتے ہیں، آدھے جھوٹم، آدھے سچم، آدھے پکم، آدھے گنجم، آدھے بالم، آدھے ٹوٹم، آدھے سالم، استاد برہم، جناب سرگم۔

سرگم : حکم کیا ہے :

گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ
ٹیکوں سے بچنے والے حافظ خدا تمہارا

کشتی پھنسی بھنور میں، بیماریوں کے اندر
ٹیکے لگے نہ ہوں تو ملتا نہیں کنارہ

بچوں کا دوست ٹیکو، ٹیکو کے دوست بچے
بیماریوں میں ٹیکو، دیتا ہے اک سہارا​

(ختم شد)
 
Top