ایک عزیز دوست کے نام
(کچھ منتشر خیالات۔۔۔ )
صحرا سحر سے بھرا ہے۔۔ ۔۔ گر کسی نے رات کو صحرا میں قیام کیا ہے۔ تو وہ صحرا کی دلنشیں راتوں کے گیت گاتا نظر آئے گا۔ اور گر کسی کا واسطہ محض نخلستان سے پڑا ہے۔ تو وہ آپ کو کھجور کے درختوں اور میٹھے پانی کے چشموں کے گن گاتا نظر آئے گا۔ صحرا کی دھوپ کا شکار آپ کو صحرا کی تپش، جلن اور دور دور تک سایہ نہ ہونے کی شکایت کرتا ملے گا۔۔۔ وہ سراب کے متعلق بھی آپ کو بتائے گا۔ اور پیاس کی شدت کا بیان بھی اسی کے لبوں سے جاری ہوگا۔
کچھ لوگ صحرا کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی ذات اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور خوبیوں کے باوجود ہر اک کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ انہیں شبِ صحرا کی مانند سمجھ لیتے ہیں۔ جہاں ٹھنڈک، خاموشی اور خوبصورتی ہے۔ دلفریب مناظر ہیں۔ اور دل کو موہ لینے والا سکون۔ کچھ لوگ انہیں نخلستان سمجھ لیتے ہیں۔ جہاں کھجوراور پانی کی فراوانی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں سایہ ڈھونڈنے کو وہاں آ بیٹھتے ہیں۔ سکون اور نعمتوں کی فراوانی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں نے ان کو ہر رنگ میں یکتا دیکھا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بظاہر نخلستان دکھائی دینے والا۔۔ رات کے صحرا کی مانند پرسکون و دلفریب حقیقت میں کس قدر جھلسا ہے۔ کیسے کیسے غم کے سورج ہیں جو آگ برسا رہے ہیں۔ کیسے بکھرے ارادوں کی شکست کا طوفان ہے۔ جو شخصیت کے ٹیلوں کو تہہ وبالا کیے جا رہا ہے۔
صحرا فطرتوں کی اک اور خوبی اوج کمال پر ہوتی ہے۔ جتنا مرضی غبار آئے۔ طوفاں اٹھے۔ ان کی سرحد پر بس ہلکے ہلکے آثار ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کبھی یہ اپنے گردو غبار اور طوفان سے بیرون ذات کچھ نقصان نہیں دیتے۔ سمندر فطرت لوگوں کے بالکل برعکس۔ سمندر میں جب طوفان آتا ہے۔ تو اپنی سرحد توڑ کر نکل آتا ہے۔ باہر کے ماحول کو ڈبو دیتا ہے۔ اور جب واپس جاتا ہے۔ تو اپنے ساتھ لائے غم اور خوشیوں کا باعث بننے والوں کو باہر ہی چھوڑ جاتا ہے۔ پرواہ نہیں کرتا۔۔۔ کہ انکا کیاہوگا۔۔ صحرا فطرت اپنے غم اور خوشی کا باعث چیزوں کا اپنی ذات سے باہر نہیں جانے دیتے۔ وہ اس معاملے میں بہت احتیاط پسند ہوتے ہیں۔ سمندر فطرت کی طرح بے پرواہ نہیں۔