صحيح سائنسى علم ‘ اسلام كا ہم نوا ہوتا ہے

الله تعالىٰ نے اپنے انبياء و رسل علیہ السلام كو ان كے زمانى حالات اور ضرورت كے مطابق مختلف معجزات عطا فرمائے- حضرت موسىٰ علیہ السلام كے دور ميں اگر جادوگروں كا زور تها تو الله تعالىٰ نے آپ علیہ السلام كو اسى مناسبت سے معجزات عطا فرمائے تاكه آپ علیہ السلام جادوگروں كو زير كرسكيں- حضرت عيسىٰ علیہ السلام كے دور ميں اگر علم طب عروج پر تها تو الله تعالىٰ نے عيسىٰ علیہ السلام كو بهى ايسے معجزات عطا فرمائے كہ آپ علیہ السلام اس و قت كے تمام حكيموں اور طبيبوں پر سكہ جما سكيں- چنانچہ آپ علیہ السلام مادر زاد اندهوں اور كوڑهكے مريضوں كو بحكم الٰہى تندرست فرما ديتے جب كہ كوئى اور حكيم يا طبيب اس كى قدرت نهيں ركهتا هے- علىٰ ہذا القياس ديگر انبيا كا بهى يهى معاملہ رہا ہے-


البته نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم چونكه خاتم النّبيين (الله كے آخرى نبى) هونے كے ناطے قيامت تك كے لئے نبى و رسول بنا كر بهيجے گئے، اس لئے ضرورى تها كه آپ كے اس دنيا سے تشريف لے جانے كے بعدبهى آپ كے معجزات قيامت تك كے لئے سامنے آتے رهتے- ويسے تو آپ كو اپنى زندگى هى ميں بهت سے معجزات (مثلاً شق قمر، اسراء و معراج وغيره) سے نوازا گيا تاهم اس كے علاوه قرآنِ مجيد اور احاديث ميں بهت سے ايسے دعوے اور حقائق بهى پيش كئے گئے جنهيں اس دور ميں محدود آلات اور معلومات كى بنا پر جاننا كسى كے لئے ممكن نه تها، آج كى محير العقول ترقى ميں جب بهت سے انكشافات هوئے تو ان سے قرآن وحديث كى حقانيت كا اٹل ثبوت ميسر آيا كه قرآن كريم نے انهيں كس طرح مكمل صورت ميں آج سے صدياں قبل پيش كيا تها-سردست انهى ميں سے چند ايك ايسے حقائق كى طرف اشاره كرنا مقصود هے جنهيں سائنسى تحقيقات كے بعد دورِ حاضر ميں مسلمه طور پر تسليم كرليا گيا هے جبكه ١٤٠٠ سال پهلے هى قرآن و سنت ميں ان كى نشاندهى كردى گئى تهى

علم جنين (الأجنة) اور تخليقى مراحل و اطوار


انسانى بچے كى پيدائش اور اس كے مختلف مراحل كے حوالہ سے سائنس دانوں نے بيسويں صدى ميں بہت سے حقائق دريافت كئے جن ميں مزيد پيش رفت تاحال جارى هے- خليه (Cell)، جينز(Genes) اور ان سے متعلقه معلومات كى فراهمى نے نه صرف علم الاجنه (Embryology) ميں ايك بهت بڑا انقلاب برپا كيا بلكه اس كے ساته تخليقى مراحل كى بهت سى پيچيدگيوں اور مشكلات كو دور كرنے اور بانجه پن كى مختلف صورتوں پر قابو پانے ميں بهى مدد حاصل هوئى- علم الاجنه اور علم الطب سے متعلقه كسى صورت كو زير بحث لانا يهاں مقصود نهيں، تاهم علم الاجنه كے حواله سے بيسويں صدى كى ان دريافتوں كى مناسبت سے هم عرض كرنا چاهيں گے كه قرآن و سنت نے چوده سو سال پهلے هى ان چيزوں كى نشاندهى كردى تهى-
مثلاً :
قرآن مجيد ميں هے كه
﴿وَأنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالاُْ نْثٰى مِنْ نُطْفَةٍ إذَا تُمْنٰى﴾ (النجم:٤٥،٤٦)
”اور بلا شبه الله نے جوڑا يعنى نرومادّه پيدا كيا ايك بوند سے جب كه وه ٹپكائى جاتى هے-“

اس آيت ميں اس بات كى نشاندهى كى گئى هے كه نر يا مادّه كى پيدائش كا انحصار نطفه پر هے- جديد سائنس بهى قرآن مجيد كى اس بات كى تصديق كرتے هوئے هميں آگاه كرتى هے كه انسانى پيدائش كا عمل نطفے سے شروع هوتا هے-

اسى طرح قرآن مجيد ميں هے كه
﴿يَخْلُقُكُمْ فِىْ بُطُوْنِ اُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِىْ ظُلُمَاتٍ ثَلاَثٍ﴾(الزمر:٦)
”وه (الله تعالىٰ) تمهارى ماؤں كے پيٹوں ميں تين تين تاريك پردوں كے اندر تمهيں ايك كے بعد ايك شكل پر تخليق كرتا هے-“

يعنى الله تعالىٰ انسانى تخليق كو رحم مادر ميں مختلف مراحل و اطوار سے گزارتا هے- يه مراحل كتنے اور كون كون سے هيں، اس كى تفصيل قرآن مجيد نے اس طرح بيان فرمائى:
﴿يٰاَيُّهَا النَّاسُ إنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِىْ الاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إلٰى أجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّكُمْ﴾(الحج:٥)


”اے لوگو! اگر تمهيں مرنے كے بعد جى اُٹهنے ميں شك هے تو سوچو كه هم نے تمهيں مٹى #سے پيدا كيا پهر نطفه سے پهر خونِ بسته سے، پهر گوشت كے لوتهڑے سے جو صورت ديا گيا تها اور بے نقشه8 تها-يه تم پر ظاهر كرديتے هيں اور هم جسے چاهيں ايك ٹههرائے هوئے وقت تك رحم مادر ميں ركهتے هيں- پهر تمهيں بچپن كى حالت ميں دنيا ميں لاتے هيں تاكه تم اپنى پورى جوانى كو پهنچو-“

تخليقى مراحل كو قرآنِ مجيد هى كے ايك اور مقام پر اس طرح بيان كيا گيا هے :
﴿ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِىْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضَغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًَا ثُمَّ أَنْشَأنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ الله أحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ﴾ (المومنون:١٣تا١٤)
”پهر هم نے اسے نطفه بنا كر محفوظ جگه ميں قرار دے ديا، پهر نطفه كو هم نے جما هوا خون بنا ديا پهر اس خون كے لوتهڑے كو گوشت كا ٹكڑا بنا ديا پهر گوشت كے ٹكڑے كو هڈيوں ميں بدل ديا پهر (ان) هڈيوں كو هم نے گوشت پهنا ديا پهر ايك اور بناوٹ ميں اسے پيدا كرديا- بركتوں والا هے وه الله جو سب سے بهترين پيداكرنے والا هے-“


يهى مراحل صحيح احاديث ميں اس طرح بيان كئے گئے هيں كه نطفه چاليس دن كے بعد عَلَقَة (يعنى گاڑها خون) بن جاتا هے پهر چاليس دن كے بعد يه مُضْغَة (يعنى لوتهڑا يا گوشت كى بوٹى) كى شكل اختيار كرليتا هے- پهر الله تعالىٰ كى طرف سے ايك فرشته آتا هے جو اس ميں روح پهونكتا هے- يعنى چار مهينے كے بعد نفخ روح هوتا هے اور بچه ايك واضح شكل ميں ڈهل جاتا هے- (تفصيل كے لئے ديكهئے:بخارى: كتاب الانبيااور مسلم: كتاب القدر، وغيره)

دورِ حاضر ميں تخليق كے مذكوره مراحل سائنسى تحقيقات كے بعد متفقه طور پر تسليم كئے جاچكے هيں- جبكه ١٤٠٠ سال پهلے جب اسلام نے ان مخفى اُمور كى نشاندهى كى تهى، اس وقت يه معلومات كسى كے حاشيه خيال ميں بهى نه تهيں-
يهاں راقم بڑے عجز سے عرض كرنا چاهے گا كه ١٩٨٧ء ميں جب رابطه عالم اسلامى كى طرف سے اسلامى يونيورسٹى آف اسلام آباد ميں الاعجاز العلمي فى القرآن والسنة كے نام سے ايك بين الاقوامى كانفرنس كا انعقاد كيا گيا جس ميں ’علم الاجنه‘ سے متعلقه ايك كتاب "The Developing Human" خصوصى طور پر مندوبين ميں تقسيم كى گئى اور اس كانفرنس ميں علم الاجنه اور ديگر سائنسى تحقيقات ميں قرآن و سنت كے كردار سے متعلقه مقاله جات پيش كئے گئے تو راقم الحروف كے اس موضوع پر دو مقالے منظور هوئے جبكه پنجاب بهر سے كسى اور سائنسدان يا عالم دين كا كوئى ايسا مقاله منظور نه هوا

پهاڑوں كو ميخيں قرار دينا


قرآنِ مجيد ميں كئى ايك مقامات پر يه بات بيان هوئى كه پهاڑ ميخوں كى حيثيت سے زمين ميں گاڑے گئے هيں- بطورِ مثال چند آيات درج كى جاتى هيں:

﴿وَجَعَلْنَا فِيْ الاَرْضِ رَوَاسِىَ أنْ تَمِيْدَ بِهِمْ﴾(الانبياء:٣١)
”اور هم نے زمين ميں پهاڑ بنا ديے تاكه وه (زمين) انهيں (مخلوق كو) لے كر ڈهلك نه جائيں-“

﴿وَاَلْقٰى فِىْ الاَرْضِ رَوَاسِىَ أنْ تَمِيْدَ بِكُمْ﴾(لقمان:١٠)
”اور اس نے زمين ميں پهاڑ گاڑ ديئے تاكه زمين تمهيں هلا نه سكے-“

﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الاَرْضَ مِهَادًا وَّالْجِبَالَ أوْتًادًا﴾(النباء :٦،٧)
”كيا ايسا نهيں كه هم نے زمين كو فرش بنايا اور پهاڑوں كو ميخوں كى طرح (اس ميں) گاڑ ديا ؟ “
مذكوره بالا آيات سے معلوم هوا كه زمين پر پهاڑوں كو نصب كرنے كا مقصد يه تها كه زمين ڈهلكنے اور جهٹكے لگنے سے محفوظ رهے- اگرچه نزولِ قرآن سے پهلے دنيا اس حقيقت سے ناواقف تهى، تاهم اب جديد سائنسى تحقيقات نے بهى قرآن مجيد كى اس بات كى تائيد كردى هے-

جديد علم طبقات الارض كے مطابق ”پهاڑ قشر زمين (Earth's Crust) بنانے والى عظيم پليٹوں كى حركت اور ان كى باهمى رگڑ اور مسلسل ٹكراؤ كے نتيجے ميں تشكيل پاتے هيں- جب دو پليٹيں آپس ميں متصادم هوتى هيں تو ان ميں سے جو مضبوط تر هوتى هے، وه دوسرى كے نيچے گهس جاتى هے اور اوپر والى خم كها كر بلندى اختيار كرليتى هے، اسى طرح پهاڑ وجود ميں آجاتا هے -

جبكه نيچے والى تہہ زمين كے نشيب ميں زيريں جانب بڑهتى چلى جاتى هے اس طرح ايك گهرائى عمل ميں آنے لگتى هے- اس كا مطلب يه هے كه پهاڑوں كا ايك حصه نيچے كى جانب بهى هوتا هے جو سطح زمين سے نظر آنے والے حصه كے تقريباً مساوى هوتا هے- بالفاظِ ديگر پهاڑ سطح زمين كے نيچے اور اوپر سے آگے كى طرف بڑهتے هوئے قشر ارض كى پليٹوں كو آپس ميں بهينچ ديتے هيں جس سے زمين كى مضبوطى بڑهتى هے- مختصر طور پر هم پهاڑوں كو ميخوں سے تشبيه دے سكتے هيں جو زمين كے مختلف حصوں كو اسى طرح جوڑتے هيں جيسے ميخيں لكڑى كے ٹكڑوں كو آپس ميں جوڑتى هيں-“ (قرآن رهنمائے سائنس از هارون يحيىٰ، ص١٢٢)


١٩٨٧ء ميں رابطه عالم اسلامى كى طرف سے اسلام آباد ميں منعقد هونے والى مذكوره بالا بين الاقوامى كانفرنس ميں ايك امريكى سائنسدان نے قرآن مجيد كى ان چند (مذكوره) آيات (جن ميں پهاڑوں كو ميخيں كها گيا) كا ترجمه پيش كرتے هوئے كها كه ١٠٠ سال پهلے تك سائنس دانوں كا يهى خيال تها كه پهاڑ ايسے هى ٹيلے هيں جيسے ريت كے ٹيلے بن جاتے هيں يا قدرتى طور پر مسلسل آندهى و طوفان كے نتيجے ميں كسى جگه مٹى، ريت اور پتهروں كا ڈهير لگ جاتا هے مگر اب جديد تحقيقات سے معلوم هوا كه پهاڑ اگر ايك ميل اونچا هو تو اس كى جڑ كئى ميل تك گهرى هوتى هے- جس طرح ميخ كا كچه حصه اوپر نظر آتا هے جبكه اس كا بڑا حصه زمين ميں هوتا هے-


المختصر يه كه اس امريكى سائنس دان نے قرآن مجيد كى ان آيات كو معجزاتى آيات قرار ديا كيونكه ان آيات ميں جن حقائق كو ١٤٠٠ سال پهلے بيان كيا گيا هے، سائنس دان ان حقائق تك پهنچنے ميں اب كامياب هوئے هيں-

تخليق كائنات كے سائنسى مشاہدے


تخليق كائنات كے سلسله ميں قرآن مجيد هميں جن حقائق سے آگاه كرتا هے، ان كا تذكره مندرجه آيات ميں موجود هے:

﴿أوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا أنَّ السَّمٰواتِ وَالاَرْضِ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَئٍ حَىٍّ أَفَلاَ يُؤمِنُوْنَ﴾(الانبياء:٣٠)
”كيا كافر لوگوں نے نهيں ديكها كه آسمان و زمين باهم ملے هوئے تهے پهر هم نے انهيں جدا كيا اور هم نے پانى كے ساته هر زنده چيز كو پيدا كيا- كيا يه لوگ پهر بهى ايمان نهيں لاتے-“

﴿ثُمَّ اسْتَوٰى إلَى السَّمَاءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْكَرْهًا قَالَتَا اَتَيْنَا طَائِعِيْنَ﴾(حم ٓالسجدة:١١)
”پهر (الله تعالىٰ) آسمان كى طرف متوجه هوا اور وه (آسمان) دهواں سا تها- پس اسے اور زمين سے (الله تعالىٰ نے) فرمايا كه تم دونوں خواه خوشى سے آؤ يا ناخوشى سے- ان دونوں نے كها كه هم بخوشى حاضر هيں-“
﴿وَالسَّمَآءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَّإنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾(الذاريات:� �٧)
”آسمان كو هم نے قوت سے بنايا اور يقينا هم اس ميں كشادگى كرنے والے هيں-“

مندرجه بالا آيات ميں سے پهلى آيت سے معلوم هوا كه آسمان اور زمين باهم ملے هوئے اور ايك دوسرے كے ساته پيوست تهے، پهر الله تعالىٰ نے ان دونوں كو جدا جدا كرديا- اب يهى بات جديد سائنس بهى تسليم كرچكى هے كه كرئه ارض ايك خوفناك حادثے كے ساته وجود ميں آئى اور اسى حادثه عظيمه كو بگ بينگ (Big Bang) يا ’انفجارِعظيم‘ بهى كها جاتا هے-

دوسرى آيت ميں جس چيز كى نشاندهى كى گئى هے، وه يه هے كه شروع ميں آسمان مكمل طور پر دهوئيں يا گيس كى شكل ميں تها جيسا كه مشهور ايٹمى سائنسدان جارج گيمو لكهتا هے كه

”كائناتى مكان(فضا) كثير توانائى والى گاما شعاعوں(High Enrgy Gama Radiation) سے پرتها… ليكن اس ميں موجود مادّه كا وزن مخصوص زمين سے بالا تر فضا كى هوا كے برابر همارى كائنات كى تخليقى تاريخ كے پهلے گهنٹے كے بعد كائنات ميں ٣٠ ملين سال تك كوئى خاص واقعه نهيں هوا- (اسى زمانے كے متعلق قرآن نے كها كه تمام آسمان دهوئيں يا گيس كى شكل ميں تها)

يهى مصنف مزيد لكهتا هے كه ”بنيادى چيز جس سے كائنات بنى، وه هائيڈروجن گيس تهى-“ (The Creation of the Universe, p.135)
تيسرى آيت ميں يه نشاندهى كى گئى هے كه كائنات ميں مسلسل توسيع كا عمل جارى هے اور اكثر سائنس دان بهى اس كى تائيد كرتے هوئے اس بات كوتسليم كرچكے هيں كه هرآن يه كائنات پهيلتى اور وسيع هوتى جارهى هے- هارون يحيىٰ اپنى تصنيف ’قرآن رهنماے سائنس‘ ميں لكهتے هيں كه
”٢٠ ويں صدى كى آمد تك دنياے سائنس ميں ايك هى نظريه مروّج تها كه كائنات بالكل غير متغيراورمستقل نوعيت ركهتى هے اور لامتناهى عرصه سے ايسى هى چلى آرهى هے- تاهم تحقيق ومشاهده اور رياضياتى جانچ پڑتال جو جديد ٹيكنالوجى كى مدد سے جارى تهى، اس سے انكشاف هواكه اس كائنات كا ايك نكته آغاز بهى تها اور اس وقت سے يه مسلسل پهيل رهى هے-


٢٠ صدى كے شروع ميں روسى ماهر طبيعيات اليگزنڈرفرائيڈمين اور بلجيم كے ماهر علم تكوين عالم (Cosmologist) جارجز ليميٹر كے جمع كرده نظرى حساب كتاب سے يه حقيقت منكشف هوئى كه كائنات مسلسل حركت كررهى هے اور وسيع سے وسيع تر هورهى هے- اس انكشاف كى ١٩٢٩ء كے مشاهدات سے تصديق هوگئى- امريكى ماهر فلكيات ايڈوين هبل نے اپنى دوربين سے آسمان كا مشاهده كرنے كے بعد انكشاف كيا كه ستارے اور كهكشائيں ايك دوسرى سے مسلسل دور هٹ رهى هيں- ايك ايسى كائنات جس ميں هرچيز، دوسرى چيز سے پرے هٹتى جارهى هے تو اس كا مطلب يه هے كه وه مسلسل پهيل رهى هے- بعد كے برسوں كى تحقيق بهى اس مشاهدے كى تصديق كرتى رهى هے- قرآنِ مجيد نے يه حقيقت اس وقت بيان كردى تهى كه جب كسى كو اس كا وهم و گمان تك نه تها- يه اس لئے كه قرآن اس خدا كا كلام هے جو پورى كائنات كا خالق ومالك اور حكمرانِ حقيقى هے-“ (ص١١٠،١١١)

بشرطِ صحت آسمان اور زمين كے گول هونے كا ثبوت


اگرچه جديد سائنس نے تحقيقى و سائنسى مشاهدات كے بعد يه بات تسليم كى هے كه آسمان اور زمين گول هے جبكه قرآنِ مجيد نے ١٤٠٠ سال پهلے هى اس حقيقت كا انكشاف كرديا تها اور يهى وجه هے كه مسلم سائنسدانوں كا شروع سے يه موقف رها كه زمين گول هے - اس سلسله ميں دين اسلام نے ١٤٠٠ سال پهلے كيا نشاندهى كى تهى، اس كا تذكره هم آٹهويں صدى هجرى كے عظيم مجتهد يعنى شيخ الاسلام ابن تيميه كے فتاوىٰ كى روشنى ميں كريں گے- شيخ الاسلام نے اس موضوع پر اپنے فتاوىٰ ميں جابجا بحث كى هے- چنانچه مجموع الفتاوىٰ كى چهٹى جلدميں ايسے هى ايك سوال كا جواب ديتے هوئے شيخ رقم طراز هيں كه

”السموٰات مستديرة عند علماء المسلمين وقد حكى إجماع المسلمين على ذلك غير واحد من العلماء ائمة الاسلام: مثل أبى الحسين أحمد بن جعفر بن المناوى أحد الأعيان الكبار من الطبقة الثانية من أصحاب الامام أحمد وله نحو اربع مائة مصنف وحكى الاجماع على ذلك الامام أبو محمد بن حزم وأبوالفرج بن الجوزي وروى العلماء ذلك بالأسانيد المعروفة عن الصحابة والتابعين وذكروا ذلك من كتاب الله وسنة رسوله وبسطوا القول فى ذلك بالدلائل السمعية وان كان قد أقيم على ذلك أيضا دلائل حسابية… “ (مجموع الفتاوىٰ، ج٦/ص:٥٨٦)

”مسلمان اهل علم كا موقف يه هے كه آسمان گول هيں اور بهت سے كبار علماے مسلمين نے اس بات پرمسلمانوں كا اجماع و اتفاق نقل كيا هے- مثلاً احمد بن جعفر بن المناوى جو امام احمد كے اصحاب ميں سے طبقه ثانيه كے كبيرعالم خيال كئے جاتے هيں اور وه تقريبا ٤٠٠ كتب كے مصنف بهى هيں، نے اسى طرح ابن حزم اور ابن جوزى نے اس پر اجماع نقل كيا هے- اهل علم نے اس سلسله ميں اپنى معروف اسناد كے ساته يه بات صحابه كرام اور تابعين عظام سے بهى ثابت كى هے اور كتاب و سنت سے بهى اس كے دلائل فراهم كئے هيں- اس مسئلے پر اهل علم نے نه صرف دلائل نقليه سے استشهاد كياهے بلكه دلائل عقليه سے بهى اسے ثابت كياهے-“

اس كے بعد شيخ الاسلام قرآن و سنت كے چند نصوص سے استشهاد كرتے هوئے رقم طراز هيں كه
(وَهُوَ الَّذِىْ خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِىْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ)
”اور وه الله هى هے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند كوپيدا كيا اور يہ سب اپنے اپنے فلك (مدار) ميں محوگردش ہيں-“ (الانبياء:٣٣)

سلف صالحين ميں سے حضرت ابن عباس وغيره فرماتے هيں كه
”فلك چرخ كے كتله كے محور كى طرح گول هوتاهے اور يه (آسمان و زمين كے) گول هونے كى صريح دليل هے اور ويسے بهى لغت ميں هر گول چيز كے لئے لفظ فلك استعمال كيا جاتاهے-“ (مجموع فتاوىٰ،ج٦، ص٥٨٧)
شيخ الاسلام ايك اور مقام پر رقم طراز هيں كه

اعلم أن الأرض قد اتفقوا على أنها كروية الشكل وهي فى الماء المحيط بأكثرها“ (ايضاً، ص٥/١٥٠) ”واضح رهے كه اهل علم كا اس بات پر اتفاق هے كه زمين كى شكل گولائى نما هے اور زمين كا اكثر حصه پانى پرمشتمل هے-“
ا س پر مزيد بحث شيخ الاسلام نے مجموع الفتاوىٰ كى ٢٥ ويں جلد (ص١٩٥) ميں بهى كى هے-

ربط
http://rightislam1.weebly.com/-1589...5-160616081575-1729160815781575-17291746.html
 

سید ذیشان

محفلین
کوپرنکس سے پہلے تمام کے تمام مسلمان ماہر فلکیات اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے- تو کیا اس زمانے کے مسلمان قرآنی تعلیمات سے ناواقف تھے؟ ان کی کیا بات کریں، جدید دور میں بھی سعودی مفتی اعظم بن باز (وفات 1999) کا یہی عقیدہ رہا ہے۔

جیسا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے کہ سائنس کے مطابق آسمان گول ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سائنس کو تو کائنات کی حدود کا علم نہیں ہے تو گول ہونا یا بیضوی شکل میں ہونا تو بہت بعد میں آتا ہے۔

قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اس لئے اس میں سے سائنس کی چیزیں اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
 
کوپرنکس سے پہلے تمام کے تمام مسلمان ماہر فلکیات اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے- تو کیا اس زمانے کے مسلمان قرآنی تعلیمات سے ناواقف تھے؟ ان کی کیا بات کریں، جدید دور میں بھی سعودی مفتی اعظم بن باز (وفات 1999) کا یہی عقیدہ رہا ہے۔

جیسا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے کہ سائنس کے مطابق آسمان گول ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سائنس کو تو کائنات کی حدود کا علم نہیں ہے تو گول ہونا یا بیضوی شکل میں ہونا تو بہت بعد میں آتا ہے۔

قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اس لئے اس میں سے سائنس کی چیزیں اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
آپ نے میرا مضمون شہد کی مکھی کے بارے میں پڑھا ہے چیونٹی کے بارے میں پڑھا ہے؟ ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر جو کچھ شریک محفل کیا ہے اسے پڑھا ہے؟
ان سب میں قران کے حوالے سے بحث کی گئی ہے کیا آپ ان کو جھٹلا سکتے ہیں؟
کچھ باتیں ایسی ہیں جو انسانی عقل و فہم سے ماورا ہیں کائنات کے تمام رازوں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں مگر اللہ نے قران میں نشانیاں دی ہیں جن میں سے بہت سی باتوں کی سائینس نے تصدیق کی ہے قران ہمارے لئے ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے اور یہ ہمارے بدقسمتی ہے کہ ہم اس سے فائیدہ نہیں اٹھا رہے آپ ہارون یححیٰ کی سائٹ پر جا کر دیکھیں کس طرح اس نے قران کی روشنی میں کائناتی رازوں پر بحث کی ہے سائینس کی تھیوری انسان ہی بتاتا ہے اور غلطی بھی انسان سے ہی ہوتی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
آپ نے میرا مضمون شہد کی مکھی کے بارے میں پڑھا ہے چیونٹی کے بارے میں پڑھا ہے؟ ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر جو کچھ شریک محفل کیا ہے اسے پڑھا ہے؟
ان سب میں قران کے حوالے سے بحث کی گئی ہے کیا آپ ان کو جھٹلا سکتے ہیں؟
کچھ باتیں ایسی ہیں جو انسانی عقل و فہم سے ماورا ہیں کائنات کے تمام رازوں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں مگر اللہ نے قران میں نشانیاں دی ہیں جن میں سے بہت سی باتوں کی سائینس نے تصدیق کی ہے قران ہمارے لئے ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے اور یہ ہمارے بدقسمتی ہے کہ ہم اس سے فائیدہ نہیں اٹھا رہے آپ ہارون یححیٰ کی سائٹ پر جا کر دیکھیں کس طرح اس نے قران کی روشنی میں کائناتی رازوں پر بحث کی ہے سائینس کی تھیوری انسان ہی بتاتا ہے اور غلطی بھی انسان سے ہی ہوتی ہے

جب میں اٹھارہ انیس سال کا تھا تب نیا نیا انٹرنیٹ آیا تھا اور مجھے کسی نے ہارون یحیٰ کی ویب سائٹ کا بتایا۔ میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ہارون یحیٰ (اصل نام عدنان اوکتار) کے مضامین پڑھا کرتا تھا۔ اور ڈائل اپ انٹرنیٹ پر کئی کئی گھنٹے لگا کر وڈیوز ڈاونلوڈ کرتا تھا۔ شائد کچھ وڈیوز اب بھی میری ہارڈ ڈسک میں موجود ہوں گی۔ تو آپ کا جواب یہ ہے کہ ہاں میں یہ سب چیزیں بہت عرصہ پہلے پڑھ چکا ہوں اور قرآن کی بھی درجنوں جلدوں کی تفسیریں پڑھ چکا ہوں۔ اس کے بعد بھی یہی بات کہتا ہوں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اور اس میں سے سائنس کی چیزیں اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ عام طور پر جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سائنس اور قرآن دونوں سے خاطر خواہ حد تک آگاہ نہیں ہوتے ہیں اور ایسی باتیں کر بیٹھتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو "قرآن اور سائنس" جیسے مضامین پڑھ کر مسلمان ہوئے اور بعد میں جب کچھ لوگوں نے ان میں غلطیوں کی نشاندہی کی تو اسلام سے پھر گئے۔ اسلام چند ایک gimmicks کا نام نہیں ہے کہ یہ ثابت کر دیا وہ ثابت کر دیا اور بڑا نیک کام کر لیا۔ یہ انسان کا اور خدا کا معاملہ ہے اور یہ معاملہ اس قسم کی شعبدہ بازی پر ہرگز کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ یہ تعلق بہت ہی گہرا ہے اور اس کو اسطرح کے مضامین نقصان پہنچا سکتے ہیں فائدہ نہیں۔
یہ میرے خیالات تھے۔ اگر آپ کو کچھ برا لگا ہو تو میں معذرت چاہوں گا۔ :)
 
جب میں اٹھارہ انیس سال کا تھا تب نیا نیا انٹرنیٹ آیا تھا اور مجھے کسی نے ہارون یحیٰ کی ویب سائٹ کا بتایا۔ میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ہارون یحیٰ (اصل نام عدنان اوکتار) کے مضامین پڑھا کرتا تھا۔ اور ڈائل اپ انٹرنیٹ پر کئی کئی گھنٹے لگا کر وڈیوز ڈاونلوڈ کرتا تھا۔ شائد کچھ وڈیوز اب بھی میری ہارڈ ڈسک میں موجود ہوں گی۔ تو آپ کا جواب یہ ہے کہ ہاں میں یہ سب چیزیں بہت عرصہ پہلے پڑھ چکا ہوں اور قرآن کی بھی درجنوں جلدوں کی تفسیریں پڑھ چکا ہوں۔ اس کے بعد بھی یہی بات کہتا ہوں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اور اس میں سے سائنس کی چیزیں اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ عام طور پر جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سائنس اور قرآن دونوں سے خاطر خواہ حد تک آگاہ نہیں ہوتے ہیں اور ایسی باتیں کر بیٹھتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو "قرآن اور سائنس" جیسے مضامین پڑھ کر مسلمان ہوئے اور بعد میں جب کچھ لوگوں نے ان میں غلطیوں کی نشاندہی کی تو اسلام سے پھر گئے۔ اسلام چند ایک gimmicks کا نام نہیں ہے کہ یہ ثابت کر دیا وہ ثابت کر دیا اور بڑا نیک کام کر لیا۔ یہ انسان کا اور خدا کا معاملہ ہے اور یہ معاملہ اس قسم کی شعبدہ بازی پر ہرگز کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ یہ تعلق بہت ہی گہرا ہے اور اس کو اسطرح کے مضامین نقصان پہنچا سکتے ہیں فائدہ نہیں۔
یہ میرے خیالات تھے۔ اگر آپ کو کچھ برا لگا ہو تو میں معذرت چاہوں گا۔ :)

متفق

ایک اور اضافہ کرنا چاہوں گا کہ انسانی علم ہر وقت ناقص ہے بالخصوص سائنس کا۔ یہ مشاہداتی علم ہے جو اکثر غلط نتیجہ اخذ کرتا ہے۔

ویسے سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین کائنات کا مرکز ہے پر کئی سائنس دان بھی متفق ہیں
 
جب میں اٹھارہ انیس سال کا تھا تب نیا نیا انٹرنیٹ آیا تھا اور مجھے کسی نے ہارون یحیٰ کی ویب سائٹ کا بتایا۔ میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ہارون یحیٰ (اصل نام عدنان اوکتار) کے مضامین پڑھا کرتا تھا۔ اور ڈائل اپ انٹرنیٹ پر کئی کئی گھنٹے لگا کر وڈیوز ڈاونلوڈ کرتا تھا۔ شائد کچھ وڈیوز اب بھی میری ہارڈ ڈسک میں موجود ہوں گی۔ تو آپ کا جواب یہ ہے کہ ہاں میں یہ سب چیزیں بہت عرصہ پہلے پڑھ چکا ہوں اور قرآن کی بھی درجنوں جلدوں کی تفسیریں پڑھ چکا ہوں۔ اس کے بعد بھی یہی بات کہتا ہوں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اور اس میں سے سائنس کی چیزیں اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ عام طور پر جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سائنس اور قرآن دونوں سے خاطر خواہ حد تک آگاہ نہیں ہوتے ہیں اور ایسی باتیں کر بیٹھتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو "قرآن اور سائنس" جیسے مضامین پڑھ کر مسلمان ہوئے اور بعد میں جب کچھ لوگوں نے ان میں غلطیوں کی نشاندہی کی تو اسلام سے پھر گئے۔ اسلام چند ایک gimmicks کا نام نہیں ہے کہ یہ ثابت کر دیا وہ ثابت کر دیا اور بڑا نیک کام کر لیا۔ یہ انسان کا اور خدا کا معاملہ ہے اور یہ معاملہ اس قسم کی شعبدہ بازی پر ہرگز کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ یہ تعلق بہت ہی گہرا ہے اور اس کو اسطرح کے مضامین نقصان پہنچا سکتے ہیں فائدہ نہیں۔
یہ میرے خیالات تھے۔ اگر آپ کو کچھ برا لگا ہو تو میں معذرت چاہوں گا۔ :)
آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوئی آپ کو اختلاف رائے کا سلیقہ آتا ہے اس دفعہ میں کچھ تلخ ہو گیا تھا مگر میری ان باتوں کو آپ نے تحمل سے برداشت کیا مگر میرے بھائی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ سائینس کی دریافت ہیں مگر ان کا ذکر قران پاک میں ہو چکا ہے اس تناظر میں آپ کیا کہتے ہیں؟
 

سید ذیشان

محفلین
آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوئی آپ کو اختلاف رائے کا سلیقہ آتا ہے اس دفعہ میں کچھ تلخ ہو گیا تھا مگر میری ان باتوں کو آپ نے تحمل سے برداشت کیا مگر میرے بھائی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ سائینس کی دریافت ہیں مگر ان کا ذکر قران پاک میں ہو چکا ہے اس تناظر میں آپ کیا کہتے ہیں؟

اس پر میں یہ آیت پیش کروں گا (معذرت کہ یہ انگریزی ترجمہ ہے):

003:007 Yusufali
He it is Who has sent down to thee the Book: In it are verses basic or fundamental (of established meaning); they are the foundation of the Book: others are allegorical. But those in whose hearts is perversity follow the part thereof that is allegorical, seeking discord, and searching for its hidden meanings, but no one knows its hidden meanings except Allah. And those who are firmly grounded in knowledge say: "We believe in the Book; the whole of it is from our Lord:" and none will grasp the Message except men of understanding.
 
اس پر میں یہ آیت پیش کروں گا (معذرت کہ یہ انگریزی ترجمہ ہے):

003:007 Yusufali
He it is Who has sent down to thee the Book: In it are verses basic or fundamental (of established meaning); they are the foundation of the Book: others are allegorical. But those in whose hearts is perversity follow the part thereof that is allegorical, seeking discord, and searching for its hidden meanings, but no one knows its hidden meanings except Allah. And those who are firmly grounded in knowledge say: "We believe in the Book; the whole of it is from our Lord:" and none will grasp the Message except men of understanding.
آیت کا حوالہ نہیں دیا کہ یہ قران پاک میں کہاں ہے
003:007 Yusufali شاید یہ ہے مگر اس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی
 

سید ذیشان

محفلین
آیت کا حوالہ نہیں دیا کہ یہ قران پاک میں کہاں ہے
003:007 Yusufali شاید یہ ہے مگر اس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی

اس کا معنی ہےکہ "یوسف علی" کا ترجمہ ہے اور سورۃ آل عمران ( سورۃ نمبر 3) اور آیت7

عبداللہ یوسف علی کا ترجمہ اس لئے دیا ہے کہ ان کے ترجمے کی صحت پر تقریباً تمام مسلمان متفق ہیں۔
 
اس کا معنی ہےکہ "یوسف علی" کا ترجمہ ہے اور سورۃ آل عمران ( سورۃ نمبر 3) اور آیت7

عبداللہ یوسف علی کا ترجمہ اس لئے دیا ہے کہ ان کے ترجمے کی صحت پر تقریباً تمام مسلمان متفق ہیں۔
میں اس کو دیکھ کر ہی کچھ جواب دے سکوں گا یہاں سائٹ پر با ترجمعہ قرآن پاک نہیں ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
دو تین باتیں وضاحت طلب ہیں
”پهر (الله تعالىٰ) آسمان كى طرف متوجه هوا اور وه (آسمان) دهواں سا تها- پس اسے اور زمين سے (الله تعالىٰ نے) فرمايا كه تم دونوں خواه خوشى سے آؤ يا ناخوشى سے- ان دونوں نے كها كه هم بخوشى حاضر هيں-“
آسمان اور زمین دو الگ الگ تصور ہی نہیں بلکہ دو الگ وجود ہیں۔ آسمان کو سائنسی اعتبار سے کوئی نہیں مانتا جبکہ زمین کو اگر آپ آسمان کے مقابلے میں دیکھتے ہیں تو وہ بالکل بے جوڑ ہے۔ ہماری زمین ملکی وے کہکشاں کے سو سے چار سو ارب ستاروں میں سے ایک نسبتاً چھوٹے ستارے کے گرد گھومنے والے بے شمار اجسام میں سے ایک ہے جن میں سے تین معلوم اجسام زمین سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ ہماری کہکشاں اسی جیسی کئی ارب کہکشاوں میں سے ایک ہے جن میں سے اکثر ہماری کہکشاں سے زیادہ بڑی ہیں اور زمین بھی اس کہکشاں کے ایک کنارے پر واقع ایک بازو میں واقع ہے۔ ہمارے سورج سے ہماری کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ 26000 سے 28000 نوری سال ہے
سائنس نے بگ بینگ کو بطور سائنسی حقیقت کے تسلیم نہیں کیا لیکن قیاس سے قریب ترین مانا ہے۔ واضح رہے کہ بگ بینگ تھیوری ہمیں بگ بینگ کے بارے نہیں بلکہ بگ بینگ کے فوراً بعد ہونے والے واقعات کی تشریح کر کے بتاتی ہے
”اور وه الله هى هے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند كوپيدا كيا اور يہ سب اپنے اپنے فلك (مدار) ميں محوگردش ہيں-“ (الانبياء:٣٣)
یہ تو اسلام کو محض ہمارے نظام شمسی کے اس حصے تک محدود کرنے کا نام ہوا جو کہ سورج، چاند اور زمین پر مشتمل ہے۔ یہ تو سائنس کی انتہائی محدود تشریح ہوئی۔ حالانکہ قرآن پاک میں صرف وہی بات کی گئی ہے جو متعلقہ تھی لیکن ہم اس کو سائنس کے ساتھ منطبق نہیں کر سکتے
جارج گیمو کے بارے یہ مضمون ہے۔ جارج گیمو ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ تھیوریٹیکل فزسٹ اور فلکیات دان ہے
میں بھی یہی بات کروں گا کہ سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھا جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ بہت گڑبڑ ہو سکتی ہے
 
دو تین باتیں وضاحت طلب ہیں

آسمان اور زمین دو الگ الگ تصور ہی نہیں بلکہ دو الگ وجود ہیں۔ آسمان کو سائنسی اعتبار سے کوئی نہیں مانتا جبکہ زمین کو اگر آپ آسمان کے مقابلے میں دیکھتے ہیں تو وہ بالکل بے جوڑ ہے۔ ہماری زمین ملکی وے کہکشاں کے سو سے چار سو ارب ستاروں میں سے ایک نسبتاً چھوٹے ستارے کے گرد گھومنے والے بے شمار اجسام میں سے ایک ہے جن میں سے تین معلوم اجسام زمین سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ ہماری کہکشاں اسی جیسی کئی ارب کہکشاوں میں سے ایک ہے جن میں سے اکثر ہماری کہکشاں سے زیادہ بڑی ہیں اور زمین بھی اس کہکشاں کے ایک کنارے پر واقع ایک بازو میں واقع ہے۔ ہمارے سورج سے ہماری کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ 26000 سے 28000 نوری سال ہے
سائنس نے بگ بینگ کو بطور سائنسی حقیقت کے تسلیم نہیں کیا لیکن قیاس سے قریب ترین مانا ہے۔ واضح رہے کہ بگ بینگ تھیوری ہمیں بگ بینگ کے بارے نہیں بلکہ بگ بینگ کے فوراً بعد ہونے والے واقعات کی تشریح کر کے بتاتی ہے

یہ تو اسلام کو محض ہمارے نظام شمسی کے اس حصے تک محدود کرنے کا نام ہوا جو کہ سورج، چاند اور زمین پر مشتمل ہے۔ یہ تو سائنس کی انتہائی محدود تشریح ہوئی۔ حالانکہ قرآن پاک میں صرف وہی بات کی گئی ہے جو متعلقہ تھی لیکن ہم اس کو سائنس کے ساتھ منطبق نہیں کر سکتے
جارج گیمو کے بارے یہ مضمون ہے۔ جارج گیمو ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ تھیوریٹیکل فزسٹ اور فلکیات دان ہے
میں بھی یہی بات کروں گا کہ سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھا جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ بہت گڑبڑ ہو سکتی ہے
اگر سائنسی نظریات ہمارے مذہب سے متصادم ہوں تو کیا کہیں گے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر سائنسی نظریات ہمارے مذہب سے متصادم ہوں تو کیا کہیں گے؟
مذہب ہمیں سوچنے کا کہتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیئے۔ مذہب اور سائنس کو جب ہم ملا کر ایک نیا ملغوبہ تیار کرتے ہیں تو وہ نہ مذہب رہتا ہے اور نہ ہی سائنس۔ وہ چیز گڑبڑ پیدا کرتی ہے۔ عین یہی کام ہارون صاحب کرتے ہیں
میں نے ذاتی طور پر کہیں بھی مذہب اور سائنس کو متصادم نہیں دیکھا۔ مذہب ہمیں زندگی گزارنے کا ایک سلیقہ ایک شعور دیتا ہے۔ آپ چند مثالیں دیجیئے کہ جہاں سائنس اور مذہب کا آپس میں ٹکراؤ ہوا ہو اور وہ ٹکراؤ اس نوعیت کا ہو کہ ہمیں اپنے ایمان کی فکر پڑ جائے
یہ مراسلہ جات میں نے محض ایک علمی بحث کے خیال سے لکھے ہیں، ہرگز یہ نہ سمجھئے گا کہ میں ہتک کا مرتکب ہو رہا ہوں
 
مذہب ہمیں سوچنے کا کہتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیئے۔ مذہب اور سائنس کو جب ہم ملا کر ایک نیا ملغوبہ تیار کرتے ہیں تو وہ نہ مذہب رہتا ہے اور نہ ہی سائنس۔ وہ چیز گڑبڑ پیدا کرتی ہے۔ عین یہی کام ہارون صاحب کرتے ہیں
میں نے ذاتی طور پر کہیں بھی مذہب اور سائنس کو متصادم نہیں دیکھا۔ مذہب ہمیں زندگی گزارنے کا ایک سلیقہ ایک شعور دیتا ہے۔ آپ چند مثالیں دیجیئے کہ جہاں سائنس اور مذہب کا آپس میں ٹکراؤ ہوا ہو اور وہ ٹکراؤ اس نوعیت کا ہو کہ ہمیں اپنے ایمان کی فکر پڑ جائے
یہ مراسلہ جات میں نے محض ایک علمی بحث کے خیال سے لکھے ہیں، ہرگز یہ نہ سمجھئے گا کہ میں ہتک کا مرتکب ہو رہا ہوں
اگر میں یہ سوچوں گا تو یہ آپ پر ظلم ہو گا :)
آپ کی عزت و احترام کی میرے دل میں کوئی کمی نہیں آئے گی ورنہ میں تو دیکھا ہے کہ یہاں اختلاف رائے کو انا کا مسلئہ بنا لیا جاتا ہے اور میں اسی سوچ سے بیزار ہوں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر میں یہ سوچوں گا تو یہ آپ پر ظلم ہو گا :)
آپ کی عزت و احترام کی میرے دل میں کوئی کمی نہیں آئے گی ورنہ میں تو دیکھا ہے کہ یہاں اختلاف رائے کو انا کا مسلئہ بنا لیا جاتا ہے اور میں اسی سوچ سے بیزار ہوں :)
بالکل بجا فرمایا۔ سائنس میں یہ بہت اچھی خوبی ہے کہ اس میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں۔ آپ اپنی بات کو ثبوت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں تو جلد یا بدیر اسے مان لیا جاتا ہے۔ اگر نہ بھی مانا جائے تو بھی انا کا مسئلہ نہیں بنتا۔ مذہب کے بارے بحث کرتے ہوئے یہ بات مفقود ہے۔ اس ضمن میں ایک چھوٹا سا لطیفہ پیش کرتا ہوں
کچھ عرصہ قبل ایک دوست سے بات ہو رہی تھی جو کہ مقامی فننش عیسائی ہیں۔ تاہم ان کے بقول وہ لادین ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ مذہب کے نام پر ہمارے ذہن میں جو معلومات بھری جاتی ہیں، وہ ہم ویسے ہی مانتے ہیں جیسے بتائی جاتی ہیں۔ اس میں سوچ یا تحقیق کا کوئی عنصر نہیں ہوتا۔ انہیں جوش چڑھا کہ مثال دو
میں نے کہا کہ آپ لادین ہیں۔ آپ کی سوچ کافی سائنسی ہے۔ یہ بتائیے کہ کیا ایک عورت ایک گھوڑے کو جنم دے سکتی ہے۔ فوری جواب ملا نہیں
پھر پوچھا کہ کیا ایک عورت ایک مکھی کو جنم دے سکتی ہے؟ فوری جواب ملا نہیں
پھر پوچھا کہ کیا ایک عورت ایک ہاتھی کو جنم دے سکتی ہے؟ فوری جواب ملا نہیں
پھر پوچھا کہ کیا ایک عورت "خدا" کو جنم دے سکتی ہے؟ کچھ دیر کی آں، ہمم، کھانسی، کھنگورے وغیرہ کے بعد جواب ملا میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکتا یا کم از کم ممکن ہونا نہیں چاہیئے
 
بالکل بجا فرمایا۔ سائنس میں یہ بہت اچھی خوبی ہے کہ اس میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں۔ آپ اپنی بات کو ثبوت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں تو جلد یا بدیر اسے مان لیا جاتا ہے۔ اگر نہ بھی مانا جائے تو بھی انا کا مسئلہ نہیں بنتا۔ مذہب کے بارے بحث کرتے ہوئے یہ بات مفقود ہے۔ اس ضمن میں ایک چھوٹا سا لطیفہ پیش کرتا ہوں
کچھ عرصہ قبل ایک دوست سے بات ہو رہی تھی جو کہ مقامی فننش عیسائی ہیں۔ تاہم ان کے بقول وہ لادین ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ مذہب کے نام پر ہمارے ذہن میں جو معلومات بھری جاتی ہیں، وہ ہم ویسے ہی مانتے ہیں جیسے بتائی جاتی ہیں۔ اس میں سوچ یا تحقیق کا کوئی عنصر نہیں ہوتا۔ انہیں جوش چڑھا کہ مثال دو
میں نے کہا کہ آپ لادین ہیں۔ آپ کی سوچ کافی سائنسی ہے۔ یہ بتائیے کہ کیا ایک عورت ایک گھوڑے کو جنم دے سکتی ہے۔ فوری جواب ملا نہیں
پھر پوچھا کہ کیا ایک عورت ایک مکھی کو جنم دے سکتی ہے؟ فوری جواب ملا نہیں
پھر پوچھا کہ کیا ایک عورت ایک ہاتھی کو جنم دے سکتی ہے؟ فوری جواب ملا نہیں
پھر پوچھا کہ کیا ایک عورت "خدا" کو جنم دے سکتی ہے؟ کچھ دیر کی آں، ہمم، کھانسی، کھنگورے وغیرہ کے بعد جواب ملا میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکتا یا کم از کم ممکن ہونا نہیں چاہیئے
:laughing3:
 

ماسٹر

محفلین
کوپرنکس سے پہلے تمام کے تمام مسلمان ماہر فلکیات اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے- تو کیا اس زمانے کے مسلمان قرآنی تعلیمات سے ناواقف تھے؟ ان کی کیا بات کریں، جدید دور میں بھی سعودی مفتی اعظم بن باز (وفات 1999) کا یہی عقیدہ رہا ہے۔

جیسا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے کہ سائنس کے مطابق آسمان گول ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سائنس کو تو کائنات کی حدود کا علم نہیں ہے تو گول ہونا یا بیضوی شکل میں ہونا تو بہت بعد میں آتا ہے۔

قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اس لئے اس میں سے سائنس کی چیزیں اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔


قرآن خدا تعالٰے کا قول ہے اور یہ کائنات اس کا فعل ۔ ان میں تضاد ممکن نہیں ہے ۔ ہاں ہماری سمجھ اور علم میں کمی ہوسکتی ہے -
 

زیک

مسافر
مذہب کی روشنی میں سائنس والے مضامین اسلام اور عصر حاضر زیمے میں اچھے لگتے ہیں۔ خدارا اس زمرے کو اصلی اور صحیح سائنس کے لئے رہنے دیں۔
 
Top