جاویداقبال
محفلین
جلددوم۔گیارہواں پارہ
باب نمبر1۔لوگوں سے زبانی شرط کرنا۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا،کہاہم کوہشام بن یوسف نے خبردی،ان سے ابن جریح نے بیان کیاکہامجھ کویعلی بن مسلم اورعمروبن دینارنے خبردی ان دونوں نے سعیدبن جبیرسے روایت کی اوران میں ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتاہے،ابن جریح نے کہامجھ سے یہ حدیث یعلیٰ اورعمروکے سوااوروں نے بھی بیان کی وہ سعیدبن جبیر(رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہاہم عبداللہ بن عباس کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے کہامجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )نے فرمایاخضرسے جوجاکرملے تھے وہ موسیٰ پیغمبر(علیہ السلام)تھے،پھراخیرتک حدیث بیان کی خضرنے (موسیٰ سے)کہامیں نے نہیں تھاتم میرے ساتھ نہیں ٹھہرسکتے اورموسیٰ (علیہ السلام) نے پہلاسوال توبھول کرکیاتھااوربیچ کاسوال شرط کے طورپر،اورتیسراجان بوجھ کر،موسیٰ(علیہ السلام)نے (خضرسے)کہابُھول چوک پرمیری گرفت نہ کرونہ میراکام مشکل بناؤ،دونوں کوایک لڑکاملاخضرنے اس کومارڈالاپھرآگے چلے توایک دیواردیکھی جوٹوٹنے کو تھی۔خضرنے اس کوسیدھاکردیا،ابن عباس نے یوں پڑھاہے ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔
باب نمبر2:باب ولاء میں شرط لگانا۔
ہم سے اسمعٰیل نے بیان کیاکہاہم سے امام مالک نے،انہوںنے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے باپ سے،انہوں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہم) سے انہوں نے کہابریرہ(رضی اللہ عنہم) میرے پاس آئی اورکہنے لگی میں نے اپنے مالکوں سے نواوقیہ (چاندی)پرکتابت کی ہے۔ہرسال ایک اوقیہ دیناٹھہراہے تومیری مددکرو،حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہم)نے کہااگرتیرے مالک پسندکریں تومیں نواوقیہ ان کوایک دم گن دیتی ہوں اورتیری ولاء میں لوںگی،بریرہ (رضی اللہ عنہم) اپنے مالکوں کے پاس گئی اوران سے کہاانہوں نے نہ مانا،آخروہ ان کے پاس سے لوٹ آئی،اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے اس نے کہامیں نے اپنے مالکوں سے تمہاراپیغام بیان کیاہے وہ نہیں سنتے،کہتے ہیں ہم ولاء ہم لیں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ سن لیااورحضرت عائشہ(رضی اللہ عنہم) نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ساراقصہ بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاتوبریرہ (رضی اللہ عنہم) کوخریدلے اورولاء کی شرط انہی کے لیے کرلے(کہ تم ہی لینا)ولاء تواسی کوملے گی جوآزادکرے گا،حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہم) نے ایساہی کیا۔پھرآنحضر ت صلی اللہ علیہ والہ وسلم (خطبہ سنانے کو)لوگوں میں کھڑے اللہ کی تعریف اوراس کی خوبی بیان کی پھرفرمایابعضے آدمیوں کوکیاہوگیاہے (کچھ جنون تونہیں ہے)وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیںجن کااللہ کی کتاب میں پتہ نہیں ہے۔جوشرط اللہ کی کتاب میں نہ ہووہ لغوہے،اگرایسی سوشرطیں ہوں اللہ کاجوحکم ہے وہی عمل کے زیادہ لائق ہے اوراللہ ہی کی شرط پکی ہے اورولاء اسی کوملے گی جوآزادکرے۔
َباب نمبر3: اگرز مین کامالک مزارعت میں یہ شرط لگائے کہ جب چاہے کاشتکارکوبے دخل کردے۔
ہم سے ابواحمد(مراربن حمویہ)نے بیان کیاکہاہم سے محمدبن یحییٰ ابوعسٰان کنانی نے کہاہم کوامام مالک نے خبردی انہوںنے نافع سے انہوں نے ابن عمرسے جب خیبرکے یہودیوں نے عبداللہ بن عمرکے ہاتھ پاؤں مروڑدیے(ٹیڑھے کردیے)توحضرعمر(رضی اللہ عنہ)خطبہ پڑھنے کوکھڑے ہوئے‘کہنے لگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے خیبرکے یہودیوں سے بٹائی کامعاملہ کیاتھااورفرمایاتھاجب تک پرودگارتم کویہاں تک رکھے گاہم بھی تم کوقائم رکھیں گے۔اورعبداللہ بن عمراپنامال وہاں لینے گیاتویہودیوں نے رات کواس پرحملہ کیا۔اس کے ہاتھ پاؤں مروڑڈالے تم ہی سمجھوخیبرکے یہودیوں کے سواہماراکون دشمن ہے۔وہی ہمارے دشمن ہیں‘ان ہی پرہماراگمان ہے میں ان کاوہاں نے نکال دینامناسب سمجھتاہوں حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے یہ قصدکرلیاتوابوحقیق یہودی کاایک لڑکاان کے آیا،کہنے لگااے امیرالمؤمنین تم کونکالتے ہواورمحمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے توہم کووہاں ٹھہرایاتھااورہم سے بٹائی کامعاملہ کیاتھااورشرط کرلی تھی (کہ تم یہیں رہنا)حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاکیاتوسمجھتاہے کہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کافرمانابدل گیا،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے تجھ سے فرمایاتھااس وقت تیراکیاحال ہوناہے جب توخیبرسے نکالاجائے گا۔راتوں رات تجھ کوتیری اونٹنی لیے پھرے گی۔وہ کہنے لگا،یہ توابوالقاسم نے دل لگی سے کہاتھا،حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاارے خداکے دشمن توجھوٹاہے آخرحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے یہودیوں کووہاں سے نکال دیااورپیداوارمیں جوان کاحصہ تھااس کی قیمت ان کودلوادی کچھ نقدسامان دیااونٹ پالان رسیاں وغیرہ اس حدیث کوحمادبن سلمہ نے بھی عبیداللہ سے روایت کیا،میں سمجھتاہوں انہوں نے فافع سے انہوں نے ابن عمرسے انہوں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے مختصرطورپر۔
باب نمبر4: جہادمیں شرطیں لگانااورکافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اورشرطوں کالکھنا۔
ہم سے سے عبداللہ بن محمدمسندی نے بیان کیا،کہامجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیاکہاہم کومعمرنے خبردی کہامجھ کوزہری نے کہامجھ کوعروہ بن زبیرنے انہوں نے مسوربن مخرمہ اورمردان سے ان دونوں میں ہرایک دوسرے کی روایت کوسچ بتلاتاہے ۔ان دونوںنے کہاآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جب حدیبیہ کی صلح ہوئی اس زمانہ میں(مکہ کی طرف)نکلے ابھی رستے میں ہی تھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاخالدبن ولید قریش کے (دوسو)سوارلیے ہوئے غمیم میں ہے یہ قریش کامقدمۃ الجیش (ہراول گارڈ)ہے توتم داہنی طرف کارستہ لو(تاکہ خالدکوخبرنہ ہواورتم مکہ کے قریب پہنچ جاؤ)توخداکی قسم خالدکوان کی خبرہی نہیں ہوئی یہانتک کہ اس کے سواروں نے گردکی سیاہی دیکھی،خالددوڑاقریش کوڈارنے کے لئے اورآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی چلے جب اس گھاٹی پرپہنچے جہاں سے مکہ پراترتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگ حل حل کہنے لگے،لیکن وہ نہ ہلی،لوگ کہنے لگے قصوااڑگئی،قصوااڑگئی۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاقصوانہیں اڑی اوراس کی عادت بھی اڑنے کی نہ تھی،مگرجس (خدا)نے اصحاب الفیل کوروکاتھا،اسی نے قصواکوروک دیاپھرفامایاقسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکہ والے مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیںجس میں اللہ کے حرم کی بڑائی ہوتومیں اس کومنظورکروں گا۔پھرآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اس کوڈانٹاوہ اٹھ کھڑی ہوئی۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) مکہ والوں کی طرف مڑگئے اورحدیبیہ کے پرلے کنارے ایک گڑھے پراترے جس میں پانی کم تھالوگ تھوڑاتھوڑاپانی اس میں سے لیتے تھے۔انہوں نے پانی کوٹھہرنے ہی نہیں دیاسب کھینچ ڈالااورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے پیاس کاشکوہ ہواآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنی ترکش میں سے ایک تیرنکالااورفرمایااس کواس گڑھے میں گاڑدو۔قسم خداکی (تیرگاڑتے ہی)اس کاپانی بڑے زورسے جوش مارنے لگااوران کے لوٹنے تک یہی حال رہاخیرلوگ اس حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کولیئے ہوئے آن پہنچا۔وہ تہامہ والوں میں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاخیرخواہ محرم رازتھاکہنے لگامیں نے کعب بنی لوئی اورعامربن لوئی کوچھوڑاوہ حدیبیہ کے بہت پانی والے چشموں پراترے ہیں ان کے ساتھ بچے والی اونٹنیاں ہیں(یابال بچے ہیں)وہ آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے لڑنااورمکہ سے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوروکناچاہیت ہیں۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاہم کوروکناچاہتے ہیں۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاہم توکسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرے کی نیت سے آئے ہیں اورقریش کے لوگ لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں،ان کوبہت نقصان پہنچاہے اگران کی خوشی ہے تومیں ایک مدت مقررکرکے ان سے صلح کرتاہوں وہ دوسرے لوگوں کے معاملہ میں دخل نہ دیں اگردوسرے لوگ مجھ پرغالب ہوئے توان کی مرادبرآئی اگرمیں غالب ہواتوان کی خوشی چاہیں تواس دین میں شریک ہوجائیں جس میں لوگ شریک ہوئے (یعنی کہ مسلمان ہوجائیں)نہیں تو(چندروز)ان کوآرام توملے گا۔اگروہ یہ بات نہ مانیں توقسم خداکی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تواس دین پران سے لڑوں گایہاں تک کہ میری گردن جائے اوراللہ ضروراپنے دین کوپوراکرے گا۔بدیل نے یہ سن کرکہامیں آپ(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کاپیغام ان کوپہنچاتاہوں وہ قریش کے کافروں کے پاس گئے اورکہنے لگے میں اس شخص کے(آنحضرت (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کے)پاس سے آتاہوں انہوں نے ایک بات کہی ہے کہوتوتم سے کہوں ان کے جاہل بے وقوف کہنے لگے ہم کوکوئی ضرورت ان کی بات سننے کی نہیںہے جوعقل والے تھے کہنے لگے بھلابتلاؤتوکیابات سن کرآئے۔بدیل نے بیان کیاجوآنحضرت(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) نے فرمایاتھا۔وہ ان کوسنادیااتنے میں عروہ بن مسعودتقفی کھڑاہوا،کہنے لگا،میری قوم کے لوگوکیاتم مجھ پرباپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے،انہوں نے کہاکہ بے شک رکھتے ہیںعروہ نے کہاکیامیں بیٹے کی طرح تمہاراخیرخواہ نہیں ہوں۔انہوںنے کہاکیوں نہیںہے عروہ نے کہاتم مجھ پرکوئی شبہ رکھتے ہوانہوں نے کہانہیں،عروہ نے کہاتم کومعلوم نہیں میںنے عکاظ والوں کوتمہاری مددکے لیئے کہاتھاجب وہ یہ نہ کرسکے تومیں اپنے بال بچے جن لوگوں نے میراکہناسناان کولے کرتمہارے پاس آگیاانہوں نے کہابے شک عروہ نے کہااس شخص یعنی بدیل نے تمہاری بہتری کی بات کہی ہے۔مجھ کومحمد(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کے پاس جانے دو،قریش نے کہااچھاجاؤعروہ آیااورآنحضرت(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) سے باتیں کرنے لگا۔آپ (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) نے اس سے بھی وہی گفتگوکی جوبدیل سے کی تھی۔عروہ یہ سن کرکہنے لگامحمد(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) بتلاؤتواگرتم نے اپنی قوم کوتباہ کردیا(توکون سی اچھی بات ہوئی)تم نے کسی عرب کے شخص کوسناہے تم سے پہلے جس نے اپنی قوم کوتباہ کیاہواورجوکہیں دوسری بات ہوئی(یعنی قریش غالب ہوئے)تومیں قسم خداکی تمہارے ساتھیوں کے منہ دیکھتاہوںیہ پنجمیل لوگ یہی کریں گے تم کوچھوڑکرچل دیں گے یہ سن کرابوبکرصدیقَرضی اللہ عنہ)(کوغصہ آیاانہوں نے کہا)نے کہاابے جالات کاٹنہ چاٹ کیاہم حضرت کوچھوڑکربھاگ جائیں گے عروہ نے پوچھایہ کون ہے؟لوگوں نے کہایہ ابوبکر(رضی اللہ عنہ)ہیں عروہ نے کہااگرتمہارامجھ پراحسان نہ ہوتاجس کامیں نے بدلہ نہیں کیاہے تومیں تم کوجواب دیتا،خیرپھرعروہ باتیں کرنے لگااورجب بات کرتاتوآنحضرت(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کی مبارک ڈاڑھی تھام لیتا۔اس وقت مغیرہ بن شعبہ تلوارلئے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کے پاس سرپرکھڑے تھے۔ان کے سرپرخودتھا۔جب عروہ اپناہاتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کی ڈاڑھی (مبارک)کی طرف بڑھاتاتومغیرہ تلوارکی کوتھی اس کے ہاتھ پرمارتے اورکہتے اپناہاتھ آپ (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کی ڈاڑھی سے الگ رکھ۔آخرعروہ نے اوپرسراٹھاکردیکھااورپوچھایہ کون شخص ہے لوگوں نے کہامغیرہ بن شعبہ ہیں۔عروہ نے کہاارے دغابازکیامیں نے تیری دغابازی کی سزاسے تجھ کونہیں بچایا۔ہوایہ تھاکہ مغیرہ جاہلیت کے زمانے میں کافروں کی ایک قوم کے پاس رہتے تھے۔پھران کوقتل کرکے ان کامال لوٹ کرچلے آئے۔اورمسلمان ہوگئے۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) نے فرمایامیں تیراسلام توقبول کرتاہوں لیکن جومال تولایاہے اس سے مجھ کوغرص نہیں(کیونکہ وہ دغابازی سے ہاتھ آیاہے۔میں نہیں لے سکتا)خیرپھرعروہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اصحاب کودونوں آنکھوں سے گھورنے لگا۔راوی نے کہاخداکی قسم آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے جب کھنکارااوربلغم نکالا،توآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اصحاب (رضوان اللہ)میںکسی نے بھی اپنے ہاتھ پرلے لیااوراپنے منہ اوربدن پرمل لیا(بطورتبرک کے)اورجب آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے وضوکیاتوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے وضوکاپانی لینے کے لیے قریب تھاکہ لڑمریں اورجب آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے بات کی تواپنی آوازیں پست کرلیں اورادب سے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوگھورکرنہیں دیکھتے تھے خیرعروہ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ گیااورکہنے لگامیں توبادشاہوں کے پاس جاچکاہوں اورروم اورایران اورحبش کے بادشاہ پاس بھی خداکی قسم میں نے نہیں دیکھاکہ کسی بادشاہ کے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی تعظیم ان کے اصحاب (رضوان اللہ)کرتے ہیں۔اگرانہوں نے تھوکاتوکوئی اپنے ہاتھ میں لیتاہے اوراپنے منہ پراوربدن پرمل لیتاہے۔اورجب وہ کوئی حکم دیتاہے تولپکتے ہوئے فوراًان کاحکم بجالاتے ہیں اورجب وضوکرتے ہیں تووضوکے پانی کے لیئے قریب ہوتاہے لڑمریں گے جب وہ بات کرتے ہیںیہ اپنی آوازیں دھیمی کرلیتے ہیں ادب اورتعظیم سے ان کوگھورکرنہیں دیکھتے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے جوبات کہی ہے وہ تمہارے فائدے کی ہے اس کومان لوبنی کنانہ کاایک شخص بولامجھے ان کے پاس جانے دولوگوں نے کہااچھاجاجب وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اصحاب(رضوان اللہ)کے پاس آیاتوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بول اٹھے یہ شخص جوآرہاہے ان لوگوں میں سے ہے جوبیت اللہ کی قربانی کی عظمت کرتے ہیں توقربانی کے جانوراس سامنے کردووہ جانوراس کے سامنے لائے گئے اورصحابہ (رضوان اللہ)نے لبیک پکارتے ہوئے اس کااستقبال کیاجب اس نے یہ حال دیکھاتوکہہ اٹھاسبحان اللہ ان لوگوں کوکعبے سے روکنامناسب نہیں اورقوم والوں کے پاس لوٹ گیابولااونٹوں کے گلے میں نے ہارپڑے کوہان چرے دیکھامیں بیت اللہ سے ان کاروکنامناسب نہیں جانتاپھران میں مکرزبن حفص ایک شخص تھاوہ اٹھاوہ کہنے لگامجھ کوجانے دولوگوںنے کہااچھاجاوہ جب آیاتوآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایایہ توبدکارشخص ہے خیروہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) باتیں کرنے لگااس کے بات کرنے میں سہیل بن عمرونامی ایک اورشخص قریش کی طرف آن پہنچامعمرنے کہامجھ کوایوب نے خبردی انہوں نے عکرمہ سے کہ جب سہیل بن عمروآیا،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے (فال نیک کے طورپر)فرمایااب تمہاراکام سہل ہوگیا(بن گیا)معمرنے کہازہری نے کہاسہیل کہنے لگااچھالائیے ہمارے اورتمہارے درمیان ایک صلح نامہ لکھاجائے آپ نے منشی کوبلایااورفرمایالکھ بسم اللہ الرحمن الرحیم،سہیل کہنے لگارحمن میں نہیں جانتاکون ہے لیکن عرب کے دستورکے موافق (شروع میں)باسمک اللہم لکھوائیے جیسے پہلے آپ ہی لکھوایاکرتے تھے مسلمان (لوگوں کوضدآئی وہ)کہنے لگے ہم توقسم خداکی بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھوائیں گے۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے(منشی)سے فرمایاباسمک اللہم ہی لکھ پھریوں لکھوایا،یہ وہ صلح نامہ ہے جس پرمحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول،اتنالکھواناتھاکہ سہیل بولاخداکی قسم اگرہم کو یقین ہوتاکہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہیں توآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوکعبے سے کبھی نہ روکتے نہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے لڑتے یوں لکھوائیے جس پرمحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) عبداللہ کے بیٹے یہ سن کرآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاخداکی قسم میں اللہ کارسول ہوں اگرتم مجھ کوجھٹلاتے ہوخیرمحمدبن عبداللہ ہی لکھو،زہری نے کہاآپ نے مجھ سے جھگڑانہ کیاوہ اس وجہ سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پہلے فرماچکے تھے قریش مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیں گے جس سے اللہ کے ادب والی چیزوں کی تعظیم ہوتومیں بے تامل منظورکروںگاخیرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے آگے یہ لکھوایامحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) عبداللہ کے بیٹے نے اس پرصلح کی کہ تم لوگ ہم کوبیت اللہ میں جانے دوگے ،ہم وہاں طواف کریں گے۔سہیل نے کہا(یہ نہیں ہوسکتا)اگرہم تم کوابھی جانے دیں توسارے عربوں میں یہ چرچاہوجائے گاہم دب گئے لیکن تم سال آئندہ آؤ(حج کرو)خیرپھرلکھناشروع ہواتوسہیل نے کہایہ شرط لکھو،ہم میں سے اگرکوئی شخص گوتمہارے دین پرہوتمہارے پاس آجائے توتم اس کوہمارے پاس پھیردوگے مسلمانوں نے کہاسبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ مسلمان ہوکرآئے،اورمشرکوں کے حوالے کردیاجائے۔لوگ یہی باتیں کررہے تھے،اتنے میں سہیل بن عمروکابیٹاابوجندل پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہوئے آہستہ آہستہ چلتاہواآیاوہ مکہ کے نشیب کی طرف سے نکل بھاگاتھااس نے اپنے تئیں مسلمانوں پرڈال دیا(ان کی پناہ چاہی)سہیل نے کہامحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یہ پہلاشخص ہے جوشرط کے موافق تم کوپھیردیناچاہیئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاابھی توصلح نامہ پورالکھاہی نہیں گیا۔(ابھی اس شرط پرعمل کیسے ہوسکتاہے)سہیل نے کہاتوپھرصلح ہی نہیں کرنے کاکبھی نہیں کرنے کا۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایااچھاخاص ابوجندل کی پروانگی دے۔سہیل نے کہامیں کبھی نہیں دینے کا،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایانہیں دے وہ بولانہیں دیتا،مکرزبولااچھامیں پروانگی دیتاہوں (لیکن اس کی بات نہ چلی)آخرابوجندل کہنے لگا(یہ کیاغضب ہے)میں مسلمان ہوکرآیاہوں،اورکافروں کے حوالے کیاجاتاہوں۔دیکھومجھ پرکیاکیاسختیاں ہوئی ہیں۔اوراس کواللہ کی راہ میں سخت تکلیف دی گئی تھی۔حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)بن خطاب کہتے ہیں یہ حال دیکھ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آیامیں نے کہاکیاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے سچے پیغمبرنہیں ہیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاکیوں نہیں،میں نے کہاکیاہم حق پراورہمارے دشمن ناحق پرنہیں ہیں،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایابے شک،میں نے کہاتوپھرہم اپنے دین کوکیوں ذلیل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایامیں اللہ کارسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہوںاورمیں اس کی نافرمانی نہیں کرتا،وہ میری مددکرے گامیںنے کہاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) فرماتے تھے کہ ہم کعبے پاس پہنچیں گے اورطواف کریں گے۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایابے شک مگرمیںنے یہ کب کہاتھاکہ اسی سال یہ ہوگامیں نے کہاحقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ تونہیں فرمایاتھاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاتوتم کعبے کے پاس (ایک دن ضرور)پہنچوگیاس کاطواف کروگے۔حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاپھرمیں حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)کے پاس آیااورمیںنے کہاکیایہ اللہ کے سچے پیغمبرنہیںہیں،انہوںنے کہابے شک ہیں میں نے کہاکیاہم حق پراورہمارے دشمن ناحق پرنہیں ہیں انہوں نے کہاکیوں نہیں ہیں میں نے کہاپھرہم اپنے دین کوکیوں ذلیل کریں۔ابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے کہابھلے آدمی وہ اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہیں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرتے،اللہ ان کامددگارہے جوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حکم دیں بجالاکیونکہ خداکی قسم آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حق پرہیں میں نے کہامیں نے کہاکیاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم خانہ کعبہ کے پاس پہنچیں گے طواف کریں گے ،ابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے کہابیشک لیکن آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ کہاتھاکہ اسی سال ہوگامیںنے کہانہیں یہ تونہیں کہاتھاانہوںنے کہاتوایک دن تم کعبے کے پاس پہنچوگے،طواف کروگے،زہری نے کہاحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہایہ جوبے ادبی کی میں نے گفتگوکی اس گناہ کواتارنے کے لیئے میں نے کئی نیک عمل کیئے۔خیرجب صلح نامہ لکھ کرپوراہواتوآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنے اصحاب (رضوان اللہ)سے فرمایااٹھواونٹوں کی نحرکرو، سرمنڈواؤ۔کوئی یہ سن کرنہ اٹھایہاں تک کے تین بارآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہی فرمایا۔جب کوئی نہ اٹھاتوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بی بی سلمہ(رضی اللہ عنہم)کے پاس گئے۔اوران لوگوں کی شکایت کی ،ام سلمہ(رضی اللہ عنہم)نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کیاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) چاہتے ہیں کہ لوگ ایساکریں۔توایساکیجیئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کسی سے کچھ نہ کہیئے،اٹھ کراپنے اونٹوں کونحرکرڈالیئے اورحجام کوبلواکرحجامت بنوایئے،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اٹھے اورکسی سے بات نہیں کی ،اپنے اونٹوں کونحرکیااوراصلاح سازکوبلاکرسرمنڈایا،جب لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوایساکرتے دیکھاسب اٹھے اورنحرکیااورایک دوسرے کاسرنڈنے لگے،قریب تھاکہ ہجوم کی وجہ سے ایک دوسرے کوہلاک کریںخیراس کے بعدچندمسلمان عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوئیں،اللہ نے (سورۃ ممتحنہ)کی یہ آیت اتاری،مسلمانوں جب مسلمان عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں توان کی جانچواخیرآیت بعصم الکوٰفرتک،حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے اس دن اپنی دومشرک عورتوں کوطلاق دے دی۔ان میں سے ایک سے معاویہ بن ابی سفیان نے نکاح کرلیااوردوسری سے صفوان بن امیہ نے۔پھرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) مدینہ کولوٹ گئے۔اس کے بعد(مکہ سے)ایک شخص ابوبصیرنامی مسلمان ہوکرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آیاوہ قریشی،قریش کے لوگوںنے اس کوواپس بلانے کے لیئے دوآدمیوں کوبھیجا،اورکہنے لگے جوعہدہم میں اورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں ہے اس کے موافق عمل کیجیئے۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ابوبصیرکوان دوشخصوں کے ساتھ کردیاوہ اس کولے کرنکلے ،جب ذوالحلیفہ میں پہنچے توایک درخت کے تلے ٹھہرکرکھجوریں جوان کے ساتھ تھیں کھانے لگے،ابوبصیرنے ان دونوں میں سے ایک سے کہاقسم خداکی تیری تلواربہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔اس نے سونت کرکہابے شک عمدہ ہے،میں اس کوآزماچکاہوں۔ابوبصیرنے کہاذرامجھے دیکھنے دو۔اس نے دے دی۔ابوبصیرنے اس کومارکرٹھنڈاکردیا۔اس کاساتھی ڈرکے مارے بھاگا۔مدینہ پہنچامسجدمیں بھاگتاہواآیا۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اس کودیکھ کرفرمایا یہ ڈراہوامعلوم ہوتاہے۔جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس پہنچاتوکہنے لگا،قسم خدکی میراساتھی ماراگیا۔اورمیں بھی نہیں بچوں گا۔اتنے میں ابوبصیربھی آپہنچا۔اورکہنے لگایارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاعہداللہ نے پوراکردیا۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے مجھے پھیردیا۔مگراللہ نے مجھ کوان سے نجات دلوائی۔یہ سن کرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایامادربختالڑائی بھڑکاناچاہتاہے۔اگرکوئی اس کی مددکرے۔یہ سنتے ہی ابوبصیرسمجھ گیاکہ آپ پھراس کولوٹادیں گے۔اورسیدھانکل کرسمندرکے کنارے پہنچا۔ابوجندل بھی مکہ سے بھاگ کرابونصیرسے آن کرمل گیا۔اب جوقریش کاآدمی مسلمان ہوکرنکلتا،وہ ابوبصیرکے پاس چلاجاتا،یہاںتک کہ یہ شروع کیاکہ قریش کاجوقافلہ شام کے ملک کوآجاتااس کورستے میں وہ روکتے اورلوٹ مارکرتے،آخرقریش نے (مجبورہوکر)آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوبھیجاکہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ابوبصیرکوبلابھیجیں اوراب سے جوشخص مسلمان ہوکرآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آئے اس کوامن ہے (آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) واپس نہ دیجئے)خیرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ابوبصیرکوبلالیااس وقت اللہ تعالی نے(سورۃ فتح کی)یہ آیت اتاری وہی خداہے جس نے عین مکہ کے بیچابیچ تم کوان پرفتح دے کران کے (کافروں کے)ہاتھ تم سے روک دیے اورتمہارے ہاتھ ان سے اخیرآیت حمیۃ الجاہلیۃ تک حمیۃالجاہلیۃ(بات کے بیچ نادانی کی ہٹ)وہ یہ تھی کہ انہوںنے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کونبوت کونہ مانااوربسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنے دی اورمسلمانوں کوکعبے میںجانے سے روک دیااورعقیل نے نہ لکھنے دی اورمسلمانوں کوکعبے میں جانے سے روک دیااورعقیل نے زہری سے روایت کی عروہ نے کہامجھ سے حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہم)نے بیان کیاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جوعورتیں مسلمان ہوکرآتی تھیں ان کوجانچتے تھے(ان کاامتحان لیتے تھے)زہری نے کہااورہم کویہ حدیث پہنچی جب اللہ تعالی نے یہ حکم اتاراکہ کافروں کی بیبیاں جوہجرت کرکے مسلمانوں پاس آجائیں تومسلمان کافروں کووہ خرچہ پھیردیں جوانہوں نے ان بیبیوں پرکیاہے اوریہ حکم بھی کیاہے کہ مسلمان کافرعورتوں کونکاح میں نہ رکھیں توحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے اپنی دوجورؤوں یعنی قریبہ بنت ابی امیہ اوربنت جرول کوطلاق دے دی،پھرمعاویہ نے قریبہ سے نکاح کرلیااورابوجہم نے بیت جرول سے ،اس کے بعدایساہواکہ کافروں نے اس خرچہ کے اداکرنے سے انکارکیاجومسلمانوں نے اپنی عورتوں پرکیاتھاتب اللہ تعالی نے(سورت ممتحنہ کی)یہ آیت اتاری،اگرتمہاری کچھ عورتیں کافروں کے پاس چلی جائیں اورتم کوکافران کاخرچہ نہ دیں ،تمہاری باری آن پہنچے تواس کاتدارک یہ ہے کہ کافروں کی جوعورتیں مسلمان ہوکرہجرت کریں اوران سے کوئی مسلمان نکاح کرے توان کامہران عورتوں کونہ دے بلکہ وہ مہران مسلمانوں کودیاجائے جن کی عورتیں کافروں کے پاس بھاگ گئی ہوں،اورہم تونہیں جانتے کہ کوئی عورت ایمان لانے اورہجرت کرنے کے بعدمرتدہوگئی ہو۔اورزہری نے کہاہم کویہ حدیث پہنچی کہ ابوبصیربن اسیدثقفی مسلمان ہوکرمدت صلح کے اندرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آگیا۔اس وقت اخنس بن شریق نے (مکہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) )کولکھاکہ ابوبصیرکوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھیج دیجئیے پھریہی حدیث بیان کی اخیرتک۔
باب نمبر5: قرض میں شرط لگانا۔
اورلیث نے کہامجھ سے جعفربن ربیعہ نے بیان کیا،انہوںنے عبدالرحمن بن ہرمزسے انہوںنے
ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے،انہوںنے آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ایک شخص کاذکرکیا(بنی اسرائیل میں)اس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ہزاراشرفیاں قرض مانگیں اس نے ایک مدت مقررکرکے اس کودیں اورعبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)اورعطاء بن ابی رباح نے کہااگرقرض میں مدت کرے تویہ جائزہے۔
باب نمبر6: باب مکاتب کابیان اورشرطیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہیں ان کاجائزنہ ہونا۔
اورجابربن عبداللہ نے کہا،مکاتب غلام لونڈی اوران کے مالکوں میں جوشرطیں ہوں۔وہ معتبرہوں گی اورعبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)یاحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاجوشرط اللہ کی کتاب کے خلاف ہووہ باطل ہے اگرسوبارشرط لگائے،امام بخاری نے کہایہ قول دونوں سے مروی ہے عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ )اورعمر(رضی اللہ عنہ)سے۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیاکہاہم سے سفیان بن عینیہ نے انہوںنے یحییٰ بن سعیدانصاری سے انہوں نے عمرہ سے انہوں نے عائشہ (رضی اللہ عنہم)سے انہوں نے کہابریرہ(رضی اللہ عہنم)ان کے پاس آئی اپنی کتابت میں مددچاہنے کو،انہوں نے کہااگرتوچاہتی ہے تومیںتیری کتابت کاروپیہ دیئے دیتی ہوں لیکن تیری ولاء میں لوں گی خیرجب آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)تشریف لائے توانہوں نے آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے اس کاتذکرہ کیا،آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاتوخریدلے اورآزادکردے۔ولاء اس کوملے گی جوآزادکرے ،اس کے بعدآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)منبرپرکھڑے ہوئے اورفرمایالوگوں کوکیاہوگیاہے ایسی ایسی شرطیں لگاتے ہیں جواللہ کی کتاب میں نہیں ہیں جوشخص ایسی شرط لگائے جواللہ کی کتاب میں نہیں ہے تواس سے کچھ فائد ہ نہ اٹھائے کااگرچہ سوباروہ شرط لگائے۔
باب نمبر7: اقرارمیں شرط لگانایااستثناء کرناجائزہے۔
اوران شرطوں کابیان جولوگوں میں عموماً جاری ہے (معاملات وغیرہ میں)اوراگرکوئی یوں کہے مجھ پرفلانے کے سودرہم نکلتے ہیں مگرایک یادوتوننانویں یااٹھانویں درہم دیناہوں گے۔
نمبر8:اورعبداللہ بن عوف نے ابن سیرین سے نقل کیاایک اونٹ والے سے کہاتواپنے اونٹ لاکرباندھ دے اگرمیں فلاں دن تک تیرے ساتھ سفرنہ کروں توتجھ کوسودرہم دوں گاپھراس دن تک نہ نکلاتوشریح قاضی نے یہ حکم دیاکہ جس نے خوشی سے کوئی شرط اپنے اوپرلگائی نہ زورزبردستی سے تووہ اس کوپوری کرناہوگی اورایوب سختیانی نے ابن سیرین سے نقل کیاایک شخص نے اناج بیچااورخریدارنے یہ اقرارکیااگرمیں بدھ تک تیرے پاس نہ آؤں (اپنامال قیمت دے کرنہ لے جاؤں) توبیع باقی نہ رہے گی،پھروہ بدھ تک نہ آیاشریح قاضی نے خریدارکے خلاف فیصلہ کیااورکہاتونے اپنے وعدہ خلاف کیا۔
نمبر9:وقف میں شرط لگانے کابیان
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیاکہاہم کوشعیب نے خبردی کہاہم سے ابوالزنادنے انہوں نے اعرج سے انہوں نے ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایااللہ کے ننانویں ایک کم سونام ہیں،جوکوئی ان کویادکرلے،وہ بہشت میں جائے گا۔
باب نمبر8:وقف میں شرط لگانے کابیان
ہم سے قیتبہ بن سعیدنے بیان کیاکہاہم سے محمدبن عبداللہ انصاری نے کہاہم سے عبداللہ بن عون نے کہامجھ کونافع نے خبردی انہوں نے عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)سے کہ حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)کوخیبرمیں ایک زمین ملی،وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے مشورہ کرنے آئے (کہ اس زمین کوکیاکروں)اورکہنے لگے یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں نے خیبرمیں ایک زمین پائی، جس سے بڑھ کرعمدہ مال میں نے کبھی نہیں پایاتوآپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاتواگرچاہے تواصل زمین وقف کردے اس کی آمدنی خیرات ہوتی رہے۔راوی نے کہاتوحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے اسے وقف کردیااس شرط پرکہ وہ زمین نہ بیع ہوسکے گی نہ ہبہ نہ کسی کوترکے میں ملے گی۔جوآمدنی ہووہ محتاجوں اورناطے والوں اورغلام لونڈیوں کے چھڑانے اوراللہ کی راہ یعنی مجاہدین کی خدمت اورمسافروں اورمہانوں میں خرچ کی جائے اورجوکوئی اس زمین کامتولی ہووہ اتناکرسکتاہے کہ دستورموافق اس کی آمدنی میں سے کھائے اورکھلائے مگردولت نہ جوڑے،ابن عوف نے کہامیں نے یہ حدیث ابن سیرین سے بیان کی انہوں نے غیرمتمول کایہ معنی ہے کہ اپنے لیئے دولت نہ اکٹھاکرے۔
باب نمبر1۔لوگوں سے زبانی شرط کرنا۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا،کہاہم کوہشام بن یوسف نے خبردی،ان سے ابن جریح نے بیان کیاکہامجھ کویعلی بن مسلم اورعمروبن دینارنے خبردی ان دونوں نے سعیدبن جبیرسے روایت کی اوران میں ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتاہے،ابن جریح نے کہامجھ سے یہ حدیث یعلیٰ اورعمروکے سوااوروں نے بھی بیان کی وہ سعیدبن جبیر(رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہاہم عبداللہ بن عباس کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے کہامجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )نے فرمایاخضرسے جوجاکرملے تھے وہ موسیٰ پیغمبر(علیہ السلام)تھے،پھراخیرتک حدیث بیان کی خضرنے (موسیٰ سے)کہامیں نے نہیں تھاتم میرے ساتھ نہیں ٹھہرسکتے اورموسیٰ (علیہ السلام) نے پہلاسوال توبھول کرکیاتھااوربیچ کاسوال شرط کے طورپر،اورتیسراجان بوجھ کر،موسیٰ(علیہ السلام)نے (خضرسے)کہابُھول چوک پرمیری گرفت نہ کرونہ میراکام مشکل بناؤ،دونوں کوایک لڑکاملاخضرنے اس کومارڈالاپھرآگے چلے توایک دیواردیکھی جوٹوٹنے کو تھی۔خضرنے اس کوسیدھاکردیا،ابن عباس نے یوں پڑھاہے ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔
باب نمبر2:باب ولاء میں شرط لگانا۔
ہم سے اسمعٰیل نے بیان کیاکہاہم سے امام مالک نے،انہوںنے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے باپ سے،انہوں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہم) سے انہوں نے کہابریرہ(رضی اللہ عنہم) میرے پاس آئی اورکہنے لگی میں نے اپنے مالکوں سے نواوقیہ (چاندی)پرکتابت کی ہے۔ہرسال ایک اوقیہ دیناٹھہراہے تومیری مددکرو،حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہم)نے کہااگرتیرے مالک پسندکریں تومیں نواوقیہ ان کوایک دم گن دیتی ہوں اورتیری ولاء میں لوںگی،بریرہ (رضی اللہ عنہم) اپنے مالکوں کے پاس گئی اوران سے کہاانہوں نے نہ مانا،آخروہ ان کے پاس سے لوٹ آئی،اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے اس نے کہامیں نے اپنے مالکوں سے تمہاراپیغام بیان کیاہے وہ نہیں سنتے،کہتے ہیں ہم ولاء ہم لیں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ سن لیااورحضرت عائشہ(رضی اللہ عنہم) نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ساراقصہ بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاتوبریرہ (رضی اللہ عنہم) کوخریدلے اورولاء کی شرط انہی کے لیے کرلے(کہ تم ہی لینا)ولاء تواسی کوملے گی جوآزادکرے گا،حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہم) نے ایساہی کیا۔پھرآنحضر ت صلی اللہ علیہ والہ وسلم (خطبہ سنانے کو)لوگوں میں کھڑے اللہ کی تعریف اوراس کی خوبی بیان کی پھرفرمایابعضے آدمیوں کوکیاہوگیاہے (کچھ جنون تونہیں ہے)وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیںجن کااللہ کی کتاب میں پتہ نہیں ہے۔جوشرط اللہ کی کتاب میں نہ ہووہ لغوہے،اگرایسی سوشرطیں ہوں اللہ کاجوحکم ہے وہی عمل کے زیادہ لائق ہے اوراللہ ہی کی شرط پکی ہے اورولاء اسی کوملے گی جوآزادکرے۔
َباب نمبر3: اگرز مین کامالک مزارعت میں یہ شرط لگائے کہ جب چاہے کاشتکارکوبے دخل کردے۔
ہم سے ابواحمد(مراربن حمویہ)نے بیان کیاکہاہم سے محمدبن یحییٰ ابوعسٰان کنانی نے کہاہم کوامام مالک نے خبردی انہوںنے نافع سے انہوں نے ابن عمرسے جب خیبرکے یہودیوں نے عبداللہ بن عمرکے ہاتھ پاؤں مروڑدیے(ٹیڑھے کردیے)توحضرعمر(رضی اللہ عنہ)خطبہ پڑھنے کوکھڑے ہوئے‘کہنے لگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے خیبرکے یہودیوں سے بٹائی کامعاملہ کیاتھااورفرمایاتھاجب تک پرودگارتم کویہاں تک رکھے گاہم بھی تم کوقائم رکھیں گے۔اورعبداللہ بن عمراپنامال وہاں لینے گیاتویہودیوں نے رات کواس پرحملہ کیا۔اس کے ہاتھ پاؤں مروڑڈالے تم ہی سمجھوخیبرکے یہودیوں کے سواہماراکون دشمن ہے۔وہی ہمارے دشمن ہیں‘ان ہی پرہماراگمان ہے میں ان کاوہاں نے نکال دینامناسب سمجھتاہوں حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے یہ قصدکرلیاتوابوحقیق یہودی کاایک لڑکاان کے آیا،کہنے لگااے امیرالمؤمنین تم کونکالتے ہواورمحمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے توہم کووہاں ٹھہرایاتھااورہم سے بٹائی کامعاملہ کیاتھااورشرط کرلی تھی (کہ تم یہیں رہنا)حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاکیاتوسمجھتاہے کہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کافرمانابدل گیا،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے تجھ سے فرمایاتھااس وقت تیراکیاحال ہوناہے جب توخیبرسے نکالاجائے گا۔راتوں رات تجھ کوتیری اونٹنی لیے پھرے گی۔وہ کہنے لگا،یہ توابوالقاسم نے دل لگی سے کہاتھا،حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاارے خداکے دشمن توجھوٹاہے آخرحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے یہودیوں کووہاں سے نکال دیااورپیداوارمیں جوان کاحصہ تھااس کی قیمت ان کودلوادی کچھ نقدسامان دیااونٹ پالان رسیاں وغیرہ اس حدیث کوحمادبن سلمہ نے بھی عبیداللہ سے روایت کیا،میں سمجھتاہوں انہوں نے فافع سے انہوں نے ابن عمرسے انہوں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے مختصرطورپر۔
باب نمبر4: جہادمیں شرطیں لگانااورکافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اورشرطوں کالکھنا۔
ہم سے سے عبداللہ بن محمدمسندی نے بیان کیا،کہامجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیاکہاہم کومعمرنے خبردی کہامجھ کوزہری نے کہامجھ کوعروہ بن زبیرنے انہوں نے مسوربن مخرمہ اورمردان سے ان دونوں میں ہرایک دوسرے کی روایت کوسچ بتلاتاہے ۔ان دونوںنے کہاآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جب حدیبیہ کی صلح ہوئی اس زمانہ میں(مکہ کی طرف)نکلے ابھی رستے میں ہی تھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاخالدبن ولید قریش کے (دوسو)سوارلیے ہوئے غمیم میں ہے یہ قریش کامقدمۃ الجیش (ہراول گارڈ)ہے توتم داہنی طرف کارستہ لو(تاکہ خالدکوخبرنہ ہواورتم مکہ کے قریب پہنچ جاؤ)توخداکی قسم خالدکوان کی خبرہی نہیں ہوئی یہانتک کہ اس کے سواروں نے گردکی سیاہی دیکھی،خالددوڑاقریش کوڈارنے کے لئے اورآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی چلے جب اس گھاٹی پرپہنچے جہاں سے مکہ پراترتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگ حل حل کہنے لگے،لیکن وہ نہ ہلی،لوگ کہنے لگے قصوااڑگئی،قصوااڑگئی۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاقصوانہیں اڑی اوراس کی عادت بھی اڑنے کی نہ تھی،مگرجس (خدا)نے اصحاب الفیل کوروکاتھا،اسی نے قصواکوروک دیاپھرفامایاقسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکہ والے مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیںجس میں اللہ کے حرم کی بڑائی ہوتومیں اس کومنظورکروں گا۔پھرآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اس کوڈانٹاوہ اٹھ کھڑی ہوئی۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) مکہ والوں کی طرف مڑگئے اورحدیبیہ کے پرلے کنارے ایک گڑھے پراترے جس میں پانی کم تھالوگ تھوڑاتھوڑاپانی اس میں سے لیتے تھے۔انہوں نے پانی کوٹھہرنے ہی نہیں دیاسب کھینچ ڈالااورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے پیاس کاشکوہ ہواآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنی ترکش میں سے ایک تیرنکالااورفرمایااس کواس گڑھے میں گاڑدو۔قسم خداکی (تیرگاڑتے ہی)اس کاپانی بڑے زورسے جوش مارنے لگااوران کے لوٹنے تک یہی حال رہاخیرلوگ اس حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کولیئے ہوئے آن پہنچا۔وہ تہامہ والوں میں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاخیرخواہ محرم رازتھاکہنے لگامیں نے کعب بنی لوئی اورعامربن لوئی کوچھوڑاوہ حدیبیہ کے بہت پانی والے چشموں پراترے ہیں ان کے ساتھ بچے والی اونٹنیاں ہیں(یابال بچے ہیں)وہ آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے لڑنااورمکہ سے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوروکناچاہیت ہیں۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاہم کوروکناچاہتے ہیں۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاہم توکسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرے کی نیت سے آئے ہیں اورقریش کے لوگ لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں،ان کوبہت نقصان پہنچاہے اگران کی خوشی ہے تومیں ایک مدت مقررکرکے ان سے صلح کرتاہوں وہ دوسرے لوگوں کے معاملہ میں دخل نہ دیں اگردوسرے لوگ مجھ پرغالب ہوئے توان کی مرادبرآئی اگرمیں غالب ہواتوان کی خوشی چاہیں تواس دین میں شریک ہوجائیں جس میں لوگ شریک ہوئے (یعنی کہ مسلمان ہوجائیں)نہیں تو(چندروز)ان کوآرام توملے گا۔اگروہ یہ بات نہ مانیں توقسم خداکی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تواس دین پران سے لڑوں گایہاں تک کہ میری گردن جائے اوراللہ ضروراپنے دین کوپوراکرے گا۔بدیل نے یہ سن کرکہامیں آپ(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کاپیغام ان کوپہنچاتاہوں وہ قریش کے کافروں کے پاس گئے اورکہنے لگے میں اس شخص کے(آنحضرت (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کے)پاس سے آتاہوں انہوں نے ایک بات کہی ہے کہوتوتم سے کہوں ان کے جاہل بے وقوف کہنے لگے ہم کوکوئی ضرورت ان کی بات سننے کی نہیںہے جوعقل والے تھے کہنے لگے بھلابتلاؤتوکیابات سن کرآئے۔بدیل نے بیان کیاجوآنحضرت(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) نے فرمایاتھا۔وہ ان کوسنادیااتنے میں عروہ بن مسعودتقفی کھڑاہوا،کہنے لگا،میری قوم کے لوگوکیاتم مجھ پرباپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے،انہوں نے کہاکہ بے شک رکھتے ہیںعروہ نے کہاکیامیں بیٹے کی طرح تمہاراخیرخواہ نہیں ہوں۔انہوںنے کہاکیوں نہیںہے عروہ نے کہاتم مجھ پرکوئی شبہ رکھتے ہوانہوں نے کہانہیں،عروہ نے کہاتم کومعلوم نہیں میںنے عکاظ والوں کوتمہاری مددکے لیئے کہاتھاجب وہ یہ نہ کرسکے تومیں اپنے بال بچے جن لوگوں نے میراکہناسناان کولے کرتمہارے پاس آگیاانہوں نے کہابے شک عروہ نے کہااس شخص یعنی بدیل نے تمہاری بہتری کی بات کہی ہے۔مجھ کومحمد(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کے پاس جانے دو،قریش نے کہااچھاجاؤعروہ آیااورآنحضرت(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) سے باتیں کرنے لگا۔آپ (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) نے اس سے بھی وہی گفتگوکی جوبدیل سے کی تھی۔عروہ یہ سن کرکہنے لگامحمد(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) بتلاؤتواگرتم نے اپنی قوم کوتباہ کردیا(توکون سی اچھی بات ہوئی)تم نے کسی عرب کے شخص کوسناہے تم سے پہلے جس نے اپنی قوم کوتباہ کیاہواورجوکہیں دوسری بات ہوئی(یعنی قریش غالب ہوئے)تومیں قسم خداکی تمہارے ساتھیوں کے منہ دیکھتاہوںیہ پنجمیل لوگ یہی کریں گے تم کوچھوڑکرچل دیں گے یہ سن کرابوبکرصدیقَرضی اللہ عنہ)(کوغصہ آیاانہوں نے کہا)نے کہاابے جالات کاٹنہ چاٹ کیاہم حضرت کوچھوڑکربھاگ جائیں گے عروہ نے پوچھایہ کون ہے؟لوگوں نے کہایہ ابوبکر(رضی اللہ عنہ)ہیں عروہ نے کہااگرتمہارامجھ پراحسان نہ ہوتاجس کامیں نے بدلہ نہیں کیاہے تومیں تم کوجواب دیتا،خیرپھرعروہ باتیں کرنے لگااورجب بات کرتاتوآنحضرت(صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کی مبارک ڈاڑھی تھام لیتا۔اس وقت مغیرہ بن شعبہ تلوارلئے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کے پاس سرپرکھڑے تھے۔ان کے سرپرخودتھا۔جب عروہ اپناہاتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کی ڈاڑھی (مبارک)کی طرف بڑھاتاتومغیرہ تلوارکی کوتھی اس کے ہاتھ پرمارتے اورکہتے اپناہاتھ آپ (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) کی ڈاڑھی سے الگ رکھ۔آخرعروہ نے اوپرسراٹھاکردیکھااورپوچھایہ کون شخص ہے لوگوں نے کہامغیرہ بن شعبہ ہیں۔عروہ نے کہاارے دغابازکیامیں نے تیری دغابازی کی سزاسے تجھ کونہیں بچایا۔ہوایہ تھاکہ مغیرہ جاہلیت کے زمانے میں کافروں کی ایک قوم کے پاس رہتے تھے۔پھران کوقتل کرکے ان کامال لوٹ کرچلے آئے۔اورمسلمان ہوگئے۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم) نے فرمایامیں تیراسلام توقبول کرتاہوں لیکن جومال تولایاہے اس سے مجھ کوغرص نہیں(کیونکہ وہ دغابازی سے ہاتھ آیاہے۔میں نہیں لے سکتا)خیرپھرعروہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اصحاب کودونوں آنکھوں سے گھورنے لگا۔راوی نے کہاخداکی قسم آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے جب کھنکارااوربلغم نکالا،توآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اصحاب (رضوان اللہ)میںکسی نے بھی اپنے ہاتھ پرلے لیااوراپنے منہ اوربدن پرمل لیا(بطورتبرک کے)اورجب آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے وضوکیاتوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے وضوکاپانی لینے کے لیے قریب تھاکہ لڑمریں اورجب آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے بات کی تواپنی آوازیں پست کرلیں اورادب سے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوگھورکرنہیں دیکھتے تھے خیرعروہ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ گیااورکہنے لگامیں توبادشاہوں کے پاس جاچکاہوں اورروم اورایران اورحبش کے بادشاہ پاس بھی خداکی قسم میں نے نہیں دیکھاکہ کسی بادشاہ کے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی تعظیم ان کے اصحاب (رضوان اللہ)کرتے ہیں۔اگرانہوں نے تھوکاتوکوئی اپنے ہاتھ میں لیتاہے اوراپنے منہ پراوربدن پرمل لیتاہے۔اورجب وہ کوئی حکم دیتاہے تولپکتے ہوئے فوراًان کاحکم بجالاتے ہیں اورجب وضوکرتے ہیں تووضوکے پانی کے لیئے قریب ہوتاہے لڑمریں گے جب وہ بات کرتے ہیںیہ اپنی آوازیں دھیمی کرلیتے ہیں ادب اورتعظیم سے ان کوگھورکرنہیں دیکھتے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے جوبات کہی ہے وہ تمہارے فائدے کی ہے اس کومان لوبنی کنانہ کاایک شخص بولامجھے ان کے پاس جانے دولوگوں نے کہااچھاجاجب وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اصحاب(رضوان اللہ)کے پاس آیاتوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بول اٹھے یہ شخص جوآرہاہے ان لوگوں میں سے ہے جوبیت اللہ کی قربانی کی عظمت کرتے ہیں توقربانی کے جانوراس سامنے کردووہ جانوراس کے سامنے لائے گئے اورصحابہ (رضوان اللہ)نے لبیک پکارتے ہوئے اس کااستقبال کیاجب اس نے یہ حال دیکھاتوکہہ اٹھاسبحان اللہ ان لوگوں کوکعبے سے روکنامناسب نہیں اورقوم والوں کے پاس لوٹ گیابولااونٹوں کے گلے میں نے ہارپڑے کوہان چرے دیکھامیں بیت اللہ سے ان کاروکنامناسب نہیں جانتاپھران میں مکرزبن حفص ایک شخص تھاوہ اٹھاوہ کہنے لگامجھ کوجانے دولوگوںنے کہااچھاجاوہ جب آیاتوآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایایہ توبدکارشخص ہے خیروہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) باتیں کرنے لگااس کے بات کرنے میں سہیل بن عمرونامی ایک اورشخص قریش کی طرف آن پہنچامعمرنے کہامجھ کوایوب نے خبردی انہوں نے عکرمہ سے کہ جب سہیل بن عمروآیا،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے (فال نیک کے طورپر)فرمایااب تمہاراکام سہل ہوگیا(بن گیا)معمرنے کہازہری نے کہاسہیل کہنے لگااچھالائیے ہمارے اورتمہارے درمیان ایک صلح نامہ لکھاجائے آپ نے منشی کوبلایااورفرمایالکھ بسم اللہ الرحمن الرحیم،سہیل کہنے لگارحمن میں نہیں جانتاکون ہے لیکن عرب کے دستورکے موافق (شروع میں)باسمک اللہم لکھوائیے جیسے پہلے آپ ہی لکھوایاکرتے تھے مسلمان (لوگوں کوضدآئی وہ)کہنے لگے ہم توقسم خداکی بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھوائیں گے۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے(منشی)سے فرمایاباسمک اللہم ہی لکھ پھریوں لکھوایا،یہ وہ صلح نامہ ہے جس پرمحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول،اتنالکھواناتھاکہ سہیل بولاخداکی قسم اگرہم کو یقین ہوتاکہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہیں توآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوکعبے سے کبھی نہ روکتے نہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے لڑتے یوں لکھوائیے جس پرمحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) عبداللہ کے بیٹے یہ سن کرآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاخداکی قسم میں اللہ کارسول ہوں اگرتم مجھ کوجھٹلاتے ہوخیرمحمدبن عبداللہ ہی لکھو،زہری نے کہاآپ نے مجھ سے جھگڑانہ کیاوہ اس وجہ سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پہلے فرماچکے تھے قریش مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیں گے جس سے اللہ کے ادب والی چیزوں کی تعظیم ہوتومیں بے تامل منظورکروںگاخیرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے آگے یہ لکھوایامحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) عبداللہ کے بیٹے نے اس پرصلح کی کہ تم لوگ ہم کوبیت اللہ میں جانے دوگے ،ہم وہاں طواف کریں گے۔سہیل نے کہا(یہ نہیں ہوسکتا)اگرہم تم کوابھی جانے دیں توسارے عربوں میں یہ چرچاہوجائے گاہم دب گئے لیکن تم سال آئندہ آؤ(حج کرو)خیرپھرلکھناشروع ہواتوسہیل نے کہایہ شرط لکھو،ہم میں سے اگرکوئی شخص گوتمہارے دین پرہوتمہارے پاس آجائے توتم اس کوہمارے پاس پھیردوگے مسلمانوں نے کہاسبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ مسلمان ہوکرآئے،اورمشرکوں کے حوالے کردیاجائے۔لوگ یہی باتیں کررہے تھے،اتنے میں سہیل بن عمروکابیٹاابوجندل پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہوئے آہستہ آہستہ چلتاہواآیاوہ مکہ کے نشیب کی طرف سے نکل بھاگاتھااس نے اپنے تئیں مسلمانوں پرڈال دیا(ان کی پناہ چاہی)سہیل نے کہامحمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یہ پہلاشخص ہے جوشرط کے موافق تم کوپھیردیناچاہیئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاابھی توصلح نامہ پورالکھاہی نہیں گیا۔(ابھی اس شرط پرعمل کیسے ہوسکتاہے)سہیل نے کہاتوپھرصلح ہی نہیں کرنے کاکبھی نہیں کرنے کا۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایااچھاخاص ابوجندل کی پروانگی دے۔سہیل نے کہامیں کبھی نہیں دینے کا،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایانہیں دے وہ بولانہیں دیتا،مکرزبولااچھامیں پروانگی دیتاہوں (لیکن اس کی بات نہ چلی)آخرابوجندل کہنے لگا(یہ کیاغضب ہے)میں مسلمان ہوکرآیاہوں،اورکافروں کے حوالے کیاجاتاہوں۔دیکھومجھ پرکیاکیاسختیاں ہوئی ہیں۔اوراس کواللہ کی راہ میں سخت تکلیف دی گئی تھی۔حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)بن خطاب کہتے ہیں یہ حال دیکھ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آیامیں نے کہاکیاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے سچے پیغمبرنہیں ہیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاکیوں نہیں،میں نے کہاکیاہم حق پراورہمارے دشمن ناحق پرنہیں ہیں،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایابے شک،میں نے کہاتوپھرہم اپنے دین کوکیوں ذلیل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایامیں اللہ کارسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہوںاورمیں اس کی نافرمانی نہیں کرتا،وہ میری مددکرے گامیںنے کہاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) فرماتے تھے کہ ہم کعبے پاس پہنچیں گے اورطواف کریں گے۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایابے شک مگرمیںنے یہ کب کہاتھاکہ اسی سال یہ ہوگامیں نے کہاحقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ تونہیں فرمایاتھاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاتوتم کعبے کے پاس (ایک دن ضرور)پہنچوگیاس کاطواف کروگے۔حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاپھرمیں حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)کے پاس آیااورمیںنے کہاکیایہ اللہ کے سچے پیغمبرنہیںہیں،انہوںنے کہابے شک ہیں میں نے کہاکیاہم حق پراورہمارے دشمن ناحق پرنہیں ہیں انہوں نے کہاکیوں نہیں ہیں میں نے کہاپھرہم اپنے دین کوکیوں ذلیل کریں۔ابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے کہابھلے آدمی وہ اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہیں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرتے،اللہ ان کامددگارہے جوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حکم دیں بجالاکیونکہ خداکی قسم آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حق پرہیں میں نے کہامیں نے کہاکیاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم خانہ کعبہ کے پاس پہنچیں گے طواف کریں گے ،ابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے کہابیشک لیکن آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ کہاتھاکہ اسی سال ہوگامیںنے کہانہیں یہ تونہیں کہاتھاانہوںنے کہاتوایک دن تم کعبے کے پاس پہنچوگے،طواف کروگے،زہری نے کہاحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہایہ جوبے ادبی کی میں نے گفتگوکی اس گناہ کواتارنے کے لیئے میں نے کئی نیک عمل کیئے۔خیرجب صلح نامہ لکھ کرپوراہواتوآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنے اصحاب (رضوان اللہ)سے فرمایااٹھواونٹوں کی نحرکرو، سرمنڈواؤ۔کوئی یہ سن کرنہ اٹھایہاں تک کے تین بارآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہی فرمایا۔جب کوئی نہ اٹھاتوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بی بی سلمہ(رضی اللہ عنہم)کے پاس گئے۔اوران لوگوں کی شکایت کی ،ام سلمہ(رضی اللہ عنہم)نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کیاآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) چاہتے ہیں کہ لوگ ایساکریں۔توایساکیجیئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کسی سے کچھ نہ کہیئے،اٹھ کراپنے اونٹوں کونحرکرڈالیئے اورحجام کوبلواکرحجامت بنوایئے،آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اٹھے اورکسی سے بات نہیں کی ،اپنے اونٹوں کونحرکیااوراصلاح سازکوبلاکرسرمنڈایا،جب لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوایساکرتے دیکھاسب اٹھے اورنحرکیااورایک دوسرے کاسرنڈنے لگے،قریب تھاکہ ہجوم کی وجہ سے ایک دوسرے کوہلاک کریںخیراس کے بعدچندمسلمان عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوئیں،اللہ نے (سورۃ ممتحنہ)کی یہ آیت اتاری،مسلمانوں جب مسلمان عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں توان کی جانچواخیرآیت بعصم الکوٰفرتک،حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے اس دن اپنی دومشرک عورتوں کوطلاق دے دی۔ان میں سے ایک سے معاویہ بن ابی سفیان نے نکاح کرلیااوردوسری سے صفوان بن امیہ نے۔پھرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) مدینہ کولوٹ گئے۔اس کے بعد(مکہ سے)ایک شخص ابوبصیرنامی مسلمان ہوکرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آیاوہ قریشی،قریش کے لوگوںنے اس کوواپس بلانے کے لیئے دوآدمیوں کوبھیجا،اورکہنے لگے جوعہدہم میں اورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں ہے اس کے موافق عمل کیجیئے۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ابوبصیرکوان دوشخصوں کے ساتھ کردیاوہ اس کولے کرنکلے ،جب ذوالحلیفہ میں پہنچے توایک درخت کے تلے ٹھہرکرکھجوریں جوان کے ساتھ تھیں کھانے لگے،ابوبصیرنے ان دونوں میں سے ایک سے کہاقسم خداکی تیری تلواربہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔اس نے سونت کرکہابے شک عمدہ ہے،میں اس کوآزماچکاہوں۔ابوبصیرنے کہاذرامجھے دیکھنے دو۔اس نے دے دی۔ابوبصیرنے اس کومارکرٹھنڈاکردیا۔اس کاساتھی ڈرکے مارے بھاگا۔مدینہ پہنچامسجدمیں بھاگتاہواآیا۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اس کودیکھ کرفرمایا یہ ڈراہوامعلوم ہوتاہے۔جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس پہنچاتوکہنے لگا،قسم خدکی میراساتھی ماراگیا۔اورمیں بھی نہیں بچوں گا۔اتنے میں ابوبصیربھی آپہنچا۔اورکہنے لگایارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاعہداللہ نے پوراکردیا۔آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے مجھے پھیردیا۔مگراللہ نے مجھ کوان سے نجات دلوائی۔یہ سن کرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایامادربختالڑائی بھڑکاناچاہتاہے۔اگرکوئی اس کی مددکرے۔یہ سنتے ہی ابوبصیرسمجھ گیاکہ آپ پھراس کولوٹادیں گے۔اورسیدھانکل کرسمندرکے کنارے پہنچا۔ابوجندل بھی مکہ سے بھاگ کرابونصیرسے آن کرمل گیا۔اب جوقریش کاآدمی مسلمان ہوکرنکلتا،وہ ابوبصیرکے پاس چلاجاتا،یہاںتک کہ یہ شروع کیاکہ قریش کاجوقافلہ شام کے ملک کوآجاتااس کورستے میں وہ روکتے اورلوٹ مارکرتے،آخرقریش نے (مجبورہوکر)آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوبھیجاکہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ابوبصیرکوبلابھیجیں اوراب سے جوشخص مسلمان ہوکرآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آئے اس کوامن ہے (آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) واپس نہ دیجئے)خیرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ابوبصیرکوبلالیااس وقت اللہ تعالی نے(سورۃ فتح کی)یہ آیت اتاری وہی خداہے جس نے عین مکہ کے بیچابیچ تم کوان پرفتح دے کران کے (کافروں کے)ہاتھ تم سے روک دیے اورتمہارے ہاتھ ان سے اخیرآیت حمیۃ الجاہلیۃ تک حمیۃالجاہلیۃ(بات کے بیچ نادانی کی ہٹ)وہ یہ تھی کہ انہوںنے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کونبوت کونہ مانااوربسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنے دی اورمسلمانوں کوکعبے میںجانے سے روک دیااورعقیل نے نہ لکھنے دی اورمسلمانوں کوکعبے میں جانے سے روک دیااورعقیل نے زہری سے روایت کی عروہ نے کہامجھ سے حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہم)نے بیان کیاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جوعورتیں مسلمان ہوکرآتی تھیں ان کوجانچتے تھے(ان کاامتحان لیتے تھے)زہری نے کہااورہم کویہ حدیث پہنچی جب اللہ تعالی نے یہ حکم اتاراکہ کافروں کی بیبیاں جوہجرت کرکے مسلمانوں پاس آجائیں تومسلمان کافروں کووہ خرچہ پھیردیں جوانہوں نے ان بیبیوں پرکیاہے اوریہ حکم بھی کیاہے کہ مسلمان کافرعورتوں کونکاح میں نہ رکھیں توحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے اپنی دوجورؤوں یعنی قریبہ بنت ابی امیہ اوربنت جرول کوطلاق دے دی،پھرمعاویہ نے قریبہ سے نکاح کرلیااورابوجہم نے بیت جرول سے ،اس کے بعدایساہواکہ کافروں نے اس خرچہ کے اداکرنے سے انکارکیاجومسلمانوں نے اپنی عورتوں پرکیاتھاتب اللہ تعالی نے(سورت ممتحنہ کی)یہ آیت اتاری،اگرتمہاری کچھ عورتیں کافروں کے پاس چلی جائیں اورتم کوکافران کاخرچہ نہ دیں ،تمہاری باری آن پہنچے تواس کاتدارک یہ ہے کہ کافروں کی جوعورتیں مسلمان ہوکرہجرت کریں اوران سے کوئی مسلمان نکاح کرے توان کامہران عورتوں کونہ دے بلکہ وہ مہران مسلمانوں کودیاجائے جن کی عورتیں کافروں کے پاس بھاگ گئی ہوں،اورہم تونہیں جانتے کہ کوئی عورت ایمان لانے اورہجرت کرنے کے بعدمرتدہوگئی ہو۔اورزہری نے کہاہم کویہ حدیث پہنچی کہ ابوبصیربن اسیدثقفی مسلمان ہوکرمدت صلح کے اندرآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آگیا۔اس وقت اخنس بن شریق نے (مکہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) )کولکھاکہ ابوبصیرکوآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھیج دیجئیے پھریہی حدیث بیان کی اخیرتک۔
باب نمبر5: قرض میں شرط لگانا۔
اورلیث نے کہامجھ سے جعفربن ربیعہ نے بیان کیا،انہوںنے عبدالرحمن بن ہرمزسے انہوںنے
ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے،انہوںنے آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ایک شخص کاذکرکیا(بنی اسرائیل میں)اس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ہزاراشرفیاں قرض مانگیں اس نے ایک مدت مقررکرکے اس کودیں اورعبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)اورعطاء بن ابی رباح نے کہااگرقرض میں مدت کرے تویہ جائزہے۔
باب نمبر6: باب مکاتب کابیان اورشرطیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہیں ان کاجائزنہ ہونا۔
اورجابربن عبداللہ نے کہا،مکاتب غلام لونڈی اوران کے مالکوں میں جوشرطیں ہوں۔وہ معتبرہوں گی اورعبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)یاحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے کہاجوشرط اللہ کی کتاب کے خلاف ہووہ باطل ہے اگرسوبارشرط لگائے،امام بخاری نے کہایہ قول دونوں سے مروی ہے عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ )اورعمر(رضی اللہ عنہ)سے۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیاکہاہم سے سفیان بن عینیہ نے انہوںنے یحییٰ بن سعیدانصاری سے انہوں نے عمرہ سے انہوں نے عائشہ (رضی اللہ عنہم)سے انہوں نے کہابریرہ(رضی اللہ عہنم)ان کے پاس آئی اپنی کتابت میں مددچاہنے کو،انہوں نے کہااگرتوچاہتی ہے تومیںتیری کتابت کاروپیہ دیئے دیتی ہوں لیکن تیری ولاء میں لوں گی خیرجب آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)تشریف لائے توانہوں نے آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے اس کاتذکرہ کیا،آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاتوخریدلے اورآزادکردے۔ولاء اس کوملے گی جوآزادکرے ،اس کے بعدآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)منبرپرکھڑے ہوئے اورفرمایالوگوں کوکیاہوگیاہے ایسی ایسی شرطیں لگاتے ہیں جواللہ کی کتاب میں نہیں ہیں جوشخص ایسی شرط لگائے جواللہ کی کتاب میں نہیں ہے تواس سے کچھ فائد ہ نہ اٹھائے کااگرچہ سوباروہ شرط لگائے۔
باب نمبر7: اقرارمیں شرط لگانایااستثناء کرناجائزہے۔
اوران شرطوں کابیان جولوگوں میں عموماً جاری ہے (معاملات وغیرہ میں)اوراگرکوئی یوں کہے مجھ پرفلانے کے سودرہم نکلتے ہیں مگرایک یادوتوننانویں یااٹھانویں درہم دیناہوں گے۔
نمبر8:اورعبداللہ بن عوف نے ابن سیرین سے نقل کیاایک اونٹ والے سے کہاتواپنے اونٹ لاکرباندھ دے اگرمیں فلاں دن تک تیرے ساتھ سفرنہ کروں توتجھ کوسودرہم دوں گاپھراس دن تک نہ نکلاتوشریح قاضی نے یہ حکم دیاکہ جس نے خوشی سے کوئی شرط اپنے اوپرلگائی نہ زورزبردستی سے تووہ اس کوپوری کرناہوگی اورایوب سختیانی نے ابن سیرین سے نقل کیاایک شخص نے اناج بیچااورخریدارنے یہ اقرارکیااگرمیں بدھ تک تیرے پاس نہ آؤں (اپنامال قیمت دے کرنہ لے جاؤں) توبیع باقی نہ رہے گی،پھروہ بدھ تک نہ آیاشریح قاضی نے خریدارکے خلاف فیصلہ کیااورکہاتونے اپنے وعدہ خلاف کیا۔
نمبر9:وقف میں شرط لگانے کابیان
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیاکہاہم کوشعیب نے خبردی کہاہم سے ابوالزنادنے انہوں نے اعرج سے انہوں نے ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایااللہ کے ننانویں ایک کم سونام ہیں،جوکوئی ان کویادکرلے،وہ بہشت میں جائے گا۔
باب نمبر8:وقف میں شرط لگانے کابیان
ہم سے قیتبہ بن سعیدنے بیان کیاکہاہم سے محمدبن عبداللہ انصاری نے کہاہم سے عبداللہ بن عون نے کہامجھ کونافع نے خبردی انہوں نے عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)سے کہ حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)کوخیبرمیں ایک زمین ملی،وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے مشورہ کرنے آئے (کہ اس زمین کوکیاکروں)اورکہنے لگے یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں نے خیبرمیں ایک زمین پائی، جس سے بڑھ کرعمدہ مال میں نے کبھی نہیں پایاتوآپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاتواگرچاہے تواصل زمین وقف کردے اس کی آمدنی خیرات ہوتی رہے۔راوی نے کہاتوحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے اسے وقف کردیااس شرط پرکہ وہ زمین نہ بیع ہوسکے گی نہ ہبہ نہ کسی کوترکے میں ملے گی۔جوآمدنی ہووہ محتاجوں اورناطے والوں اورغلام لونڈیوں کے چھڑانے اوراللہ کی راہ یعنی مجاہدین کی خدمت اورمسافروں اورمہانوں میں خرچ کی جائے اورجوکوئی اس زمین کامتولی ہووہ اتناکرسکتاہے کہ دستورموافق اس کی آمدنی میں سے کھائے اورکھلائے مگردولت نہ جوڑے،ابن عوف نے کہامیں نے یہ حدیث ابن سیرین سے بیان کی انہوں نے غیرمتمول کایہ معنی ہے کہ اپنے لیئے دولت نہ اکٹھاکرے۔