حسان خان
لائبریرین
صحیفے پڑھ رہا ہوں اونچی نیچی رہگزاروں میں
کئی صدیوں کی گونجیں دفن ہیں ان کوہساروں میں
جنہیں اب روندتا ہے دیوِ ظلمت ارضِ مغرب کا
کبھی پیغمبروں کی روشنی تھی ان دیاروں میں
انہی کے مطلعِ غیرت سے کل خورشید ابھرے گا
جو اب شامل ہیں ارضِ ایشیا کے بے وقاروں میں
نہ ان کا ہاتھ ہلتا ہے، نہ ان کا پاؤں اٹھتا ہے
مری بے دست و پائی کے مگر چرچے ہیں یاروں میں
مری نظروں میں یہ آتش فشانوں کے دہانے ہیں
جو مرمر کے محل اُگنے لگے ہیں سبزہ زاروں میں
تمازت اس قدر ہے، دھوپ چھَن جاتی ہے پتوں سے
کہیں سایہ نہیں ملتا درختوں کی قطاروں میں
نمازِ صبح کی مہلت میسر ہو تو کیسے ہو؟
اذانیں سن کے کھو جاتا ہوں چڑیوں کی پکاروں میں
میں ان لوگوں کو دعوت دے رہا ہوں سیرِ صحرا کی
جو کھو بیٹھے ہیں اپنی راہ پھولوں کے حصاروں میں
ندیم اب تو سمجھ لو بات قدرت کے علائم کی
ستارے کچھ تو کہتے ہیں اشاروں ہی اشاروں میں
(احمد ندیم قاسمی)
اپریل ۱۹۷۷ء