حسن محمود جماعتی
محفلین
"صدائے مولا علی"
ہر ایک سمت فضا میں صدا ہے مولا علی
ہر ایک سمت فضا میں صدا ہے مولا علی
جہاں میں دیکھو پکارے ہیں سارے مولا علی
دکھوں کے بحر میں ڈوبی ہے اپنی نائو اگر
تو پھر بلند کرو بادبان مولا علی
خدا کے شیر کے ہاتھوں میں ذوالفقار آئی
بچے گا کون کہ اٹھا ہے وار مولا علی
وہ باب حکمت و علم و شعور و عرفاں ہیں
نبی کا فیض ہے بٹتا ہے در مولا علی
یہ باب ایسا کھلا ہے کہ لا تناہی ہے
بڑا ہی خوب ہے فیضان علم مولا علی
وہ مثل ان کا کوئی ہو بھی کہاں نور العین
وہ جن پہ چادر تطہیر ڈلی مولا علی
وہ جن کے دیکھنے کے دنیا گلیاں گھومی ہے
وہ "مجتبی" کہ پسر ہیں شبیہ ہیں مولا علی
نسب میں نام علی کا نہ کٹتے کیسے حسین
یہ نام رقم ہے تیغوں پہ نعرہ مولا علی
کہ دشمنوں پہ فقط نام بہت بھاری ہے
کبھی جو دیکھو تو ان کو پکارو مولا علی
یہ ان کی ذات تو آگے بہت ہی آگے ہے
ابھی تو نام ہی کافی ہے بولو مولا علی
بیان ایسا ہے منکر پہ جو کڑا ہے بہت
بلا نیام ہے یہ سیف جلی مولا علی
میزان خوب صحابہ نے یہ بنایا ہے
کہ رقص مومن بسمل بذکر مولا علی
نماز عصر قضا ہے بنام نوم نبی
پلٹ کے ابھرا ہے سورج بنام مولا علی
صفیں تو اور بھی ہر سمت دیکھو پھیلی ہیں
مگر میں جس میں ہوں وہ ہے "جماعت" مولا علی
عمر کی داد و مبارک غدیر خم میں ہوئی
وہ اولوں میں تھے جس نے پکارا مولا علی
علی کے چہرے کو تکنا بھی عین عبادت ہے
ہے یار غار نے یہ بات کہی، مولا علی
یہ جب سے میں نے پڑھی ہے حدیث من کنت
تبھی سے من ہے اٹھتی "صدائے مولا علی"
نہ میری ذات تھی نہ لفظ میرے تھے قابل
حسن عطائے نبی ہے بفیض مولا علی
یہ مر کے بھی نہ کبھی ٹوٹے ان سے ناطہ مرا
حسن کفن پہ بھی لکھنا غلام مولا علی
غزل کچھ ایسی لکھی ہے کہ دیکھو ہر سو میں
فضا میں گونج پڑی ہے "صدائے مولا علی"
دکھوں کے بحر میں ڈوبی ہے اپنی نائو اگر
تو پھر بلند کرو بادبان مولا علی
خدا کے شیر کے ہاتھوں میں ذوالفقار آئی
بچے گا کون کہ اٹھا ہے وار مولا علی
وہ باب حکمت و علم و شعور و عرفاں ہیں
نبی کا فیض ہے بٹتا ہے در مولا علی
یہ باب ایسا کھلا ہے کہ لا تناہی ہے
بڑا ہی خوب ہے فیضان علم مولا علی
وہ مثل ان کا کوئی ہو بھی کہاں نور العین
وہ جن پہ چادر تطہیر ڈلی مولا علی
وہ جن کے دیکھنے کے دنیا گلیاں گھومی ہے
وہ "مجتبی" کہ پسر ہیں شبیہ ہیں مولا علی
نسب میں نام علی کا نہ کٹتے کیسے حسین
یہ نام رقم ہے تیغوں پہ نعرہ مولا علی
کہ دشمنوں پہ فقط نام بہت بھاری ہے
کبھی جو دیکھو تو ان کو پکارو مولا علی
یہ ان کی ذات تو آگے بہت ہی آگے ہے
ابھی تو نام ہی کافی ہے بولو مولا علی
بیان ایسا ہے منکر پہ جو کڑا ہے بہت
بلا نیام ہے یہ سیف جلی مولا علی
میزان خوب صحابہ نے یہ بنایا ہے
کہ رقص مومن بسمل بذکر مولا علی
نماز عصر قضا ہے بنام نوم نبی
پلٹ کے ابھرا ہے سورج بنام مولا علی
صفیں تو اور بھی ہر سمت دیکھو پھیلی ہیں
مگر میں جس میں ہوں وہ ہے "جماعت" مولا علی
عمر کی داد و مبارک غدیر خم میں ہوئی
وہ اولوں میں تھے جس نے پکارا مولا علی
علی کے چہرے کو تکنا بھی عین عبادت ہے
ہے یار غار نے یہ بات کہی، مولا علی
یہ جب سے میں نے پڑھی ہے حدیث من کنت
تبھی سے من ہے اٹھتی "صدائے مولا علی"
نہ میری ذات تھی نہ لفظ میرے تھے قابل
حسن عطائے نبی ہے بفیض مولا علی
یہ مر کے بھی نہ کبھی ٹوٹے ان سے ناطہ مرا
حسن کفن پہ بھی لکھنا غلام مولا علی
غزل کچھ ایسی لکھی ہے کہ دیکھو ہر سو میں
فضا میں گونج پڑی ہے "صدائے مولا علی"
آخری تدوین: