Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
جب بے گناہ شہریوں کی ہلاکت سے دہشت گردی کو فروغ ملتا ہے تو باوجود اس کے بھی امریکہ ملعون ، ۔۔۔ایسے واقعات دوبارہ رونما کرواتا ہے اور آپ جیسے (عارف کریم والی بات کہ ( چمچے کڑھیچے ان کی صفائیاں پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔ لعنت ہو ایسی نوکری پر جس سے مسلمانوں کی تسلی تو نہیں ہوتی الٹا ان کے جذبات مجروح ضرور ہوتے ہیں
اس ايشو کے حوالے سے ميری پچھلی پوسٹ کے جواب ميں شدید ردعمل ميرے لیے حيران کن نہيں ہے۔ ليکن ميں آپ کی توجہ اس بات کی جانب دلوانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نہ صرف آپ کے سوالات کے جواب دے رہا ہوں بلکہ حقائق بھی تسليم کر رہا ہوں۔ شفاف عمل اور اپنے اقدامات کے ليے احتساب کا سامنا ايک جمہوری نظام کا ہی خاصہ ہے۔ کيا طالبان اور القائدہ کے دہشت گردوں کے لیے بھی يہ دعوی کيا جا سکتا ہے؟
مثال کے طور پر جس روز صدر اوبامہ نے افطار ڈنر کا اہتمام کيا تھا اسی دن کابل کے مشرق ميں طالبان کے ايک خود کش حملہ آور نے ايک مسجد ميں خود کو دھماکے سے اڑا ديا جس کے نتيجے ميں افغانستان کے ڈپٹی چيف آف اينٹلی جينس کے ساتھ 22 بے گناہ افغان شہری بھی ہلاک ہو گئے۔
کيا القائدہ اور طالبان کے ليڈروں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان بے گناہ نمازيوں کے ساتھ ان بے شمار بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کو بھی تسليم کريں جو ان کے آپريشنز کے نتيجے ميں آئے دن ہلاک ہو رہے ہيں؟
حقیقت يہ ہے کہ دہشت گرد بے گناہ شہريوں کی تعداد کا شمار تو درکنار، خود اپنے ممبران کی اموات کا حساب بھی نہيں رکھتے کيونکہ ان کے نزديک ان زندگيوں کی کوئ وقعت نہيں ہے۔ اس واقعے کے ضمن ميں بھی يہ واضح ہے کہ اس کے اصل محرک طالبان ہی تھے۔ کچھ رپورٹس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ طالبان نے مقامی آبادی کے لوگوں کو نيٹو کے ٹرکوں کو پانی سے نکالنے کے لیے مجبور بھی کيا تھا۔
ميں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس واقعے کے بعد جرنل مککلسٹر اور ان کی ٹيم کے فوری ردعمل اور صورت حال کی سنجيدگی کو تسليم کرنے کے اقدامات کو مقامی افغان آبادی نے محسوس بھی کيا ہے اور اس کو سراہا بھی ہے۔ يہی وجہ ہے اس واقعے کے نتيجے ميں افغان حکومت اور عوام کی جانب سے اس شديد ردعمل کا اظہار نہيں کيا گيا جيسا ماضی ميں ايسے واقعات کے نتيجے ميں سامنے آتا تھا جن میں بے گناہ افراد کی ہلاکت کا دعوی کيا جاتا تھا۔
آئ – ايس – اے – ايف کے نئے کمانڈر کی حيثيت سے جرنل مککلسٹر نے يہ واضح کيا ہے کہ ان کے نزديک کاميابی کا پيمانہ يہ نہيں ہو گا کہ کتنے طالبان يا القائدہ کے ارکان ہلاک کيے گئے بلکہ اس بات پر ہو گا کہ کتنے افغان شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنايا گيا۔
يہ امريکی حکومت کی پاليسی اور جرنل مککلسٹر کی حکمت عملی اور اپروچ ہی کا نتيجہ ہے کہ حاليہ دنوں ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات میں قابل ذکر کمی آئ ہے۔ بلکہ جرنل مککلسٹر کی جانب سے جاری کردہ حکمت عملی اور احکامات کے بعد يہ پہلا واقعہ ہے جس ميں فضائ بمباری کے نتيجے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ہوئ ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک انتہائ افسوس ناک واقعہ ہے۔ امريکی حکومت اس واقعے کے حوالے سے حقائق کو جاننے اور مستقبل ميں ايسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہو ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اس ضمن ميں تفتيش کے ليے ايک کينيڈين جرنل کی سربراہی ميں تفتيشی ٹيم تشکيل دے دی گئ ہے۔ اس عمل ميں جرمنی اور امريکہ کے بعض اعلی حکام کو بھی شامل کيا جائے گا۔
اس تفتيش کے نتائج اگلے چند ہفتوں میں منطرعام پر آ جائيں گے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov