دیر آمد درست آمد۔ویسے اس تبصرے پر کوئی اور تبصرہ اتنا ہی غیر ضروری ہو گا جتنا کہ یہ تبصرہ بذات خود۔جولائ کی خبر ایمیل چین سے آپ تک پہنچ ہی گئ آخر
گڈ۔خیال اچھا ہے لیکن براک اور دیوار گریہ کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہیں جبکہ حرم اور براک کے درمیان خون کا وہ عظیم دریا حائل ہے جو فلسطینیوں، عراقیوں ، افغانستانیوں اور پاکستانیوں کے وحشیانہ قتل سے بنا ہے ۔ویسٹرن وال کی یہودیت میں جو اہمیت ہے اس کا تقابل تو مسلمانوں میں حرم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ تو کیوں ناں اوبامہ کو حرم آنے کی دعوت دے دی جائے۔
اوہو تو آپ کو معلوم ہے کہ حرم میں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے؟ ویسے دعوت تو آپ دے رہے ہیں لہذا یہ معاملہ بھی آپکے ہی سوچنے کا ہے۔حرم میں غیرمسلموں کو جانے کی اجازت آپ دیں گے؟
اوہو تو آپ کو معلوم ہے کہ حرم میں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے؟ ویسے دعوت تو آپ دے رہے ہیں لہذا یہ معاملہ بھی آپکے ہی سوچنے کا ہے۔
ویسے میرا اشارہ Temple Mountکی طرف تھا جسے عربی میں الحرم القدسي الشريف کہا جاتا ہے۔
یہ بات آپ نے کہی تھیمیں نے تو ویسٹرن وال کے برابر کی بات کی تھی۔ وہ تو حرم شریف ہی ہے۔
میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسجد حرام میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے میںآپ کے غلط خیال کو اچھا خیال قرار دے دوں اور آپ کی دعوتِ دورہ کی تائید کر دوں ۔ بات چونکہ مسجد اقصیٰ کے دورے کی ہوئی تھی اسی مناسبت سے میں نے تلمیحا حرم سے مرار الحرام القدسی الشریف سے لی۔ویسٹرن وال کی یہودیت میں جو اہمیت ہے اس کا تقابل تو مسلمانوں میں حرم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ تو کیوں ناں اوبامہ کو حرم آنے کی دعوت دے دی جائے۔
چلیں قبر پر ہی لات ماری ہے نا اگر غریب زندہ ہوتا تو شاید امریکی یا اسرائیلی اسکو ہی مار دیتے عرب ہونے کے جرم میں۔ویسے اس محاورہ کا اطلاق تو براک آپ پر کرسکتے ہیں کہ غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہو نے کے باوجود آپ ان کو حرم کے دورے کی دعوت دے رہے ہیں۔چہ خوب است۔واہ کیا حاتم طائ کی قبر پر لات ماری ہے۔
دیوار گریہ جانے پر میرا ایک سیدھا سوال یہ تھا کہ اگر براک کسی مسجد جاتے اور ایسا نوٹ چھوڑ دیتے تو کیا پھر بھی وہ صدر منتخب ہو جاتے؟ میں نے تو صرف مسجد کی بات کی تھی یہ دیوار گریہ کے برابر کی مسجد کا تذکرہ تو آپ نے چھیڑا ہے نہ کہ میں نے؟ ثانیا "دیوار گریہ کے برابر کی مسجد" یعنی مسجد حرام میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے یہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے اس پر نہ تو کسی بحث کی ضرورت ہے اور نہ گلہ کی درحقیقت یہ غیر ضروری بات اس غیر ضروری تبصرے سے غیر ضروری طول پکڑ رہی ہے جو براک کو حرم شریف کی دورے کی دعوت دینے سے متعلق تھا۔بہر کیف مجھے کوئی گلہ نہیں اچھی بات یہ ہے کہ برہم نہ آپ ہوئے نہ میں یہ اس معاملے میں میرا آخری تبصرہ ہے اگر مزید کوئی سوال نہ ہوا تو۔دیوارِ گریہ پر جانے پر اعتراض آپ نے کیا اور مسجد جانے کا مقابلہ کیا۔ جب دیوار گریہ کے برابر کی مسجد کا ذکر آیا تو بات کھلی تو وہاں تو جانا ہی منع ہے۔ پھر کیسا گلہ کر رہے ہیں آپ؟
اس سے کہیں کسی کویہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ میں کہیں دیوار گریہ اور مسجد حرام کو ایک ہی درجہ میں رکھ رہا ہوں بطور مسلم میرا یہ عقیدہ ہے کہ مسجد حرام پوری دنیا کا سب سے مقدس مقام اور مسجد ہے اور دیورا گریہ کا تو اس مبارک مقام سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔"دیوار گریہ کے برابر کی مسجد" یعنی مسجد حرام
آبی آپ نے درست کہا تاہم یہ مقابلہ مسجد اقصی اور مسجد حرام کا نہیں بلکہ دیوار گریہ اور مسجد حرام کی بابت تھا یعنی یہ کہ جس طرح یہودیوں کےنزدیک دیوار گرایہ مقدس ہے ویسے ہی مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام مقدس ہے۔ویسے مسجدیں تو سب اللہ ہی کی ہیں پر میرے ناقص خیال میں مسجد حرام فضیلت میں مسجد اقصٰی سے زیادہ ہے سو یہاں برابری کی بحث بھی بےکار ہے
غالبا بات آپ سمجھ نہیں رہے یہ مقابلہ آپ شروع کر رہے ہیں میں نہیں ۔یہاں یہ بات نہیں کی گئی کہ براک کہاں گیا اور کتنے مقدس مقام پر گیا بلکہ بات یہ ہو رہی ہے کہ براک جس طرح یہود نوازی کا مظاہرہ کر رہا تھا اگر ویسے ہی وہ مسلم نوازی کا مظاہر کرتا تو کیا ہوتا؟ یعنی اگر وہ کسی بھی مسجد میں جاکر یوں ہی خدا سے ہدایت طلب کرتا تو پھر پوری یہودی اور عیسائی دنیا کا کیا ردعمل ہوتا؟یہ آخری دو پوسٹس پڑھ کر شدید ہنسی آ رہی ہے۔
اوبامہ کسی عام Synagogue نہیں گیا تھا بلکہ یہودیوں کے مقدسترین مقام دیوار گریہ پر گیا تھا۔ ظاہر ہے پھر بات عام مسجد کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدسترین مقام کی ہو گی۔
یہ منطق اس پالیسی کا ایک حصہ ہے جس کا نصب العین اسرائیل کا تحفظ ہے آپ پہلے اس بات سے انکار کریں پھر یہیں آپ کو ثبوت مہیا کیے دیتے ہیں۔گو کہ مجھے معلوم ہے کہ اس سے ماسوئے تضیع وقت کے کچھ مجھے حاصل نہیں ہو گا۔ہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ آپ نے صدر اوبامہ کی يہودی مذہبی رسومات ميں شرکت کی تصاوير شائع کر کے يہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا جھکاؤ يہودی مفادات کی جانب زيادہ ہے
یہ منطق اس پالیسی کا ایک حصہ ہے جس کا نصب العین اسرائیل کا تحفظ ہے آپ پہلے اس بات سے انکار کریں پھر یہیں آپ کو ثبوت مہیا کیے دیتے ہیں۔
امريکہ نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہيں کيا اور امريکہ کے اندر اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنے کے حوالے سے سپورٹ سے بھی انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ فلسطين کے عوام کے ساتھدوستانہ روابط کے خلاف ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ يہ تعلقات دونوں ممالک کے بہترين مفاد ميں ہيں۔امريکہ نے اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی بہت سے قراردادوں کی حمايت کی ہے اور ان ميں کئ قرارداديں منظور بھی ہو چکی ہيں۔
امريکہ اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 1397 اور اس ضمن ميں فريقين کے مابين طے پانے والے معاہدوں کی مکمل حمايت کرتا ہے اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو تسليم کرتا ہے۔ اس مسلئے کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی انھی قراردادوں پر عمل سے
ممکن ہے۔
ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکہ نے اقوام متحدہ کی ايسی بھی بہت سی قرارداديں تسليم کی ہيں جس سے فلسطين کے موقف کی تائيد ہوتی ہے ليکن جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلئے کے حل کے ليے دونوں فريقين کی رضامندی کے بغير اقوام متحدہ کی قرارداديں ناکافی ہيں۔
اس تنازے کے تصفيے کے ليے فريم ورک مکمل ہو چکا ہے اور امريکہ دونوں فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔