صدر براک اوباما ایک روشن خیال رہنما !

کیا آپ میں سے کسی نے یہ تصاویر دیکھی ہیں؟[
obama1.jpg


prayer_500.jpg


obama_note.jpg


ویسے اگر یہ عظیم روشن خیال رہنما صدر بننے سے پہلے اسی طرح کا دورہ کسی مسجد کا کرتا اور ایسا ہی کوئی نوٹ چھوڑ آتا تو کیا یہ صدر منتخب ہو سکتا تھا؟
 

زیک

مسافر
جولائ کی خبر ای‌میل چین سے آپ تک پہنچ ہی گئ آخر۔

یہ بھی دیکھیں لارا بش کو مسجد میں:

lauramosque2.JPG


lauramosque12.jpg
 
جولائ کی خبر ای‌میل چین سے آپ تک پہنچ ہی گئ آخر
دیر آمد درست آمد۔ویسے اس تبصرے پر کوئی اور تبصرہ اتنا ہی غیر ضروری ہو گا جتنا کہ یہ تبصرہ بذات خود۔

یہ دورہ جو 2005میں مسجد اقصی کا کیا گیا تھا اس دورے سے خاصا مختلف تھا جو دیوار گریہ کا براک نے کیا دونوں میں ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ براک کا دورہ امریکی طاقتور یہودی لابی کی خوشنودی حاصل کرنے اور روایتی jewdeo-christianنظریہ کا مظہر تھا۔لارا بش کے اس دورے پر ایک تو حماس کا یہ تبصرہ اس کی حقیقت اجاگر کرتا ہے
GAZA, May 22 (Xinhuanet) -- Palestinian militant group Hamas said on Sunday that it is strongly opposed to a visit by Laura Bush, wife of US President George W. Bush, to Al Aqsa Mosque in East Jerusalem.

"We strongly reject this visit and we consider it against the highest interests and the legitimate rights of the Palestinian people," said a Hamas leaflet.

"In principle, we are not against a visit to Al Aqsa Mosque, but the visit of Ms. Bush is aimed at improving US image in the Islamic world after US army officers tore the papers of Quran before prisoners at the Guantanamo detention camp," it said.

"Since her visit to the mosque was only coordinated with Israel and secured by Israeli security forces, it means that she gives legality to the military occupation of our territories," it added.

America's first lady arrived in Israel Sunday during a Mideast tour to promote women's issue and help defuse growing anti-US sentiment following the reported Quran desecration.

بہت بہتر ہوتا کہ لارا یہ دورہ مقامی فلسطینیوں کی حمایت کے ساتھ کرتیں جب اس دورے سے وہ تاثر ابھر سکتا تھا جو براک کے دورے سے ابھرا۔

نیز لارا کے یہ الفاظ بھی اس مسجد کے دورے کے بعد قابل غور ہیں
Bush said that as a Christian it was "very emotional and very moving to be here to see these sites."
http://www.cnn.com/2005/WORLD/meast/05/22/laura.bush/index.html
 

زیک

مسافر
ویسٹرن وال کی یہودیت میں جو اہمیت ہے اس کا تقابل تو مسلمانوں میں حرم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ تو کیوں ناں اوبامہ کو حرم آنے کی دعوت دے دی جائے۔ ;)
 
ویسٹرن وال کی یہودیت میں جو اہمیت ہے اس کا تقابل تو مسلمانوں میں حرم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ تو کیوں ناں اوبامہ کو حرم آنے کی دعوت دے دی جائے۔
گڈ۔خیال اچھا ہے لیکن براک اور دیوار گریہ کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہیں جبکہ حرم اور براک کے درمیان خون کا وہ عظیم دریا حائل ہے جو فلسطینیوں، عراقیوں ، افغانستانیوں اور پاکستانیوں کے وحشیانہ قتل سے بنا ہے ۔
 
حرم میں غیرمسلموں کو جانے کی اجازت آپ دیں گے؟
اوہو تو آپ کو معلوم ہے کہ حرم میں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے؟ ویسے دعوت تو آپ دے رہے ہیں لہذا یہ معاملہ بھی آپکے ہی سوچنے کا ہے۔
ویسے میرا اشارہ Temple Mountکی طرف تھا جسے عربی میں الحرم القدسي الشريف کہا جاتا ہے۔
 

زیک

مسافر
اوہو تو آپ کو معلوم ہے کہ حرم میں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے؟ ویسے دعوت تو آپ دے رہے ہیں لہذا یہ معاملہ بھی آپکے ہی سوچنے کا ہے۔

میں نے تو ویسٹرن وال کے برابر کی بات کی تھی۔ وہ تو حرم شریف ہی ہے۔

ویسے میرا اشارہ Temple Mountکی طرف تھا جسے عربی میں الحرم القدسي الشريف کہا جاتا ہے۔

واہ کیا حاتم طائ کی قبر پر لات ماری ہے۔
 
میں نے تو ویسٹرن وال کے برابر کی بات کی تھی۔ وہ تو حرم شریف ہی ہے۔
یہ بات آپ نے کہی تھی
ویسٹرن وال کی یہودیت میں جو اہمیت ہے اس کا تقابل تو مسلمانوں میں حرم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ تو کیوں ناں اوبامہ کو حرم آنے کی دعوت دے دی جائے۔
میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسجد حرام میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے میں‌آپ کے غلط خیال کو اچھا خیال قرار دے دوں اور آپ کی دعوتِ دورہ کی تائید کر دوں ۔ بات چونکہ مسجد اقصیٰ کے دورے کی ہوئی تھی اسی مناسبت سے میں نے تلمیحا حرم سے مرار الحرام القدسی الشریف سے لی۔

واہ کیا حاتم طائ کی قبر پر لات ماری ہے۔
چلیں قبر پر ہی لات ماری ہے نا اگر غریب زندہ ہوتا تو شاید امریکی یا اسرائیلی اسکو ہی مار دیتے عرب ہونے کے جرم میں۔ویسے اس محاورہ کا اطلاق تو براک آپ پر کرسکتے ہیں کہ غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہو نے کے باوجود آپ ان کو حرم کے دورے کی دعوت دے رہے ہیں۔چہ خوب است۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
 

زیک

مسافر
دیوارِ گریہ پر جانے پر اعتراض آپ نے کیا اور مسجد جانے کا مقابلہ کیا۔ جب دیوار گریہ کے برابر کی مسجد کا ذکر آیا تو بات کھلی تو وہاں تو جانا ہی منع ہے۔ پھر کیسا گلہ کر رہے ہیں آپ؟
 
دیوارِ گریہ پر جانے پر اعتراض آپ نے کیا اور مسجد جانے کا مقابلہ کیا۔ جب دیوار گریہ کے برابر کی مسجد کا ذکر آیا تو بات کھلی تو وہاں تو جانا ہی منع ہے۔ پھر کیسا گلہ کر رہے ہیں آپ؟
دیوار گریہ جانے پر میرا ایک سیدھا سوال یہ تھا کہ اگر براک کسی مسجد جاتے اور ایسا نوٹ چھوڑ دیتے تو کیا پھر بھی وہ صدر منتخب ہو جاتے؟ میں نے تو صرف مسجد کی بات کی تھی یہ دیوار گریہ کے برابر کی مسجد کا تذکرہ تو آپ نے چھیڑا ہے نہ کہ میں نے؟ ثانیا "دیوار گریہ کے برابر کی مسجد" یعنی مسجد حرام میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے یہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے اس پر نہ تو کسی بحث کی ضرورت ہے اور نہ گلہ کی درحقیقت یہ غیر ضروری بات اس غیر ضروری تبصرے سے غیر ضروری طول پکڑ رہی ہے جو براک کو حرم شریف کی دورے کی دعوت دینے سے متعلق تھا۔بہر کیف مجھے کوئی گلہ نہیں اچھی بات یہ ہے کہ برہم نہ آپ ہوئے نہ میں یہ اس معاملے میں میرا آخری تبصرہ ہے اگر مزید کوئی سوال نہ ہوا تو۔
 
"دیوار گریہ کے برابر کی مسجد" یعنی مسجد حرام
اس سے کہیں کسی کویہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ میں کہیں دیوار گریہ اور مسجد حرام کو ایک ہی درجہ میں رکھ رہا ہوں بطور مسلم میرا یہ عقیدہ ہے کہ مسجد حرام پوری دنیا کا سب سے مقدس مقام اور مسجد ہے اور دیورا گریہ کا تو اس مبارک مقام سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ویسے مسجدیں تو سب اللہ ہی کی ہیں پر میرے ناقص خیال میں مسجد حرام فضیلت میں مسجد اقصٰی سے زیادہ ہے سو یہاں برابری کی بحث بھی بےکار ہے
 

زیک

مسافر
یہ آخری دو پوسٹس پڑھ کر شدید ہنسی آ رہی ہے۔

اوبامہ کسی عام synagogue نہیں گیا تھا بلکہ یہودیوں کے مقدس‌ترین مقام دیوار گریہ پر گیا تھا۔ ظاہر ہے پھر بات عام مسجد کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدس‌ترین مقام کی ہو گی۔
 
ویسے مسجدیں تو سب اللہ ہی کی ہیں پر میرے ناقص خیال میں مسجد حرام فضیلت میں مسجد اقصٰی سے زیادہ ہے سو یہاں برابری کی بحث بھی بےکار ہے
آبی آپ نے درست کہا تاہم یہ مقابلہ مسجد اقصی اور مسجد حرام کا نہیں بلکہ دیوار گریہ اور مسجد حرام کی بابت تھا یعنی یہ کہ جس طرح یہودیوں کےنزدیک دیوار گرایہ مقدس ہے ویسے ہی مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام مقدس ہے۔
 
یہ آخری دو پوسٹس پڑھ کر شدید ہنسی آ رہی ہے۔

اوبامہ کسی عام Synagogue نہیں گیا تھا بلکہ یہودیوں کے مقدس‌ترین مقام دیوار گریہ پر گیا تھا۔ ظاہر ہے پھر بات عام مسجد کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدس‌ترین مقام کی ہو گی۔
غالبا بات آپ سمجھ نہیں رہے یہ مقابلہ آپ شروع کر رہے ہیں میں نہیں ۔یہاں یہ بات نہیں کی گئی کہ براک کہاں گیا اور کتنے مقدس مقام پر گیا بلکہ بات یہ ہو رہی ہے کہ براک جس طرح یہود نوازی کا مظاہرہ کر رہا تھا اگر ویسے ہی وہ مسلم نوازی کا مظاہر کرتا تو کیا ہوتا؟ یعنی اگر وہ کسی بھی مسجد میں جاکر یوں ہی خدا سے ہدایت طلب کرتا تو پھر پوری یہودی اور عیسائی دنیا کا کیا ردعمل ہوتا؟
یہ ذمرہ سیاست کا ہے اسلامی تعلیمات کا نہیں کہ آپ یہ بحث فرمائیں کہ دیوار گریہ کا مد مقابل تو صرف مسجد حرام ہی ہو سکتی ہے ۔ہاں ایک غیر ضروری بات کو اس قدر طول دینا شاید سیاسی ہو؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ آپ نے صدر اوبامہ کی يہودی مذہبی رسومات ميں شرکت کی تصاوير شائع کر کے يہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا جھکاؤ يہودی مفادات کی جانب زيادہ ہے۔ اس منطق کے غير جانب دار تجزيے کے ليے يہ ضروری ہے کہ کسی نتيجے پر پہنچنے سے پہلے محض چند مخصوص بيانات، تصاوير اور اقدامات تک اپنی توجہ مرکوز کرکے صدر اوبامہ کی پاليسيوں کو جانب دار قرار دينے کی پيشن گوئ کرنے کی بجائے مکمل کينوس پر نظر دوڑائ جائے۔

امريکی عوام اور امريکی سياسی قائدين اکثر ملک کے اندر بسنے والے بے شمار مذہبی، لسانی اور نسلی گروہوں سے اظہار يکجہتی کے لیے انکی مذہبی، ثقافتی اور سماجی تقریبات ميں شرکت کرتے رہتے ہیں۔

باہمی احترام کے يہ اقدامات امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی فوج سميت معاشرے کی ہر سطح پر دکھائ ديتے ہيں۔ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر امريکی صدر سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔ چند ماہ قبل اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں عيد کے موقع پر مسلمانوں نے دعوت کا اہتمام کيا جس ميں بے شمار سينير حکومتی عہديداروں نے شرکت کی۔

اس ضمن ميں خاص طور پر ايک مسلم سکالرڈاکٹر اينگرڈ ميٹسن کا ذکر کرنا چاہوں گا جنھوں نے صدر اوبامہ کی ابتدائ دعائيہ تقريب ميں دعائيہ کلمات ادا کيے۔ ڈاکٹر ميٹسن ايک مسلم تنظيم آئ – ايس – اين – اے کی صدارت سنبھالنے والی پہلی مسلم خاتون کی حيثيت سے خاصی شہرت رکھتی ہيں۔

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=OesScilNMJ0[/ame]

تقريب ميں شرکت کرنے کے بعد انھوں نے صدر اوبامہ کی جانب سے مسلمانوں سے اظہار يکجہتی کے اظہار پر شکريہ ادا کيا اور دعائيہ تقريب ميں ايک مسلمان کی شرکت کو امريکہ معاشرے کی وسعت پسندی کی ايک مثال قرار ديا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
ہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ آپ نے صدر اوبامہ کی يہودی مذہبی رسومات ميں شرکت کی تصاوير شائع کر کے يہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا جھکاؤ يہودی مفادات کی جانب زيادہ ہے
یہ منطق اس پالیسی کا ایک حصہ ہے جس کا نصب العین اسرائیل کا تحفظ ہے آپ پہلے اس بات سے انکار کریں پھر یہیں آپ کو ثبوت مہیا کیے دیتے ہیں۔گو کہ مجھے معلوم ہے کہ اس سے ماسوئے تضیع وقت کے کچھ مجھے حاصل نہیں ہو گا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہ منطق اس پالیسی کا ایک حصہ ہے جس کا نصب العین اسرائیل کا تحفظ ہے آپ پہلے اس بات سے انکار کریں پھر یہیں آپ کو ثبوت مہیا کیے دیتے ہیں۔


امريکہ نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہيں کيا اور امريکہ کے اندر اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنے کے حوالے سے سپورٹ سے بھی انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ فلسطين کے عوام کے ساتھ دوستانہ روابط کے خلاف ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ يہ تعلقات دونوں ممالک کے بہترين مفاد ميں ہيں۔

امريکہ نے اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی بہت سے قراردادوں کی حمايت کی ہے اور ان ميں کئ قرارداديں منظور بھی ہو چکی ہيں۔ امريکہ اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 1397 اور اس ضمن ميں فريقين کے مابين طے پانے والے معاہدوں کی مکمل حمايت کرتا ہے اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو تسليم کرتا ہے۔ اس مسلئے کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی انھی قراردادوں پر عمل سے ممکن ہے۔

ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکہ نے اقوام متحدہ کی ايسی بھی بہت سی قرارداديں تسليم کی ہيں جس سے فلسطين کے موقف کی تائيد ہوتی ہے ليکن جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلئے کے حل کے ليے دونوں فريقين کی رضامندی کے بغير اقوام متحدہ کی قرارداديں ناکافی ہيں۔

اس تنازے کے تصفيے کے ليے فريم ورک مکمل ہو چکا ہے اور امريکہ دونوں فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
امريکہ نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہيں کيا اور امريکہ کے اندر اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنے کے حوالے سے سپورٹ سے بھی انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ فلسطين کے عوام کے ساتھدوستانہ روابط کے خلاف ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ يہ تعلقات دونوں ممالک کے بہترين مفاد ميں ہيں۔امريکہ نے اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی بہت سے قراردادوں کی حمايت کی ہے اور ان ميں کئ قرارداديں منظور بھی ہو چکی ہيں۔
امريکہ اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 1397 اور اس ضمن ميں فريقين کے مابين طے پانے والے معاہدوں کی مکمل حمايت کرتا ہے اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو تسليم کرتا ہے۔ اس مسلئے کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی انھی قراردادوں پر عمل سے
ممکن ہے۔
ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکہ نے اقوام متحدہ کی ايسی بھی بہت سی قرارداديں تسليم کی ہيں جس سے فلسطين کے موقف کی تائيد ہوتی ہے ليکن جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلئے کے حل کے ليے دونوں فريقين کی رضامندی کے بغير اقوام متحدہ کی قرارداديں ناکافی ہيں۔
اس تنازے کے تصفيے کے ليے فريم ورک مکمل ہو چکا ہے اور امريکہ دونوں فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

فواد آپ کی انتہائی درجہ کی احمقانہ تقریرکی کیا بات ہے۔ یعنی فرما یہ رہے ہیں کہ ہم نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہیں کیا ہے اور امریکا میں اسرائیل کی سپورٹ سے بھی کبھی انکار نہیں کیا ہے ۔۔ جناب آُپ کا بہت بہت شکریہ یہ آپ نے فدوی کے لیے بہت بڑا انکشاف فرمایا ہے کہ آپ امریکا اور اسرائیل تعلقات کے منکر نہیں ہیں کیا کہنے جناب کے جو بات روز روشن کی طرح عیاں اور اپنی تمام تر تلبیس کے باوجود جس بات کو آپ چھپا نہیں سکتے ہیں اس کا اعتراف کیا معنی رکھتا ہے؟
لوگ امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کو کہتے ہیں مگر میرے خیال میں تو اسرائیل امریکا کا گاڈ فادر ہے جس طرح امریکی اس کے اشارے پر ناچتے ہیں اور جس طرج امریکی انتظامیہ کو اپنے قبضے میں کر کہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل امریکا کا باپ ہے اور امریکا اس کا لے پالک۔ا
ور یہ کیا گل افشانی کی ہے آپ نے کہ امریکا اسیکورٹی کونسل کی قرارداد 242،338 اور 1397 کی حمایت کر تا ہے یہ قراردادٰیں جو کہ اس فلسطیں میں قیام امن کی بات کرتی ہیں ان کی حمایت میں امریکا کتنا سرگرم عمل ہے اس کا مظاہر امریکا ابھی حالیہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران کر چکا ہے جس میں اسرائیلی تشدد بربریت اور فلسطینیوں کے قتل عام کو مکمل امریکی حمایت حاصل تھی اور پھران قراردادوں کی بات کیجیے جو کہ 28 دسمبر 2008 اور پھر 8 جنوری 2009 ( اگر میں غلطی نہیں کر رہا( کو سیکورٹی کونسل میں پیش ہوئیں جن میں صرف اتنی فریاد کی گئی تھی کہ اسرائیل اپنی بربریت روک دے قتل عام بند کردے 15 میں سے 14 اراکان نے اس کی تائید کر دی اور صرف امریکا نئے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا ؟ کیوں آخر کیوں‌؟
فلسطینوں کا قتل عام ہوتا رہا اور امریکا اسرائیل کی پشت پناہی کرتا رہا یہ وہ برابری کا سلوک ہے جو امریکا مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ کرتا ہے اوپر جو ویڈیو آپ نے مہیا کی ہے وہ اب موجود nہیں
Тhe video has been removed due to terms of use violat ion .
تاہم یہ یقینی بات ہے کہ یہ ساری حرکتیں ان مظالم کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتیں جو امریکا پوری دنیا کے مسلمانوں‌ کے اوہر کر رہا ہے
میرا یہ بھی دل چاہ رہا ہے کہ ان مظلوم فلسطینی بچوں کی خون میں ڈوبی ہوئی لاشوں کی یہاں تصویر لگا دوں جو صہیونیوں کے ہاتھوں مارے گئے اور مارے جاتے رہیں ہیں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک اور خصوصا موجودہ حملوں میں اور پھر پوچھوں کہ ہے ان تصاویر کا کوئی جواب ؟ کیا تم امریکی ایسی تصاویر پیش کر سکتے ہو یہودیوں‌کی یہودیوں کے قتل عام کی ؟ ان کا کوئی جواب دے سکتے ہوں‌؟ فلسطینی بچوں اور بڑوں کے قتل عام میں تنہا اسرائیل ہی شریک نہیں بلکہ مردود امریکا وحشی امریکا درندہ امریکا پوری طرح شریک ہے اور ایک فلسطین ہی کیا بات ہے پوری دنیا کا امن و امان ایک اسی امریکا نے غارت کیا ہوا ہے آج امریکا تباہ ہو جائے آج ہی دنیا کا سکون لوٹ آئے گا۔
اور فواد یہاں آپ کے ذمہ کچھ قرض ہے اس کا تو کوئی جواب دیں
 
Top