Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
صدر اوبامہ کی تصاوير سے مجھے سال 2006 کا ايک واقعہ ياد آ گيا جو آپ دوستوں کے ساتھ شيئر کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو امريکی معاشرے ميں مذہبی آزادی اور روادری کے تصور کو سمجھنے ميں مدد ملے گی۔
ماہ رمضان سے کچھ پہلے ميں نے اپنے مينجر سے درخواست کی کہ مجھے ايک ماہ کے ليے دفتر ميں کھانے کے وقفے کی ضرورت نہيں ہو گی لہذا مجھے اپنے دفتری اوقات ميں تبديلی کی اجازت دی جائے۔ ميرے مينجر کو روزے کے حوالے سے کافی تجسس ہوا اور اس نے مجھ سے اس ضمن ميں کئ سوالات کيے۔ موصوف کا يہ دعوی تھا کہ ايک ماہ تک بھوک اور پياس برداشت کر کے دنياوی فرائض انجام دينا ممکن نہيں ہے۔ کچھ ہی دير ميں ہماری گفتگو دلچسپ بحث ميں تبديل ہو گئ۔ آخر ميں نے اپنے مينجر کو دعوت دی کہ وہ بھی ميرے ساتھ رمضان کے روزے رکھيں۔ کچھ تاخير کے بعد انھوں نے حامی بھر لی۔ پھر کچھ سوچ کر انھوں نے مجھ سے سحر اور افطار کی دعائيں بھی مانگيں۔ ميں نے اپنے مينجر کو ان دعاؤں کے انگريزی ترجمے لا کر ديے۔ ميرا ذاتی خيال يہ تھا کہ وہ دو چار دن کے بعد اپنا ارادہ ترک کر ديں گے۔
ليکن ميرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
ان صاحب نے ايک ماہ تک سحر اور افطار کی دعاؤں سميت رمضان کے سارے روزے رکھے۔ ميں نے اپنے مينجر کو کجھوروں کا ايک پيکٹ بھی تحفے کے طور پر ديا اور انھيں بتايا کہ مسلمان اپنی روايات کے مطابق کجھور سے روزہ افطار کرتے ہيں۔ رمضان کے اختتام پر ميں دفتر ميں مٹھائ کا ڈبہ لے کر آيا اور ہم نے اکٹھے عيد منائ۔
يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ميرے مينجر کے اہل خانہ اور دفتر کے تمام لوگ (جو کہ سارے غير مسلم تھے) اس بات سے واقف تھے کہ وہ ميرے ساتھ رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں ليکن نہ کسی نے ان پر مسلمان ہونے کا "الزام" لگايا اور نہ ہی ان کے عمل کو کسی سازش کا حصہ قرار ديا۔ اس کے علاوہ ميرے اوپر بھی کسی نے يہ الزام نہيں لگايا کہ ميں اپنے مذہبی خيالات کا پرچار کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف دفتر کے تمام لوگ ہمارے اس "معاہدے" سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ميرے مينجر کی حوصلہ افزائ کرتے رہے۔ امريکی معاشرے ميں برداشت اور ايک دوسرے کو سمجھنے کا يہ تصور بہت عام ہے۔
صدر اوبامہ کی ايک يہودی عبادت گاہ ميں موجودگی اسی جذبے کی عکاسی کرتی ہے جس کا مشاہدہ اور تجربہ ميں خود امريکی معاشرے ميں کر چکا ہوں۔ مچھے نيو جرسی ميں ايک ايسی عيد ملن تقريب ميں بھی شرکت کرنے کا اتفاق ہوا جس ميں علاقے کی يہودی کميونٹی کے اہم ترين ارکان اور ايک امريکی سينيٹر بھی موجود تھے۔
ليکن مختلف مذاہب کے افراد کے مابين برداشت اور مروت کے يہ مناظر اسی وقت ممکن ہوتے ہيں جب ڈائيلاگ اور بات چيت کا عمل جاری رکھا جائے اور اس کے ليے ضروری ہے کہ ہر انسان کے ليے اسکی مذہبی وابستگی سے قطعی نظر برداشت کا مادہ موجود ہو۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
صدر اوبامہ کی تصاوير سے مجھے سال 2006 کا ايک واقعہ ياد آ گيا جو آپ دوستوں کے ساتھ شيئر کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو امريکی معاشرے ميں مذہبی آزادی اور روادری کے تصور کو سمجھنے ميں مدد ملے گی۔
ماہ رمضان سے کچھ پہلے ميں نے اپنے مينجر سے درخواست کی کہ مجھے ايک ماہ کے ليے دفتر ميں کھانے کے وقفے کی ضرورت نہيں ہو گی لہذا مجھے اپنے دفتری اوقات ميں تبديلی کی اجازت دی جائے۔ ميرے مينجر کو روزے کے حوالے سے کافی تجسس ہوا اور اس نے مجھ سے اس ضمن ميں کئ سوالات کيے۔ موصوف کا يہ دعوی تھا کہ ايک ماہ تک بھوک اور پياس برداشت کر کے دنياوی فرائض انجام دينا ممکن نہيں ہے۔ کچھ ہی دير ميں ہماری گفتگو دلچسپ بحث ميں تبديل ہو گئ۔ آخر ميں نے اپنے مينجر کو دعوت دی کہ وہ بھی ميرے ساتھ رمضان کے روزے رکھيں۔ کچھ تاخير کے بعد انھوں نے حامی بھر لی۔ پھر کچھ سوچ کر انھوں نے مجھ سے سحر اور افطار کی دعائيں بھی مانگيں۔ ميں نے اپنے مينجر کو ان دعاؤں کے انگريزی ترجمے لا کر ديے۔ ميرا ذاتی خيال يہ تھا کہ وہ دو چار دن کے بعد اپنا ارادہ ترک کر ديں گے۔
ليکن ميرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
ان صاحب نے ايک ماہ تک سحر اور افطار کی دعاؤں سميت رمضان کے سارے روزے رکھے۔ ميں نے اپنے مينجر کو کجھوروں کا ايک پيکٹ بھی تحفے کے طور پر ديا اور انھيں بتايا کہ مسلمان اپنی روايات کے مطابق کجھور سے روزہ افطار کرتے ہيں۔ رمضان کے اختتام پر ميں دفتر ميں مٹھائ کا ڈبہ لے کر آيا اور ہم نے اکٹھے عيد منائ۔
يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ميرے مينجر کے اہل خانہ اور دفتر کے تمام لوگ (جو کہ سارے غير مسلم تھے) اس بات سے واقف تھے کہ وہ ميرے ساتھ رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں ليکن نہ کسی نے ان پر مسلمان ہونے کا "الزام" لگايا اور نہ ہی ان کے عمل کو کسی سازش کا حصہ قرار ديا۔ اس کے علاوہ ميرے اوپر بھی کسی نے يہ الزام نہيں لگايا کہ ميں اپنے مذہبی خيالات کا پرچار کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف دفتر کے تمام لوگ ہمارے اس "معاہدے" سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ميرے مينجر کی حوصلہ افزائ کرتے رہے۔ امريکی معاشرے ميں برداشت اور ايک دوسرے کو سمجھنے کا يہ تصور بہت عام ہے۔
صدر اوبامہ کی ايک يہودی عبادت گاہ ميں موجودگی اسی جذبے کی عکاسی کرتی ہے جس کا مشاہدہ اور تجربہ ميں خود امريکی معاشرے ميں کر چکا ہوں۔ مچھے نيو جرسی ميں ايک ايسی عيد ملن تقريب ميں بھی شرکت کرنے کا اتفاق ہوا جس ميں علاقے کی يہودی کميونٹی کے اہم ترين ارکان اور ايک امريکی سينيٹر بھی موجود تھے۔
ليکن مختلف مذاہب کے افراد کے مابين برداشت اور مروت کے يہ مناظر اسی وقت ممکن ہوتے ہيں جب ڈائيلاگ اور بات چيت کا عمل جاری رکھا جائے اور اس کے ليے ضروری ہے کہ ہر انسان کے ليے اسکی مذہبی وابستگی سے قطعی نظر برداشت کا مادہ موجود ہو۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov