نبیل
تکنیکی معاون
حوالہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام
سابق وزیر قانون سید افتخار گیلانی کا مؤقف ہے کہ آئین اور قانون کے خلاف کوئی معاہدہ نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو پھر محض اس لیے اس کا جرم معاف نہیں کیا جاسکتا کہ کسی اجلاس میں اس شخص کو معاف کرنےکا فیصلہ کرلیاگیا تھا۔
انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قانون کو چھوڑ کر اور آئین کے آرٹیکل چھ کو بھول کر کوئی معاہدہ کرلیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بعض شخصیات کے درمیان کوئی معاہدہ یا فیصلہ ہوتا ہے تو اس فیصلے سے آئین اور قانون تبدیل نہیں ہوگا۔ ’بیرونی ممالک کے ایماء پر کسی مجرم کو معاف کرنا ملک کی خودمختاری کو سرنڈر کرنے کے مترادف ہے اور حکومت غیر ملکی ضامنوں کے سامنے دو ٹوک یہ مؤقف اختیار کرسکتی ہے کہ پاکستان کا آئین اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے اس لیے کسی شخص کو ٹرائل سے بچا کر اسے محفوظ راستہ نہیں دیا جاسکتا۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کا کہنا ہے کہ سابق صدر کو محفوظ راستہ دینے کی اس وقت کوئی قانونی حیثیت ہوتی جب اس ضمن میں کی جانے والی ڈیل یا معاہدے کو کوئی قانونی تحفظ دیا جاتا۔ ان کے بقول جیسے کہ این آر او کے ذریعے مختلف افراد کو قانونی تحفظ دیاگیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سابق صدر کو ٹرائل سے تحفظ دینے کے لیے نہ تو کوئی آرڈیننس جاری کیا گیا اور نہ پارلیمنٹ نے اس قسم کی کوئی منظوری دی ہے۔
مزید تفصیل
سابق وزیر قانون سید افتخار گیلانی کا مؤقف ہے کہ آئین اور قانون کے خلاف کوئی معاہدہ نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو پھر محض اس لیے اس کا جرم معاف نہیں کیا جاسکتا کہ کسی اجلاس میں اس شخص کو معاف کرنےکا فیصلہ کرلیاگیا تھا۔
انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قانون کو چھوڑ کر اور آئین کے آرٹیکل چھ کو بھول کر کوئی معاہدہ کرلیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بعض شخصیات کے درمیان کوئی معاہدہ یا فیصلہ ہوتا ہے تو اس فیصلے سے آئین اور قانون تبدیل نہیں ہوگا۔ ’بیرونی ممالک کے ایماء پر کسی مجرم کو معاف کرنا ملک کی خودمختاری کو سرنڈر کرنے کے مترادف ہے اور حکومت غیر ملکی ضامنوں کے سامنے دو ٹوک یہ مؤقف اختیار کرسکتی ہے کہ پاکستان کا آئین اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے اس لیے کسی شخص کو ٹرائل سے بچا کر اسے محفوظ راستہ نہیں دیا جاسکتا۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کا کہنا ہے کہ سابق صدر کو محفوظ راستہ دینے کی اس وقت کوئی قانونی حیثیت ہوتی جب اس ضمن میں کی جانے والی ڈیل یا معاہدے کو کوئی قانونی تحفظ دیا جاتا۔ ان کے بقول جیسے کہ این آر او کے ذریعے مختلف افراد کو قانونی تحفظ دیاگیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سابق صدر کو ٹرائل سے تحفظ دینے کے لیے نہ تو کوئی آرڈیننس جاری کیا گیا اور نہ پارلیمنٹ نے اس قسم کی کوئی منظوری دی ہے۔
مزید تفصیل