فرحان دانش
محفلین
دبئی حکومت پر صدر آصف علی زرداری کے شدید دباؤ کی وجہ سے جیو ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈاکٹر شاہد مسعود کے مقبول ترین پروگرام ”میرے مطابق“ کو جیو ٹی وی کے دبئی اسٹوڈیوز سے نشر کرنے سے روک دیا گیا۔ ڈاکٹر مسعود نے اسٹوڈیو اور تکنیکی سہولتیں استعمال کئے بغیر کسی دوسری جگہ سے پروگرام پیش کیا اور بتایا کہ مقامی حکام نے انہیں پروگرام پیش کرنے سے روک دیا ہے۔ پروگرام کے میزبان نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں اور کہا ہے کہ پاکستان آکر پروگرام کرکے دکھاؤ تو تمہیں دیکھ لیں گے۔ پیر کی رات جاری کئے گئے بیان میں جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرف دور کی ایک اور قسط پیش کرتے ہوئے صدر پاکستان کی جانب سے دباؤ اور اثر رسوخ کا استعمال کرکے آزادی اظہار پر براہِ راست حملہ کیا گیا ہے۔ پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کی اہم ترین شخصیات کی جانب سے پہلے لالچ پھر گالیوں اور اس کے بعد مہم چلائی گئی اور اس کے بعد حالیہ کچھ عرصے میں مجھے واضح الفاظ میں قتل کردینے کے پیغامات بھی پہنچادیئے گئے ہیں، میں نے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ یعنی جیو ٹی وی نیٹ ورک اور جنگ گروپ کی انتظامیہ کو ان شخصیات کے ناموں سے آگاہ کردیا ہے، آپ سب بھی ان کے ناموں کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس مہم میں بالکل ہو بہووہی لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے جو مشرف صاحب کے دور کے آخری حصے میں تھا۔ آج زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ذاتی زندگیوں، ان کے ذاتی کاروبار اور دیگر معاملات کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں جو کہ غالباً ہمیں کہنا چاہئے کیونکہ حکمرانوں کی ذاتی زندگیوں، ان کے اعمال کردار سے واقفیت بھی قوم کا حق ہوا کرتا ہے اور جس کے بارے میں ہمارے پاس کاغذات کے پلندے ،خدا جانے کتنی ویڈیو ز،آڈیوز ، دستاویزات ہر روز مختلف ذرائع سے پہنچتی ہیں اور کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ سب کچھ عوام کے سامنے آجائے تو خدا جانے کل گلیوں، محلوں، شاہراہوں پر کیا منظر ہو۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے کہ ٹھیک ہے یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن کیا احتساب، آزاد عدلیہ، این آر او، قتل ، اغوا ، لوٹ مار، کرپشن، غیرملکی اکاؤنٹس یہ بھی ان کے ذاتی معاملات ہیں۔ ہم عوام اپنی خون پسینے کی کمائی ٹیکس کی شکل میں حکومت کو ہر سال 32 ارب ڈالرز دیتے ہیں، یہ پوچھنے کا حق بھی رکھتے ہیں کہ اتنا سارا پیسہ کہاں گیا، کس کی اولادیں کہاں عیش کر رہی ہیں۔ ہم ان بے بس عوام کو یہ یاد دلا رہے ہیں کہ این آر او صرف تین حرف یا ارب نہیں بلکہ بلکہ ایک کھرب 65 ارب روپے ہیں، یہ وہ رقم ہے جو عوام کے شب و روز کے محنت سے کمائی گئی جسے لوٹ لیا گیا، آج آپ لوگ جو آٹے، چینی کی قطاروں میں ذلت اور کہیں دہشت گردی کا شکار ہو کر دم توڑ رہے ہیں، یہ آپ کا پیسہ ہے۔ گزری نشست میں، میں نے کہا تھا کہ صرف ایک کیس ایسا ہے جس میں 122 ارب روپے یعنی ڈیڑھ ارب ڈالرز کی بدعنوانی کی گئی۔ یہی وہ رقم ہے جس میں ہم نے بطور قوم خود کو فروخت کردیا۔ کیا اقتدار، طاقت اور غرور کے نشے میں وہ سب دن فراموش کردیئے گئے جب محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ جیو ٹی وی پر پابندی کے بعد اس کے دفاتر تشریف لائی تھیں۔ زرداری صاحب میرے اسی اسٹوڈیو میں آکر گھنٹوں بیٹھے تھے جس سے آج انہوں نے مجھے ہٹا دینے کیلئے اپنا بھرپور اثر و رسوخ ملک سے باہر استعمال کیا ہے۔ کیا میرا لب و لہجہ تبدیل ہوجائے گا؟ میں قصیدے پڑھنے شروع کردوں گا۔ چھپ کر وار کرنے سے بہتر ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ خوف زدہ بنکروں میں چھپے حکمراں سامنے آکر کہنے اور بات کرنے کا حوصلہ رکھتے۔ مجھے آج شدت سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ یاد آرہی ہیں کہ آج وہ حیات ہوتیں تو نہ جانے میری اس آواز کو سن کر کس ردعمل کا اظہار کرتیں۔ سینئر تجزیہ نگار اور دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی نے اس اقدام پر افسوس اور حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مایوسی کے عالم میں ہاتھ پیر مارنا شروع کردیئے ہیں بصورت دیگر ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ کسی ٹاک شو یا کسی صحافی کی آواز پر انہیں اعتراض ہو۔ صہبائی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کا اقدام جمہوریت کی مخالفت ہے اور اس آزادی کے حامی افراد اس اقدام کی مخالفت کریں گے۔ آج کے فوری رابطہ کاری کے دور میں جہاں انٹرنیٹ، یو ٹیوب، ایس ایم ایس، ای میل، ٹوئیٹر اور نجی فون ویڈیوز موجود ہیں، اس طرح کی پابندی محض بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں۔ شاہین صہبائی نے شاہد مسعود کی اس بات کی تائید کی سوئٹزرلینڈ میں حکومت پاکستان کے قوانین نافذ نہیں ہیں آئین پاکستان نے صدر زرداری کو مقدمات سے Indemnity دی ہوئی ہے تاہم این آر او کے خاتمے کے بعد صدر کے خلاف کیس سوئٹزرلینڈ اور اسپین کی عدالتوں میں کھلتے ہیں تو عدالتیں ان کو سزا بھی سنا سکتی ہیں اور انٹر پول کے ذریعے ریڈ وارنٹ بھی جاری کرواسکتی ہیں۔ اس موقع پر انصار عباسی نے کہا کہ یہ عجیب سی بات ہے کہ کچھ صحافیوں کو سبق سکھانے کیلئے ریڈ پین سے مارک کر دیا جاتا، ایسا کام حکومت کو یہ زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا آنکھ اور کان کا کام دیتا ہے اگر ہم کرپشن کے متعلق بات کرتے ہیں تو بنیادی طور پر ہم حکومت کی مدد کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ ان معاملات کو زیر بحث لائیں۔ حکومت کی تمام طاقت اپنی جگہ لیکن وہ میڈیا سے جیت نہیں سکتے، میڈیا کے ساتھ لڑائی آپ کو زیب نہیں دیتی ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ سوئس کورٹس میں جو کیسز تھے وہ اب بھی چل رہے ہیں۔ انصار عباسی نے کہا کہ لوٹا ہوا پیسہ یہ 700 سے 1000 بلین تک ہے جو واپس آنا چاہئے، ہمارے یہاں پارلیمنٹ اب بھی مضبوط نہیں، ملک میں عملاً صدارتی طرز حکومت رائج ہے۔
ماخذ جنگ
ماخذ جنگ