مہوش علی
لائبریرین
ایک طرف صدر پرویز مشرف پر مخالفانہ یلغار جاری ہے اور دوسری طرف وہ اطمینان سے اپنے مشاغل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں دھڑا دھڑ مخالفانہ قراردادیں منظور ہو رہی ہیں اور وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ موسیقی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ پہلے ان کی سالگرہ کی تقریب ہوئی۔ جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ندیم تاج سمیت اعلیٰ فوجی قیادت شریک ہوئی۔ صدر کے اپنے رشتہ داروں کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین جناب محمد میاں سومرو اور سندھ کے گورنر جناب عشرت العباد بھی انہیں مبارکباد دینے گئے تھے۔ صحافیوں کی ”نمائندگی “ ہمارے دوست نجم سیٹھی نے کی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ سلمان تاثیر کے نمائندے تھے۔ میں نے انہیں صحافیوں کا نمائندہ لکھ ڈالا۔ پتہ نہیں اس پر صحافی ناراض ہوں گے یا موصوف؟ صحافیوں کی ناراضی کا اندیشہ اس پر ہے کہ میں نے ایک معتوب صدر کی سالگرہ کی تقریب میں ان کی شرکت کو صحافیوں کی نمائندگی قرار دے دیا اوروہ دوست اس لئے ناراض ہوں گے کہ میں نے انہیں گورنر کا نمائندہ کیوں لکھا؟ آج کل جو ماحول بنا ہوا ہے۔ اس میں ناراضیوں سے بچنا بہت مشکل کام ہے۔ آپ کسی بھی خیال کے حامی ہوں۔ آپ کو ناراض ہونے والے مل جائیں گے۔ آپ کسی خیال کے حامی نہ بھی ہوں۔ ناراض ہونے والے پھر بھی مل جائیں گے۔ 62 سال کی آزادی نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا؟ جو شہر اور بستیاں پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ ان کی تہذیب میں رواداری بھی تھی۔ تحمل اور برداشت بھی۔ ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ بھی۔ سیاسی اختلاف حتیٰ کہ محاذ آرائی کے باوجود انسانی اور سماجی رشتوں کا احترام بھی۔ پنجاب میں دولتانہ ممدوٹ کشمکش آزادی کے بعد پہلی سیاسی تقسیم تھی۔ ان دونوں کے جھگڑے کے سبب موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی عدم استحکام شروع ہوا تھا۔ اگر یہ سب موجودہ ماحول میں ہوا ہوتا تو یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہ ہوتے۔ ایک ملاقات میں دولتانہ صاحب نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ کشیدگی کے اس دور میں بھی جب ممدوٹ صاحب پریشان ہوتے تو میرے گھر چلے آتے۔ آج ہم اس کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟
صدر اور وزیراعظم کو ملک کا آئین ایک حکومت کا حصہ قرار دیتا ہے۔ حکومت پاکستان کی ہے۔ شبِ آزادی پاکستان کی تھی۔ ایوان صدر میں شبِ آزادی کی تقریب ہوئی۔ اس میں نہ پاکستان کے وزیراعظم نے شرکت کی اور نہ کابینہ کے وزراء نے۔ یہ شرکت ذاتی جذبات کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ قومی فریضہ تھا۔ یہ منصبی فریضہ بھی تھا۔ ایوان صدر کسی کے باپ کا گھر نہیں ہے اور آزادی کی تقریب کسی کی ذاتی خوشی کے لئے نہیں تھی۔ یہ اجتماعی خوشی کے لئے تھی۔ ہم نے تو آزادی کی خوشیاں بھی ذاتی اور سیاسی نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دیں۔ اگر پرویز مشرف سے اتنی ہی نفرت ہے تو وزارتوں کے حلف اٹھانے کے لئے ان کے پاس کیوں گئے؟ صرف اس لئے کہ وزارتوں کے ساتھ اختیارات اور مراعات لگی ہوتی ہیں؟ اور آزادی کی تقریب کا اس لئے بائیکاٹ کیا گیا کہ اس میں شرکت پر کوئی ذاتی فائدہ نہ ہوتا؟ ایسی تقریبات علامتی ہوا کرتی ہیں۔ اور ایسی تقریبات میں شرکت قومی یکجہتی اور آزادی پر کامل یقین کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اظہار کرنے میں کسی کا کیا جاتا تھا؟ ہم نے ایسا کیوں نہ کیا؟
تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات جوکہ آزادی کی رات ہے۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز کچھ ایسے مناظر دکھا رہے تھے جو ہم سب کے دیکھے بھالے ہیں لیکن ایسے مناظر عموماً اس وقت دیکھنے میں آتے ہیں جب جمہوریت ناصر کاظمی کی اداسی کی طرح بال کھولے سو رہی ہوتی ہے۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر#
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
آزادی کی شب ہمارے ٹی وی چینلز پر وزیراعظم تقریر کرتے نظر نہیں آئے۔ صرف ان کے بیان کا ٹکر چلا۔ ایوان صدر کی تقریب سرکاری ٹی وی چینل کے سربراہ کی طرف سے پابندی کے حکم کے باوجود اہتمام سے دکھائی گئی اور اس کے ساتھ کاکول کی فوجی تقریب مزید اہتمام سے نشر کی گئی۔ جن لوگوں نے یہ مناظر دیکھے، ان کی اکثریت یہی سوچ رہی ہو گی کہ فوج پھر آ گئی ہے۔ میں نے ایسا نہیں سوچا۔ کیونکہ میں نے کبھی سمجھا ہی نہیں کہ فوج گئی ہے۔ فوج ہماری اپنی ہے۔ کیوں جائے؟ لیکن یہ جو آصف زرداری اور نواز شریف ہیں۔ یہ بھی حکمران جماعتوں کے سربراہ ہیں۔ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی جھلک آزادی کی شب کسی چینل کی نشریات میں دکھائی نہیں دی۔ اگر آپ نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور صدر پرویز مشرف کی تقریریں سنی ہوں تو ان میں پائی جانے والی مماثلت اس امر کا ثبوت ہے کہ وطن اور آزادی کے معاملے میں جو ہم خیالی سیاستدانوں کو نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ہماری فوج میں پائی جاتی ہے۔ آزادی کی یہ شب پشاور اور لاہور کے دھماکوں کی گونج میں آئی اور فوج کے چاک و چوبند دستوں کی پریڈ کے ساتھ رخصت ہوئی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر سے قبل قرآن پاک کی آیات کا جو ترجمہ سنایا گیا۔ جس کا مفہوم اس طرح تھا۔ ”اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے اور حکومت چھین لیتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ آزادی کی شب ٹی وی چینلز کی کوریج دیکھ کر میں یہ سوچتے سوچتے سو گیا کہ اللہ کیا کرنے والا ہے؟