صدر مشرف کا چین و سکون بھرا رویہ

مہوش علی

لائبریرین
headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
آخری دن تک یہی فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ آزادی کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہو گی یا وزیراعظم ہاؤس میں۔باجوڑ اور سوات میں مسلح جھڑپیں جاری ہیں اور پاکستانی شہروں پر خودکش حملوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ شاید یوم آزادی کے استقبال میں۔ مواخذے پر محاذ آرائی اپنی انتہا پر ہے۔ اس تقسیم اور محاذ آرائی میں صرف ایک اچھی خبر آئی ۔وہ یہ کہ سندھ اسمبلی میں صدر پرویز مشرف کے خلاف قرارداد اتفاق رائے سے پاس ہو گئی۔ جس پر آصف زرداری بہت خوش ہیں کہ ان کی حکمت عملی سے اتفاق رائے کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ ایک جیالا تو اتنے جوش میں تھا کہ اس نے طعنے کے انداز میں مجھ سے کہا ”تمہارے شہباز شریف، مشرف کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کو نہ روک سکے لیکن آصف زرداری نے صدر کی پرجوش حامی جماعت ایم کیو ایم کو ان کے حق میں ووٹ ڈالنے سے روک دیا“۔ اس پر آصف زرداری کے ساتھ ایم کیو ایم کو بھی کچھ نہ کچھ کریڈٹ ضرور دینا چاہئے کہ اس جماعت نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے صوبے میں سیاسی یکجہتی بھی متاثر نہیں ہونے دی۔ یوں بھی مواخذے کے معاملے میں نمبر گیم بے معنی ہو چکی ہے۔ اس پر کسی کو شک ہی نہیں کہ موجودہ اسمبلیوں میں صدر کے حامیوں کی تعداد برائے نام رہ گئی ہے۔ اس میں خود صدر پرویز مشرف کا بھی دخل ہے کہ مواخذے کی مہم جس دن سے شروع ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ووٹ اکٹھے کرنے کے کھیل سے الگ رکھا۔ آفتاب شیرپاؤ کے بیٹے سکندر شیرپاؤ کو ٹیلی ویژن پر کہنا پڑا کہ ”ہمیں تو صدر کی طرف سے ٹیلی فون تک نہیں آیا۔ جبکہ دوسروں نے ہر سطح پر ہم سے رابطے کئے۔ ایسی صورت میں ہم کیا کرتے؟“
ایک طرف صدر پرویز مشرف پر مخالفانہ یلغار جاری ہے اور دوسری طرف وہ اطمینان سے اپنے مشاغل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں دھڑا دھڑ مخالفانہ قراردادیں منظور ہو رہی ہیں اور وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ موسیقی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ پہلے ان کی سالگرہ کی تقریب ہوئی۔ جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ندیم تاج سمیت اعلیٰ فوجی قیادت شریک ہوئی۔ صدر کے اپنے رشتہ داروں کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین جناب محمد میاں سومرو اور سندھ کے گورنر جناب عشرت العباد بھی انہیں مبارکباد دینے گئے تھے۔ صحافیوں کی ”نمائندگی “ ہمارے دوست نجم سیٹھی نے کی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ سلمان تاثیر کے نمائندے تھے۔ میں نے انہیں صحافیوں کا نمائندہ لکھ ڈالا۔ پتہ نہیں اس پر صحافی ناراض ہوں گے یا موصوف؟ صحافیوں کی ناراضی کا اندیشہ اس پر ہے کہ میں نے ایک معتوب صدر کی سالگرہ کی تقریب میں ان کی شرکت کو صحافیوں کی نمائندگی قرار دے دیا اوروہ دوست اس لئے ناراض ہوں گے کہ میں نے انہیں گورنر کا نمائندہ کیوں لکھا؟ آج کل جو ماحول بنا ہوا ہے۔ اس میں ناراضیوں سے بچنا بہت مشکل کام ہے۔ آپ کسی بھی خیال کے حامی ہوں۔ آپ کو ناراض ہونے والے مل جائیں گے۔ آپ کسی خیال کے حامی نہ بھی ہوں۔ ناراض ہونے والے پھر بھی مل جائیں گے۔ 62 سال کی آزادی نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا؟ جو شہر اور بستیاں پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ ان کی تہذیب میں رواداری بھی تھی۔ تحمل اور برداشت بھی۔ ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ بھی۔ سیاسی اختلاف حتیٰ کہ محاذ آرائی کے باوجود انسانی اور سماجی رشتوں کا احترام بھی۔ پنجاب میں دولتانہ ممدوٹ کشمکش آزادی کے بعد پہلی سیاسی تقسیم تھی۔ ان دونوں کے جھگڑے کے سبب موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی عدم استحکام شروع ہوا تھا۔ اگر یہ سب موجودہ ماحول میں ہوا ہوتا تو یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہ ہوتے۔ ایک ملاقات میں دولتانہ صاحب نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ کشیدگی کے اس دور میں بھی جب ممدوٹ صاحب پریشان ہوتے تو میرے گھر چلے آتے۔ آج ہم اس کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟
صدر اور وزیراعظم کو ملک کا آئین ایک حکومت کا حصہ قرار دیتا ہے۔ حکومت پاکستان کی ہے۔ شبِ آزادی پاکستان کی تھی۔ ایوان صدر میں شبِ آزادی کی تقریب ہوئی۔ اس میں نہ پاکستان کے وزیراعظم نے شرکت کی اور نہ کابینہ کے وزراء نے۔ یہ شرکت ذاتی جذبات کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ قومی فریضہ تھا۔ یہ منصبی فریضہ بھی تھا۔ ایوان صدر کسی کے باپ کا گھر نہیں ہے اور آزادی کی تقریب کسی کی ذاتی خوشی کے لئے نہیں تھی۔ یہ اجتماعی خوشی کے لئے تھی۔ ہم نے تو آزادی کی خوشیاں بھی ذاتی اور سیاسی نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دیں۔ اگر پرویز مشرف سے اتنی ہی نفرت ہے تو وزارتوں کے حلف اٹھانے کے لئے ان کے پاس کیوں گئے؟ صرف اس لئے کہ وزارتوں کے ساتھ اختیارات اور مراعات لگی ہوتی ہیں؟ اور آزادی کی تقریب کا اس لئے بائیکاٹ کیا گیا کہ اس میں شرکت پر کوئی ذاتی فائدہ نہ ہوتا؟ ایسی تقریبات علامتی ہوا کرتی ہیں۔ اور ایسی تقریبات میں شرکت قومی یکجہتی اور آزادی پر کامل یقین کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اظہار کرنے میں کسی کا کیا جاتا تھا؟ ہم نے ایسا کیوں نہ کیا؟
تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات جوکہ آزادی کی رات ہے۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز کچھ ایسے مناظر دکھا رہے تھے جو ہم سب کے دیکھے بھالے ہیں لیکن ایسے مناظر عموماً اس وقت دیکھنے میں آتے ہیں جب جمہوریت ناصر کاظمی کی اداسی کی طرح بال کھولے سو رہی ہوتی ہے۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر#
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
آزادی کی شب ہمارے ٹی وی چینلز پر وزیراعظم تقریر کرتے نظر نہیں آئے۔ صرف ان کے بیان کا ٹکر چلا۔ ایوان صدر کی تقریب سرکاری ٹی وی چینل کے سربراہ کی طرف سے پابندی کے حکم کے باوجود اہتمام سے دکھائی گئی اور اس کے ساتھ کاکول کی فوجی تقریب مزید اہتمام سے نشر کی گئی۔ جن لوگوں نے یہ مناظر دیکھے، ان کی اکثریت یہی سوچ رہی ہو گی کہ فوج پھر آ گئی ہے۔ میں نے ایسا نہیں سوچا۔ کیونکہ میں نے کبھی سمجھا ہی نہیں کہ فوج گئی ہے۔ فوج ہماری اپنی ہے۔ کیوں جائے؟ لیکن یہ جو آصف زرداری اور نواز شریف ہیں۔ یہ بھی حکمران جماعتوں کے سربراہ ہیں۔ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی جھلک آزادی کی شب کسی چینل کی نشریات میں دکھائی نہیں دی۔ اگر آپ نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور صدر پرویز مشرف کی تقریریں سنی ہوں تو ان میں پائی جانے والی مماثلت اس امر کا ثبوت ہے کہ وطن اور آزادی کے معاملے میں جو ہم خیالی سیاستدانوں کو نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ہماری فوج میں پائی جاتی ہے۔ آزادی کی یہ شب پشاور اور لاہور کے دھماکوں کی گونج میں آئی اور فوج کے چاک و چوبند دستوں کی پریڈ کے ساتھ رخصت ہوئی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر سے قبل قرآن پاک کی آیات کا جو ترجمہ سنایا گیا۔ جس کا مفہوم اس طرح تھا۔ ”اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے اور حکومت چھین لیتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ آزادی کی شب ٹی وی چینلز کی کوریج دیکھ کر میں یہ سوچتے سوچتے سو گیا کہ اللہ کیا کرنے والا ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
ہر کوئی چڑھتے سورج کو سلام کرتا ہے۔ مگر نذیر ناجی کو یہاں کریڈٹ دینا پڑے گا کہ وہ اس اکثریتی منتخب نمائندوں کے خلاف لکھ رہا ہے۔

اور صدر پرویز مشرف کو بھی سلام۔ یہ شخص پاکستان سے بہت مخلص ہے۔ قوم اس عظیم شخص کو کھو کر جلد بہت پچھتانے والی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص کو حاسدوں کے شر سے بچائے۔ امین۔
 

دوست

محفلین
یہاں ہر کوئی عظیم ہوتا ہے۔ اور ہر کوئی قائد اعظم کا سچا جانشین۔
اور اس قوم کو اس کے جانے کے بعد اس کی قدر کا احساس ہوتا ہے۔
جنرل غلام محمد سے لے کر پرویز مشرف اور نواز شریف تک سارے عظیم لیڈر ہیں۔
یہ قوم ہی کم عقل، بے وقوف، احمق اور ناعاقبت اندیشوں کا ٹولہ ہے جو چین سے ایک بندے کو حکومت بھی کرنے نہیں دیتی ہر دس بارہ سال بعد آمر کو اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے۔
long live dictators
 

مہوش علی

لائبریرین
یہاں ہر کوئی عظیم ہوتا ہے۔ اور ہر کوئی قائد اعظم کا سچا جانشین۔
اور اس قوم کو اس کے جانے کے بعد اس کی قدر کا احساس ہوتا ہے۔
جنرل غلام محمد سے لے کر پرویز مشرف اور نواز شریف تک سارے عظیم لیڈر ہیں۔
یہ قوم ہی کم عقل، بے وقوف، احمق اور ناعاقبت اندیشوں کا ٹولہ ہے جو چین سے ایک بندے کو حکومت بھی کرنے نہیں دیتی ہر دس بارہ سال بعد آمر کو اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے۔
Long Live Dictators

یہ قوم ہی کم عقل، بے وقوف، احمق اور ناعاقبت اندیشوں کا ٹولہ ہے جو چین سے ایک بندے کو حکومت بھی کرنے نہیں دیتی ہر دس بارہ سال بعد آمر کو اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے۔ ...................................... اور پھر زرداری جیسوں کو پھر اٹھا کر مسند اقتدار میں بٹھا دیتی ہے۔ اب کرے قوم عیاشی اگلے 5 سال زرداری کی نگری میں۔
 
تو پھر مولا علی کے قول پر عمل کیجئیے اور دیکھئے کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھئیے کہ کون کہہ رہا ہے۔
سو بار شکریہ اس بیش قیمت قول کو شئیر کرنے کا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہاہاہا، میرے خیال میں تو پاکستان، صدر پاکستان کا بھی نہیں بلکہ موصوف صدر بش کا ہے :)

بھائی جی، یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے۔
اور بھائی جی، اس پر دل قربان، اس پر جان بھی قربان ہے۔
اور بھائی جی، اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو
اور، اس سے تیری آبرو ہے اس سے میری آبرو۔
 
پاکستان کے سیاستدانوں کو مل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ آئندہ کوئی جنرل ملک کی کی باگ دوڑ نہیں سنبھالے گا۔ ہر جنرل نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے، مشرف صاحب کا مواخذہ ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی جنرل ملک کو تاراج نہ کرسکے اور یہ بھی فیصلہ ہونا چاہیے کہ امریکہ کے اثر نکلا جائے۔ اگر امریکہ کا کردار رہا تو پھر کسی جنرل کو لایا جائے گا۔ سیاستدان کتنے برے سہی لیکن پھر بھی ان کو عوام کے پاس آنا پڑتا ہے جبکہ جنرل کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔
 
نہیں سمجھ آئی؟؟؟؟؟

تو پھر مولا علی کے قول پر عمل کیجئیے اور دیکھئے کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھئیے کہ کون کہہ رہا ہے۔

یہ ناجی نہیں بول رہا بلکہ وہ چیز بول رہی جو سندہ اسیمبلی پی پی کے ایم ایز کو آفر کی گئی تھی۔
 
ذرا ملاحظہ ہو وسعت اللہ خان کا کالم
یہ عالی جناب لوگ!
20080807094435musharraf_photo203.jpg
وہ ایک نہایت گرم دوپہر تھی جب میں کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر چلے چلا جارہا تھا۔اچانک ایک پجیرو رکی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شخص گاڑی کا شیشہ اتارتے ہوئے چیخا ’سائیں اس گرمی میں پسینے پسینے کہاں جارہے ہو۔آؤ میں تمھیں ڈراپ کردوں‘۔ مجھے اپنے اس متمول سابقہ کلاس فیلو کو پہچاننے میں ایک منٹ لگا۔ جیسے ہی میں پجیرو میں بیٹھا اور ایر کنڈیشنر نے ذرا اوسان بحال کیے تو رنگدار شیشوں سے باہر دیکھتے ہوئے یوں لگا جیسے دھوپ غائب ہوگئی ہو۔ موسم اچانک خوشگوار ہوگیا ہو۔ زندگی کے مسائل آدھے رہ گئے ہوں۔ کچھ دیر بعد میری منزل آ گئی۔ تیز دھوپ پھر چبھنے لگی۔ پسینے نے پھر بہنا شروع کردیااور دنیا پھر بری لگنے لگی۔
جب دس منٹ کا پجیرو کا سفر میرے ہوش و حواس کے ساتھ کھیل سکتا ہے تو سوچیئے اس عالی جناب کا کیا ہوتا ہوگا جس کی گاڑی اور محل کا ایرکنڈیشنر کبھی بند ہی نہیں ہوتا۔ جس کے لئے طیارے اور ہیلی کاپٹر کا انجن ہروقت گرم رہتا ہے۔ جو محافظ گاڑیوں کے چیختے سائرن کے بغیر سفر کا تصور نہیں کرسکتا۔ جسے بس یہ معلوم ہے کہ ٹریفک لائٹ کا رنگ صرف سبز ہوتا ہے۔ جو رات کے تین بجے ناممکن سی فرمائش بھی کرے تو پوری ہوجاتی ہے۔ جس کے ایک دستخط سے کوئی زندگی پا سکتا ہو یا پھندے پر جھول سکتا ہو۔ جس کے کان میں بس یہی صدا آتی ہو کہ عوام اسے پوجنے کی حدتک چاہتے ہیں۔ جو صرف وہی اخباری سرخیاں پڑھتا ہو جنہیں اسکے پرسنل سٹاف نے مارکر سے پیلا کیا ہوا ہو۔ جسے کبھی کبھی عوام کے ہجوم سے ملوانے کی نوٹنکی ایسے کی جائے کہ ہجوم میں شامل ہر فرد کی پیشگی سکریننگ اور بریفنگ کی گئی ہو تاکہ کسی کے منہ سے ایسی ویسی بات نہ نکل جائے جس سے عالی جناب کی تیوری پر بل پڑ جائیں۔

پھر ایک روز عالی جناب کو اچانک بتایا جاتا ہے کہ سر آپ کو یہ محل چھوڑنا پڑے گا۔ سر آپ حفاظتی تحویل میں رہیں گے یا بیرونِ ملک جانا پسند کریں گے؟ سر لوگ اب آپ کا سر مانگ رہے ہیں۔ یہ سن کر عالی جناب سکتے میں آجاتے ہیں۔ انکی باقی زندگی ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں بسر ہوجاتی ہے کہ میں نے تو دن رات اس ملک و قوم کے لئے وقف کردیئے پھر یہ احسان فراموشی کیوں ہورہی ہے۔میں نے کیا غلطی کی۔مجھے کسی نے خبردار کیوں نہیں کیا۔ میرے دوستوں کو کیا ہوا۔انہوں نے کیوں اچانک آنکھیں پھیر لیں۔ مجھے سب کچھ پہلے کیوں محسوس نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

اشیاء کا سحر آدمی کو لولا، بہرا اور اندھا کردیتا ہے۔ حقائق کے برعکس وہ اپنی حقیقتیں خود تراشتا ہے اور پھر ایک دن اس پر آشکار ہوتا ہے کہ چلچلاتی دھوپ ہی اصل حقیقت ہے۔ یقین نہ آئے تو پچھلے پانچ ہزار برس کے کسی بھی آمر کا احوال پڑھ لیجئے۔

رسولِ خدا نے یونہی یہ دعا نہیں مانگی تھی کہ اے میرے رب مجھے اشیاء کے سحر سے محفوظ رکھ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
پاکستان کے سیاستدانوں کو مل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ آئندہ کوئی جنرل ملک کی کی باگ دوڑ نہیں سنبھالے گا۔ ہر جنرل نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے، مشرف صاحب کا مواخذہ ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی جنرل ملک کو تاراج نہ کرسکے اور یہ بھی فیصلہ ہونا چاہیے کہ امریکہ کے اثر نکلا جائے۔ اگر امریکہ کا کردار رہا تو پھر کسی جنرل کو لایا جائے گا۔ سیاستدان کتنے برے سہی لیکن پھر بھی ان کو عوام کے پاس آنا پڑتا ہے جبکہ جنرل کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔

میری تو دعا ہے کہ پہلے قوم اس سحر سے باہر نکلے کہ جو وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے سیاستدان عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔
کیا آپ کو مادرِ طالبان مرحومہ بینظیر بھٹو بھول گئیں جو ماڈرن ازم کا پرچار کرتی تھیں اور پھر قوم نے دیکھا کہ امریکہ کے آشیرواد سے انہوں نے طالبان کو جنم دیا؟
قوم کی فلاح امریکہ مخالف نعرے لگانے میں نہیں ہے، بلکہ جہاں مفادات مشترکہ ہوں وہاں مل کر کام کرنے اور جہاں مفادات مختلف ہیں وہاں انکی مخالفت کرنے میں ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
خاتون ناجی صاحب تو کرائے کے ٹٹو ہیں۔ کچھ یورو دے کر ان سے پانڈوں کی نسل کشی پر لکھوا لیجئے۔
دریائی گھوڑوں کی اقسام پر بھی دو تین کالم کی سیریز چل سکتی ہے۔
ہم پاک نستعلیق کے خواص پر بھی ناجی صاحب سے لکھوانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن جیب ناجی صاحب سے بھی ہلکی ہے۔
آپ کن کی باتوں میں آ رہی ہیں۔ :grin:
 
میری تو دعا ہے کہ پہلے قوم اس سحر سے باہر نکلے کہ جو وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے سیاستدان عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔
کیا آپ کو مادرِ طالبان مرحومہ بینظیر بھٹو بھول گئیں جو ماڈرن ازم کا پرچار کرتی تھیں اور پھر قوم نے دیکھا کہ امریکہ کے آشیرواد سے انہوں نے طالبان کو جنم دیا؟
قوم کی فلاح امریکہ مخالف نعرے لگانے میں نہیں ہے، بلکہ جہاں مفادات مشترکہ ہوں وہاں مل کر کام کرنے اور جہاں مفادات مختلف ہیں وہاں انکی مخالفت کرنے میں ہے۔
مجھے آپ کی امریکہ کی حمایت سمجھ نہیں آتی، مردہ باد امریکہ زندہ نعرہ ہے جو ایک پڑوسی ملک کے پارلیامینٹ میں بھی لگایا جاتا ہے اور اللہ کی مہربانی سے اس ملک کا وقار بلند ہے۔
پہلے مجھے طالبان کی تایخ بتائیں بلکہ اس سے پہلے ضیاء الحق مرحوم کے دور میں افغان جہاد کے بارے میں اور ساتھ ہی ان لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے بارے میں بتائیں پھر بی بی صاحبہ نے کیسے طالبان کو جنم دیا اور اس کے بعد مشرف صاحب کے زریں کارنامے بتائیں پھر میں آپ سے بات ہوگی۔
 

خرم

محفلین
محفوظ راستہ تو سب ہی مانگتے ہیں۔ ہونا تو وہی ہے جو اللہ کو منظور لیکن ضامنین کا کردار ہمیشہ ہی اہم ہوتا ہے۔ اور قوم کو امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگانے دیجئے، زرداریوں، شریفوں، شرفوؤں کا ضامن تو امریکہ ہی ہوا کرتا ہے اور ابھی بھی جو وہ کہیں گے وہی سب تسلیم کریں گے۔ میرے ذاتی خیال میں نوازشریف کو سیاسی زندگی دینے کے لئے شرفو کا جانا کم از کم ٹھہر گیا ہے۔ وجہ یہ کہ جج تو بحال ہونے نہیں، وہ اپنے ووٹروں کویہ تو کہہ سکے گا کہ میں نے شرفو کو گھر بھجوا دیا۔ نئی صف بندی ہے اور اسی کی تیاریاں ہیں۔ قوم خوش ہولے۔ آخر مہنگائی کے دنوں میں تھوڑی سی تفریح پر تو اس کا حق ہے۔ وگرنہ بات صرف اتنی ہے کہ اگر بندے ایک سے زیادہ ہوں تو لوگ ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہتے ہیں اور ماسٹر لوگوں کا کام نکلتا رہتا ہے۔ ایک ہی بندہ ہو تو سب اکٹھے ہو کر اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس لئے اب شائد وہی 88 والا فارمولا چلے گا۔
واللہ اعلم
 

وجی

لائبریرین
بھائی ایک بات کرنا چاہونگا کہ جب گھر کا رکھوالا گھر کا مالک بن بیٹھے تو اس گھر کا اللہ حافظ ہوتا ہے

اور مہوش علی صاحبہ طالبان کیسے بنی اس کی تفصیل دے دیجیئے گا اور یہ بھی کہ بینظیر کا اس میں کتنا ہاتھ ہے اور ایک اور بات وہ یہ کہ افغانی طالبان اور پاکستانی طالبان میں کیا فرق ہے ؟؟
 
Top