پھر بات وہیں آجائے گی کہ مولوی نے اہل اقتدار کے آلہ بن کر لوگوں کو سیاست سے دور کر دیا ۔ قرآن کو گھر کی چیز بنا دی ۔ اگر مولوی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قران کا نظام قبول نہیں ، چوری کی سزا، زنا کی سزا ۔ نماز کی پابندی ، اور کئی امور ہیں ، جن کی پابندی لازم ہے ، بات یہ ہے کہ مولوی کی نظر پورے اسلام پر ہوتی ہے ، ( کچھ خرابیاں کچھ افراد کی یقینا ہے ) مگر اس کی نظر فقط قران پر نہیں ، کہ حکم صلوۃ تو قران سے اخذ کرے اور طریقہ نماز قران میں نہ ہونے سے نماز پڑھنا پڑھانا چھوڑ دے ، یعنی قران کے ساتھ حدیث بھی ہوگی ، اور اس کے احکامات بھی ہوں گے ، لوگ فقط قران کے نام پر اسلام کا نام لے کر آزاد روی چاہتے ہیںجب ایک تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تو مولوی یا مُلا یا علماء کرام میں دو گروہوں کی تقسیم نظر آتی ہے ۔ ایک وہ جو مسلم امہ کے لیئے ایک دردمند دل کیساتھ اس میں خوفِ خدا بھی رکھتے ہیں ۔ اور سیاسی اور ریاستی اقتدار سے لاتعلق ہوکر اپنے اپنے مدارس میں امت مسلمہ کی نسلوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس دینے میں مصروف ہیں ۔ نہ ان کو کوئی لالچ ہے نہ کوئی دنیاوی غرض ۔ وہ بس اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں ۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مقصد اقتدار اعلیٰ حاصل یا اس میں اپنا اثرو رسوخ پیدا کرکے اپنے ذاتی اور انفرادی مقاصد پورے کرنا ہے ۔
عرض کی تھی کہ بہت سے لوگ کتب روایات سے ہی نماز کے طریقہ کو ثابت کرنے کا کہتے ہیں۔
کوئی اور بھی قران و حدیث ہیں ؟ آپ کے نزدیک جس سے آپ بحث کرتے ہیں ؟ قران میں ہے کہفرید صاحب، آپ روایئتی حدیچ و قرآن کی بحث میںمصروف ہیں۔