جاسم محمد
محفلین
سر جڑی پاکستانی بہنوں صفا اور مروہ کی علیحدگی کا کامیاب سفر
ریچل بیکانن بی بی سی نیوز
دھڑ جڑے جڑواں بچے نہایت نایاب ہوتے ہیں۔ اس حالت میں کہ دونوں کے سر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ بی بی سی کو یہ موقع ملا کہ وہ برطانیہ کے ایک ایسے ہسپتال کا جائرہ لیں جہاں کئی آپریشنز کے بعد باہم ملی دو جڑواں بہنوں کو الگ کیا گیا۔
آپریشن تھیٹر میں ایک ہجوم ہے لیکن 20 لوگوں کی ٹیم یک جان ہو کر کام کر رہی ہے۔ ان کی ہر حرکت نپی تلی ہے اور وہ اپنا کام آرام سے کر رہے ہیں۔ کسی قسم کا دباؤ یا پریشانی نظر نہیں آ رہی۔ ان کے ہاتھ طریقۂ کار کے مطابق چل رہے ہیں۔
لیکن یہ کوئی معمولی آپریشن نہیں۔ ٹیبل پر موجود دو بچیوں کی پیچیدہ حالت آپریشن تھیٹر کی روشنی میں نمایاں ہو گئی ہے۔ صفا اور مروہ کے سر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور جب سرجنز ان کی الجھی ہوئی وریدوں کو الگ کرنے لگتے ہیں تو ان کے دماغ نظر آنے لگتے ہیں۔
پھر آپریشن تھیٹر میں اچانک ہلچل مچ جاتی ہے جب انستھیزیا دینے والے ڈاکٹر خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
صفا کے دماغ سے خون صحیح طرح سے نہیں بہہ رہا اور وہ اپنی بہن میں خون منتقل کر رہی ہیں۔ اس سے مروہ کے دل پر دباؤ بڑھ رہا ہے جس سے ان کی حالت بگڑ سکتی ہے۔
انستھیزیا دینے والے ڈاکٹر بلند آواز میں اہم چیزیں بتا رہے ہیں، اہم علامات کی نشاندہی کرتے ہیں اور بچیوں کی حالت مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک کہتے ہیں 'میرے خیال میں انھیں جھٹکے دینے ہوں گے۔‘
مروہ کی چھاتی پر پیڈ لگا دیے جاتے ہیں۔ سرجن اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تاکہ سب دیکھ لیں اور پھر وہ دو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
پھر ہر کوئی انتظار کرتا ہے۔
اگر وہ مروہ کو کھو دیتے ہیں تو وہ صفا کو بھی کھو دیں گے۔
پیدائش کا احوال
زینب بی بی پہلے سات بچوں کو جنم دے چکی ہیں اور ان سب کی پیدائش گھر ہی پر ہوئی۔ جب وہ جڑواں بچوں کو جنم دینے والی تھیں تو یہ ہی فیصلہ ہوا کہ یہ زچگی بھی گھر پر ہی کر لی جائے۔
الٹرا ساؤنڈ سکین میں کچھ پیچیدگیاں سامنے آئیں جن سے پریشانی شروع ہوئی اور انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ اس مرتبہ انھیں ہسپتال ہی لے جایا جائے۔
خاندان کے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا۔ بچیوں کی پیدائش سے دو ماہ قبل زینب کے شوہر کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا تھا۔
انھیں بتایا گیا کہ ان کے جڑواں بچے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہو سکتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان جڑواں بچوں کے جسم کا کون سا حصہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہو گا۔
کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ پیچیدگی کس حد تک سنگین ہو سکتی ہے۔
زینب نے اپنے گھر سے 31 میل کے فاصلے پر پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے حیات آباد کے ایک ہسپتال میں سات جنوری 2017 کو ایک آپریشن کے ذریعے جڑواں بچیوں کو جنم دیا۔ ان کے گھر والوں کو بتایا کہ دونوں بچیاں صحت مند ہیں لیکن زینب اپنی بچیوں کو نہیں دیکھ سکیں کیونکہ وہ آپریشن سے صحت یاب ہو رہی تھیں۔
بچیوں کے دادا محمد سعادت حسین کو سب سے پہلے علم ہوا کہ جڑواں بچیوں کے سر جڑے ہوئے ہیں اور انھیں میڈیکل کی زبان میں' کارنیوپیگس ٹوئن' کہا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی حالت کی بھی انتہائی غیرمعمولی شکل تھی۔
بچیوں کے دادا ہسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ میں نرسوں اور ڈاکٹروں کے لیے مٹھائی لے کر پہنچے تھے۔ بیٹے کی وفات کا غم ابھی تازہ تھا کہ اپنی پوتیوں کی پیدائش پر ان تلخ و شیریں لمحات سے گزرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بچیوں کو دیکھ خوش تو ہوئے لیکن ان کے ذہن پر یہ سوال سوار تھا وہ ان کے جڑے ہوئے سروں کا کیا کریں گے۔
پانچ دن بعد زینب اس قابل ہوئیں کہ انھیں آخرکار اپنی جڑواں بچیاں دکھائی جائیں اور اس سے پہلے انھیں بچیوں کی تصویر دکھائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ انھیں فوری طور پر بچیوں سے پیار ہو گیا۔
'وہ بہت پیاری تھیں اور ان کے گھنے بال اور گورا رنگ تھا۔ میں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ ان کے سر جڑے ہوئے ہیں۔ وہ خدا کی دین ہیں۔'
ان کے نام سعودی عرب کے شہر مکہ میں مسلمانوں کے لیے مقدس پہاڑوں پر صفا اور مروہ رکھے گئے۔
ایک ماہ بعد انھیں ہپستال سے گھر بھیج دیا گیا اور ان کا خاندان اس بات پر متفق ہو گیا کہ اگر ممکن ہوا تو انھیں علیحدہ کروا لیا جائے گا۔
ایک فوجی ہسپتال نے ان کا آپریشن کرنے کی پیش کش کی لیکن ساتھ ہی اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان میں سے ایک بچی کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسا خطرہ تھا جو بچیوں کی ماں مول لینے کو تیار نہیں تھیں۔
کسی متبادل کی تلاش شروع ہوئی اور جب بچیوں کی عمر تین ماہ کی ہوئی تو ان کا رابطہ اویس جیلانی سے کرایا گیا جو بچوں کے علاج کے لیے دنیا بھر میں مشہور لندن کے گریٹ اورمونڈ سٹریٹ ہپستال میں پیڈیاٹرک سرجن ہیں۔
اتفاق سے اویس جیلانی کا تعلق کشمیر سے ہے اور ان کی بچیوں کے خاندان سے فوراً ہی واقفیت ہو گئی۔
بچیوں کے سر کے سکین دیکھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بچیوں کے سر کامیابی سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں لیکن وہ یہ آپریشن بچیوں کے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کرنا چاہتے تھے تاکہ مزید پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا
یہ اگست سنہ 2018 کی بات ہے۔ برطانوی ویزے حاصل کیے جا چکے تھے لیکن مطلوبہ رقم دستیاب نہیں تھی۔ یہ کوئی ایسا آپریشن نہیں تھا جس کے لیے برطانوی حکومت کا صحت عامہ کا ادارہ نیشنل ہیلتھ سروس رقم فراہم کرتا۔ اویس جیلانی نے ہپستال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ رقم اکٹھی کی۔
اس دوران بچیوں کی عمر 19 ماہ ہوگئی جو اس عمر سے کہیں زیادہ تھی جس میں اویس جلانی ان کا آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ مزید تاخیر سے یہ آپریشن مزید خطرناک ہو سکتا تھا اور آپریشن کے بعد صحت یابی کا امکان کم۔
جیلانی نے بچیوں کے اہلخانہ سے کہا کہ وہ فوری طور پر برطانیہ پہنچیں۔
انھیں وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب وہ برطانیہ پہنچے تھے۔ 'وہ اگست کے شروع میں پہنچے جب ہمارے پاس اس آپریشن کرنے کے لیے بہت کم رقم جمع ہو سکی تھی۔ بچیاں یہاں تھیں اور میں سخت پریشان تھا۔ اس مرحلے پر مجھے یہ ذاتی ذمہ داری محسوس ہونے لگی تھی۔'
ان جڑوں بچیوں کے چچا محمد ادریس اور ان کے دادا کا ہپستال کے قریب ایک فلیٹ میں رہائش کا بندوبست کر دیا گیا لیکن زینب کو بچیوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا اور ان کو ہپستال کے کمرے ہی میں بچیوں کے ساتھ رکھا گیا۔
بچیوں کے سر جڑے ہونے کے باوجود ان کی ماں کے بقول دونوں کی اپنی الگ شخصیت تھی۔
صفا بہت تیز اور خوش باش ہے اور بہت باتیں کرتی ہے۔ مروہ اس کے مقابلے میں کافی شرمیلی ہے۔ زینب نے بتایا کہ مروہ کبھی کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتی ہے لیکن جب اس سے کوئی بات کی جائے تو وہ جواب نہیں دیتی۔
ایک ہفتے بعد جب اویس جیلانی اپنے ایک وکیل دوست کے ساتھ لنچ کر رہے تھے تو اچانک ایک بات سے ہر چیز کو بدل دیا۔ جیلانی نے جب دوست کو یہ کہانی سنائی تو انھوں نے اپنا موبائل اٹھا کر ایک فون کال کی۔
جیلانی سے انھوں نے کہا کہ وہ بچیوں کے بارے میں بتائیں۔ فون پر وہ پاکستان کے بڑے بزنس مین مرتضیٰ لاکھانی سے بات کر رہے تھے۔ چند منٹ میں انھوں علاج کے تمام اخراجات اٹھانے کی پیش کش کر دی۔
سر سے متصل
جڑے ہوئے جڑواں بچے ایک ہی تخم سے پیدا ہوتے ہیں اس لیے وہ ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔
بچوں کے جڑے ہوئے ہونے کے بارے میں دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ جنین کی تھیلی دو حصوں میں تقسیم یا تو دیر سے ہوتی ہے جس وجہ سے بچے پوری طرح علیحدہ نہیں ہو پاتے یا پھر جنینی تھیلی کی تقسیم کے بعد اس کا کچھ حصہ جڑا رہتا ہے اور بچوں کے جسم کے کچھ اعضا جڑ جاتے ہیں۔
جب ایسا ہوتا ہے تو اکثر جڑواں بچے چھاتی، پیٹ یا پیلوس سے جڑ جاتے ہیں۔
صفا اور مروہ جس حیرت انگیز اور غیر معمولی انداز میں جڑی ہوئی تھیں وہ لندن کے ہستال کے ڈاکٹروں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ بچیوں کے سر پچھلی طرف سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے چہرے مختلف سمتوں میں تھے۔
وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ ان کی کھوپڑی ایک لمبی ٹیوب کی طرح تھی۔ سکین سے پتا چلا کہ ان کے دماغ الگ الگ ہیں لیکن اس طرح کہ ایک کا دماغ دوسرے کے سر تک گیا ہوا ہے۔
اس لمبوتری شکل والے سر کو دو عام سروں کی طرح کرنا تھا۔
سرجیکل ٹیم کے لیے بڑی مشکل مشترکہ شریانوں اور نسوں کو الگ کرنا تھا۔ ایک بچی سے خون دوسری کو جا رہا تھا۔ ان جڑی ہوئی شریانوں کو الگ کرنے میں سر کو خون کی فراہمی بند ہونے سے فالج ہونے کا خطرہ تھا۔
کارنیوپیگس ٹوئن بچوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ میں ایسی صرف ایک پیدائش ہو سکتی ہے۔
ہر ایک کیس کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے اور کارنیوپیگس ٹوئن کے سنہ 1952 میں پہلے آپریشن کے بعد سے اب تک ایسے 60 آپریشن ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر جیلانی کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال چھ ایسے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں جنھیں کامیابی سے عیلحدہ کر لیا جاتا ہے۔
گریٹ اورمنڈ سٹریٹ کا ہسپتال اس طرح کے آپریشن کرنے کے لیے دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ صفا اور مروہ سے پہلے اس ہپستال میں دو اور اس طرح کے جڑواں بچوں کا آپریشن ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی اور ہسپتال میں اس طرح کے تین آپریشن نہیں ہوئے۔
ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم کو علم ہے کہ بہترین نتائج مرحلہ وار آپریشنوں کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جن کے دوران پہلے زخموں کو مندمل ہونے کا وقت مل جاتا ہے۔
تجربہ کار سرجنوں اور نرسوں کے علاوہ یہ آپریشن کرنے والے عملے میں سو سے زیادہ دیگر ماہرین شامل ہوتے ہیں جن میں بائیو انجینئر، تھری ڈی ماڈلز اور ورچول ریئلٹی کے ماہر شامل ہوتے ہیں۔
جیلانی اس آپریشن میں بچیوں کے دماغ اور خون کی شریانیں الگ کریں گے جب کہ پلاسٹک سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈناوئے کا کام بچیوں کے سر بنانے اور دونوں کی کھوپڑیاں مکمل کرنے کا تھا۔
پہلا آپریشن
پیر 15 اکتوبر 2018 کو صبح کے آٹھ بج رہے ہیں اور 20 لوگوں پر مشتمل ٹیم ہسپتال کے آپریشن تھیٹر نمبر 10 میں موجود ہے۔ ٹیم کا ہر فرد اس آپریشن کے دوران اپنے کردار سے بخوبی واقف ہے۔
جیلانی کہتے ہیں 'ہمارے پاس آج کی فہرست میں صرف ایک کیس ہے، جو صفا اور مروہ کا ہے۔ دو بچے اور صرف ایک کیس۔'
ان جڑواں بچوں کی آزادی کا سفر بس کچھ ہی دیر میں شروع ہونے والا ہے۔
یہ سرجری تین بڑے آپریشنز کا پہلا حصہ ہے اور اس میں جڑواں بچوں کی نسوں کو علیحدہ کیا جائے گا۔
جیلانی اپنا منصوبہ آخری بار دہراتے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے۔ ٹیم نے کئی مہینوں تک اس کی تیاری کی ہے۔
ڈاکٹر ڈناوے کہتے ہیں 'ہم نے ہر چیز باریکی سے دیکھ لی ہے اور اسے بار بار کر کے بھی دیکھ لیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر چیز ٹھیک طریقے سے کی جائے۔'
بمبل بی وارڈ میں جڑواں بچیوں کو آپریشن کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ صفا اور مروہ دونوں نے ایک جیسے سرجیکل گاؤن پہنے ہوئے ہیں اور وہ بےچینی سے رونے اور ہلنے لگتی ہیں۔
سرجڑے جڑواں بچوں کو الگ کرنا ایک خطرناک کام ہے۔ اس دوران ایک یا دونوں بچے مر سکتے ہیں، یا ان کے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بچوں کا خاندان ان خطرات سے آشنا ہے لیکن انھیں ڈاکٹروں کی اس ٹیم پر مکمل بھروسہ ہے۔
جیلانی کہتے ہیں 'ظاہر ہے جب دو لوگ ایسے جڑے ہوں تو زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو الگ کرنے کا جواز پیدا ہوتا ہے اور ان کا خاندان اس معاملے میں پر واضح سوچ رکھتا ہے۔'
ڈناوے کہتے ہیں کہ ٹیم نے تمام اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ 'یہ واضح ہے کہ جڑے ہونے سے الگ ہونے کی زندگی کافی بہتر ہے۔ اگر اس کے بحفاظت سرانجام پانے کے امکانات کم ہوتے تو ہم سوچتے کہ ایسا کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔ پوری ٹیم سمجھتی ہے کہ کامیابی سے الگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔'
جیسے ہی ٹرالی جڑواں بچیوں کو آپریشن تھیٹر لاتی ہے تو زینب اپنی بچیوں کو چومتی ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ آنے والے کچھ مہینے مشکل ہوں گے اور الگ ہونے کے جذبات بہت گہرے ہیں۔ آبدیدہ زینب کو نرس تسلی دیتی ہے۔
زینب انھیں اپنے خاندان کے فرد کی طرح دیکھتی ہیں۔ ہ کہتی ہیں 'مجھے امید ہے کہ سب ٹھیک رہے گا۔ مجھے تمام ڈاکٹروں پر بھروسہ ہے۔ میں ہمیشہ سمجھتی ہوں کہ خدا سب صحیح کر دے گا۔'
آپریشن تھیٹر میں پہلا کام کھوپڑی کے تین بڑے حصوں کو الگ کرنا ہے۔
جیلانی نے سرجیکل عدسے لگا رکھے تھے۔ وہ ان نشانات کو دیکھ رہے تھے جو انھوں نے دونوں لڑکیوں کی کھوپڑی پر لگائے تھے۔ ان کے سر کے بال اتارے جا چکے تھے اور جلد اور ہڈیوں میں کٹ لگائے جا چکے تھے۔
ایک بار جب ان کے دماغ نظر آنے لگے انھوں نے سرجیکل عدسوں کو ہٹا کر ایک اور مزید طاقتور چیز لگا لی۔
سات فٹ اونچائی پر موجود مائیکرو سکوپ آپریشن تھیٹر میں سب پر غالب تھا۔ اس کی مدد سے ہی نیوروسرجن جڑواں بچیوں کی خون کی وریدوں کے مائیکرو سٹرکچر کو دیکھ سکتے تھے۔
اویس جیلانی اب مائیکرو سکوپ سے دیکھ رہے تھے۔
اویس جیلانی نے اعلان کیا کہ اب دن کے ڈھائی بج چکے ہیں۔ صفا کی رگ جو مروہ کے دماغ میں خون لے کر جا رہی تھی اسے ٹھیک کر دیا گیا ہے اب ہم انتظار کرتے ہیں۔
یہ خطرناک لمحہ ہے۔ ہر وقت رابطہ کٹتا ہے اس سے دماغ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ پانچ منٹ کے بعد سرجن نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ دماغ کو اس سے بہت فرق پڑا ہے۔
یہ محنت طلب عمل کچھ مزید گھنٹے جاری رہا کیونکہ ایک بچی سے دوسری بچی تک آکسیجن لے جانے والے رگوں کو اب شکنجے میں لے کر سیل کر دیا گیا تھا۔
اسی دوران ڈناوے کی سربراہی میں کام کرنے والی دوسری ٹیم آپریشن کی مرکزی جگہ سے کچھ ہی فٹ کے فاصلے پر موجود تھی۔
ان کا کام یہ تھا کہ وہ کھوپڑی کے تین سیکشنز کے لیے ایک سخت فریم بنائے۔ جسے مختلف آپریشنز میں الگ الگ کیا جا سکتا تھا۔
ڈناوے نے کھوپڑی کے تین حصوں کو اکھٹا جوڑا۔ ہڈیوں کے کروی حصے دھاتی نیٹ ورک اور سکریوز کے ساتھ جڑی ہوئے تھے۔
ڈناوے نے کہا کہ ایک خاص امتحان بچیوں کی عمر تھی۔ بڑا ہونے کی وجہ سے وہ بہت چست تھیں اس لیے ہم جو بھی کرتے اس کی ان کی طرف سے مضبوط مزاحمت، ہاتھوں کو ہلانے اور مڑنے کی صورت میں یقینی تھی۔
جیسے ہی ٹیم نے احتیاط سے صفا اور مروہ کے دماغ کو الگ کیا۔ انھوں نے ایک نرم پلاسٹک کی شیٹ رکھ کر انھیں دوبارہ جڑنے سے روکا۔ یہ طریقہ کار محفوظ تھا کیونکہ دونوں دماغوں کے لیے کھوپڑی ایک ہی تھی۔
ایک بار جب وریدوں کو الگ الگ کر دیا گیا تو کھوپڑی کو دوبارہ سے جوڑا گیا۔ یہ آپریشن 15 گھنٹے جاری رہا۔
بچیوں کو دو دن تک انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا۔ پھر بمبل بی وارڈ میں بھیج دیا گیا جہاں وہ پہلے رہ رہی تھیں۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا۔
انتہائی جدید ٹیکنالوجی
جیلانی اور ڈناوے دونوں ہی سنہ 2006 اور سنہ 2011 میں اس ہسپتال میں ہی سر جڑے جڑواں بچوں کو الگ کرنے کے آپریشنز میں حصہ لے چکے ہیں۔
سنہ 2011 میں ریتل اور ریتاج نامی 11 ماہ کی دو لڑکیوں کو جن کا تعلق سوڈان سے تھا الگ کیا گیا تھا۔
ڈناوے کا کہنا ہے کہ صفا اور مروہ کا کیس مشکل ترین تھا وجہ ان کے دماغ کی شکل تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے دو کیس بہت سیدھے تھے اور ہماری قسمت بھی اچھی تھی۔ لیکن اس جڑواں کیس میں ہم نے جڑے ہوئے دماغوں کی پیچیدگی کو کم سمجھا۔ اور یہ بھی کہ وہ عمر میں بڑی تھیں اور میرا خیال ہے کہ بڑا ہونا واقعی بری خبر ہے۔
سرجنز کا خیال ہے کہ اس قسم کے آپریشن کے لیے بہترین عمر چھ سے بارہ ماہ کے درمیان ہوتی ہے۔ جیلانی کہتے ہیں کہ کم عمر دماغ میں خون کا دورانیہ بہتر ہوتا ہے اور اس میں دوبارہ بڑھنے کی قوت بھی زیادہ ہوتی ہے
ڈناوئے ان سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہر کام آسان ہوتا ہے۔ اس میں جلد کو کھینچنا، اس کا پھر سے بھر جانا اور ہڈیوں کا بھرنا بہتر ہوتا ہے۔‘
صفا اور مروہ کی عمر تقریباً دو برس تھی لیکن چونکہ ان کی عمر اس کے مخالف تھی تو ٹیم کو ان کے حق میں کچھ عوامل پر کام کرنا تھا۔
گذشتہ آٹھ سالوں میں ٹیکنالوجی بہتر ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے انھیں ان جڑواں بچیوں کو الگ کرنے میں پہلے کی نسبت زیادہ مدد ملی۔
ایک تنگ کمرے میں جہاں خم دار کمپیوٹر سکرین تھی، وہاں کرینیو فیشل پلاسٹک سرجن جولنگ آنگ تھے۔ وہ موڈلنگ ٹیم کے سربراہ تھے جس نے صفا اور مروہ کو الگ کرنا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ واقعی ایک غیرمعمولی کیس تھا اور یہ ایسا نہیں تھا کہ ہمیں اس کے بارے میں میڈیکل سکول میں سکھایا گیا ہو۔ اس سافٹ ویئر کے ساتھ ہم کمپیوٹر پر ایک حقیقی ماڈل بنا سکتے تھے ان بچیوں کی جسمانی ساخت کا اور پھر آپریشن سے پہلے پلان بنا سکتے تھے۔
سکرین پر انھوں نے ان بچیوں کی جڑے ہوئے دماغ، جلد اور کھوپڑیوں کا تھری ڈی ماڈل دکھایا جو کہ روایتی سکین سے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کی مدد سے ہم جڑواں کے خطرناک حصوں کے لیے آپریشن کے حوالے سے مختلف حکمتِ عملیاں بنا سکتے ہیں۔
یہ کمپیوٹر ماڈل صرف سکرین پر نہیں رہتے بلکہ جسمانی ساخت بھی رکھتے ہیں جس کے لیے ہم تھری ڈی پرنٹر کے شکرگزار ہیں۔
48 گھنٹوں کے بعد ہسپتال میں تھری ڈی ٹیکنیشن کوک ین چوئی ایک نرم پلاسٹک کا ٹکڑا لائے جس کی کوئی شکل نہیں تھی۔
جیسے ہی انھوں نے فالتو مواد کاٹا اور اسے دھویا تو ایک جڑواں بچی کی خالی کھوپڑی اور جلد کی مانند چیز نکلی۔ یہ اس کے لیے مددگار تھی کہ بچیوں کی اکھٹی کھوپڑی کو الگ کرنے کے بعد ان کی جلد کی تہہ کیسے الگ کی جائے گی۔
اس ضمن میں بہت سے تھری ڈی ماڈل بنائے گئے تاکہ سرجن آلات جراحی کے ذریعے جڑواں کی جلد کو ہاتھ لگانے سے قبل ان کی غیر معمولی ساخت کو پرکھ سکیں۔
جیلانی کہتے ہیں کہ ان ماڈلز کو آپریشنز سے پہلے دیکھنا اور ان کا استعمال کرنا اس پر بہت فرق ڈالتا ہے کہ ہم آپریشن کے لیے کیسے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اسے کیسے کرتے ہیں۔
جو ہمیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے وہ دراصل دماغ کو نہ ہلانا ہے۔ یہ بہت مشکل ہے۔
ڈناوے کہتے ہیں کہ ہم نے بہت سا وقت صرف ان ماڈلز کو دیکھنے میں گزارا اور اس میں کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟
لیکن ٹیم ان ماڈلز سے آگے گئی۔ ورچول ریئلٹی وائزر پہن کر اور کنٹرولز کے جوڑے کو تھامے جیلانی کمیپوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ گئے۔ کرسی کو ایک جانب سے دوسری جانب جھلاتے وہ یہ لفظ دہرا رہے تھے غیر یقینی۔
سرجن کو ورچول ورڈ کی مدد سے جڑواں بچوں کے دوران خون کے باہم ملے ہونے کو پرکھنے کا موقع ملا۔
انھوں نے کہا کہ یہ واضح طور پر مستقبل ہے۔ یہاں ہمارے پاس انجینئرز اور سافٹ وئیر کے ماہرین رحمت کی صورت میں ہیں ان کے پاس جو ہنر ہے وہ ایسا ہے جو بطور ڈاکٹر ہماری طبی تربیت میں نہیں ہے۔
دوسرا آپریشن
آپریشن کا دوسرا مرحلہ ایک ماہ کے بعد آیا۔ اگرچہ پہلی سرجری میں جڑواں بچیوں کے وریدوں کے رابطوں کو بند کیا گیا تھا۔ آج کا کام یہ تھا کہ ان کی باہم ملی ہوئی دماغ کی رگوں کو الگ کیا جائے ۔ ایسی صورتحال میں دونوں میں سے کسی ایک کو بچی کو فالج ہو سکتا تھا۔
اس بار سب کچھ آسان نہیں جا رہا تھا۔
جیسے ہی کھوپڑی کو الگ کیا گیا بچیوں کا خون نکلنا شروع ہو گیا۔ پچھلے آپریشن میں صفا کی گردن کی رگوں میں خون جم گیا تھا۔ وہ کوشاں تھے کہ اس کے دماغ سے خون نہ بہے لیکن وہ اس کے بجائے مروہ کو خون پہنچا رہی تھی۔ ایک بچی کا فشار خون انتہائی بلند تھا اور دوسری کا خطرناک حد تک کم تھا۔
بےہوش کرنے والے ڈاکٹرز بچیوں کو مستحکم رکھنے کے لیے کوشاں تھے اور پھر جب مروہ کے دل کی دھڑکن بہت مدہم ہو گئی تو ڈاکٹرز کو خدشہ ہوا کہ کہیں وہ اسی ٹیبل پر مر نہ جائے۔
آپریشن کی میز پر اچانک خاموشی چھا گئی سب کی نگاہیں آلات سے مزین سکرین پر مرکوز تھیں۔
صرف دل کی دھڑکن کو مانیٹر کرنے والی مشین سے ابھرتی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اور پھر یہ خطرہ بغیر کسی تشویشناک نتیجے کے ٹل گیا۔
سرجنز کے لیے واضح تھا کہ مروہ کمزور بچی ہے۔ اس لیے انھوں نے اسے اس کی رگوں کو آپس میں جوڑ دیا تاکہ اس کے زندہ بچنے کے امکانات کو بڑھایا جا سکے۔
یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ جیلانی جانتے تھے کہ اس سے صفا پر جو کہ دونوں میں مضبوط تھی، خطرناک اثر ہو سکتا ہے لیکن ٹیم نے کہا کہ یہ درست فیصلہ ہے۔ یہ آپریشن 20 گھنٹے تک جاری رہا۔
جیلانی تھک چکے تھے، انھوں نے اپنے قریب موجود جولنگ آنگ کو کام سونپ دیا۔
انھوں نے بتایا کہ میں اب پرسکون ہوں۔ ایک پوائنٹ پر تو ہم نے سوچا تھا شاید ہم نے مروہ کو کھو دیا ہے۔ ’لیکن اگر وہ جاگ جائیں جیسے ہم جاگتے ہیں، امید ہو وہ جاگیں گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘
سرجنز نے اگلی صبح چھ بجے آپریشن تھیٹر چھوڑا۔
دوپہر میں جیلانی نے ہسپتال فون کیا تاکہ بچیوں کی طبیت پوچھی جائے۔ انھیں بتایا گیا کہ صفا مشکل میں ہے وہ سانس لینے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی اور اس کی جلد پر دھبے پڑ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں میں نے سوچا شاید ’صفا مر گئی ہے۔‘ وہ سوچنے لگے کیسے۔ جذباتی طور پر وہ تھک چکے تھے اور سوئے بھی نہیں تھے۔
وہ کچن کے فرش پر بیٹھ گئے اور رونا شروع کر دیا۔ ’میری بیوی نے مجھے ایسی حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے مجھے فون تھمایا اور کہا ڈیوڈ کو فون کریں۔‘
وہ کہنے لگے کہ آپ نے جڑواں بچیوں پر بہت زیادہ وقت لگایا ہے اور آپ جسمانی طور پر تھک چکے ہیں۔ آپ کے پاس بہت کم وقت باقی ہے۔ اس لیے اب جذباتی اتار چڑھاؤ اور پیچیدگیوں کے ساتھ نمٹنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
دونوں سرجنز ایک مرتبہ پھر انتہائی نگہداشت کے کمرے میں چلے گئے اور سی ٹی سکین پر صفا کے دماغ کا معائنہ کرنے گلے۔
انھیں خدشتہ تھا کہ صفا کے دماغ کو فالج ہوا ہے اس حصے پر جہاں سے مروہ کو ’کلیدی نس‘ دی گئی ہے۔ اگلے دو دن صفا کی حالت تشویشناک تھی۔
زینب، ان کے بھائی اور سسر وہیں ساتھ ہی بچیوں کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ پھر آخرکار صفا میں کچھ بہتری کے آثار ظاہر ہوئے۔ دونوں جڑواں کو مصنوعی سانس دیا جانا ختم کر دیا گیا کیونکہ وہ خود سانس لے پا رہی تھیں۔
پھر سرجنز بھی دباؤ کی کیفت سے نکل گئے۔ اس سٹروک کی وجہ سے صفا کا بایاں بازو اور ٹانگ کمزور ہو گئی۔
لیکن یہ جیلانی کے ضمیر پر بوجھ تھا۔ انھوں نے کہا کہ میرے لیے بڑا لمحہ تب ہو گا جب وہ اپنے قدموں پر چلے گی اور اپنی بائیں بازو کو درست طریقے سے استعمال کرے گی کیونکہ اسے یہ کمزوری میں نے دی ہے اور میرے لیے یہ بہت ہی مشکل چیز ہے۔‘
نئی جلد کی تشکیل
جڑواں بچیوں کے مشترکہ نلی نما ڈھانچے سے دو گول سر تیار کرنا مخصوص چیلنج پیش کرتا ہے۔ ایک بار جب دونوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے تو دو سروں کو بنانے کے لیے بہت زیادہ جگہ نہیں ہوگی۔
ابھی جنوری سنہ 2019 ہے اور حتمی علیحدگی کو اب صرف چند ہفتے بچے ہیں۔ پلاسٹک سرجن ڈیوڈ ڈناوے اور جولنگ اونگ اس جڑواں بچے کے بستر کے پاس کھڑے تمام مسائل کے ایک حصے کے حل کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ دنوں کے سر کو علیحدہ کرنے کی صورت میں جلد کی کمی ہے۔
دو ہفتے قبل انھوں نے بچیوں کی پیشانیوں کی جلد کے اور پیچھے کے جڑے ہوئے حصے کے نیچے چار چھوٹے پلاسٹک کے جھولے ڈالے تھے اور اب یہ حصے عجیب طرح کے گلٹی نما نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر ڈناوے بتاتے ہیں کہ یہ جھولے خلیوں کو پھیلانے والے ہیں اور ان کا کام جلد کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
انھوں نے کہا: 'ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پورٹ لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے ہم ان میں سوئی سے سلائن ڈال سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم دھیرے دھیرے خلیوں کو پھیلانے والے مادے سوئی کے ذریعے داخل کریں گے اور وہ غبارے کی طرح پھول جائيں گے اور ان کے اوپر کی جلد پھیل جائے گی۔'
انھیں امید ہے کہ چھ ہفتوں میں جلد اتنی پھیل جائے گي کہ انھیں لڑکیوں کے سر کے اوپر وافر اضافی سطح مل جائے گی۔
ڈناوے نے تسلیم کیا کہ گذشتہ چند ماہ بہت آسان نہیں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'صفا اور مروہ کے لیے یہ بہت طوفان انگيز وقت رہا ہے۔ انفیکشن اور بخار کے سبب ان میں اتار چڑھا دیکھا گيا اور مروہ کے دل کو دونوں کے لیے بہت محنت سے کام کرنا پڑا جس کی وجہ سے انھیں چند مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن دونوں ڈٹی رہیں اور قدرے بہتر ہیں۔'
ڈیوڈ ڈناوے جلد کو پھیلانے والے جھولے میں سلائن ڈال رہے ہیں
لڑکیوں کے لیے اب انھیں علیحدہ کیا جانا باقی بچا ہے اور پہلی بار اپنی زندگی میں وہ ایک دوسرے کو آمنے سامنے سے دیکھ سکیں گي۔
علیحدگی
ان کی علیحدگی کے وقت کو چار ہفتے قبل از وقت طے کیا گیا کیونکہ مروہ کا دل ابھی بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ یہ فروری کا مہینہ ہے سرجری سے چار ماہ قبل کا وقت۔
اسی چیز کے لیے اتنے دنوں سے منصوبہ بندی اور تیاریاں ہو رہی تھیں۔
اس سے قبل دو آپریشنز کے دوران ان جڑواں بہنوں نے 35 گھنٹے کی سرجری برداشت کر رکھی ہے۔
اگلے سات گھنٹوں کے دوران باقی ہڈیوں، دماغ اور خلیوں کے انسلاک پر توجہ ہوگی یہاں تک کہ صرف ڈیورا نامی ایک چیز بچ جائے گی جو کہ دونوں بہنوں کو جوڑنے والی دماغ کی جھلی ہے۔
اس کے بعد آخری جوڑ کو کاٹ دیا جائے گا۔ سرجری کرنے والی ٹیم کے کئی ارکان آتے ہیں اور دو کمزور اور نازک جسم کو آہستہ سے علیحدہ علیحدہ اٹھا لیتے ہیں۔
ابھی بھی دونوں بہنیں جڑواں ہیں لیکن اب وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر ڈناوے کہتے ہیں، 'شاندار'۔
ان کی دو سال کی زندگی میں پہلی بار دونوں بہن کی زندگی کا انحصار ایک دوسرے پر نہیں ہے۔ اب انیستھیزیا والی ٹیموں کو دونوں بہنوں کے دل کی دھڑکنوں، بلڈ پریشر اور دوسری اہم علامات کو منضبط کرنا آسان رہے گا۔
لیکن علیحدگی آج کی سرجری کا صرف ابتدائی عمل ہے۔ ٹیم کو اب دونوں بچیوں کی نلی نما کھوپڑی کے لیے گول سر تیار کرنا ہے اور انھیں امید ہے کہ انھوں نے جو اضافی جلد تیار کی ہے وہ سر کو ڈھکنے کے لیے کافی ہوگا۔
جڑواں بچی میں سے اب ہر ایک کو علیحدہ آپریٹنگ روم چاہیے۔ سرجری والی ٹیم کے نصف ارکان ڈاکٹر جیلانی اور اونگ کے ساتھ مروہ کے پاس رہیں گے جبکہ ڈاکر ڈناوے دوسرے کمرے میں باقی نصف کے ساتھ صفا کے سر کی از سر نو تعمیر کریں گے۔
ان کے کھلے سر کر ڈھکنے کے لیے پلاسٹک فلمز کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ اسے حفاظت کے ساتھ منتقل کیا جاسکے۔
جب دونوں آپریشن والے روم آخری مرحلے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو دونوں سربراہ سرجن کمرے سے باہر بڑا دہانہ کھول کر مسکراتے ہوئے ہاتھ ملاتے ہیں۔
ڈناوے کہتے ہیں کہ 'یہ بہت ہی جذباتی لمحہ تھا۔ ہم ایک عرصے سے انھیں اس مرحلے تک لانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ وہ بہت سارے آپریشن سے گزریں اور اب وہ آپریشن کام کر رہے ہیں۔'
جیلانی کہتے ہیں: 'ہم نے جڑواں بچوں کو علیحدہ کر دیا ہے لیکن اب ہمیں ان کا سر دوبارہ تیار کرنا ہے اور پھر انھیں ایک ساتھ رکھنا ہے۔'
علیحدگی کا عمل پورا نہیں ہو سکتا تھا اگر جڑواں بچیوں کے دماغ کی ظاہری شکل خراب حالت میں ہوتی۔
گذشتہ چار مہینوں کے دوران ہلکے ہلکے دباؤ سے ڈاکٹروں نے بہت حد تک دماغ کی ظاہری شکل کو درست کر دیا ہے لیکن لڑکیوں کے سر پیچھے کی جانب سے ہمیشہ بڑے رہیں گے۔ اب جو کام رہ گیا ہے وہ لبدی نما دماغ کو چند سینٹی میٹر نئے تیار کردہ کھوپڑی کے خالی حصے میں ہلکے سے دبانا ہے۔
'ٹیم صفا' اور 'ٹیم مروہ' نے کھوپڑی کو نئے سرے سے بنانے کا مشکل اور صبر آزما کام شروع کردیا۔
گذشتہ 23 سال سے پلاسٹک اور کارنیو فیشیئل سرجری کے ماہر ڈناوے دو کھوپڑیوں کے ٹکڑوں کو جوڑتے ہوئے کہتے ہیں: 'ایک ٹکڑا میرے لیے، ایک ٹکڑا تمہارے لیے، ایک ٹکڑا میرے لیے، ایک ٹکڑا تمہارے لیے۔'
دونوں سروں کے لیے وافر کھوپڑی کے پیش نظر ہر ٹکڑے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔
ڈناوے کہتے ہیں: 'کھوپڑی کو عام طور میں تین سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔ اندرونی اور باہری سطح بہت موٹی اور سخت ہڈی کی ہوتی ہے لیکن ان کے درمیان شہد کے چھتے کی طرح چیزیں ہوتی ہیں اس لیے آپ اسے دو حصوں میں منقسم کر سکتے ہیں۔ ان کی موٹائی آدھی رہ جائے گی لیکن اس سے ہم تقریبا تمام سر ہڈیوں سے ڈھکنے کے قابل ہو جائيں گے۔'
بچیوں کے دماغ پانی نہ داخل ہونے والے ڈیورا کیس میں ہیں جبکہ ان کی کھوپڑی کے ٹکڑوں کو اب ان کے بیضوی سر پر سیٹ کیا جا رہا ہے۔ ہر ایک ٹکڑے کو ان کی جگہ پر ڈسپوزیبل سٹچ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور ہڈی کے ٹکڑوں کا ایک جزیرہ نما سلسلہ تیار کیا جا رہا ہے۔
ہڈیوں کے درمیان کے شگاف کو ہڈیوں کے خلیوں سے پر کیا گیا ہے تاکہ آنے والے مہینون میں رفتہ رفتہ یہ شگاف بھر جائيں اور دونوں بہنوں کے اپنے مکمل سر ہوں۔
آخری کام نئے سرے سے تیار کردہ کھوپڑی پر جلد یا چمڑے کا چڑھانا ہے۔ اور اس کے لیے کافی جلد موجود ہے۔ ڈناوے حیرت میں اپنا سر ہلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'بہت ہی حیرت انگیز دن رہا، ہے ناں؟'
آپریشن روم میں 17 گھنٹے گزارنے کے بعد ڈیڑھ بجے دونوں سربراہ سرجنوں اور بچیوں کے اہل خانہ کے درمیان جذباتی میٹنگ ہوتی ہے جوکہ تمام دن ہسپتال میں کسی خبر کے منتظر رہے۔
جیلانی نے زینب سے کہا کہ بالآخری ان کی بیٹیوں کو علیحدہ کر دیا گيا۔ فرط جذبات سے مغلوب ہوکر زینب ان کا اور ڈاکٹر ڈناوے کا ہاتھ چوم لیتی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGABOURA FAMILY
رتل اور رتاج
جب تک صفا اور مروہ لندن کے ہسپتال میں صحت یاب ہو رہی تھیں، جیلانی اور ڈناوے نے سر جڑی جڑواں بچیوں رتل اور رتاج گوبورا کو دیکھنے کے لیے آئرلینڈ کا دورہ کیا۔ رتل اور تاج کو سنہ 2011 میں 11 ماہ کے عمر میں کامیاب سرجری کے بعد علیحدہ کیا گیا تھا۔
وہ دونوں بچیوں کو ان کے آبائی گھر کاوان میں دیکھنے کے لیے پرجوش تھے۔
ان کے والد عبدالمجید گوبورا ایک مقامی ہسپتال میں زچہ بچہ کے ماہر تھے جبکہ ان کی اہلیہ نے سوڈان سے بطور ماہر نفسیات تربیت حاصل کی تھی۔
رتل اور رتاج نے ایک جیسے سفید اور گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ دونوں بہت پیاری اور زندہ دل بچیاں تھیں۔ ستمبر میں وہ نو برس کی ہو جائے گیں۔
ان کے سروں کی بناوٹ میں معمولی سا فرق ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ کبھی ان کے سر جڑے ہوئے تھے۔ رتاج نے دونوں سرجنز کے ساتھ باقاعدہ ہاتھ ملایا۔ اس نے کوئی بات نہیں کی جو اس کے والدین کے مطابق اس کے مزاج کے خلاف تھا۔
رتل نے اپنے والد کی ٹانگوں کے پیچھے سے مہمانوں کو جھانکا۔
گوبورا بہنوں کا سر جڑے جڑواں بچوں کے کیسز میں کامیاب ترین آپریشن تھا۔ سنہ 2010 میں سوڈان میں پیدا ہونے والی ان بچیوں کا ایک ہی لمبا سا سر تھا لیکن صفا اور مروہ کے طرح ان کے دماغ ایک ساتھ نہیں جڑے تھے۔
وہ سات ماہ کی عمر میں بہت بری حالت میں لندن کے ہسپتال میں لائی گئیں تھیں۔ رتل کا دل زیادہ دھڑکنے کے باعث کام کرنا چھوڑ رہا تھا کیونکہ وہ اس کے دماغ کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کے دماغ کو بھی خون مہیا کر رہا تھا۔ سرجری کے بغیر دونوں بچیاں مر سکتیں تھی۔
ان کی چار مرحلوں پر مشتمل سرجری کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ لگا اور اس کے چند ہی ہفتوں بعد انھوں نے صحت یاب ہونا شروع کر دیا تھا اور وہ جنرل وارڈ میں منتقل ہو گئیں تھی۔
رتل آٹزم کا شکار ہیں اور مخصوص بچوں کے سکول جاتی ہیں جبکہ رتاج اپنی عمر کے مطابق نشوونما پا رہی ہیں اور روایتی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
دونوں جڑواں بہنوں میں بہت مضبوط رشتہ ہے۔ ان کے والدین کے مطابق رتاج اپنی بہن رتل پر حکم چلاتی ہے اور اکثر مدد کے لیے پکارتی ہے جب رتل اس کی بات نہیں مانتی۔
صوفے پر آرام سے اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنے اوپر بٹھائے ہوئے عبدالمجید نے فخر سے کہا ' میں اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتا کہ ہم یہاں دو صحت مند جڑواں بچیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں جیسا کہ میں نے اس وقت امید کی تھی۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا لمحہ ہے۔'
ایناس پھر حاملہ ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ صرف ایک بچہ ہے جڑواں نہیں۔
بہت مشکل تھا جب میں پہلے حاملہ ہوئی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ زندہ بھی پیدا ہوں گی یا نہیں۔ وہ بہت پریشان کن سال تھا۔
دونوں سرجنز کے لیے یہ ایک جذباتی ملاقات تھی۔
ڈوناوے نے کہا کہ 'بچیوں کے گھر میں ان سے ملاقات، ان کی رہائش ایک کمیونٹی میں تھی، سکول جاتے، انھیں اپنی زندگی کو خاندان کے ساتھ انجوائے کرتے دیکھنا۔ یہ بہت خصوصی تحفہ تھا۔ یہ ہمیں اس غیرمعمولی سرجری کی اہمیت کے بارے میں کچھ بتاتا ہے۔'
ریتل اور رتاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ سر جڑے بچوں کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے سرجری کو ابتدائی عمر میں ہونا چاہیے جب جسم میں دوبارہ بننے کی طاقت بہت زیادہ ہو لیکن یہ سرجری بہت مہنگی ہوتی ہے اور اس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں اس میں تاخیر ہوتی ہے جو کہ صفا اور مروہ ک ساتھ بھی ہوا۔
جیلانی نے پہلے ان کے خاندان کے ساتھ بات کی۔ اس وقت بچیاں فقط تین ماہ کی تھیں لیکن عطیہ کنندہ کی تلاش میں 16 ماہ کا عرصہ لگا۔ وہ جانتے تھے کہ تاخیر سرجری کے نتیجے پر اثر انداز ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ وہ اسے جلد کر سکتے تھے اور نتیجہ زیادہ بہتر آتا۔
انھیں طویل مدت میں کچھ کمیوں کا سامنا کرنا پڑتا، ہم نے اندازہ لگایا کہ انھیں کچھ مسائل ہوں گے ممکنہ طور پر حرکت کرنے میں اور خیالات وغیرہ میں۔ لیکن پھر ہمیں والدہ سے اشارہ ملا۔ وہ خوش تھیں کہ ہم جہاں ہیں وہاں ہیں۔ وہ محسوس کرتی تھیں کہ ان کی زندگی نہ ہوتی تو کیا ہمیں انھیں ایک موقع نہیں دینا چاہیے۔
جب اس طرح کے غیر معمولی آپریشنز ہوتے ہیں تو سرجن یہ سوچتے ہیں کہ کیا انھوں نے ٹھیک کیا۔ لیکن ڈناوے جانتے ہیں کہ جڑواں بچیوں کو اگر الگ نہ کیا جاتا تو ان کے لیے زندگی زیادہ مشکل ہوتی۔
جیلانی نے کہا کہ انھیں صحت مند اور چاق و چوبند رکھنے کے لیے ان کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہو سکتا تھا۔ واضح طور پر انھیں کچھ مشکلات سے کا سامنا ہو گا لیکن میرا خیال ہے کہ مجموعی طور پر یہ ان کے لیے بہت مثبت نتیجہ ہے۔ اب ان کے پاس ایک خوشحال زندگی گزارنے کا موقع ہے۔
دو سرجنز نے ایک خیراتی ادارہ کھولا ہے جس کا نام ’جیمینائے ان ٹوئنڈ‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں سر جڑے بچوں کے حوالے سے تحقیق کو اکھٹا کیا جائے گا اور مستقبل کے لیے آپریشنز کیے جائیں گے۔
ڈناوے کہتے ہیں کہ ہم جو دیکھنا چاہیے ہیں وہ یہ ہے کہ ان بچوں کے علاج میں نقصان دہ دیر نہ ہو۔ اور تحقیق سے ہمیں مزید زیادہ معلومات ملیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ابھی سر جڑے بچوں کے بارے میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک کر رہے ہیں لیکن حقیقتاً ہمیں اسے سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹZAINAB BIBI
بحالی
آخر کار صفا اور مروہ کے لیے ہسپتال سے چھٹی کا دن آن پہنچا۔ یہ تقریباً پانچ ماہ پہلے کی بات تھی جب انھیں ایک دوسرے سے الگ کیا گیا تھا۔ یہ بہت آہستہ آہستہ بحالی تھی۔
دونوں بچیوں کے سر کی پشت پر جلد کی پیوند کاری ہوئی تھی اور انھیں ہر روز فزیو تھراپی کروائی جاتی تھی کہ کیسے اٹھنا ہے، کیسے اپنے سر کو اوپر کرنا ہے یا کیسے بیٹھنا ہے۔
موقع کی مناسبت سے زینب نے انھیں سرخ اور سنہری رنگ کے دیدہ زیب لباس پہنائے۔ زینب جب آخری چیزیں پیک کر رہی تھیں تو مروہ اپنے بیڈ پر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی کیونکہ اس کے دادا اسے گدگدا رہے تھے۔
صفا اپنے انکل کے ساتھ کھیل رہی تھی اور اپنی باری پر ڈرم بھی بجاتی تھی۔ اب بھی ایک لمبا سفر باقی ہے۔ وہ بہتری کی جانب جا رہی ہیں اور پہلے کی طرح کھیلنا شروع کر رہی ہیں۔
جب جانے کا وقت آیا تو بچیوں کی والدہ ان نرسوں اور ڈاکٹروں کی آنکھوں میں آنسو تھے جنھوں نے ان کی دیکھ بھال کی۔
الوداعی ملاقات کے لیے جیلانی آپریشن تھیٹر سے باہر نکلے اور ان کی جانب بڑھے۔ ان کا اس خاندان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق واضح تھا اور وہ بچیوں کے روبہ صحت ہونے پر کس قدر خوش تھے۔ ان کی ہسپتال سے چھٹی پر ان کے احساسات ان کے چہرے پر رقم تھے۔
کم از کم اگلے چھ ماہ تک صفا اور مروہ کا خاندان لندن میں ہی رہے گا۔ ابھی دونوں بچیوں کی فزیوتھیراپی ہونی ہے اور معائنہ بھی ہونا ہے لیکن ان کا ارادہ سنہ 2020 کے اوائل میں پاکستان لوٹنے کا ہے۔
جب وہ ہسپتال سے نکل رہی تھیں جو کہ گذشتہ گیارہ ماں سے ان کا گھر تھا۔ زینب اس معاملے میں واضح تھیں کہ بچیوں کو الگ کرنا ایک درست قدم تھا۔
’یقیناً میں بہت خوش ہوں۔ میں ان کی ماں ہوں۔ خدا کی رحمت سے میں ان میں سے ایک کو ایک گھنٹے کے لیے اٹھا سکتی ہوں اور پھر دوسری کو ایک گھٹنے اٹھاتی ہوں۔ میں رات بھر ان کے ساتھ ہوتی ہوں۔ خدا نے ہماری دعائیں سن لیں۔‘
ریچل بیکانن بی بی سی نیوز
- 16 جولائ 2019
دھڑ جڑے جڑواں بچے نہایت نایاب ہوتے ہیں۔ اس حالت میں کہ دونوں کے سر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ بی بی سی کو یہ موقع ملا کہ وہ برطانیہ کے ایک ایسے ہسپتال کا جائرہ لیں جہاں کئی آپریشنز کے بعد باہم ملی دو جڑواں بہنوں کو الگ کیا گیا۔
آپریشن تھیٹر میں ایک ہجوم ہے لیکن 20 لوگوں کی ٹیم یک جان ہو کر کام کر رہی ہے۔ ان کی ہر حرکت نپی تلی ہے اور وہ اپنا کام آرام سے کر رہے ہیں۔ کسی قسم کا دباؤ یا پریشانی نظر نہیں آ رہی۔ ان کے ہاتھ طریقۂ کار کے مطابق چل رہے ہیں۔
لیکن یہ کوئی معمولی آپریشن نہیں۔ ٹیبل پر موجود دو بچیوں کی پیچیدہ حالت آپریشن تھیٹر کی روشنی میں نمایاں ہو گئی ہے۔ صفا اور مروہ کے سر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور جب سرجنز ان کی الجھی ہوئی وریدوں کو الگ کرنے لگتے ہیں تو ان کے دماغ نظر آنے لگتے ہیں۔
پھر آپریشن تھیٹر میں اچانک ہلچل مچ جاتی ہے جب انستھیزیا دینے والے ڈاکٹر خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
صفا کے دماغ سے خون صحیح طرح سے نہیں بہہ رہا اور وہ اپنی بہن میں خون منتقل کر رہی ہیں۔ اس سے مروہ کے دل پر دباؤ بڑھ رہا ہے جس سے ان کی حالت بگڑ سکتی ہے۔
انستھیزیا دینے والے ڈاکٹر بلند آواز میں اہم چیزیں بتا رہے ہیں، اہم علامات کی نشاندہی کرتے ہیں اور بچیوں کی حالت مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک کہتے ہیں 'میرے خیال میں انھیں جھٹکے دینے ہوں گے۔‘
مروہ کی چھاتی پر پیڈ لگا دیے جاتے ہیں۔ سرجن اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تاکہ سب دیکھ لیں اور پھر وہ دو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
پھر ہر کوئی انتظار کرتا ہے۔
اگر وہ مروہ کو کھو دیتے ہیں تو وہ صفا کو بھی کھو دیں گے۔
پیدائش کا احوال
زینب بی بی پہلے سات بچوں کو جنم دے چکی ہیں اور ان سب کی پیدائش گھر ہی پر ہوئی۔ جب وہ جڑواں بچوں کو جنم دینے والی تھیں تو یہ ہی فیصلہ ہوا کہ یہ زچگی بھی گھر پر ہی کر لی جائے۔
الٹرا ساؤنڈ سکین میں کچھ پیچیدگیاں سامنے آئیں جن سے پریشانی شروع ہوئی اور انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ اس مرتبہ انھیں ہسپتال ہی لے جایا جائے۔
خاندان کے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا۔ بچیوں کی پیدائش سے دو ماہ قبل زینب کے شوہر کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا تھا۔
انھیں بتایا گیا کہ ان کے جڑواں بچے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہو سکتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان جڑواں بچوں کے جسم کا کون سا حصہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہو گا۔
کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ پیچیدگی کس حد تک سنگین ہو سکتی ہے۔
زینب نے اپنے گھر سے 31 میل کے فاصلے پر پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے حیات آباد کے ایک ہسپتال میں سات جنوری 2017 کو ایک آپریشن کے ذریعے جڑواں بچیوں کو جنم دیا۔ ان کے گھر والوں کو بتایا کہ دونوں بچیاں صحت مند ہیں لیکن زینب اپنی بچیوں کو نہیں دیکھ سکیں کیونکہ وہ آپریشن سے صحت یاب ہو رہی تھیں۔
بچیوں کے دادا محمد سعادت حسین کو سب سے پہلے علم ہوا کہ جڑواں بچیوں کے سر جڑے ہوئے ہیں اور انھیں میڈیکل کی زبان میں' کارنیوپیگس ٹوئن' کہا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی حالت کی بھی انتہائی غیرمعمولی شکل تھی۔
بچیوں کے دادا ہسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ میں نرسوں اور ڈاکٹروں کے لیے مٹھائی لے کر پہنچے تھے۔ بیٹے کی وفات کا غم ابھی تازہ تھا کہ اپنی پوتیوں کی پیدائش پر ان تلخ و شیریں لمحات سے گزرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بچیوں کو دیکھ خوش تو ہوئے لیکن ان کے ذہن پر یہ سوال سوار تھا وہ ان کے جڑے ہوئے سروں کا کیا کریں گے۔
پانچ دن بعد زینب اس قابل ہوئیں کہ انھیں آخرکار اپنی جڑواں بچیاں دکھائی جائیں اور اس سے پہلے انھیں بچیوں کی تصویر دکھائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ انھیں فوری طور پر بچیوں سے پیار ہو گیا۔
'وہ بہت پیاری تھیں اور ان کے گھنے بال اور گورا رنگ تھا۔ میں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ ان کے سر جڑے ہوئے ہیں۔ وہ خدا کی دین ہیں۔'
ان کے نام سعودی عرب کے شہر مکہ میں مسلمانوں کے لیے مقدس پہاڑوں پر صفا اور مروہ رکھے گئے۔
ایک ماہ بعد انھیں ہپستال سے گھر بھیج دیا گیا اور ان کا خاندان اس بات پر متفق ہو گیا کہ اگر ممکن ہوا تو انھیں علیحدہ کروا لیا جائے گا۔
ایک فوجی ہسپتال نے ان کا آپریشن کرنے کی پیش کش کی لیکن ساتھ ہی اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان میں سے ایک بچی کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسا خطرہ تھا جو بچیوں کی ماں مول لینے کو تیار نہیں تھیں۔
کسی متبادل کی تلاش شروع ہوئی اور جب بچیوں کی عمر تین ماہ کی ہوئی تو ان کا رابطہ اویس جیلانی سے کرایا گیا جو بچوں کے علاج کے لیے دنیا بھر میں مشہور لندن کے گریٹ اورمونڈ سٹریٹ ہپستال میں پیڈیاٹرک سرجن ہیں۔
اتفاق سے اویس جیلانی کا تعلق کشمیر سے ہے اور ان کی بچیوں کے خاندان سے فوراً ہی واقفیت ہو گئی۔
بچیوں کے سر کے سکین دیکھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بچیوں کے سر کامیابی سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں لیکن وہ یہ آپریشن بچیوں کے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کرنا چاہتے تھے تاکہ مزید پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا
یہ اگست سنہ 2018 کی بات ہے۔ برطانوی ویزے حاصل کیے جا چکے تھے لیکن مطلوبہ رقم دستیاب نہیں تھی۔ یہ کوئی ایسا آپریشن نہیں تھا جس کے لیے برطانوی حکومت کا صحت عامہ کا ادارہ نیشنل ہیلتھ سروس رقم فراہم کرتا۔ اویس جیلانی نے ہپستال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ رقم اکٹھی کی۔
اس دوران بچیوں کی عمر 19 ماہ ہوگئی جو اس عمر سے کہیں زیادہ تھی جس میں اویس جلانی ان کا آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ مزید تاخیر سے یہ آپریشن مزید خطرناک ہو سکتا تھا اور آپریشن کے بعد صحت یابی کا امکان کم۔
جیلانی نے بچیوں کے اہلخانہ سے کہا کہ وہ فوری طور پر برطانیہ پہنچیں۔
انھیں وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب وہ برطانیہ پہنچے تھے۔ 'وہ اگست کے شروع میں پہنچے جب ہمارے پاس اس آپریشن کرنے کے لیے بہت کم رقم جمع ہو سکی تھی۔ بچیاں یہاں تھیں اور میں سخت پریشان تھا۔ اس مرحلے پر مجھے یہ ذاتی ذمہ داری محسوس ہونے لگی تھی۔'
ان جڑوں بچیوں کے چچا محمد ادریس اور ان کے دادا کا ہپستال کے قریب ایک فلیٹ میں رہائش کا بندوبست کر دیا گیا لیکن زینب کو بچیوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا اور ان کو ہپستال کے کمرے ہی میں بچیوں کے ساتھ رکھا گیا۔
بچیوں کے سر جڑے ہونے کے باوجود ان کی ماں کے بقول دونوں کی اپنی الگ شخصیت تھی۔
صفا بہت تیز اور خوش باش ہے اور بہت باتیں کرتی ہے۔ مروہ اس کے مقابلے میں کافی شرمیلی ہے۔ زینب نے بتایا کہ مروہ کبھی کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتی ہے لیکن جب اس سے کوئی بات کی جائے تو وہ جواب نہیں دیتی۔
ایک ہفتے بعد جب اویس جیلانی اپنے ایک وکیل دوست کے ساتھ لنچ کر رہے تھے تو اچانک ایک بات سے ہر چیز کو بدل دیا۔ جیلانی نے جب دوست کو یہ کہانی سنائی تو انھوں نے اپنا موبائل اٹھا کر ایک فون کال کی۔
جیلانی سے انھوں نے کہا کہ وہ بچیوں کے بارے میں بتائیں۔ فون پر وہ پاکستان کے بڑے بزنس مین مرتضیٰ لاکھانی سے بات کر رہے تھے۔ چند منٹ میں انھوں علاج کے تمام اخراجات اٹھانے کی پیش کش کر دی۔
سر سے متصل
جڑے ہوئے جڑواں بچے ایک ہی تخم سے پیدا ہوتے ہیں اس لیے وہ ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔
بچوں کے جڑے ہوئے ہونے کے بارے میں دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ جنین کی تھیلی دو حصوں میں تقسیم یا تو دیر سے ہوتی ہے جس وجہ سے بچے پوری طرح علیحدہ نہیں ہو پاتے یا پھر جنینی تھیلی کی تقسیم کے بعد اس کا کچھ حصہ جڑا رہتا ہے اور بچوں کے جسم کے کچھ اعضا جڑ جاتے ہیں۔
جب ایسا ہوتا ہے تو اکثر جڑواں بچے چھاتی، پیٹ یا پیلوس سے جڑ جاتے ہیں۔
صفا اور مروہ جس حیرت انگیز اور غیر معمولی انداز میں جڑی ہوئی تھیں وہ لندن کے ہستال کے ڈاکٹروں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ بچیوں کے سر پچھلی طرف سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے چہرے مختلف سمتوں میں تھے۔
وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ ان کی کھوپڑی ایک لمبی ٹیوب کی طرح تھی۔ سکین سے پتا چلا کہ ان کے دماغ الگ الگ ہیں لیکن اس طرح کہ ایک کا دماغ دوسرے کے سر تک گیا ہوا ہے۔
اس لمبوتری شکل والے سر کو دو عام سروں کی طرح کرنا تھا۔
سرجیکل ٹیم کے لیے بڑی مشکل مشترکہ شریانوں اور نسوں کو الگ کرنا تھا۔ ایک بچی سے خون دوسری کو جا رہا تھا۔ ان جڑی ہوئی شریانوں کو الگ کرنے میں سر کو خون کی فراہمی بند ہونے سے فالج ہونے کا خطرہ تھا۔
کارنیوپیگس ٹوئن بچوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ میں ایسی صرف ایک پیدائش ہو سکتی ہے۔
ہر ایک کیس کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے اور کارنیوپیگس ٹوئن کے سنہ 1952 میں پہلے آپریشن کے بعد سے اب تک ایسے 60 آپریشن ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر جیلانی کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال چھ ایسے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں جنھیں کامیابی سے عیلحدہ کر لیا جاتا ہے۔
گریٹ اورمنڈ سٹریٹ کا ہسپتال اس طرح کے آپریشن کرنے کے لیے دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ صفا اور مروہ سے پہلے اس ہپستال میں دو اور اس طرح کے جڑواں بچوں کا آپریشن ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی اور ہسپتال میں اس طرح کے تین آپریشن نہیں ہوئے۔
ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم کو علم ہے کہ بہترین نتائج مرحلہ وار آپریشنوں کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جن کے دوران پہلے زخموں کو مندمل ہونے کا وقت مل جاتا ہے۔
تجربہ کار سرجنوں اور نرسوں کے علاوہ یہ آپریشن کرنے والے عملے میں سو سے زیادہ دیگر ماہرین شامل ہوتے ہیں جن میں بائیو انجینئر، تھری ڈی ماڈلز اور ورچول ریئلٹی کے ماہر شامل ہوتے ہیں۔
جیلانی اس آپریشن میں بچیوں کے دماغ اور خون کی شریانیں الگ کریں گے جب کہ پلاسٹک سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈناوئے کا کام بچیوں کے سر بنانے اور دونوں کی کھوپڑیاں مکمل کرنے کا تھا۔
پہلا آپریشن
پیر 15 اکتوبر 2018 کو صبح کے آٹھ بج رہے ہیں اور 20 لوگوں پر مشتمل ٹیم ہسپتال کے آپریشن تھیٹر نمبر 10 میں موجود ہے۔ ٹیم کا ہر فرد اس آپریشن کے دوران اپنے کردار سے بخوبی واقف ہے۔
جیلانی کہتے ہیں 'ہمارے پاس آج کی فہرست میں صرف ایک کیس ہے، جو صفا اور مروہ کا ہے۔ دو بچے اور صرف ایک کیس۔'
ان جڑواں بچوں کی آزادی کا سفر بس کچھ ہی دیر میں شروع ہونے والا ہے۔
یہ سرجری تین بڑے آپریشنز کا پہلا حصہ ہے اور اس میں جڑواں بچوں کی نسوں کو علیحدہ کیا جائے گا۔
جیلانی اپنا منصوبہ آخری بار دہراتے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے۔ ٹیم نے کئی مہینوں تک اس کی تیاری کی ہے۔
ڈاکٹر ڈناوے کہتے ہیں 'ہم نے ہر چیز باریکی سے دیکھ لی ہے اور اسے بار بار کر کے بھی دیکھ لیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر چیز ٹھیک طریقے سے کی جائے۔'
بمبل بی وارڈ میں جڑواں بچیوں کو آپریشن کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ صفا اور مروہ دونوں نے ایک جیسے سرجیکل گاؤن پہنے ہوئے ہیں اور وہ بےچینی سے رونے اور ہلنے لگتی ہیں۔
سرجڑے جڑواں بچوں کو الگ کرنا ایک خطرناک کام ہے۔ اس دوران ایک یا دونوں بچے مر سکتے ہیں، یا ان کے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بچوں کا خاندان ان خطرات سے آشنا ہے لیکن انھیں ڈاکٹروں کی اس ٹیم پر مکمل بھروسہ ہے۔
جیلانی کہتے ہیں 'ظاہر ہے جب دو لوگ ایسے جڑے ہوں تو زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو الگ کرنے کا جواز پیدا ہوتا ہے اور ان کا خاندان اس معاملے میں پر واضح سوچ رکھتا ہے۔'
ڈناوے کہتے ہیں کہ ٹیم نے تمام اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ 'یہ واضح ہے کہ جڑے ہونے سے الگ ہونے کی زندگی کافی بہتر ہے۔ اگر اس کے بحفاظت سرانجام پانے کے امکانات کم ہوتے تو ہم سوچتے کہ ایسا کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔ پوری ٹیم سمجھتی ہے کہ کامیابی سے الگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔'
جیسے ہی ٹرالی جڑواں بچیوں کو آپریشن تھیٹر لاتی ہے تو زینب اپنی بچیوں کو چومتی ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ آنے والے کچھ مہینے مشکل ہوں گے اور الگ ہونے کے جذبات بہت گہرے ہیں۔ آبدیدہ زینب کو نرس تسلی دیتی ہے۔
زینب انھیں اپنے خاندان کے فرد کی طرح دیکھتی ہیں۔ ہ کہتی ہیں 'مجھے امید ہے کہ سب ٹھیک رہے گا۔ مجھے تمام ڈاکٹروں پر بھروسہ ہے۔ میں ہمیشہ سمجھتی ہوں کہ خدا سب صحیح کر دے گا۔'
آپریشن تھیٹر میں پہلا کام کھوپڑی کے تین بڑے حصوں کو الگ کرنا ہے۔
جیلانی نے سرجیکل عدسے لگا رکھے تھے۔ وہ ان نشانات کو دیکھ رہے تھے جو انھوں نے دونوں لڑکیوں کی کھوپڑی پر لگائے تھے۔ ان کے سر کے بال اتارے جا چکے تھے اور جلد اور ہڈیوں میں کٹ لگائے جا چکے تھے۔
ایک بار جب ان کے دماغ نظر آنے لگے انھوں نے سرجیکل عدسوں کو ہٹا کر ایک اور مزید طاقتور چیز لگا لی۔
سات فٹ اونچائی پر موجود مائیکرو سکوپ آپریشن تھیٹر میں سب پر غالب تھا۔ اس کی مدد سے ہی نیوروسرجن جڑواں بچیوں کی خون کی وریدوں کے مائیکرو سٹرکچر کو دیکھ سکتے تھے۔
اویس جیلانی اب مائیکرو سکوپ سے دیکھ رہے تھے۔
اویس جیلانی نے اعلان کیا کہ اب دن کے ڈھائی بج چکے ہیں۔ صفا کی رگ جو مروہ کے دماغ میں خون لے کر جا رہی تھی اسے ٹھیک کر دیا گیا ہے اب ہم انتظار کرتے ہیں۔
یہ خطرناک لمحہ ہے۔ ہر وقت رابطہ کٹتا ہے اس سے دماغ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ پانچ منٹ کے بعد سرجن نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ دماغ کو اس سے بہت فرق پڑا ہے۔
یہ محنت طلب عمل کچھ مزید گھنٹے جاری رہا کیونکہ ایک بچی سے دوسری بچی تک آکسیجن لے جانے والے رگوں کو اب شکنجے میں لے کر سیل کر دیا گیا تھا۔
اسی دوران ڈناوے کی سربراہی میں کام کرنے والی دوسری ٹیم آپریشن کی مرکزی جگہ سے کچھ ہی فٹ کے فاصلے پر موجود تھی۔
ان کا کام یہ تھا کہ وہ کھوپڑی کے تین سیکشنز کے لیے ایک سخت فریم بنائے۔ جسے مختلف آپریشنز میں الگ الگ کیا جا سکتا تھا۔
ڈناوے نے کھوپڑی کے تین حصوں کو اکھٹا جوڑا۔ ہڈیوں کے کروی حصے دھاتی نیٹ ورک اور سکریوز کے ساتھ جڑی ہوئے تھے۔
ڈناوے نے کہا کہ ایک خاص امتحان بچیوں کی عمر تھی۔ بڑا ہونے کی وجہ سے وہ بہت چست تھیں اس لیے ہم جو بھی کرتے اس کی ان کی طرف سے مضبوط مزاحمت، ہاتھوں کو ہلانے اور مڑنے کی صورت میں یقینی تھی۔
جیسے ہی ٹیم نے احتیاط سے صفا اور مروہ کے دماغ کو الگ کیا۔ انھوں نے ایک نرم پلاسٹک کی شیٹ رکھ کر انھیں دوبارہ جڑنے سے روکا۔ یہ طریقہ کار محفوظ تھا کیونکہ دونوں دماغوں کے لیے کھوپڑی ایک ہی تھی۔
ایک بار جب وریدوں کو الگ الگ کر دیا گیا تو کھوپڑی کو دوبارہ سے جوڑا گیا۔ یہ آپریشن 15 گھنٹے جاری رہا۔
بچیوں کو دو دن تک انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا۔ پھر بمبل بی وارڈ میں بھیج دیا گیا جہاں وہ پہلے رہ رہی تھیں۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا۔
انتہائی جدید ٹیکنالوجی
جیلانی اور ڈناوے دونوں ہی سنہ 2006 اور سنہ 2011 میں اس ہسپتال میں ہی سر جڑے جڑواں بچوں کو الگ کرنے کے آپریشنز میں حصہ لے چکے ہیں۔
سنہ 2011 میں ریتل اور ریتاج نامی 11 ماہ کی دو لڑکیوں کو جن کا تعلق سوڈان سے تھا الگ کیا گیا تھا۔
ڈناوے کا کہنا ہے کہ صفا اور مروہ کا کیس مشکل ترین تھا وجہ ان کے دماغ کی شکل تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے دو کیس بہت سیدھے تھے اور ہماری قسمت بھی اچھی تھی۔ لیکن اس جڑواں کیس میں ہم نے جڑے ہوئے دماغوں کی پیچیدگی کو کم سمجھا۔ اور یہ بھی کہ وہ عمر میں بڑی تھیں اور میرا خیال ہے کہ بڑا ہونا واقعی بری خبر ہے۔
سرجنز کا خیال ہے کہ اس قسم کے آپریشن کے لیے بہترین عمر چھ سے بارہ ماہ کے درمیان ہوتی ہے۔ جیلانی کہتے ہیں کہ کم عمر دماغ میں خون کا دورانیہ بہتر ہوتا ہے اور اس میں دوبارہ بڑھنے کی قوت بھی زیادہ ہوتی ہے
ڈناوئے ان سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہر کام آسان ہوتا ہے۔ اس میں جلد کو کھینچنا، اس کا پھر سے بھر جانا اور ہڈیوں کا بھرنا بہتر ہوتا ہے۔‘
صفا اور مروہ کی عمر تقریباً دو برس تھی لیکن چونکہ ان کی عمر اس کے مخالف تھی تو ٹیم کو ان کے حق میں کچھ عوامل پر کام کرنا تھا۔
گذشتہ آٹھ سالوں میں ٹیکنالوجی بہتر ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے انھیں ان جڑواں بچیوں کو الگ کرنے میں پہلے کی نسبت زیادہ مدد ملی۔
ایک تنگ کمرے میں جہاں خم دار کمپیوٹر سکرین تھی، وہاں کرینیو فیشل پلاسٹک سرجن جولنگ آنگ تھے۔ وہ موڈلنگ ٹیم کے سربراہ تھے جس نے صفا اور مروہ کو الگ کرنا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ واقعی ایک غیرمعمولی کیس تھا اور یہ ایسا نہیں تھا کہ ہمیں اس کے بارے میں میڈیکل سکول میں سکھایا گیا ہو۔ اس سافٹ ویئر کے ساتھ ہم کمپیوٹر پر ایک حقیقی ماڈل بنا سکتے تھے ان بچیوں کی جسمانی ساخت کا اور پھر آپریشن سے پہلے پلان بنا سکتے تھے۔
سکرین پر انھوں نے ان بچیوں کی جڑے ہوئے دماغ، جلد اور کھوپڑیوں کا تھری ڈی ماڈل دکھایا جو کہ روایتی سکین سے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کی مدد سے ہم جڑواں کے خطرناک حصوں کے لیے آپریشن کے حوالے سے مختلف حکمتِ عملیاں بنا سکتے ہیں۔
یہ کمپیوٹر ماڈل صرف سکرین پر نہیں رہتے بلکہ جسمانی ساخت بھی رکھتے ہیں جس کے لیے ہم تھری ڈی پرنٹر کے شکرگزار ہیں۔
48 گھنٹوں کے بعد ہسپتال میں تھری ڈی ٹیکنیشن کوک ین چوئی ایک نرم پلاسٹک کا ٹکڑا لائے جس کی کوئی شکل نہیں تھی۔
جیسے ہی انھوں نے فالتو مواد کاٹا اور اسے دھویا تو ایک جڑواں بچی کی خالی کھوپڑی اور جلد کی مانند چیز نکلی۔ یہ اس کے لیے مددگار تھی کہ بچیوں کی اکھٹی کھوپڑی کو الگ کرنے کے بعد ان کی جلد کی تہہ کیسے الگ کی جائے گی۔
اس ضمن میں بہت سے تھری ڈی ماڈل بنائے گئے تاکہ سرجن آلات جراحی کے ذریعے جڑواں کی جلد کو ہاتھ لگانے سے قبل ان کی غیر معمولی ساخت کو پرکھ سکیں۔
جیلانی کہتے ہیں کہ ان ماڈلز کو آپریشنز سے پہلے دیکھنا اور ان کا استعمال کرنا اس پر بہت فرق ڈالتا ہے کہ ہم آپریشن کے لیے کیسے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اسے کیسے کرتے ہیں۔
جو ہمیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے وہ دراصل دماغ کو نہ ہلانا ہے۔ یہ بہت مشکل ہے۔
ڈناوے کہتے ہیں کہ ہم نے بہت سا وقت صرف ان ماڈلز کو دیکھنے میں گزارا اور اس میں کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟
لیکن ٹیم ان ماڈلز سے آگے گئی۔ ورچول ریئلٹی وائزر پہن کر اور کنٹرولز کے جوڑے کو تھامے جیلانی کمیپوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ گئے۔ کرسی کو ایک جانب سے دوسری جانب جھلاتے وہ یہ لفظ دہرا رہے تھے غیر یقینی۔
سرجن کو ورچول ورڈ کی مدد سے جڑواں بچوں کے دوران خون کے باہم ملے ہونے کو پرکھنے کا موقع ملا۔
انھوں نے کہا کہ یہ واضح طور پر مستقبل ہے۔ یہاں ہمارے پاس انجینئرز اور سافٹ وئیر کے ماہرین رحمت کی صورت میں ہیں ان کے پاس جو ہنر ہے وہ ایسا ہے جو بطور ڈاکٹر ہماری طبی تربیت میں نہیں ہے۔
دوسرا آپریشن
آپریشن کا دوسرا مرحلہ ایک ماہ کے بعد آیا۔ اگرچہ پہلی سرجری میں جڑواں بچیوں کے وریدوں کے رابطوں کو بند کیا گیا تھا۔ آج کا کام یہ تھا کہ ان کی باہم ملی ہوئی دماغ کی رگوں کو الگ کیا جائے ۔ ایسی صورتحال میں دونوں میں سے کسی ایک کو بچی کو فالج ہو سکتا تھا۔
اس بار سب کچھ آسان نہیں جا رہا تھا۔
جیسے ہی کھوپڑی کو الگ کیا گیا بچیوں کا خون نکلنا شروع ہو گیا۔ پچھلے آپریشن میں صفا کی گردن کی رگوں میں خون جم گیا تھا۔ وہ کوشاں تھے کہ اس کے دماغ سے خون نہ بہے لیکن وہ اس کے بجائے مروہ کو خون پہنچا رہی تھی۔ ایک بچی کا فشار خون انتہائی بلند تھا اور دوسری کا خطرناک حد تک کم تھا۔
بےہوش کرنے والے ڈاکٹرز بچیوں کو مستحکم رکھنے کے لیے کوشاں تھے اور پھر جب مروہ کے دل کی دھڑکن بہت مدہم ہو گئی تو ڈاکٹرز کو خدشہ ہوا کہ کہیں وہ اسی ٹیبل پر مر نہ جائے۔
آپریشن کی میز پر اچانک خاموشی چھا گئی سب کی نگاہیں آلات سے مزین سکرین پر مرکوز تھیں۔
صرف دل کی دھڑکن کو مانیٹر کرنے والی مشین سے ابھرتی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اور پھر یہ خطرہ بغیر کسی تشویشناک نتیجے کے ٹل گیا۔
سرجنز کے لیے واضح تھا کہ مروہ کمزور بچی ہے۔ اس لیے انھوں نے اسے اس کی رگوں کو آپس میں جوڑ دیا تاکہ اس کے زندہ بچنے کے امکانات کو بڑھایا جا سکے۔
یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ جیلانی جانتے تھے کہ اس سے صفا پر جو کہ دونوں میں مضبوط تھی، خطرناک اثر ہو سکتا ہے لیکن ٹیم نے کہا کہ یہ درست فیصلہ ہے۔ یہ آپریشن 20 گھنٹے تک جاری رہا۔
جیلانی تھک چکے تھے، انھوں نے اپنے قریب موجود جولنگ آنگ کو کام سونپ دیا۔
انھوں نے بتایا کہ میں اب پرسکون ہوں۔ ایک پوائنٹ پر تو ہم نے سوچا تھا شاید ہم نے مروہ کو کھو دیا ہے۔ ’لیکن اگر وہ جاگ جائیں جیسے ہم جاگتے ہیں، امید ہو وہ جاگیں گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘
سرجنز نے اگلی صبح چھ بجے آپریشن تھیٹر چھوڑا۔
دوپہر میں جیلانی نے ہسپتال فون کیا تاکہ بچیوں کی طبیت پوچھی جائے۔ انھیں بتایا گیا کہ صفا مشکل میں ہے وہ سانس لینے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی اور اس کی جلد پر دھبے پڑ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں میں نے سوچا شاید ’صفا مر گئی ہے۔‘ وہ سوچنے لگے کیسے۔ جذباتی طور پر وہ تھک چکے تھے اور سوئے بھی نہیں تھے۔
وہ کچن کے فرش پر بیٹھ گئے اور رونا شروع کر دیا۔ ’میری بیوی نے مجھے ایسی حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے مجھے فون تھمایا اور کہا ڈیوڈ کو فون کریں۔‘
وہ کہنے لگے کہ آپ نے جڑواں بچیوں پر بہت زیادہ وقت لگایا ہے اور آپ جسمانی طور پر تھک چکے ہیں۔ آپ کے پاس بہت کم وقت باقی ہے۔ اس لیے اب جذباتی اتار چڑھاؤ اور پیچیدگیوں کے ساتھ نمٹنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
دونوں سرجنز ایک مرتبہ پھر انتہائی نگہداشت کے کمرے میں چلے گئے اور سی ٹی سکین پر صفا کے دماغ کا معائنہ کرنے گلے۔
انھیں خدشتہ تھا کہ صفا کے دماغ کو فالج ہوا ہے اس حصے پر جہاں سے مروہ کو ’کلیدی نس‘ دی گئی ہے۔ اگلے دو دن صفا کی حالت تشویشناک تھی۔
زینب، ان کے بھائی اور سسر وہیں ساتھ ہی بچیوں کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ پھر آخرکار صفا میں کچھ بہتری کے آثار ظاہر ہوئے۔ دونوں جڑواں کو مصنوعی سانس دیا جانا ختم کر دیا گیا کیونکہ وہ خود سانس لے پا رہی تھیں۔
پھر سرجنز بھی دباؤ کی کیفت سے نکل گئے۔ اس سٹروک کی وجہ سے صفا کا بایاں بازو اور ٹانگ کمزور ہو گئی۔
لیکن یہ جیلانی کے ضمیر پر بوجھ تھا۔ انھوں نے کہا کہ میرے لیے بڑا لمحہ تب ہو گا جب وہ اپنے قدموں پر چلے گی اور اپنی بائیں بازو کو درست طریقے سے استعمال کرے گی کیونکہ اسے یہ کمزوری میں نے دی ہے اور میرے لیے یہ بہت ہی مشکل چیز ہے۔‘
نئی جلد کی تشکیل
جڑواں بچیوں کے مشترکہ نلی نما ڈھانچے سے دو گول سر تیار کرنا مخصوص چیلنج پیش کرتا ہے۔ ایک بار جب دونوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے تو دو سروں کو بنانے کے لیے بہت زیادہ جگہ نہیں ہوگی۔
ابھی جنوری سنہ 2019 ہے اور حتمی علیحدگی کو اب صرف چند ہفتے بچے ہیں۔ پلاسٹک سرجن ڈیوڈ ڈناوے اور جولنگ اونگ اس جڑواں بچے کے بستر کے پاس کھڑے تمام مسائل کے ایک حصے کے حل کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ دنوں کے سر کو علیحدہ کرنے کی صورت میں جلد کی کمی ہے۔
دو ہفتے قبل انھوں نے بچیوں کی پیشانیوں کی جلد کے اور پیچھے کے جڑے ہوئے حصے کے نیچے چار چھوٹے پلاسٹک کے جھولے ڈالے تھے اور اب یہ حصے عجیب طرح کے گلٹی نما نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر ڈناوے بتاتے ہیں کہ یہ جھولے خلیوں کو پھیلانے والے ہیں اور ان کا کام جلد کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
انھوں نے کہا: 'ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پورٹ لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے ہم ان میں سوئی سے سلائن ڈال سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم دھیرے دھیرے خلیوں کو پھیلانے والے مادے سوئی کے ذریعے داخل کریں گے اور وہ غبارے کی طرح پھول جائيں گے اور ان کے اوپر کی جلد پھیل جائے گی۔'
انھیں امید ہے کہ چھ ہفتوں میں جلد اتنی پھیل جائے گي کہ انھیں لڑکیوں کے سر کے اوپر وافر اضافی سطح مل جائے گی۔
ڈناوے نے تسلیم کیا کہ گذشتہ چند ماہ بہت آسان نہیں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'صفا اور مروہ کے لیے یہ بہت طوفان انگيز وقت رہا ہے۔ انفیکشن اور بخار کے سبب ان میں اتار چڑھا دیکھا گيا اور مروہ کے دل کو دونوں کے لیے بہت محنت سے کام کرنا پڑا جس کی وجہ سے انھیں چند مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن دونوں ڈٹی رہیں اور قدرے بہتر ہیں۔'
ڈیوڈ ڈناوے جلد کو پھیلانے والے جھولے میں سلائن ڈال رہے ہیں
لڑکیوں کے لیے اب انھیں علیحدہ کیا جانا باقی بچا ہے اور پہلی بار اپنی زندگی میں وہ ایک دوسرے کو آمنے سامنے سے دیکھ سکیں گي۔
علیحدگی
ان کی علیحدگی کے وقت کو چار ہفتے قبل از وقت طے کیا گیا کیونکہ مروہ کا دل ابھی بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ یہ فروری کا مہینہ ہے سرجری سے چار ماہ قبل کا وقت۔
اسی چیز کے لیے اتنے دنوں سے منصوبہ بندی اور تیاریاں ہو رہی تھیں۔
اس سے قبل دو آپریشنز کے دوران ان جڑواں بہنوں نے 35 گھنٹے کی سرجری برداشت کر رکھی ہے۔
اگلے سات گھنٹوں کے دوران باقی ہڈیوں، دماغ اور خلیوں کے انسلاک پر توجہ ہوگی یہاں تک کہ صرف ڈیورا نامی ایک چیز بچ جائے گی جو کہ دونوں بہنوں کو جوڑنے والی دماغ کی جھلی ہے۔
اس کے بعد آخری جوڑ کو کاٹ دیا جائے گا۔ سرجری کرنے والی ٹیم کے کئی ارکان آتے ہیں اور دو کمزور اور نازک جسم کو آہستہ سے علیحدہ علیحدہ اٹھا لیتے ہیں۔
ابھی بھی دونوں بہنیں جڑواں ہیں لیکن اب وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر ڈناوے کہتے ہیں، 'شاندار'۔
ان کی دو سال کی زندگی میں پہلی بار دونوں بہن کی زندگی کا انحصار ایک دوسرے پر نہیں ہے۔ اب انیستھیزیا والی ٹیموں کو دونوں بہنوں کے دل کی دھڑکنوں، بلڈ پریشر اور دوسری اہم علامات کو منضبط کرنا آسان رہے گا۔
لیکن علیحدگی آج کی سرجری کا صرف ابتدائی عمل ہے۔ ٹیم کو اب دونوں بچیوں کی نلی نما کھوپڑی کے لیے گول سر تیار کرنا ہے اور انھیں امید ہے کہ انھوں نے جو اضافی جلد تیار کی ہے وہ سر کو ڈھکنے کے لیے کافی ہوگا۔
جڑواں بچی میں سے اب ہر ایک کو علیحدہ آپریٹنگ روم چاہیے۔ سرجری والی ٹیم کے نصف ارکان ڈاکٹر جیلانی اور اونگ کے ساتھ مروہ کے پاس رہیں گے جبکہ ڈاکر ڈناوے دوسرے کمرے میں باقی نصف کے ساتھ صفا کے سر کی از سر نو تعمیر کریں گے۔
ان کے کھلے سر کر ڈھکنے کے لیے پلاسٹک فلمز کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ اسے حفاظت کے ساتھ منتقل کیا جاسکے۔
جب دونوں آپریشن والے روم آخری مرحلے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو دونوں سربراہ سرجن کمرے سے باہر بڑا دہانہ کھول کر مسکراتے ہوئے ہاتھ ملاتے ہیں۔
ڈناوے کہتے ہیں کہ 'یہ بہت ہی جذباتی لمحہ تھا۔ ہم ایک عرصے سے انھیں اس مرحلے تک لانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ وہ بہت سارے آپریشن سے گزریں اور اب وہ آپریشن کام کر رہے ہیں۔'
جیلانی کہتے ہیں: 'ہم نے جڑواں بچوں کو علیحدہ کر دیا ہے لیکن اب ہمیں ان کا سر دوبارہ تیار کرنا ہے اور پھر انھیں ایک ساتھ رکھنا ہے۔'
علیحدگی کا عمل پورا نہیں ہو سکتا تھا اگر جڑواں بچیوں کے دماغ کی ظاہری شکل خراب حالت میں ہوتی۔
گذشتہ چار مہینوں کے دوران ہلکے ہلکے دباؤ سے ڈاکٹروں نے بہت حد تک دماغ کی ظاہری شکل کو درست کر دیا ہے لیکن لڑکیوں کے سر پیچھے کی جانب سے ہمیشہ بڑے رہیں گے۔ اب جو کام رہ گیا ہے وہ لبدی نما دماغ کو چند سینٹی میٹر نئے تیار کردہ کھوپڑی کے خالی حصے میں ہلکے سے دبانا ہے۔
'ٹیم صفا' اور 'ٹیم مروہ' نے کھوپڑی کو نئے سرے سے بنانے کا مشکل اور صبر آزما کام شروع کردیا۔
گذشتہ 23 سال سے پلاسٹک اور کارنیو فیشیئل سرجری کے ماہر ڈناوے دو کھوپڑیوں کے ٹکڑوں کو جوڑتے ہوئے کہتے ہیں: 'ایک ٹکڑا میرے لیے، ایک ٹکڑا تمہارے لیے، ایک ٹکڑا میرے لیے، ایک ٹکڑا تمہارے لیے۔'
دونوں سروں کے لیے وافر کھوپڑی کے پیش نظر ہر ٹکڑے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔
ڈناوے کہتے ہیں: 'کھوپڑی کو عام طور میں تین سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔ اندرونی اور باہری سطح بہت موٹی اور سخت ہڈی کی ہوتی ہے لیکن ان کے درمیان شہد کے چھتے کی طرح چیزیں ہوتی ہیں اس لیے آپ اسے دو حصوں میں منقسم کر سکتے ہیں۔ ان کی موٹائی آدھی رہ جائے گی لیکن اس سے ہم تقریبا تمام سر ہڈیوں سے ڈھکنے کے قابل ہو جائيں گے۔'
بچیوں کے دماغ پانی نہ داخل ہونے والے ڈیورا کیس میں ہیں جبکہ ان کی کھوپڑی کے ٹکڑوں کو اب ان کے بیضوی سر پر سیٹ کیا جا رہا ہے۔ ہر ایک ٹکڑے کو ان کی جگہ پر ڈسپوزیبل سٹچ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور ہڈی کے ٹکڑوں کا ایک جزیرہ نما سلسلہ تیار کیا جا رہا ہے۔
ہڈیوں کے درمیان کے شگاف کو ہڈیوں کے خلیوں سے پر کیا گیا ہے تاکہ آنے والے مہینون میں رفتہ رفتہ یہ شگاف بھر جائيں اور دونوں بہنوں کے اپنے مکمل سر ہوں۔
آخری کام نئے سرے سے تیار کردہ کھوپڑی پر جلد یا چمڑے کا چڑھانا ہے۔ اور اس کے لیے کافی جلد موجود ہے۔ ڈناوے حیرت میں اپنا سر ہلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'بہت ہی حیرت انگیز دن رہا، ہے ناں؟'
آپریشن روم میں 17 گھنٹے گزارنے کے بعد ڈیڑھ بجے دونوں سربراہ سرجنوں اور بچیوں کے اہل خانہ کے درمیان جذباتی میٹنگ ہوتی ہے جوکہ تمام دن ہسپتال میں کسی خبر کے منتظر رہے۔
جیلانی نے زینب سے کہا کہ بالآخری ان کی بیٹیوں کو علیحدہ کر دیا گيا۔ فرط جذبات سے مغلوب ہوکر زینب ان کا اور ڈاکٹر ڈناوے کا ہاتھ چوم لیتی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGABOURA FAMILY
رتل اور رتاج
جب تک صفا اور مروہ لندن کے ہسپتال میں صحت یاب ہو رہی تھیں، جیلانی اور ڈناوے نے سر جڑی جڑواں بچیوں رتل اور رتاج گوبورا کو دیکھنے کے لیے آئرلینڈ کا دورہ کیا۔ رتل اور تاج کو سنہ 2011 میں 11 ماہ کے عمر میں کامیاب سرجری کے بعد علیحدہ کیا گیا تھا۔
وہ دونوں بچیوں کو ان کے آبائی گھر کاوان میں دیکھنے کے لیے پرجوش تھے۔
ان کے والد عبدالمجید گوبورا ایک مقامی ہسپتال میں زچہ بچہ کے ماہر تھے جبکہ ان کی اہلیہ نے سوڈان سے بطور ماہر نفسیات تربیت حاصل کی تھی۔
رتل اور رتاج نے ایک جیسے سفید اور گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ دونوں بہت پیاری اور زندہ دل بچیاں تھیں۔ ستمبر میں وہ نو برس کی ہو جائے گیں۔
ان کے سروں کی بناوٹ میں معمولی سا فرق ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ کبھی ان کے سر جڑے ہوئے تھے۔ رتاج نے دونوں سرجنز کے ساتھ باقاعدہ ہاتھ ملایا۔ اس نے کوئی بات نہیں کی جو اس کے والدین کے مطابق اس کے مزاج کے خلاف تھا۔
رتل نے اپنے والد کی ٹانگوں کے پیچھے سے مہمانوں کو جھانکا۔
گوبورا بہنوں کا سر جڑے جڑواں بچوں کے کیسز میں کامیاب ترین آپریشن تھا۔ سنہ 2010 میں سوڈان میں پیدا ہونے والی ان بچیوں کا ایک ہی لمبا سا سر تھا لیکن صفا اور مروہ کے طرح ان کے دماغ ایک ساتھ نہیں جڑے تھے۔
وہ سات ماہ کی عمر میں بہت بری حالت میں لندن کے ہسپتال میں لائی گئیں تھیں۔ رتل کا دل زیادہ دھڑکنے کے باعث کام کرنا چھوڑ رہا تھا کیونکہ وہ اس کے دماغ کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کے دماغ کو بھی خون مہیا کر رہا تھا۔ سرجری کے بغیر دونوں بچیاں مر سکتیں تھی۔
ان کی چار مرحلوں پر مشتمل سرجری کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ لگا اور اس کے چند ہی ہفتوں بعد انھوں نے صحت یاب ہونا شروع کر دیا تھا اور وہ جنرل وارڈ میں منتقل ہو گئیں تھی۔
رتل آٹزم کا شکار ہیں اور مخصوص بچوں کے سکول جاتی ہیں جبکہ رتاج اپنی عمر کے مطابق نشوونما پا رہی ہیں اور روایتی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
دونوں جڑواں بہنوں میں بہت مضبوط رشتہ ہے۔ ان کے والدین کے مطابق رتاج اپنی بہن رتل پر حکم چلاتی ہے اور اکثر مدد کے لیے پکارتی ہے جب رتل اس کی بات نہیں مانتی۔
صوفے پر آرام سے اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنے اوپر بٹھائے ہوئے عبدالمجید نے فخر سے کہا ' میں اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتا کہ ہم یہاں دو صحت مند جڑواں بچیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں جیسا کہ میں نے اس وقت امید کی تھی۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا لمحہ ہے۔'
ایناس پھر حاملہ ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ صرف ایک بچہ ہے جڑواں نہیں۔
بہت مشکل تھا جب میں پہلے حاملہ ہوئی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ زندہ بھی پیدا ہوں گی یا نہیں۔ وہ بہت پریشان کن سال تھا۔
دونوں سرجنز کے لیے یہ ایک جذباتی ملاقات تھی۔
ڈوناوے نے کہا کہ 'بچیوں کے گھر میں ان سے ملاقات، ان کی رہائش ایک کمیونٹی میں تھی، سکول جاتے، انھیں اپنی زندگی کو خاندان کے ساتھ انجوائے کرتے دیکھنا۔ یہ بہت خصوصی تحفہ تھا۔ یہ ہمیں اس غیرمعمولی سرجری کی اہمیت کے بارے میں کچھ بتاتا ہے۔'
ریتل اور رتاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ سر جڑے بچوں کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے سرجری کو ابتدائی عمر میں ہونا چاہیے جب جسم میں دوبارہ بننے کی طاقت بہت زیادہ ہو لیکن یہ سرجری بہت مہنگی ہوتی ہے اور اس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں اس میں تاخیر ہوتی ہے جو کہ صفا اور مروہ ک ساتھ بھی ہوا۔
جیلانی نے پہلے ان کے خاندان کے ساتھ بات کی۔ اس وقت بچیاں فقط تین ماہ کی تھیں لیکن عطیہ کنندہ کی تلاش میں 16 ماہ کا عرصہ لگا۔ وہ جانتے تھے کہ تاخیر سرجری کے نتیجے پر اثر انداز ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ وہ اسے جلد کر سکتے تھے اور نتیجہ زیادہ بہتر آتا۔
انھیں طویل مدت میں کچھ کمیوں کا سامنا کرنا پڑتا، ہم نے اندازہ لگایا کہ انھیں کچھ مسائل ہوں گے ممکنہ طور پر حرکت کرنے میں اور خیالات وغیرہ میں۔ لیکن پھر ہمیں والدہ سے اشارہ ملا۔ وہ خوش تھیں کہ ہم جہاں ہیں وہاں ہیں۔ وہ محسوس کرتی تھیں کہ ان کی زندگی نہ ہوتی تو کیا ہمیں انھیں ایک موقع نہیں دینا چاہیے۔
جب اس طرح کے غیر معمولی آپریشنز ہوتے ہیں تو سرجن یہ سوچتے ہیں کہ کیا انھوں نے ٹھیک کیا۔ لیکن ڈناوے جانتے ہیں کہ جڑواں بچیوں کو اگر الگ نہ کیا جاتا تو ان کے لیے زندگی زیادہ مشکل ہوتی۔
جیلانی نے کہا کہ انھیں صحت مند اور چاق و چوبند رکھنے کے لیے ان کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہو سکتا تھا۔ واضح طور پر انھیں کچھ مشکلات سے کا سامنا ہو گا لیکن میرا خیال ہے کہ مجموعی طور پر یہ ان کے لیے بہت مثبت نتیجہ ہے۔ اب ان کے پاس ایک خوشحال زندگی گزارنے کا موقع ہے۔
دو سرجنز نے ایک خیراتی ادارہ کھولا ہے جس کا نام ’جیمینائے ان ٹوئنڈ‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں سر جڑے بچوں کے حوالے سے تحقیق کو اکھٹا کیا جائے گا اور مستقبل کے لیے آپریشنز کیے جائیں گے۔
ڈناوے کہتے ہیں کہ ہم جو دیکھنا چاہیے ہیں وہ یہ ہے کہ ان بچوں کے علاج میں نقصان دہ دیر نہ ہو۔ اور تحقیق سے ہمیں مزید زیادہ معلومات ملیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ابھی سر جڑے بچوں کے بارے میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک کر رہے ہیں لیکن حقیقتاً ہمیں اسے سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بحالی
آخر کار صفا اور مروہ کے لیے ہسپتال سے چھٹی کا دن آن پہنچا۔ یہ تقریباً پانچ ماہ پہلے کی بات تھی جب انھیں ایک دوسرے سے الگ کیا گیا تھا۔ یہ بہت آہستہ آہستہ بحالی تھی۔
دونوں بچیوں کے سر کی پشت پر جلد کی پیوند کاری ہوئی تھی اور انھیں ہر روز فزیو تھراپی کروائی جاتی تھی کہ کیسے اٹھنا ہے، کیسے اپنے سر کو اوپر کرنا ہے یا کیسے بیٹھنا ہے۔
موقع کی مناسبت سے زینب نے انھیں سرخ اور سنہری رنگ کے دیدہ زیب لباس پہنائے۔ زینب جب آخری چیزیں پیک کر رہی تھیں تو مروہ اپنے بیڈ پر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی کیونکہ اس کے دادا اسے گدگدا رہے تھے۔
صفا اپنے انکل کے ساتھ کھیل رہی تھی اور اپنی باری پر ڈرم بھی بجاتی تھی۔ اب بھی ایک لمبا سفر باقی ہے۔ وہ بہتری کی جانب جا رہی ہیں اور پہلے کی طرح کھیلنا شروع کر رہی ہیں۔
جب جانے کا وقت آیا تو بچیوں کی والدہ ان نرسوں اور ڈاکٹروں کی آنکھوں میں آنسو تھے جنھوں نے ان کی دیکھ بھال کی۔
الوداعی ملاقات کے لیے جیلانی آپریشن تھیٹر سے باہر نکلے اور ان کی جانب بڑھے۔ ان کا اس خاندان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق واضح تھا اور وہ بچیوں کے روبہ صحت ہونے پر کس قدر خوش تھے۔ ان کی ہسپتال سے چھٹی پر ان کے احساسات ان کے چہرے پر رقم تھے۔
کم از کم اگلے چھ ماہ تک صفا اور مروہ کا خاندان لندن میں ہی رہے گا۔ ابھی دونوں بچیوں کی فزیوتھیراپی ہونی ہے اور معائنہ بھی ہونا ہے لیکن ان کا ارادہ سنہ 2020 کے اوائل میں پاکستان لوٹنے کا ہے۔
جب وہ ہسپتال سے نکل رہی تھیں جو کہ گذشتہ گیارہ ماں سے ان کا گھر تھا۔ زینب اس معاملے میں واضح تھیں کہ بچیوں کو الگ کرنا ایک درست قدم تھا۔
’یقیناً میں بہت خوش ہوں۔ میں ان کی ماں ہوں۔ خدا کی رحمت سے میں ان میں سے ایک کو ایک گھنٹے کے لیے اٹھا سکتی ہوں اور پھر دوسری کو ایک گھٹنے اٹھاتی ہوں۔ میں رات بھر ان کے ساتھ ہوتی ہوں۔ خدا نے ہماری دعائیں سن لیں۔‘