صلاحیت سازی کے دو سال بعد ۔۔۔۔۔۔

صلاحیت سازی کے دو سال بعد ۔۔۔۔۔۔
1455866_10200536735415925_755609797_n.jpg

سعود بھائی کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے

دوستو آج قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے جسولا واقع مرکزی دفتر
فروغ اردو بھون
تقربا دو سال کے طویل عرصے بعد حاضر ہو نے کا موقع ملا ۔ اس سے قبل جنوری ۲۰۱۱ میں اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی کے لیے جاری ایک ورک شاپ میں شرکت ہوئی تھی ۔ اس وقت مسٹر حمیداللہ بھٹ ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔
آج میرے ہمراہ http://www.urduweb.org/ ویب سائٹ کے ایڈمنسٹریٹر مسٹر سعود عالم ( ابن سعید) تھے ۔ پہلےسے طے شدہ پروگرام کے مطابق کونسل کے دائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام صاحب کے ساتھ بڑی حوصلہ افزا گفتگو ہوئی

گفتگو کا مرکزی موضوع تھا انٹر نیٹ پر اردو کی اشاعت ۔۔ امکانات و مسائل
اس کے تحت مندرجہ ذیل امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی

یونی کوڈ کو اردو ویب میں برتنے کے فوائد اور استعمال میں پیش آنے والی دشواریوں کا حل کیسے ہو ، نیز کونسل اردو کے فروغ کے لیے ویب میڈیا کا استعمال کیسے کرے ۔ اردو کو ویب سے جوڑنے کے لیےurduweb نے ابتک جو کام کیا ہے اس کا تعارف ۔

سعود صاحب نے بڑے ہی پر اعتماد انداز میں کونسل کو اپنے مشورے اور تجاویز پیش کیے ۔ کونسل کے ڈائریکٹر نے ان کی تجاویز اور مشوروں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ این سی پی یو ایل کی ویب ساٗئتس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے فیڈبیک سے آگاہ کریں ۔ کونسل ان کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور خوض کرے گی ۔
 
آخری تدوین:
کوئی بات نہیں اصلاحی بھائی ، تلخ یادیں بھی بعض اوقات مسرت کا سامان فراہم کرتی ہیں ، جیسے آج آپ سوچ سوچ کر دل ہی دل میں مسرور ہو رہے ہیں ۔ بخدا آج جیسے ہی اردو بھون پر نظر پڑی سارا منظر تازہ ہو گیا ۔ شاہد صدیقی صاحب کی وہ بے بسی و لاچاری دیکھتے ہی بن رہی تھی جب سوالات سے جھلا کر سیشن کے درمیان ہی اٹھ کر چل دیے تھے ۔

تمہیں یاد ہے نا ، بات صرف یہ تھی کہ شرکا ان سے یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ آخر کیا وجہ رہی کہ شمالی ہند میں اردو صحافت پنپ نہ سکی اس خطے میں اردو صحافت کو معیاری اورکاروباری اعتبار پروفیشنل بنانے کے لیے انہوں نے سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی ِ جبکہ ان کا اخبار ہفت روزہ نئی دنیا طویل عرصے تک بلا مقابلہ نمائندگی کر رہا تھا ؟ اتنا سننا تھا کہ موصوف چراغ پا ہو گئے اور سیشن درمیان میں ہی چھوڑ کر چل دیے ۔ لیکن ایک بات تو ہے کہ یہ ٹر یننگ سیشن ہم سب کے لیے یاد گاری ثابت ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

افضل حسین

محفلین
کوئی بات نہیں اصلاحی بھائی ، تلخ یادیں بھی بعض اوقات مسرت کا سامان فراہم کرتی ہیں ، جیسے آج آپ سوچ سوچ کر دل ہی دل میں مسرور ہو رہے ہیں ۔ بخدا آج جیسے ہی اردو بھون پر نظر پڑی سارا منظر تازہ ہو گیا ۔ شاہد صدیقی صاحب کی وہ بے بسی و لاچاری دیکھتے ہی بن رہی تھی جب سوالات سے جھلا کر سیشن کے درمیان ہی اٹھ کر چل دیے تھے ۔

تمہیں یاد ہے نا ، بات صرف یہ تھی کہ شرکا ان سے یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ آخر کیا وجہ رہی کہ شمالی ہند میں اردو صحافت پنپ نہ سکی اس خطے میں اردو صحافت کو معیاری اورکاروباری اعتبار پروفیشنل بنانے کے لیے انہوں نے سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی ِ جبکہ ان کا اخبار ہفت روزہ نئی دنیا طویل عرصے تک بلا مقابلہ نمائندگی کر رہا تھا ؟ اتنا سننا تھا کہ موصوف چراغ پا ہو گئے اور سیشن درمیان میں ہی چھوڑ کر چل دیے ۔ لیکن ایک بات تو ہے کہ یہ ٹر یننگ سیشن ہم سب کے لیے یاد گاری ثابت ہوا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
نئی دنیا کو سنسنی خیز خبروں,سیاسی پارٹیوں کے ترجمان بننے, اور قارئین کو خواہ مخواہ جذ باتی مسائل میں الجھانے سے فر صت ملتی تب تو معیار کے بارے میں سوچتے اورصرف نئی دنیا ہی کیا چند کو چھوڑ کر سبھی اردو اخباروں کا یہی حال ہے.
 
آخری تدوین:
نئی دنیا کو سنسنی خیز خبروں,سیاسی پارٹیوں کے ترجمان بننے, اور قارئین کو خواہ مخواہ جذ باتی مسائل میں الجھانے سے فر صت ملتی تب تو معیار کے بارے میں سوچتے اورصرف نئی دنیا ہی کیا چند کو چھوڑ کر سبھی اردو اخباروں کا یہی حال ہے.
مجھے تو سوائے سہ روزہ دعوت کے ہند و پاک کہیں ایسا کوئی اخبار اردو کا نظر نہیں آتا جو لوگوں کے جذبات سے نہ کھیلتے ہوں ۔ایسا لگتا ہے جیسے جذباتیت اردو والوں کے یا اردو صحافت کے رگ و ریشہ میں سمایت کر چکا ہے ۔
 

افضل حسین

محفلین
مجھے تو سوائے سہ روزہ دعوت کے ہند و پاک کہیں ایسا کوئی اخبار اردو کا نظر نہیں آتا جو لوگوں کے جذبات سے نہ کھیلتے ہوں ۔ایسا لگتا ہے جیسے جذباتیت اردو والوں کے یا اردو صحافت کے رگ و ریشہ میں سمایت کر چکا ہے ۔
اور جس مذہبی جذبے کے تئیں یہ دن رات جذباتی تحریں چھاپتے رہتے ہیں اس کے تئیں کتنے مخلص ہیں اس کا نمونہ پیش خدمت ہے
ہمارے ایک دوست ہندستان کے موقر اردو روزنامہ میں بطورٹرینی جرنلسٹ جوائین کیا خبار کے سارے ڈائریکٹر مسلمان ہیں اور یہ اخبار مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل پہ آسمان سر پہ اٹھالیتا ہے مگر اس کے ڈمہ داران اسلام اور مسلمانوں کے تئیں کتنے مخلص ہیں اس اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے ۔وہ دوست جن کے چہرے پہ یک مشت داڑھی تھی ، ایک دن اسے اخبار کے ڈائریکٹر نے اپنے چیمبر میں بلا کہ اس کی داڑھی رکھنے کی وجہ سے سخت و سست کہا جس کے بعد اس نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ جب کہ یہی اخبار آئے دن داڑھی رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہورہی زیادتی پہ چیخ و پکار مچاتا رہتا ہے۔
 
اور جس مذہبی جذبے کے تئیں یہ دن رات جذباتی تحریں چھاپتے رہتے ہیں اس کے تئیں کتنے مخلص ہیں اس کا نمونہ پیش خدمت ہے
ہمارے ایک دوست ہندستان کے موقر اردو روزنامہ میں بطورٹرینی جرنلسٹ جوائین کیا خبار کے سارے ڈائریکٹر مسلمان ہیں اور یہ اخبار مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل پہ آسمان سر پہ اٹھالیتا ہے مگر اس کے ڈمہ داران اسلام اور مسلمانوں کے تئیں کتنے مخلص ہیں اس اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے ۔وہ دوست جن کے چہرے پہ یک مشت داڑھی تھی ، ایک دن اسے اخبار کے ڈائریکٹر نے اپنے چیمبر میں بلا کہ اس کی داڑھی رکھنے کی وجہ سے سخت و سست کہا جس کے بعد اس نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ جب کہ یہی اخبار آئے دن داڑھی رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہورہی زیادتی پہ چیخ و پکار مچاتا رہتا ہے۔
اور انہوں نے خود کوکچھ عرصہ قبل نئے زمانے کے مولانا آزاد کا " اوتار" کہا تھا ۔
 
اور جس مذہبی جذبے کے تئیں یہ دن رات جذباتی تحریں چھاپتے رہتے ہیں اس کے تئیں کتنے مخلص ہیں اس کا نمونہ پیش خدمت ہے
ہمارے ایک دوست ہندستان کے موقر اردو روزنامہ میں بطورٹرینی جرنلسٹ جوائین کیا خبار کے سارے ڈائریکٹر مسلمان ہیں اور یہ اخبار مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل پہ آسمان سر پہ اٹھالیتا ہے مگر اس کے ڈمہ داران اسلام اور مسلمانوں کے تئیں کتنے مخلص ہیں اس اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے ۔وہ دوست جن کے چہرے پہ یک مشت داڑھی تھی ، ایک دن اسے اخبار کے ڈائریکٹر نے اپنے چیمبر میں بلا کہ اس کی داڑھی رکھنے کی وجہ سے سخت و سست کہا جس کے بعد اس نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ جب کہ یہی اخبار آئے دن داڑھی رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہورہی زیادتی پہ چیخ و پکار مچاتا رہتا ہے۔
بھائی یہ ایک نہیں سیکڑوں باتیں ہیں ۔کس کس کا ذکرکروں ۔ڈاکٹرظفر الاسلام خان کے بقول یہاں تو سارا بدن زخمی ہے کس کس کا رونا روئیں۔۔۔۔
 
سچ بتاوں تو مجھے کسی اردو اخبار پر بھروسہ ہے ہی نہیں ۔خود ہی لکھو ،خود ہی پڑھو اور خود ہی خوش ہو لو ،اردو اخبارات نے صحافت کی آبرو کو نوچ ڈالا ہے ۔فی الحال اردو میں جو صحافت ہو رہی ہے وہ قوم کی لٹیا ہی ڈبونے والی ہے ۔وہ صرف اور صرف ذمہ داران اور منتظمین کے پیٹ بھرنے اور نام کمانے کا ایک ذریعہ بھر بن کے رہ گیا ہے ۔لیڈروں کے تلوے چاٹنا ،جھوٹ کو سچ بنانا ،اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کا گلا گھوٹنا یہ کوئی ان رزیلوں سے سیکھے ۔چند کھوٹے سکوں کی خاطر کس طرح یہ چاکری کرتے پھرتے ہیں۔اس پر تو بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے لیکن کچھ روچ کر قلم روک لیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کچھ دن قبل علیم خان فلکی کا بلاگ پڑھ رہا تھا جس میں انھوں نے لکھا ہے :"ایسے اخباروں میں لکھنے کیلئے نہ کسی ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی پیشہ ورانہ تخلیقی صلاحیتوں کی۔ اور نہ یہ اخبار مالکا ن ایسے قابل افراد کو صحیح اجرت دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ قابل ہوتے بھی ہیں تو دینا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ صفحے بھرنے کیلئے بے شمار ایسے عمر رسیدہ یا کم تعلیم یافتہ لیکن جذباتی لوگ موجود ہیں جو چائے کی پیالی میں طوفان لانے والے مضامین لکھ سکتے ہیں اور تھوڑے بہت معاوضے پر خوش بھی ہوجاتے ہیں۔ اسلئے پورے اردو میڈیا میں کہیں پروفیشنلزم نظر نہیں آتا۔ اکثریتی مضامین "نعرۂ تکبیر ۔ اللہ اکبر" ٹائپ کے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان وظیفہ یاب کالم نگاروں کی خوب بن آتی ہے جو صبح اٹھتے ہی دو چار اخبار پڑھ کر اور ٹی وی دیکھ کر سیاسی تبصرے لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ شام تک دو چار مضامین جمع ہوجاتے ہیں۔ معصوم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے قوم کو رہنمائی مل رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہیکہ اخبار مالکان کو ان کی وجہ سے صفحہ بھرنے مواد مل رہا ہے اور قاریوں کو جو محض کچھ نہ کچھ پڑھنے کے عادی ہیں انہیں وقت گزارنے کیلئے کچھ پڑھنے کا مواد مل رہا ہے۔ لیکن لکھنے والا تو خوش ہے کہ اس کا نام شائع ہوگیا۔ بے چارا اپنا مضمون ایک ایک کو بتاتا ہے۔ کبھی گوگل گروپ پر تو کبھی یاہو گروپ پر اور کبھی فیس بک پر ڈال ڈال کر اعلان کرتا ہے کہ دیکھو میرا کالم، لیکن کبھی کوئی نہیں پڑھتا کیونکہ ہر شخص لکھنے بیٹھے تو اسے یقین ہوتا ہیکہ وہ خود اس سے کہیں زیادہ بہتر لکھ سکتا ہے۔"
علیم خان فلکی مزید کہتے ہیں"میںنے دیکھا کہ ہر دکان پر اخبارات و رسائل کی بھرمار ہے۔ سنسنی خیز سرخیاں خود گاہکوں کو اخبار یا رسالہ خریدنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ لیکن ان کے اندر کے مضامین کے موضوعات کا معیار گوشت پر بھنبھناتی ہوی مکھیوں ہی کی طرح ہوتا ہے۔ان مضامین میں احتجاج، افواہیں ، مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف فریاد اور سرکار اور فاشسٹ پارٹیوں کے خلاف کسی بیوا کی ہائے ہائے کی طرح کوسہ اور بددعائیں ہوتی ہیں"
 
صلاحیت سازی کے دو سال بعد ۔۔۔ ۔۔۔
1455866_10200536735415925_755609797_n.jpg

سعود بھائی کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے

دوستو آج قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے جسولا واقع مرکزی دفتر
فروغ اردو بھون
تقربا دو سال کے طویل عرصے بعد حاضر ہو نے کا موقع ملا ۔ اس سے قبل جنوری ۲۰۱۱ میں اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی کے لیے جاری ایک ورک شاپ میں شرکت ہوئی تھی ۔ اس وقت مسٹر حمیداللہ بھٹ ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔
آج میرے ہمراہ http://www.urduweb.org/ ویب سائٹ کے ایڈمنسٹریٹر مسٹر سعود عالم ( ابن سعید) تھے ۔ پہلےسے طے شدہ پروگرام کے مطابق کونسل کے دائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام صاحب کے ساتھ بڑی حوصلہ افزا گفتگو ہوئی

گفتگو کا مرکزی موضوع تھا انٹر نیٹ پر اردو کی اشاعت ۔۔ امکانات و مسائل
اس کے تحت مندرجہ ذیل امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی

یونی کوڈ کو اردو ویب میں برتنے کے فوائد اور استعمال میں پیش آنے والی دشواریوں کا حل کیسے ہو ، نیز کونسل اردو کے فروغ کے لیے ویب میڈیا کا استعمال کیسے کرے ۔ اردو کو ویب سے جوڑنے کے لیےurduweb نے ابتک جو کام کیا ہے اس کا تعارف ۔

سعود صاحب نے بڑے ہی پر اعتماد انداز میں کونسل کو اپنے مشورے اور تجاویز پیش کیے ۔ کونسل کے ڈائریکٹر نے ان کی تجاویز اور مشوروں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ این سی پی یو ایل کی ویب ساٗئتس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے فیڈبیک سے آگاہ کریں ۔ کونسل ان کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور خوض کرے گی ۔
ماشاءاللہ دیکھ کر خوشی ہوئی
اللہ ابن سعید کو یوں ہی کامیاباں عطا فرمائے آمین
 
سچ بتاوں تو مجھے کسی اردو اخبار پر بھروسہ ہے ہی نہیں ۔خود ہی لکھو ،خود ہی پڑھو اور خود ہی خوش ہو لو ،اردو اخبارات نے صحافت کی آبرو کو نوچ ڈالا ہے ۔فی الحال اردو میں جو صحافت ہو رہی ہے وہ قوم کی لٹیا ہی ڈبونے والی ہے ۔وہ صرف اور صرف ذمہ داران اور منتظمین کے پیٹ بھرنے اور نام کمانے کا ایک ذریعہ بھر بن کے رہ گیا ہے ۔لیڈروں کے تلوے چاٹنا ،جھوٹ کو سچ بنانا ،اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کا گلا گھوٹنا یہ کوئی ان رزیلوں سے سیکھے ۔چند کھوٹے سکوں کی خاطر کس طرح یہ چاکری کرتے پھرتے ہیں۔اس پر تو بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے لیکن کچھ روچ کر قلم روک لیتا ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ابھی کچھ دن قبل علیم خان فلکی کا بلاگ پڑھ رہا تھا جس میں انھوں نے لکھا ہے :"ایسے اخباروں میں لکھنے کیلئے نہ کسی ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی پیشہ ورانہ تخلیقی صلاحیتوں کی۔ اور نہ یہ اخبار مالکا ن ایسے قابل افراد کو صحیح اجرت دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ قابل ہوتے بھی ہیں تو دینا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ صفحے بھرنے کیلئے بے شمار ایسے عمر رسیدہ یا کم تعلیم یافتہ لیکن جذباتی لوگ موجود ہیں جو چائے کی پیالی میں طوفان لانے والے مضامین لکھ سکتے ہیں اور تھوڑے بہت معاوضے پر خوش بھی ہوجاتے ہیں۔ اسلئے پورے اردو میڈیا میں کہیں پروفیشنلزم نظر نہیں آتا۔ اکثریتی مضامین "نعرۂ تکبیر ۔ اللہ اکبر" ٹائپ کے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان وظیفہ یاب کالم نگاروں کی خوب بن آتی ہے جو صبح اٹھتے ہی دو چار اخبار پڑھ کر اور ٹی وی دیکھ کر سیاسی تبصرے لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ شام تک دو چار مضامین جمع ہوجاتے ہیں۔ معصوم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے قوم کو رہنمائی مل رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہیکہ اخبار مالکان کو ان کی وجہ سے صفحہ بھرنے مواد مل رہا ہے اور قاریوں کو جو محض کچھ نہ کچھ پڑھنے کے عادی ہیں انہیں وقت گزارنے کیلئے کچھ پڑھنے کا مواد مل رہا ہے۔ لیکن لکھنے والا تو خوش ہے کہ اس کا نام شائع ہوگیا۔ بے چارا اپنا مضمون ایک ایک کو بتاتا ہے۔ کبھی گوگل گروپ پر تو کبھی یاہو گروپ پر اور کبھی فیس بک پر ڈال ڈال کر اعلان کرتا ہے کہ دیکھو میرا کالم، لیکن کبھی کوئی نہیں پڑھتا کیونکہ ہر شخص لکھنے بیٹھے تو اسے یقین ہوتا ہیکہ وہ خود اس سے کہیں زیادہ بہتر لکھ سکتا ہے۔"
علیم خان فلکی مزید کہتے ہیں"میںنے دیکھا کہ ہر دکان پر اخبارات و رسائل کی بھرمار ہے۔ سنسنی خیز سرخیاں خود گاہکوں کو اخبار یا رسالہ خریدنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ لیکن ان کے اندر کے مضامین کے موضوعات کا معیار گوشت پر بھنبھناتی ہوی مکھیوں ہی کی طرح ہوتا ہے۔ان مضامین میں احتجاج، افواہیں ، مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف فریاد اور سرکار اور فاشسٹ پارٹیوں کے خلاف کسی بیوا کی ہائے ہائے کی طرح کوسنے اور بددعائیں ہوتی ہیں"
کیا خوب لکھا :)
قلم ہے کہ کٹار ہے وہ بھی دو دھاری
اللہ اس کی آب و تاب کو قائم رکھے آمین
 
کیا خوب لکھا :)
قلم ہے کہ کٹار ہے وہ بھی دو دھاری
اللہ اس کی آب و تاب کو قائم رکھے آمین
اردو والوں کا مزاج ہی ایسا بن چکا ہے چاچو
جنگ آزادی کے وقت جو صحافت ہو رہی تھی وہ اس وقت کی ضرورت تھی جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی اردو صحافت میں سنجیدگی نہیں آئی ۔
اسی وجہ سے آج پوری اردو دنیا میں کوئی بھی اردو کا معیاری اخبار نہیں ہے جسے ہم آئیڈیل کہہ سکیں ۔ہر جگہ چربہ ہی چربہ ملے گا کہیں ہندی کا کہیں انگریزی کا تھوڑی محنت کی تو ایسی جذباتیت کے لڑنے مرنے کے لئے تیار ان اردو اخباروں نے قوم کی گمرہی میں جو حصہ لیا ہے یا لے رہے ہیں وہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔
 
Top