سید شہزاد ناصر
محفلین
کبھی جنگ بہت اعلٰی پائے کا اخبار ہوتا تھا مگر اب ان کے مالکان معیارِ صحافت کے بجائے حجمِ کروبار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں نوائے وقت کبھی جنگ سے پیچھے ہوتا تھا اب وہ آگے نکل گیا ہےاردو والوں کا مزاج ہی ایسا بن چکا ہے چاچو
جنگ آزادی کے وقت جو صحافت ہو رہی تھی وہ اس وقت کی ضرورت تھی جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی اردو صحافت میں سنجیدگی نہیں آئی ۔
اسی وجہ سے آج پوری اردو دنیا میں کوئی بھی اردو کا معیاری اخبار نہیں ہے جسے ہم آئیڈیل کہہ سکیں ۔ہر جگہ چربہ ہی چربہ ملے گا کہیں ہندی کا کہیں انگریزی کا تھوڑی محنت کی تو ایسی جذباتیت کہ لڑنے مرنے کے لئے تیار ان اردو اخباروں نے قوم کی گمراہی میں جو حصہ لیا ہے یا لے رہے ہیں وہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔