صلوۃ الوسطی کونسی نماز ہے؟

ابن آدم

محفلین
سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۸ میں ارشاد ہوتا ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ ...(۲۳۸)
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو (بالخصوص) درمیانی نماز کی ۔۔۔ (۲۳۸)

فقہ شافعی کے نزدیک یہ فجرکی نماز ہےاور فقہ حنفی میں عصر کو صلوۃ الوسطی مانا جاتا ہے. تفسیرطبری جو پرانی اور سب سے ضخیم تفسیروں میں شمار کی جاتی ہے اس میں ہر آیت بلکہ آیت کے ٹکڑے کے ساتھ روایات کی کثیر تعداد لکھی ہوئی ہے. سوره بقرہ کی اس آیت کے لئے ٢٥ سے زائد صفحات پر روایات درج ہیں جن میں فجر، ظہر، عصر، مغرب اور وتر تک سب نمازوں کے بارےمیں صلوۃ الوسطی ہونے کی روایات درج ہیں. یہ بات توناممکن ہے کہ نبی کریم(ص) مختلف اوقات میں مختلف نماز کو صلوۃ الوسطی قرار دیا ہو کیونکہ نبی دین کے معاملےمیں اپنی طرف سےکچھ نہیں کہہ سکتے. دوسرا یہ بھی ناممکن ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے غلط نماز کے بارے میں صلوۃ الوسطی کی روایات بیان کی ہوں. تو سوال یہ ہے کہ صحیح روایت کونسی ہے یہ کیسے معلوم کیا جائے.

تفسیر ابن کثیر میں بھی صلوۃ الوسطی پر بہت لمبی بحث ہے اس میں سے کچھ اقتباسات یہ ہیں " سلف و خلف کا اس میں اختلاف ہے کہ صلوۃ وسطی کس نماز کا نام ہے. بعض کہتے ہیں پانچ وقتوں میں سے ایک وقت کی نماز ہے لیکن ہم معین نہیں کرسکتے یہ مبہم ہے جس طرح لیلۃ القدر پورے سال میں یا پورے مہینے میں یا پچھلے دس دِنوں میں مبہم ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کو مجموعہ مراد ہے اور بعض کہتے ہیں یہ عشاء اور صبح ہے بعض کا قول ہے یہ جماعت کی نماز ہے بعض کہتے ہیں جمعہ کی نماز ہے، کوئی کہتا ہے صلوۃ خوف مراد ہے، کوئی کہتا ہے نمازِ عید مراد ہے، کوئی کہتا ہے صلوۃ ضحیٰ مراد ہے، بعض کہتے ہیں ہم توقف کرتے ہیں اور کسی قول کے قائل نہیں بنتے، اس لئے کہ دلیلیں مختلف ہیں، وجہ ترجیح معلوم نہیں، کسی قول پر اجماع ہوا نہیں بلکہ زمانہ صحابہ سےلےکرآج تک جھگڑاجاری رہا، جس طرح حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام اس بارے میں اس طرح مختلف تھے پھرانگلیوں میں انگلیاں ڈال کردکھائیں، لیکن یہ یادرہےکہ یہ پچھلےاقوال سب کے سب ضعیف ہیں، جھگڑا صرف صبح اورعصرکی نماز میں ہےاور صحیح احادیث سے عصر کی نماز کا صلوۃ وسطیٰ ہونا ثابت ہے پس لازم ہو گیا کہ ہم سب اقوال کو چھوڑ کریہی عقیدہ رکھیں کہ صلوۃ وسطیٰ نمازِعصر ہے"

یہاں یہ ذہن میں رہے کہ الله نے اسکی حفاظت کا کہا ہے نہ کہ ڈھونڈنے کا، تو ایک ایسی نماز جو معلوم ہی نہیں پر رہی اسکی حفاظت کیسے ہوگی؟ اور صحابہ کا اس میں اختلاف ہونا جن سے الله راضی ہے میرے خیال سے ناممکن ہے الله نے جب قرآن کی حقانیت کی بات کی اوراس کتاب کے خدا کے طرف سے ہونے کی دلیل دی تو یہ کہا کہ تم اس قرآن میں کچھ اختلاف نہیں پاؤ گے. لیکن اگر صرف اس آیت کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ہر قسم کا اختلاف موجود ہے.جب اتنےاختلاف آجائیں تو پھرحل قرآن میں ہی ڈھونڈنا چاہیے کیونکہ الله نے قرآن کوہی فرقان کہا حق تو باطل سے علیحدہ کرنے والی کتاب.

قرآن میں درمیانی نماز صلوۃ الوسطی
سورہ بقرہ کی اس آیت سے جہاں ایک جانب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کی حفاظت میں ایک نماز کے التزام کا خصوصی حکم ہے، وہیں اس نماز کو درمیانی نماز بیان کر کے یہ بھی واضح ہوا کہ سنت محمدی کے طریقے میں پڑھی جانے والی نمازوں کی تعداد ایک سے زائد ہے اور اس کا عدد طاق ہے، ورنہ جفت تعداد میں کسی نماز کو بھی درمیانی نماز نہیں قرار دیا جاسکتا- گویا سورہ بقرہ کی اس آیت کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ نمازوں کی کل تعدار ۳، ۵ ،۷، ٢٩ یا ۵۱ تو ہو سکتی ہے، مگر ۱، ۲، ٤ یا ۵۰ نہیں ہوسکتی- نمازوں کےبارے میں دوسراحکم سوره بنی اسرائیل کی آیت ٧٨ میں آیاہے. ارشاد ہوتاہے
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (۷۸)
نماز قائم کرو باعث سورج ڈھلنے کے رات کا اندھیرا چھا جانے تک؛ اور فجر کے اجتماع میں؛ بیشک فجر کا اجتماع مشہود ہے (۷۸)

اس آیت سے تین باتوں کا علم ہوا، ایک یہ کہ فجر کے وقت بھی نماز فرض ہے۔ دوسرا یہ کہ اس آیت کے نزول سے پہلے ہی مسلمان فجر کی باجماعت نماز پڑھ رہے تھے، اور تیسرا یہ کہ فجر کے علاوہ بقیہ نمازیں ان اوقات کی ہیں، جن میں سورج ڈھل رہا ہوتا ہے. گویا عشاء کا درست وقت رات کی تاریکی چھانےسے لیکر نصف شب تک ہے، کیونکہ اس کے بعد دلوک کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ (موطا امام مالک میں اسکی تائید کی روایت بھی موجود ہے)
تاہم دلوک الشمس کے ابتداء اور انتہاء کے درمیان نمازوں کی تعداد جفت ہونی چاہیے، کیونکہ فجر کو ملا کر تعداد کا طاق ہونا لازمی ہے- فجرکی نماز کی فرضیت کےلئےسورہ ہود کی آیت ١١٤ہے۔ارشاد ہوتاہے:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ-١١٤)
اورنمازقائم کرو دن کےدونوں سروں پراورکچھ رات گزرنے پر -(١١٤)

سورہ ھود کی اس آیت میں ۳ نمازوں کا اوقات کے ساتھ ذکر ہے، جس میں عشاء کے وقت کا تعین کردیا گیا ہے تاہم عشاء پڑھنے سے پہلے دن کے دو کناروں پرمزید دو نمازوں کاحکم ہے۔تو یہ فجراورمغرب کےاوقات بنیں گے.تواب سوره ھود میں بیان کی گئی نمازوں کی ترتیب کودیکھیں تویہ بنتی ہے فجر، مغرب، عشاء. اس ترتیب کےحساب سے مغرب درمیان میں بیان کی گئی ہےتو یہ صلوۃ الوسطی کہلائے گی سوره ھود کی آیت کی روشنی میں

اب سورہ بنی اسرائیل کو دوبارہ دیکھتےہیں کہ وہاں کیا ترتیب ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
نمازقائم کرو باعث سورج ڈھلنےکےرات کا اندھیرا چھا جانےتک؛اورفجر کے اجتماع میں؛ بیشک فجر کااجتماع مشہود ہے(۷۸)
یہاں تمام نمازوں میں آخری فجر بیان ہوئی، اورنمازوں کے بیان کی ابتداء سوره ڈھلنے سےشروع کی گئی ہے تویہاں پر ظہراورعصرکی نمازوں کی فرضیت ہوئی ہےاورنمازوں کےبیان کی ترتیب جوبن رہی ہےوہ ہے،ظہر،عصر،مغرب،عشاء، فجر. اور یہاں بھی ترتیب میں نمازمغرب کوبھیچ میں رکھاگیا ہےاور اس آیت کی روشنی میں بھی نماز مغرب ہی صلوۃ الوسطی بنتی ہے

دیگر نمازوں میں فرضوں کے رکعت کی تعداد یا تو ٢ ہے یا ٤ اور اس میں ٣ رکعت فرض ہیں. تو فرضوں کی رکعت کے لحاظ سے بھی یہ صلوۃ الوسطی بنتی ہے. مزید یہ کہ قصر میں بھی یہ پوری پڑھی جاتی ہے جبکہ باقی نمازوں کے صرف ٢ رکعت فرض پڑھے جاتے ہیں

بیشک قرآن فرقان بھی ہےاورقرآن میں کوئی اختلاف بھی نہیں
 

عبدالحفیظ

محفلین
صلوٰۃ الوسطیٰ سے مراد وہ نماز ہے جو عین مصروفیت کے دوران آئے۔ اس لحاظ سے کسی خاص نماز (جیسے نماز مغرب)کو ہی صلوٰۃ الوسطیٰ کہنا درست نہیں۔
 

ابن آدم

محفلین
بہت بہت شکریہ پڑھنے کا
الله نے صلوٰۃ الوسطیٰ کہا ہے بھیچ والی نماز نہ کہ صلوٰۃ الوسطیٰ فی بین الانشغال.
 
Top