صمد خرم: قابل فخر اور با ضمیر پاکستانی !

زینب

محفلین
ایسے ہی کچھ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ہم بہت فخر سے خود کو پاکستانی کہتے ہیں یہ ایک سبق ہے نوجوان نسل کے لیے جو "ہم کیا کر سکتے ہیں جب حکومت ایسی ہو" کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں کرنے والے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔۔صمد کی اس جراءت سے لگتا ہے کہ اب بھی پاکستانی قوم میں ایسے لوگ ہیں جو امریکہ کی آنکھ میں‌آنکھ ڈال کے اس کے کیے کو غلط کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
ایسے ہی کچھ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ہم بہت فخر سے خود کو پاکستانی کہتے ہیں یہ ایک سبق ہے نوجوان نسل کے لیے جو "ہم کیا کر سکتے ہیں جب حکومت ایسی ہو" کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں کرنے والے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔۔صمد کی اس جراءت سے لگتا ہے کہ اب بھی پاکستانی قوم میں ایسے لوگ ہیں جو امریکہ کی آنکھ میں‌آنکھ ڈال کے اس کے کیے کو غلط کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درست زینب:‌قوموں کی اصلاح، نوجوانوں کی اصلاح ‌ کے بغیر ناممکن ہے! اگر ہمارے نوجوانوں میں دم ہو تو جو رسید عمروں کی کرپٹ کھیپ ہے، جب وہ اس دنیا سے کوچ کر جائے گی تو پھر یہ بہادر جوان ہی اس ملک کو چلائیں گے!
 
مرزا اشتیاق بیگ صاحب نے اس سلسلے میں کچھ اور معلومات بھی بہم پہنچائی ہیں

دھرتی کے سپوت خرم صمد کو سلام,,,,آج کی دنیا…اشتیاق بیگ

ہال میں بیٹھے طالب علموں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ کیوں نہ تمتماتے آج ان کی زندگی کا یادگار دن تھا آج انہیں اپنی حسنِ کارکردگی کے صلے میں مہمانِ خصوصی امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن سے ایوارڈ وصول کرنا تھا ہر طالب علم یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کس طرح امریکی سفیر سے ہاتھ ملائے گا اور اپنا ایوارڈ وصول کرے گا۔ ہال میں ان نوجوان طالب علموں کے والدین بھی موجود تھے اور اپنے بچوں کی اعلیٰ کارکردگی پر فخر محسوس کررہے تھے۔ انہی نوجوانوں میں ہال میں بیٹھا ایک نوجوان گہری سوچ میں مبتلا تھا اس کے چہرے پر دوسرے طالب علموں کی طرح خوشی کے آثار نمایاں نہ تھے وہ اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ کیا وہ اس ملک کی سفیر سے ہاتھ ملا کر ایوارڈ وصول کرے جس کا ملک کچھ دنوں قبل مہمند ایجنسی میں پاکستانی فوجی چوکی پر وحشیانہ حملہ اور بمباری کا مرتکب ہوا جس کے نتیجے میں پاک فوج کے ایک میجر سمیت 13فوجی جوان اور 20سویلین شہید ہوئے۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ہال میں امریکہ کی سفیر کالے کوٹ میں ملبوس اپنے سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ داخل ہوئیں۔ ان کے ساتھ آئے ہوئے سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں اسٹیج پر پہنچایا اور خود چوکنا ہوکر ہال کی مختلف جگہوں پر کھڑے ہوگئے تاکہ اس چیز کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکی سفیر کی موجودگی میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ پیش آئے ۔ تقریب کا آغاز ہوا اور ایک ایک کرکے طالب علموں کے ناموں کو پکارا گیا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسٹیج پر آکر امریکی سفیر سے ہاتھ ملا کر اپنا اپنا ایوارڈوصول کررہے تھے۔کالج کی منتظم نے خرم صمد کا نام پکارا کہ وہ آکر امریکی سفیر سے اپناایوارڈ وصول کرے۔صمد اپنی سیٹ سے اُٹھا پر اعتمادی کے ساتھ اسٹیج پر آیا امریکی سفیر نے اپنا ہاتھ صمد کی طرف بڑھایا مگر صمد نے اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک کر روسٹرم پر آکر احتجاجاً یہ کہا کہ وہ کس طرح اس ملک کی سفیر سے ہاتھ ملا کر اپنا ایوارڈ وصول کرے جس کے ہاتھ اس کے ملک کے عوام اور فوجیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔کالج کی منتظم نے جاتے ہوئے صمد کا بازو پکڑ کر اُسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ اپنا بازو چھڑا کر اور امریکی سفیر کو سکتے کی حالت میں چھوڑ کر اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ ہال میں چھائی ہوئی خاموشی کو وہاں موجود نوجوان طالب علموں کی تالیوں نے توڑا ۔امریکی سفیر شرمندگی کی حالت میں ڈائیس پر آئیں اور اپنی خفت مٹانے کے لئے انہوں نے کہا کہ انہیں مہمند ایجنسی میں ہونے والے واقعے کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی افسوس ہے اور کہا کہ امریکہ کوشش کرے گا کہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔ اس طرح بیس سالہ صمد کے ردِ عمل سے امریکی سفیر کو وہ بیان دینا پڑا جو ان کی حکومت نے اس واقعے کے بعد نہیں دیا تھا ۔جس دن اسلام آباد کے مذکورہ کالج کی سالانہ تقریب کے دوران یہ واقعہ پیش آیا اسی دن میرا کالم "پاکستانی فوجی چوکی پر قبضے کی کوشش"شائع ہوا تھا جس میں ،میں نے امریکیوں کو اس حملے اور فوجی اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا میرے کالم کو ملکی سطح پر لوگوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ۔شام کے وقت میں ٹیلی وژن پرخبریں دیکھ رہا تھا ۔بیس سالہ صمد کی جرأت اور قومی غیرت نے میرا سر فخر سے بلند کردیا میں اس نوجوان کے حوصلے کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔
کالج مذکورہ کا شمار اسلام آباد اور راولپنڈی کے مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جہاں زیادہ تر سینیئر فوجی افسران کے بچے زیر تعلیم ہیں ۔ دوسرے دن میں نے کالج کی انتظامیہ سے رابطہ کیالیکن کالج کی انتظامیہ کو اپنے بہادر طالب علم کے اس جرأت مندانہ اقدام پر فخر کرنے کے بجائے معذرت خواہ پایا۔مجھے بتایاگیا کہ 20سالہ صمد خرم کا شمار کالج کے ذہین ترین طلبہ میں ہوتا ہے۔ 2005ء میں اس نے7 اے گریڈز کے ساتھ Thinking Skillمیں سب سے زیادہ نمبر لے کر دنیا میں ٹاپ کیا اور گزشتہ تین سالوں سے اسکالر شپ پر امریکہ کی مشہور ہاورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے صمد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں ایک سال باقی ہے ۔ کالج کی انتظامیہ نے اسے ہاورڈ جیسے تعلیمی ادارے میں اسکالر شپ حاصل کرنے پر ایوارڈ کے لئے چنا جسے لینے وہ پاکستان آیا تھا ۔تعلیم کے دوارن صمد ہاورڈ یونیورسٹی کے اخبار "ہاورڈ کرپسن کے لئے لکھتا رہا۔اس کے مشہور کالموں میں " USA should dump Gen. Musharaf"اور "The Biggest Terrorist is USA"کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ صمد کے چھوٹے بھائی کو بھی اس تقریب میں ایوارڈ سے نوازنا تھا مگر صمد کے اس ردِ عمل سے انتظامیہ نے اس کے بھائی کا ایوارڈ کی وصولی کے لئے اس خدشے کے تحت نام نہیں پکارا کہ کہیں دوسرا بھائی بھی اسی طرح کا ردِ عمل ظاہر نہ کرے ۔واضح ہو کہ صمد کے والدین بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ اطلاع کے مطابق امریکی سفیر اس واقعے کے بعد ناراض ہوکر چلی گئیں جس کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی کی بیگم جو تقریب میں موجود تھیں نے بقیہ طالب علموں کو اعزازات دیئے۔زیادہ اچھا ہوتا کہ مسز کیانی بھی اس تقریب کا بائیکاٹ کرتیں کیونکہ جس ملک نے ہماری فوج کے میجر سمیت 13فوجی جوانوں کو شہید کیا ان کے شوہر اس فوج کے سربراہ ہیں۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ موجودہ حالات میں کالج انتظامیہ امریکی سفیر کے بجائے صرف مسز کیانی کو ہی مہمانِ خصوصی کے طور پر تقریب میں بلاتی اور ان سے طلبہ میں اعزازات تقسیم کرواتی ۔یہ خدشہ ہے کہ اس واقعے کے بعد جس سے امریکی سفیر کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا صمد کو اس کے جرأت مندانہ اقدام کی پاداش میں امریکی انتظامیہ اس کی اسکالر شپ جس کے مکمل ہونے میں ایک سال باقی ہے ختم کردے جس کا اثر صمد کے روشن مستقبل پر پڑ سکتا ہے ۔ صمد اور اس کے والدین کو میں نے ایک ای میل ارسال کی کہ جس میں انہیں یہ پیشکش کی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارا کاروباری گروپ اور میرے قارئین ایک خرم صمد فنڈ قائم کریں گے اور اس کا آخری سال ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
امریکہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ پاکستانی نوجوان نسل کو اپنا ہم خیال بنائے ۔امریکی انتظامیہ کو اس واقعے سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے۔صمد کوئی مذہبی انتہا پسند یاشدت پسند نہیں ہے اور نہ ہی اس کا تعلق کسی انتہا پسند تنظیم سے ہے وہ اس سے مختلف ایک لبرل ، ماڈرن اور ایک جمہوری سوچ رکھنے والا ذہین نوجوان ہے جس نے اپنی زندگی کے تین سال امریکہ میں گزارے لیکن وہ امریکہ کی اسکے ملک کے خلاف غلط پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کا مخالف ہے ۔ ہمارے حکمران جو امریکہ کو تصویر پیش کرتے رہے ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ صمد نے جو کچھ کیا وہ ہر پاکستانی کی سوچ ہے آج صمد ہر پاکستانی کی زبان بول رہا ہے وہ بول رہا ہے کہ امریکہ لوگوں کے دلوں میں وہ عزت حاصل نہ کرسکے گا جب تک امریکی انتظامیہ مشرف جیسے آمروں کو سپورٹ کرتی رہے گی، معزول ججوں کی بحالی کی مخالفت اور اس کے بھیجے ہوئے جاسوسی طیارے پاکستان میں آکر معصوم لوگوں کے ساتھ فوجیوں کو بھی نشانہ بناتے رہیں گے۔ اس سے امریکہ کیخلاف لوگوں میں نفرت میں اضافہ ہوگا۔
آج صمد خرم نے پاکستانی قوم اور بالخصوص نوجوانوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں میں نے اس کے والدین کو بھی مبارکباد دی کہ انہیں فخر ہونا چاہئے کہ انہوں نے صمد جیسے بہادر بچے کو جنم دیا آج اس نے امریکی سفیر سے ہاتھ نہ ملا کر جس جرأت کا مظاہرہ کیا وہ جرأت کا مظاہرہ شاید ہمارے حکمران کبھی نہ کرسکیں۔ ۔میری دعا ہے کہ اللہ سب والدین کو ایسی اولاد سے نوازے۔میں اپنی دھرتی کے اس سپوت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جس نے مجھے یہ اُمید دلائی ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں میں صمد خرم جیسے بیٹے ملکی وقار کی حفاظت کے لئے موجود ہیں ۔چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صدر مشرف کے سامنے انکار نے انہیں پاکستانی قوم کے دلوں میں امر کردیا ہے ۔ اسی طرح خرم صمد کے انکار نے بھی اسے پاکستانی قوم کا ہیرو بنادیا جب تک ایک بھی صمد خرم اس ملک میں ہے اعلیٰ ایوانوں میں آمروں کو یوں ہی شرمندگی اُٹھانا پڑے گی ۔ پاکستانی قوم اپنے بہادر سپوت خرم صمد کو اس کے اس جرأت مندانہ اقدام پر سلام پیش کرتی ہے
 

زیک

مسافر
صمد خرم کے دی نیوز میں کالم سے کچھ اقتباسات:

Continuous air strikes on Pakistani territory and repeated intrusions of Pakistani airspace by US-led coalition forces in stark violation of international norms and customs have troubled Pakistanis across the country. These are very similar to US interventions in the political sphere of our country, where elected leaders are constantly bombarded by the Negropontes and Bouchers of this world. A combination of US geopolitical interests in the region and incompetent leaders unable to say "no" to a global superpower, have seriously undermined Pakistan's physical and political sovereignty.

I had no objections to an award from my high school whose administration and teachers I have the utmost regard for – or at least had until the Americans' actions of June 18. However, the presence as chief guest of the American ambassador (who is basically the Bush administration's representative in Pakistan) presented a rare opportunity to me for making known my concerns as a patriotic Pakistani. It was in the US, more specifically at Harvard, where I had learned to voice my dissent peacefully and non-violently, to stand up for what I believed in and to speak for those who could not have their voices heard, and I thought of putting some of these very values to good use.

After delivering the short speech--"I am refusing this award in protest of repeated US air strikes resulting in the deaths of many innocent Pakistanis and US tacit support for an unconstitutional president, who has destroyed Pakistan's judiciary; my conscience will not forgive me for accepting this award"--I walked back to my seat, relieved that I had used my right to dissent, as guaranteed to me under the Constitution of Pakistan.

Due credit must also be given to Ms Patterson, who acknowledged my protest immediately and informed the audience how proud she was of students like myself. Her calm and political maturity at the day was admirable.

The same could not be said about the school administration. Many of their actions on that day were despicable and unfitting of those who educate the future of Pakistan.

This led to many inaccurate news items claiming I had refused a Harvard scholarship. I contacted all the major newspapers to make clarifications on this misreporting but very few have made the appropriate corrections.

The scholarship I am receiving at Harvard University is funded through gifts of former alums, many of them Pakistanis such as the late Benazir Bhutto, and not by the Bush administration or the US military. Harvard itself has been very proactive in advocating for the rule of law for Pakistan, and recently it awarded the prestigious "Medal of Freedom" to the Chief Justice Iftikhar Chaudhry. The administration has been supportive of my activism and even permitted me to take a semester off so that I could be part of the historic lawyers' movement. There are protests around the campus all the time: against the Iraq war, the Chinese crackdown in Tibet and for the restoration of Pakistan's judiciary, among a host of other issues. Surprisingly, my old school administration has dared me to leave a university that stands for principles and is in no way connected to the US bombings of Pakistani territory or of the American government's support for Musharraf!

I am really overwhelmed and thankful to the thousands of Pakistanis who have written to me and called me to show their support. The words of appreciation mean a lot to me and I am afraid I may not be able to reply to everyone. My sincerest gratitude also to all those who have offered scholarships to me in the event my scholarship is revoked. I don't see that happening since such protests are very common in the US and never get the same hype that has been given to mine in Pakistan.
 
Top