آپ نے اسکول کا زمانہ یاد کروا دیا۔ جب تشریح کے لیے یوں لکھتے تھے "شاعر اس شعر میں کہنا چاہتا ہے کہ" ۔۔۔ آہ وہ بھی کیا دن تھے۔نظم کے ساتھ ساتھ غزل کی صنف مجھے بہت پسند ہے۔ ایک شعر میں ایک پورا جہان آباد ہو سکتا ہے۔ جب ہم تشریح کیا کرتے تھے تو ایک شعر پہ صفحات بھر دیتے تھے۔ شاعر نے شاید اُن جہتوں کو سوچا بھی نہ ہو، جو ہم ایجاد کر دیا کرتے تھے۔
کیا آپ میں سے کوئی ایسا کرتا تھا؟
اسکول اور پھر کالج کے ابتدائی دو سال ہم نے ایسی ایسی تشریحات کی ہیں کہ اب سوچیں تو ہنسی آتی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو بتا رہی تھی کہ جب میں نے کسی شعر کی تشریح میں کوئی ایسا شعر استعمال کرنا ہوتا تھا جو زیرِ تشریح شعر سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا تھا تو میں بات کرتے کرتے موضوع کو اُدھر لے جاتی اور پھر شعر ٹانک کے رفتہ رفتہ واپس لے آتی۔آپ نے اسکول کا زمانہ یاد کروا دیا۔ جب تشریح کے لیے یوں لکھتے تھے "شاعر اس شعر میں کہنا چاہتا ہے کہ" ۔۔۔ آہ وہ بھی کیا دن تھے۔
جی بالکل کچھ ایسی ہی کاروائی ہم بھی کرتے رہے ہیںاسکول اور پھر کالج کے ابتدائی دو سال ہم نے ایسی ایسی تشریحات کی ہیں کہ اب سوچیں تو ہنسی آتی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو بتا رہی تھی کہ جب میں نے کسی شعر کی تشریح میں کوئی ایسا شعر استعمال کرنا ہوتا تھا جو زیرِ تشریح شعر سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا تھا تو میں بات کرتے کرتے موضوع کو اُدھر لے جاتی اور پھر شعر ٹانک کے رفتہ رفتہ واپس لے آتی۔
مزید یہ کہ کیا اُس غریب کی ادبی نمازِ جنازہ ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یا اُس کو بطور سزا کس شاعر کے کتنے سہ غزلے سنائے جائیں گے۔۔۔! صاحب، ذرا تفصیلات میں بھی دخل دیجیے۔۔۔!یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ جس کو غزل پسند نہیں اسے کیا پسند ہے؟ اور کیوں؟
پھر اس کے لیے مناسب سزا بھی تجویز کی جائے۔
وہماری ایک محترم خاتون اُستاد کا فرمانا تھا کہ جہاں محبوب کا ذکر آئے، وہاں محبوب کی بجائے م لکھا جاوے؛ صد شکر کہ سنسر کی پابندیاں یہیں تک محدود رہیں۔
...اور پھر شعر ٹانک کے رفتہ رفتہ واپس لے آتی۔