محفل میں پاکستان کے حوالے سے ایک خبر لگائی تھی ۔ مگر پاکستان میں صنفی امتیاز پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ آزادی اور صنفی امتیاز میں فرق ہوتا ہے مگر ۔۔۔
بات تو شاید سبھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہاں ہے کہ بات جب نکلتی ہے تو پھر دور تلک جاتی ہے۔ اور موضوع سے ہٹ کر ہم کہیں اور نکل جاتے ہیں۔
پاکستان میں صنفی امتیاز ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے گزشتہ کچھ عرصے میں اس کی اہمیت اور خواتین کے اہم کردار اور شانہ بشانہ کنبہ، معاشرے اور مملکت میں کردار ادا کرنے کی شدید ضرورت محسوس کیے جانے کے بعد چند ایک اہم پیش رفت ہوئیں ہیں اس سلسلے میں ۔ 509 کی ترمیمی شق اور کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون سازی ایک اہم پیش رفت ہیں۔ لیکن 509 کی ترامیم کے بعد اگر اس قانون پر عمل کیا جاتا یا آگاہی دی جاتی تو صنفی امتیاز سے متعلق کئی مسائل کا خاتمہ یا ان میں کمی ممکن تھی۔ 509 کے تحت خواتین راستے میں آتے جاتے کہیں بھی کسی بھی قسم کے جنسی استحصال، اشارہ بازی، جملہ بازی، چھیڑ چھاڑ، گھورنا، تاڑم تاڑی ، ٹہوکے وغیرہ وغیرہ کی شکایت درج کروا سکتی ہے جس پر کئی سال تک کی سزا 3 لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح 2010 میں کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا قانون منظور ہوا جس کا وفاق اور پنجاب میں اطلاق بھی کر دیا گیا ہے اور اس کے تحت تمام اداروں کو پابند کیاجا رہا ہے کہ وہ کم از کم 3 افراد پر مشتمل انکوائری کمیٹی ضرور بنائیں اس طرح کے معاملات کے حل کے لیے، کام کرنے کی جگہوں پر کسی کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی صورت میں متاثرعورت یا مرد اپنے ادارے کی انکوائیری کمیٹی میں شکایت درج کرائے جو 3 دن کے اندر تحقیقات شروع کرنے اور 30 دن کے اندر فیصلہ سنانے کے پابند ہوں گے اور اگر کسی فریق کو اس فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ خاتون محتسب کے سامنے اپنا کیس لے کر جا سکتا ہے وہاں بھی فیصلہ 30 دنوں کے اندر کیے جانے کی شرط ہے اور اگر وہاں سے بھی کیا گیا فیصلہ قبول نہ ہو تو فریق گورنر پنجاب کے پاس اپنی درخواست جمع کروا سکتا ہے اور وہ بھی 30 دن کے اندر اس معاملے کو حل کریں گے۔
اس قانون کے تحت چھوٹی یا بڑی سزائیں دی جا سکتی ہیں چھوٹی سزائیں جن میں مخصوص مدت کے لیے ترقی یا تنخواہ میں اضافے کو منجمد کر دینا اور متاثرہ فرد کو ہرجانے کی رقم کی ادائیگی جو کر مرتکب فرد کی تنخواہ سے یا دیگر ذرائع سے کاٹے جائیں شامل ہیں۔
بڑی سزاؤں میں عہدے میں تنزلی، جبری ریٹائرمنٹ، ملازمت سے برخاستگی، یا متاثرہ فرد کو معاوضہ دیا جا سکتا ہے ۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا منفی باتیں تو اچھالتا ہے لیکن مثبت باتیں جن سے معاشرے میں اصلاح ممکن ہو انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے گورنمنٹ ہی کے ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ میں جہاں اس کے ایک آفس میں صرف ایک خاتون کارکن تھیں کو ایک مرد کارکن کی جانب سے ایک واہیات قسم کی ای میل بھیجی گئی، خاتون نے خامشی کے بجائے اپنے محکمے کے سینئیر سے اس شخص کی شکایت کر دی جس پر ہوا یہ کے بجائے اس شخص کی مذمت کی جاتی اس عورت کے کردار پر انگلیاں اٹھائیں گئیں اور طرح طرح کے طنز اور نشتر اسے سہنے پڑے ، محکمے نے اس کی درخواست کو اسی کے خلاف ڈسپلن اور جانے کس کس چیز کی خلاف ورزی بنا کر رکھ دی، لیکن اس نے بھی ہمت نہیں ہاری اور جتنا اس کے خلاف ایکشن لیا گیا اتنا ہی اس نے زیادہ احتجاج کیا آخر وہ کسی طرح صحیح طریقہ کار سے آگاہ ہوئی اور جب اس نئے قانون کے طریقہ کار کےتحت متلقہ فورمز پر اس کا کیس دیکھا گیا تو یہ پچھلے مہینے یعنی ستمبر 2014 کی بات ہے کے محکمے کے سربراہ کو جبری رخصت سمیت 13 دوسرے افراد کو مختلف قسم کی چھوٹی بڑی سزائیں سنائی گئیں۔
قانون تو موجود ہیں لگام دینے کے لیے لیکن آگاہی مصلحتاََ نہیں دی جاتی۔ اور اس طرح کوئی قانون کو استعمال ہی نہیں کرتا اور معاملہ جوں کا توں پڑا رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہم یہ سب کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہمیں جنگ لڑے بغیر ہارنے اور روز ہارنے اور مرنے کی عادت تو ہے لیکن ہم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے لڑ کر مرنے کے لیے تیار نہیں۔ قربانی تو ابتداء میں ہر اچھائی کو درکار ہوتی ہے پر دے کون۔