فاروق سرور خان
محفلین
صاحبو اور دوستو،
ذرا یہ خبر دیکھئے۔ فسوسناک بات ہے کہ لڑکیوں کی تجارت ہوئی اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور جس جرگہ نے یہ فیصلہ کیا اس میں ایک ممبر قومی اسمبلی بھی موجود تھا۔
http://search.jang.com.pk/urdu/details.asp?nid=212190
جس میں صاف ظاہر ہے، کہ قتل کا تاوان دینے کے بجائے 5 لڑکیوں کو مقتول کے گھر والوں کے حوالے کردیا گیا، حتی کے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دور جاہلیت کی یادگار، عورتوں اور لڑکیوں کو زر و مال کی جگہ سمجھنا، عورتوںکو اس طرح بیچ دینا کے مال دینے کے بجائے لڑکیاں دے دیں۔ نہ صرف صنف نازک کی تذلیل ہے بلکہ یہ تو تمام مردوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ہم کو عورتوں کو مال کی جگہ تصور کرنے والوں کی بیخ کنی کرنے لئے اپنے اپنے فورمز میں لکھنا چاھئیے۔ اور عورتوں، بچیوں کی تجارت کرنے والوں کا، اور عورت کو مال و زر اور مویشی سمجھنے والوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے۔ موجودہ دور میں یہ ایک ناسور ہے۔ آج پاکستان 60 سال کا ہوگیا ہے اور ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو کموڈٹی سمجھ کر مویشی کی طرح بیچا جاتا ہے۔
مکمل خبر ۔ روزنامہ جنگ 8/16/2007
اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ نے جرگہ فیصلہ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے پی پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی میر ہزار خان بجارانی سمیت 11 افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیس کی سماعت فاضل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جسٹس جاوید اقبال جسٹس سردار محمد رضا خان جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹر پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔ فاضل عدالت نے 2006ء میں میر ہزار خان بجارانی کی سربراہی میں ہونے والے ایک جرگے کے فیصلے کے خلاف ازخود نوٹس لیا۔ اس فیصلے کے مطابق ایک شخص کے قتل کے بدلے قاتل کے خاندان کی 5لڑکیوں کو سنگ چٹی (وِنی) میں دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔گرفتار شدگان میں حافظ قمر الدین یار علی اور رحمت اللہ وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ باقی افراد میں گدی نشین آف بھرچونڈی عبدالخالق تحصیل ناظم ٹھلو میرعلی اکبر بنگلانی و دیگر افراد شامل ہیں۔ ڈی پی او کشمور نے بتایا کہ 14 افراد میں سے 3 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس بااثر افراد کو کیوں گرفتار نہیں کرتی، ان سے ڈرتے ہو‘ آپ صرف اللہ سے ڈریں۔ ایف آئی آر میں 11 افراد نامزد ہیں، انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہے۔ ڈی پی او نے کہا ہم جلد ہی باقی افراد کو گرفتار کر لیں گے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ تمہاری ان افراد سے کوئی رشتہ داری تو نہیں۔ کشمور کے علاقہ ٹھل میں سنگ چٹی میں دی جانے والی بچیوں کی عمریں 3سے 6سال کے درمیان ہیں۔ فاضل عدالت نے 5بچیوں کو سنگ چٹی میں دینے کیخلاف ایک خبر کی بنیاد پر ازخود نوٹس لیا۔
اس کو اسلام اور عصر حاضر میںڈالنے کی وجہ ہے کہ جرگہ کا ایک ممبر گدی نشین ہے، یعنی لوکل مذہبی رہنما اور دوسرا ممبر قومی اسمبلی ہے اور تیسرا حافظ ہے۔
والسلام،
ذرا یہ خبر دیکھئے۔ فسوسناک بات ہے کہ لڑکیوں کی تجارت ہوئی اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور جس جرگہ نے یہ فیصلہ کیا اس میں ایک ممبر قومی اسمبلی بھی موجود تھا۔
http://search.jang.com.pk/urdu/details.asp?nid=212190
جس میں صاف ظاہر ہے، کہ قتل کا تاوان دینے کے بجائے 5 لڑکیوں کو مقتول کے گھر والوں کے حوالے کردیا گیا، حتی کے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دور جاہلیت کی یادگار، عورتوں اور لڑکیوں کو زر و مال کی جگہ سمجھنا، عورتوںکو اس طرح بیچ دینا کے مال دینے کے بجائے لڑکیاں دے دیں۔ نہ صرف صنف نازک کی تذلیل ہے بلکہ یہ تو تمام مردوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ہم کو عورتوں کو مال کی جگہ تصور کرنے والوں کی بیخ کنی کرنے لئے اپنے اپنے فورمز میں لکھنا چاھئیے۔ اور عورتوں، بچیوں کی تجارت کرنے والوں کا، اور عورت کو مال و زر اور مویشی سمجھنے والوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے۔ موجودہ دور میں یہ ایک ناسور ہے۔ آج پاکستان 60 سال کا ہوگیا ہے اور ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو کموڈٹی سمجھ کر مویشی کی طرح بیچا جاتا ہے۔
مکمل خبر ۔ روزنامہ جنگ 8/16/2007
اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ نے جرگہ فیصلہ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے پی پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی میر ہزار خان بجارانی سمیت 11 افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیس کی سماعت فاضل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جسٹس جاوید اقبال جسٹس سردار محمد رضا خان جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹر پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔ فاضل عدالت نے 2006ء میں میر ہزار خان بجارانی کی سربراہی میں ہونے والے ایک جرگے کے فیصلے کے خلاف ازخود نوٹس لیا۔ اس فیصلے کے مطابق ایک شخص کے قتل کے بدلے قاتل کے خاندان کی 5لڑکیوں کو سنگ چٹی (وِنی) میں دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔گرفتار شدگان میں حافظ قمر الدین یار علی اور رحمت اللہ وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ باقی افراد میں گدی نشین آف بھرچونڈی عبدالخالق تحصیل ناظم ٹھلو میرعلی اکبر بنگلانی و دیگر افراد شامل ہیں۔ ڈی پی او کشمور نے بتایا کہ 14 افراد میں سے 3 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس بااثر افراد کو کیوں گرفتار نہیں کرتی، ان سے ڈرتے ہو‘ آپ صرف اللہ سے ڈریں۔ ایف آئی آر میں 11 افراد نامزد ہیں، انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہے۔ ڈی پی او نے کہا ہم جلد ہی باقی افراد کو گرفتار کر لیں گے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ تمہاری ان افراد سے کوئی رشتہ داری تو نہیں۔ کشمور کے علاقہ ٹھل میں سنگ چٹی میں دی جانے والی بچیوں کی عمریں 3سے 6سال کے درمیان ہیں۔ فاضل عدالت نے 5بچیوں کو سنگ چٹی میں دینے کیخلاف ایک خبر کی بنیاد پر ازخود نوٹس لیا۔
اس کو اسلام اور عصر حاضر میںڈالنے کی وجہ ہے کہ جرگہ کا ایک ممبر گدی نشین ہے، یعنی لوکل مذہبی رہنما اور دوسرا ممبر قومی اسمبلی ہے اور تیسرا حافظ ہے۔
والسلام،