میرے محترم بھائی یہ ہماری " اصلیت " نہیں بلکہ ہمارے چہروں پر ہماری ہستی پر چڑھے نقاب ہوتے ہیں ۔
اک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں ہم ۔۔۔۔۔ جیسا دیس ہو ویسا بھیس بنا لیتے ہیں ۔ ہماری اصلیت تو ان " نقابوں ان بہروپوں " کے پیچھے چھپی ہوتی ہے ۔ دو فطرتیں ممکن ہی نہیں کہ کہ ہمارا دل اک ہی ہے ۔ اور اک ہی نفس کی دھن پہ رقص کرتا ہے ۔ اور اس رقص کے کئی روپ ہوتے ہیں ۔
آپ نے بلاشک درست کہا ۔۔
روپ بہروپ کی ہی ہے یہ سب دنیا
یہاں سب اپنا سچا روپ چھپاتے ہیں ۔
مگر وہ جو " خیر الماکرین " ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب کے سچے روپ سامنے لے آتا ہے ۔۔۔
پہلی بارش میں ہی سب رنگ اتر جاتے ہیں ۔۔۔
بہت دعائیں
نایاب بھائی آپ کی بات سے میں متفق ہوں۔ ہمارے اصلی روپ کو لے کر میرے ذہن میں کئی سوال تھے اس لیئے آپ سے ان کا ذکر کیا تاکہ آپ راہنمائی کیجیئے۔
یہ سوال میرے ذہن میں تقریباََ دو ہفتے پہلے آئے جب میں رات کے وقت چاند کو دیکھ رہا تھا تو میں نے یونہی مزاق میں چاند سے کہا کہ تم بھی بہروپیئے ہو ابھی کچھ دن پہلے تو پورے تھے اور آج بالکل چھوٹے سے ہو گئے ہو۔ تمھارا اصلی روپ کونسا ہے؟ اسی دوران میرے دل نے مجھ سے کہا کہ تم کونسا اصلیت کے پیکر ہو تم بھی تو بہروپیئے ہو۔ بتاؤ تمھارا اصل روپ کونسا ہے؟
یہی بات میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ واقعی میں بہروپیا ہوں وقت کی مناسبت سے روپ بدل لیتا ہوں، پر میرا اصل چہرہ کونسا ہے؟
کیونکہ ابو کا جب کہنا نہیں مانتا تو ان کے لیئے میں نافرمان بیٹا ہوں، دوسری جانب رشتہ داروں سے بھلائی کروں تو ان کی نظر میں میں خاندان کا سب سے فرمانبردار لڑکا ہوں، بہن بھائیوں سے بھلائی کروں تو اچھا، نہ کروں تو برا۔ قریبی دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہوں تو ان کی نظر میں سب سے اچھا دوست، جبکہ کچھ دوستوں کے ساتھ جیسے کو تیسا والا رویہ رکھوں تو ان کی نظر میں مطلبی اور خود غرض ہوں، جب اللہ تعالی کے حضور کھڑا ہوتا ہوں تو اچھائی کی کیفیت ہوتی ہے تو اچھائی کرنے کا سوچتا ہوں اور جب تنہائی میں ہوں تو ذہن میں برائی آتی ہے، برائی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ Facebook پہ آکر کچھ اچھی باتیں کرتا ہوں تو پڑھنے والے اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں، اور کچھ برا کہوں تو برا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اتنے سارے روپوں میں اصل روپ کو کیسے پہچانا جائے؟؟؟ کیونکہ نہ میں اچھائی مستقل کرتا ہوں اور نہ ہی برائی مستقل۔ تو میں اچھا ہوں یا برا؟؟؟
اسی بات پہ میں نے کافی سوچا، پھر ذہن میں ابلیس کا خیال آیا کہ ایک وقت میں وہ اللہ تعالی کا مقرب فرشتہ تھا، تب وہ اس کی اچھائی کی اصلیت تھی، پھر جب اس نے خطاء کی تو وہ اس کی اچھائی اس کے منہ پہ ماری گئی اور وہ شیطان مردود کہلایا جاتا ہے۔ ابلیس کی موجودہ اصلیت شیطانیت ہے۔
اسی طرح جب ہم نیکی کرتے ہیں تو اس وقت ہماری نیکی اللہ تعالی کی نظر میں ہوتی ہے، اور جب ہم گناہ کرتے ہیں تو اس وقت ہمارا گناہ اللہ تعالی کی نظر میں ہوتا ہے۔
ان تمام سے پھر میں نے یہی نتیجہ اخز کر پایا تھا کہ ہم بہروپیئے ہیں، اور جس روپ میں ہم ہوں اس وقت ہم اسی سے انصاف کر رہے ہوتے ہیں وہی ہمارا اصلی روپ ہے۔ لوگوں کی نظر میں ہماری اصلیت کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ اگر میں نے کسی کے ساتھ برا کیا ہے تو کوئی فرشتہ بھی اسے آکر کہہ دے کہ فہد اچھا ہے تو وہ یقین نہیں کرے گا، اور اگر میں نے کسی کے ساتھ بھلائی کی ہے تو سارا شہر آکر اسے کہہ دے کہ فہد برا ہے تو وہ شخص نہیں مانے گا۔ کیونکہ لوگوں کی نظر میں ہماری اصلیت کا معیار وہی ہے جو ہم نے ترتیب دیا ہوتا ہے۔ وہ اسی کو ہماری اصلیت مانتے ہیں۔ جبکہ ہمارے اصل اور دکھاوے کی جزا و سزا ہمیں صرف اللہ تعالی کے حضور مل رہی ہوتی ہے۔
بجائے اس کے کہ اپنے اصل روپ کو پہچاننے کے ہمیں کرنا یہ چاہیئے کہ اچھائی والے روپ کو ہی ہمارا مستقل روپ بنانا چاہیئے۔ تاکہ ہمیں چہرے پہ چہرہ سجا کر سراب چہرے نہ بننا پڑے۔۔
نایاب بھائی اللہ تعالی، آپ کے علم، میں جان، میں مال، میں اور عُمر میں رحمتیں، برکتیں، نازل فرمائے آمین یاربِ۔۔۔
بہت دعائیں