غزل قاضی
محفلین
صنم خانے
سچ یہ ہے کہ وہ غم بھی رہا شاملِ امروز
جس غم میں نہ تخلیق نہ تعمیر نہ پرواز
جو گنبدِ آفاق کی ہمرَاز رہی تھی
دیوار سے ٹکرا کے پلٹ آئی وہ آواز
اب سنگِ سُبک مایہء زنداں بھی نہیں ہیں
آئینہء زلف و لب و مژگاں تھے جو الفاظ
جس طبع کے دامن میں تھے اٹھتے ہوئے خورشید
وہ ڈوبتے مہتاب کی کرنوں سے بھی ناراض
اے نزہتِ مہتاب !
امروز کہ سڑکوں کے چراغاں میں کٹا تھا
امروز کہ تھا رنگ و رُخ و نور کا سیلاب
کچھ اور بھی تھا رنگ و رُخ و نور سے آگے
جلتا ہؤا آہنگ سُلگتا ہؤا مضراب
صدیوں کے تمدن سے دمکتی ہوئی دیوار
قرنوں کے احادیث سے نکھری ہوئی محراب
اِک دل جو روایات کی ہر وضع کا مرکز
اِک ذہن جو تحریکِ سماوات میں سیماب
کس طرح یقیں آئے کہ اس ذہن نے اک روز
دانستہ روا رکھے تھے تخریب کے آداب ؟
کس طرح یقیں آئے کہ میں اپنی خوشی میں
تحقیر سے دہراؤں گا فریاد کے القاب ؟
کس طرح یقیں آئے کہ ہوگی تجھے منظور
توصیفِ شبِ ہجر و نوائے دلِ بےتاب
اے نزہتِ مہتاب
مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
سچ یہ ہے کہ وہ غم بھی رہا شاملِ امروز
جس غم میں نہ تخلیق نہ تعمیر نہ پرواز
جو گنبدِ آفاق کی ہمرَاز رہی تھی
دیوار سے ٹکرا کے پلٹ آئی وہ آواز
اب سنگِ سُبک مایہء زنداں بھی نہیں ہیں
آئینہء زلف و لب و مژگاں تھے جو الفاظ
جس طبع کے دامن میں تھے اٹھتے ہوئے خورشید
وہ ڈوبتے مہتاب کی کرنوں سے بھی ناراض
اے نزہتِ مہتاب !
امروز کہ سڑکوں کے چراغاں میں کٹا تھا
امروز کہ تھا رنگ و رُخ و نور کا سیلاب
کچھ اور بھی تھا رنگ و رُخ و نور سے آگے
جلتا ہؤا آہنگ سُلگتا ہؤا مضراب
صدیوں کے تمدن سے دمکتی ہوئی دیوار
قرنوں کے احادیث سے نکھری ہوئی محراب
اِک دل جو روایات کی ہر وضع کا مرکز
اِک ذہن جو تحریکِ سماوات میں سیماب
کس طرح یقیں آئے کہ اس ذہن نے اک روز
دانستہ روا رکھے تھے تخریب کے آداب ؟
کس طرح یقیں آئے کہ میں اپنی خوشی میں
تحقیر سے دہراؤں گا فریاد کے القاب ؟
کس طرح یقیں آئے کہ ہوگی تجھے منظور
توصیفِ شبِ ہجر و نوائے دلِ بےتاب
اے نزہتِ مہتاب
مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )