یہی تو میرا سوال تھا کہ جب کسی کو بھی سرحد کا نام بدلنے پر اعتراض نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ اتنے سالوں میں یہ ایشو اتنی بار اُٹھا ہے تب بھی ابھی تک نام وہی سرحد کیوں ہے؟ جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں اُن کے دلائل کیا ہیں اس بارے میں؟ اگر کسی کو معلوم ہو تو ۔
ایک بات جو میرے ذہن میں آتی ہے کہ اللہ کے کرم سے پاکستان میں اگر کسی بھی مسلہ کو سیاسی مسلہ بنا دیا جائے تو پھر اُس کو حل کرنا نا ممکنات میں سے ہے، اور شاید اس مسلہ کو بھی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے سیاسی رُخ دے دیا ہے، مخالفت اور میرے خیال میں حمایت کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی دل سے اس کو الجھائے رکھنا چاہتی ہیں کہ عوام کی ہمدردی انہیں حاصل رہے ۔
صوبوں کے نام شایداکثریت پر رکھے گئے ہیں ۔ جس صوبے میں جس کی اکثریت ہے اس کا نام بھی اسی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے ۔ ملتان اور اس سے محلقہ علاقوں میں اور بھی قومیں آباد ہیں ۔ مگراکثریت پنجابیوں کی ہے اس لیئے صوبہ پنجاب کہلوانے کو ترجیح دی گئی ۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں بھی کئی اور قومیں آباد ہیں ۔ مگر آبادی کی تناسب سے وہاں بھی یہی سلوک روا رکھا گیا ۔ جیسا کہ اب پاکستان میں مسلمانوں کیساتھ ، ہندو ، عیسائی ، سکھ ، پارسی اور دیگر مذہب کے ماننے والے بھی رہتے ہیں ۔ مگر اس کو مسلمانوں کی اکثریت کی بناء پر "اسلامی جہموریہ پاکستان " کہا جاتا ہے ۔ ( اگر مسلمان یہاںاقلیت میں ہوتے تو کیا پاکستان کا نام یہی ہوتا ۔ ؟ ) یہی صورتحال صوبہ سرحد میں بھی ہے کہ وہاں پٹھانوں کی اکثریت ہے ۔ اس لیئے صوبہ کے نام میں ان کی اکثریت کو واضع ہونا چاہیئے اور یہ کوئی بے جا مطالبہ نہیں ہے ۔ مگر اس مطالبے کو سیاسی اکھاڑہ بنا لیا گیا ہے ۔ جس کا اب سدِ باب کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ایک مسئلہ تو یہ ہے کے جیسے ملتان میں رہنے والوں کو پنجابی کہلانا بہت پسند نہیں ہے شاید اسی طرح ہزارہ والوں کو پختونخوا نا بھائے۔ تو کیا ضرورت ہے نیا مسئلہ کھڑا کرنے کا۔
باقی صوبے بڑھانے پر کسی کو کیا اعتراض ہے؟
بھائی یہی تو مسئلہ ہے کہ کسی بھی صوبے کی اکثریت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے صوبے کی تقسیم ہو ۔ ورنہ جناح پور اور سندھو دیش نہ بنانے میں کیا قباحت تھی ۔
یہ ناممکنات میں سے ہے ۔ بڑی طاقت چھوٹی طاقت کو ہمیشہ دباتی ہی آئی ہے ۔ مگر اس کے لیئے ایک ایسا نظام مرتب کیا جاسکتا ہے جو ان کے درمیان حقوق کے تفحظ کیساتھ محرومانہ احساس کا کچھ تدراک کرسکے ۔ہاںتو بس یاد رکھیں کے کہیںکی بھی اقلیت بھی نہیںچاہے گی کہ وہاں کی اکثریت کو مزید فائدے ملیں۔ چاہے کسی بھی شکل میں۔
ہاںتو بس یاد رکھیں کے کہیںکی بھی اقلیت بھی نہیںچاہے گی کہ وہاں کی اکثریت کو مزید فائدے ملیں۔ چاہے کسی بھی شکل میں۔
صوبوں کے نام شایداکثریت پر رکھے گئے ہیں ۔ جس صوبے میں جس کی اکثریت ہے اس کا نام بھی اسی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے ۔