صورتِ حال عجیب نہیں ہے؟ ( فِعل فعول فعول فعولن)

نوید ناظم

محفلین
زخمِ جگر ہے طبیب نہیں ہے
صورتِ حال عجیب نہیں ہے؟

تم سے جو دور ہے دل تو گلہ کیوں
یہ تو مِرے بھی قریب نہیں ہے

کون تھا ہجر کے حق میں یہاں پر
کس نے کہا یہ صلیب نہیں ہے؟

کیوں نہ ہو اُس سے ستم کی توقع
دشمنِ جاں ہے، حبیب نہیں ہے!

منبرِ عشق پہ جھوٹ کہے کیوں
دل ہے مِرا، یہ خطیب نہیں ہے

جان چھڑک تو رہے ہو کسی پر
کون ہے پھر جو رقیب نہیں ہے
 
بہت شکریہ سر۔۔۔
ان شعروں کو متروک ہی سمجھتا ہوں کہ نامانوس بحور میں کہے گئے اشعار تو آپ پسند نہیں کرتے؟
دراصل شاعری اگر رواں نہ ہو تو قاری اس کے ساتھ چل نہیں پاتا، اور بہت اچھا خیال بھی روانی کی کمی کے باعث نہیں پہنچ پاتا۔
 
Top