نوید ناظم
محفلین
زخمِ جگر ہے طبیب نہیں ہے
صورتِ حال عجیب نہیں ہے؟
تم سے جو دور ہے دل تو گلہ کیوں
یہ تو مِرے بھی قریب نہیں ہے
کون تھا ہجر کے حق میں یہاں پر
کس نے کہا یہ صلیب نہیں ہے؟
کیوں نہ ہو اُس سے ستم کی توقع
دشمنِ جاں ہے، حبیب نہیں ہے!
منبرِ عشق پہ جھوٹ کہے کیوں
دل ہے مِرا، یہ خطیب نہیں ہے
جان چھڑک تو رہے ہو کسی پر
کون ہے پھر جو رقیب نہیں ہے
صورتِ حال عجیب نہیں ہے؟
تم سے جو دور ہے دل تو گلہ کیوں
یہ تو مِرے بھی قریب نہیں ہے
کون تھا ہجر کے حق میں یہاں پر
کس نے کہا یہ صلیب نہیں ہے؟
کیوں نہ ہو اُس سے ستم کی توقع
دشمنِ جاں ہے، حبیب نہیں ہے!
منبرِ عشق پہ جھوٹ کہے کیوں
دل ہے مِرا، یہ خطیب نہیں ہے
جان چھڑک تو رہے ہو کسی پر
کون ہے پھر جو رقیب نہیں ہے