کاشفی
محفلین
غزل
(زاہدہ رئیس راجی)
صورت نہیں رہتی، کبھی سیرت نہیں رہتی
یکساں تو کسی کی کبھی حالت نہیں رہتی
انسان پہ وقت ایسا بھی آسکتا ہے اک دن
حالات سے لڑنے کی بھی ہمت نہیں رہتی
دل تب بھی اُجالوں کی تمنا نہیں کرتا
جب سامنے خوابوں کی حقیقت نہیں رہتی
گر بھیڑ میں تنہائی کی عادت ہو کسی کو
محفل کی اُسے ذرہ بھی رغبت نہیں رہتی
بیگانہ ہر خواب ہی ہو جائے اگر دل
پھر اس کو تو جینے کی بھی چاہت نہیں رہتی
حالات کے گرداب میں اُلجھا ہوا انسان
بکھرے تو سمٹنے کی بھی طاقت نہیں رہتی
خود اپنی ہی نظروں سے تو گرنا نہیں اچھا
گر جائے تو اُٹھنے کی بھی ہمت نہیں رہتی
دُنیا کے جھمیلے سے نکل آئیں تو سوچیں
کیونکر ہمیں دُنیا کی ضرورت نہیں رہتی
سالوں میں ملاقات کی آتی نہیں نوبت
رشتوں کے نبھانے کی جو فرصت نہیں رہتی
دل میں جو ذرا سی بھی مروت رہے راجی
شکوے نہیں رہتے ہیں، شکایت نہیں رہتی
(زاہدہ رئیس راجی)
صورت نہیں رہتی، کبھی سیرت نہیں رہتی
یکساں تو کسی کی کبھی حالت نہیں رہتی
انسان پہ وقت ایسا بھی آسکتا ہے اک دن
حالات سے لڑنے کی بھی ہمت نہیں رہتی
دل تب بھی اُجالوں کی تمنا نہیں کرتا
جب سامنے خوابوں کی حقیقت نہیں رہتی
گر بھیڑ میں تنہائی کی عادت ہو کسی کو
محفل کی اُسے ذرہ بھی رغبت نہیں رہتی
بیگانہ ہر خواب ہی ہو جائے اگر دل
پھر اس کو تو جینے کی بھی چاہت نہیں رہتی
حالات کے گرداب میں اُلجھا ہوا انسان
بکھرے تو سمٹنے کی بھی طاقت نہیں رہتی
خود اپنی ہی نظروں سے تو گرنا نہیں اچھا
گر جائے تو اُٹھنے کی بھی ہمت نہیں رہتی
دُنیا کے جھمیلے سے نکل آئیں تو سوچیں
کیونکر ہمیں دُنیا کی ضرورت نہیں رہتی
سالوں میں ملاقات کی آتی نہیں نوبت
رشتوں کے نبھانے کی جو فرصت نہیں رہتی
دل میں جو ذرا سی بھی مروت رہے راجی
شکوے نہیں رہتے ہیں، شکایت نہیں رہتی