ظہور احمد سولنگی
محفلین
آخر کار مولانا صوفی محمد نے وہ کچھ کہہ ہی ڈالا جس کی توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان میں کفر کا نظام رائج ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بات پہلی مرتبہ نہیں کی، بلکہ پچھلے ہفتے جب نظام عدل ریگولیشن کو پارلینمٹ میں پیش کیا جا رہا تھا تو انہوں ایک 'فتوی' جاری کیا تھا کہ مخالفت کرنے والوں کو کافر اور پاکستان کو دارالحرب قرار دیا جائے گا۔
لیکن اس بیان میں اور حالیہ بات میں ایک فرق ضرور ہے۔ پہلے بیان کو دھمکی سمجھا گیا تھا جبکہ حالیہ بات بظاہر پالیسی معلوم ہو رہی ہے۔ مولانا صوفی محمد کی یہ سوچ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں کیونکہ وہ تو سنہ انیس نوے سے ہی اس ملک کے نظام اور اداروں کو کفری قراردیتے آ رہے ہیں لیکن آج انکی بات کو اس لیے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے کیونکہ اس وقت سات قبائلی ایجنسیوں اور پشاور اور چند اضلاع کو چھوڑ کر پورے صوبے پر طالبان نے بندوق کے زور سے اپنی عملداری قائم کردی ہے۔
سوات کے طالبان نے تو پاکستانی فوج کے ساتھ ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی مسلح آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے فوج، سیکولر حکمران جماعتوں، پیپلز پارٹی اور عوامی نینشل پارٹی کے گھٹنے ٹیک دیئے اور اس شکست کی توثیق نظام عدل ریگولیشن کی منظوری کی شکل میں پارلیمنٹ سے بھی کرا لی۔اس شکست کی خوبصورت تشریح ممتاز کالم نویس اور رکنِ قومی اسمبلی ایاز امیر نے نظام عدل ریگولیشن کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے دوران بحث میں حصہ لیتے وقت کی کہ' اسکا مطلب ہے کہ طالبان کی بندوقیں ہماری مسلح افواج کی بندوقوں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئی ہیں۔'
اب تو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف بھی ماننے لگے ہیں کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ سوات کامعاہدہ دراصل عسکریت پسندوں کی طرف سے ہم پر مسلط کیا گیا ہے کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔‘
وزیر اعلی پنجاب کی سنیئر صحافیوں، مدیروں اور کالم نگاروں سےگفتگو کی تفصیلات پڑھی جائیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ شہباز شریف کے الفاظ سےانسانی تصویر بنانے کی کوشش کی جائے تو مولانا صوفی محمد اورمولانا فضل اللہ کی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔
شہباز شریف صاحب نے جس عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کو سیاسی شکست دیکر نہ صرف اپنی سیاسی انا کو تسکین اور سیاسی قوت حاصل کی بلکہ خود کواور میاں نواز شریف کو رکن اسمبلی بننے کا اہل بھی بنادیا، اب وہی عدلیہ انہیں غیر مؤثر دکھائی دے رہی ہے۔ لگتا ہے کہ شاید شہباز شریف مولانا فضل اللہ اور وہ صوفی محمد کے گن پوائنٹ پر نافذ کیے جانے والے نظام عدل کو درست سمجھ کر اسے پورے ملک تک وسیع کرنے کی موہوم خواہش بھی رکھتے ہیں۔
آج کل اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے طالبان کے حوالے سے کردار پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ ایسی کوئی جماعت نہیں ملے گی جو طالبان کی کھل کر مخالفت کر رہی ہو۔ میڈیا پر طالبان حامی سوچ حاوی ہے اور مباحثوں میں ایسے لوگوں کو بلانے کی کوشش کی جاتی ہے جو امریکہ کی مخالفت میں اس حد تک جائیں کہ انہیں طالبان کے خودکش حملے، ناک کان کاٹنے، صوفیوں کے مزاروں، مساجد اور جرگوں کو نشانے بنانے، عورتوں کو کوڑے مارنے کے واقعات میں بھی ہزاروں میل دور ببٹھےامریکہ اور یہود و ہنود کی شکست نظر آجا ئے۔
اس ملک میں اے این پی ،پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کی بعض تنظمیں ایسی تھیں جن سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ مسلح مذہبی شدت پسندی کے سامنے ڈٹ جائیں گی لیکن اے این پی اور پیپلز پارٹی تو اب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آ رہی ہیں اور جب کبھی بھی طالبان کی انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی خبر منظر عام پر آتی ہے تو دونوں جماعتوں کے وزراء اور قائدین آستینیں چڑھا کر پہلے تو اس عمل کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں اور اگر ایسا مکمن نہیں ہو پاتا تو پھر دلائل سے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوات میں لڑکی کو کوڑوں کی سزا اور بونیر میں طالبان کے کنٹرول کے بعد وقوع پزیر ہونے والے واقعات کو حتی المقدور چھانے کی کوششیں اس رویے کی بہترین مثالیں ہیں۔
اب تو مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں رنگ بھرنے کے لیے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو بھی رہا کردیاگیا جنہوں نے جمعہ کے خطبے میں شہباز شریف اور مولانا صوفی محمد کی طرح یہ بات کہی کہ نظام عدل اب پورے ملک میں نافذ ہوگا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام مذہبی، سیکولر اور مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، مولانا صوفی محمد، مولانا فضل اللہ اور طالبان کی دیگر قیادت اگر فکری طور پر نہیں تو مقاصد کے لحاظ سے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ انگریزی کاایک مقولہ ہے کہ ’بندوق خود نہیں لڑتی بلکہ اسکے پیچھے بیٹھا ہوا شخص لڑتا ہے
بشکریہ بی بی سی اردو
لیکن اس بیان میں اور حالیہ بات میں ایک فرق ضرور ہے۔ پہلے بیان کو دھمکی سمجھا گیا تھا جبکہ حالیہ بات بظاہر پالیسی معلوم ہو رہی ہے۔ مولانا صوفی محمد کی یہ سوچ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں کیونکہ وہ تو سنہ انیس نوے سے ہی اس ملک کے نظام اور اداروں کو کفری قراردیتے آ رہے ہیں لیکن آج انکی بات کو اس لیے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے کیونکہ اس وقت سات قبائلی ایجنسیوں اور پشاور اور چند اضلاع کو چھوڑ کر پورے صوبے پر طالبان نے بندوق کے زور سے اپنی عملداری قائم کردی ہے۔
سوات کے طالبان نے تو پاکستانی فوج کے ساتھ ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی مسلح آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے فوج، سیکولر حکمران جماعتوں، پیپلز پارٹی اور عوامی نینشل پارٹی کے گھٹنے ٹیک دیئے اور اس شکست کی توثیق نظام عدل ریگولیشن کی منظوری کی شکل میں پارلیمنٹ سے بھی کرا لی۔اس شکست کی خوبصورت تشریح ممتاز کالم نویس اور رکنِ قومی اسمبلی ایاز امیر نے نظام عدل ریگولیشن کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے دوران بحث میں حصہ لیتے وقت کی کہ' اسکا مطلب ہے کہ طالبان کی بندوقیں ہماری مسلح افواج کی بندوقوں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئی ہیں۔'
اب تو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف بھی ماننے لگے ہیں کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ سوات کامعاہدہ دراصل عسکریت پسندوں کی طرف سے ہم پر مسلط کیا گیا ہے کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔‘
وزیر اعلی پنجاب کی سنیئر صحافیوں، مدیروں اور کالم نگاروں سےگفتگو کی تفصیلات پڑھی جائیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ شہباز شریف کے الفاظ سےانسانی تصویر بنانے کی کوشش کی جائے تو مولانا صوفی محمد اورمولانا فضل اللہ کی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔
شہباز شریف صاحب نے جس عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کو سیاسی شکست دیکر نہ صرف اپنی سیاسی انا کو تسکین اور سیاسی قوت حاصل کی بلکہ خود کواور میاں نواز شریف کو رکن اسمبلی بننے کا اہل بھی بنادیا، اب وہی عدلیہ انہیں غیر مؤثر دکھائی دے رہی ہے۔ لگتا ہے کہ شاید شہباز شریف مولانا فضل اللہ اور وہ صوفی محمد کے گن پوائنٹ پر نافذ کیے جانے والے نظام عدل کو درست سمجھ کر اسے پورے ملک تک وسیع کرنے کی موہوم خواہش بھی رکھتے ہیں۔
آج کل اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے طالبان کے حوالے سے کردار پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ ایسی کوئی جماعت نہیں ملے گی جو طالبان کی کھل کر مخالفت کر رہی ہو۔ میڈیا پر طالبان حامی سوچ حاوی ہے اور مباحثوں میں ایسے لوگوں کو بلانے کی کوشش کی جاتی ہے جو امریکہ کی مخالفت میں اس حد تک جائیں کہ انہیں طالبان کے خودکش حملے، ناک کان کاٹنے، صوفیوں کے مزاروں، مساجد اور جرگوں کو نشانے بنانے، عورتوں کو کوڑے مارنے کے واقعات میں بھی ہزاروں میل دور ببٹھےامریکہ اور یہود و ہنود کی شکست نظر آجا ئے۔
اس ملک میں اے این پی ،پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کی بعض تنظمیں ایسی تھیں جن سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ مسلح مذہبی شدت پسندی کے سامنے ڈٹ جائیں گی لیکن اے این پی اور پیپلز پارٹی تو اب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آ رہی ہیں اور جب کبھی بھی طالبان کی انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی خبر منظر عام پر آتی ہے تو دونوں جماعتوں کے وزراء اور قائدین آستینیں چڑھا کر پہلے تو اس عمل کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں اور اگر ایسا مکمن نہیں ہو پاتا تو پھر دلائل سے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوات میں لڑکی کو کوڑوں کی سزا اور بونیر میں طالبان کے کنٹرول کے بعد وقوع پزیر ہونے والے واقعات کو حتی المقدور چھانے کی کوششیں اس رویے کی بہترین مثالیں ہیں۔
اب تو مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں رنگ بھرنے کے لیے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو بھی رہا کردیاگیا جنہوں نے جمعہ کے خطبے میں شہباز شریف اور مولانا صوفی محمد کی طرح یہ بات کہی کہ نظام عدل اب پورے ملک میں نافذ ہوگا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام مذہبی، سیکولر اور مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، مولانا صوفی محمد، مولانا فضل اللہ اور طالبان کی دیگر قیادت اگر فکری طور پر نہیں تو مقاصد کے لحاظ سے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ انگریزی کاایک مقولہ ہے کہ ’بندوق خود نہیں لڑتی بلکہ اسکے پیچھے بیٹھا ہوا شخص لڑتا ہے
بشکریہ بی بی سی اردو