حسن محمود جماعتی
محفلین
ایک بہت مشفق اور ہر دل عزیز استاد محترم کے ساتھ نشت میں گفتگو کا ایک حصہ،
"سر! ہم سے تو ضبط نہیں ہوتا، ہم تو برملا اظہار کردیتے ہیں ہمارا تعلق ہے ان سے اور ہم تو دفاع میں اچھی خاصی بحث پر آجاتے ہیں۔ سر! آپ تو اس ادارے کے پڑھے ہوئے ہیں، وہاں استاد بھی رہ چکے ہیں، آپ کے حلقۂ احباب میں آپ کی اس موضوع پر بحث نہیں ہوتی؟ یا آپ کس طرح اپنی شخصیت کو غیر جانبدار رکھتے ہیں؟ "
" بیٹا! ٹھیک ہے ہمارا تعلق ہے اور ہمارے اعتبار سے ان کا نقطۂ نظر درست ہے، ہمیں اس کا پرچار بھی کرنا چاہیے، لیکن بات کے پہنچانے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ میں بحث میں کبھی نہیں پڑتا نہ جذبات میں آتا ہوں۔ لوگ اختلاف کر سکتے ہیں ان کی اپنی رائے ہے۔ ہر ایک کو رائے رکھنے اور دینے کا حق ہے۔ "
"جہاں تک بات غیر جانبداری کی ہے تومیں فقط اتنا کہتا ہوں کہ "ان کی یہ رائے ہے اور اس پر یہ دلیل ہے؛ ہم ان سے بعض باتوں میں اختلاف کرتے ہیں اور بعض سے اتفاق۔ آپ کی اپنی رائے ہے، یقینا آپ اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ مجھ سے ایک مسئلے کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو وہ میں مطالعہ کی روشنی میں عرض کیے دیتا ہوں۔ "
" بیٹا! آپ ابھی جوان ہیں جذبات کا آنا فطری ہے، لیکن ضبط سیکھیں۔ تحمل سے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ حکمت سے کام لیں۔ عوامی جگہوں پر اس کا بے جا اظہار مت کریں۔ کوشش کریں خود کو غیر جانبدار پیش کریں۔ اس سے لوگ آپ کو سنیں گے اور آپ کی دلیل بھی مانیں گے، وگرنہ آپ کی سچی دلیل کو بھی محض اس تعلق کی وجہ سے رد کردیا جائے گا۔ "
"سر! یہ تحمل کیسے لایا جائے، ضبط کیسے ممکن ہے؟ "
"اپنا مطالعہ بڑھائیں، جب آپ کا مطالعہ وسیع ہوگا، خود بخود آپ میں ضبط آئے گا۔ آپ دوسروں کی رائے کا احترام کریں گے۔" "اس ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، "
"حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تحمل اور ضبط بہت مشہور تھا، ایک شخص نے کہا میں ابو حنیفہ کا ضبط توڑوں گا۔ وہ شخص آپ کے پاس آنے لگا، مجلس میں بیٹھنے لگا۔ دوران گفتگو اکثر امام صاحب کی تضحیک کرتا آپ کے دلائل کا مذاق اڑاتا۔ جب اس سے بھی کام نہ بنا تو وہ گالیوں پر اتر آیا۔ اس نے قریب ہر حربہ استعمال کرلیا کہ کسی طرح امام صاحب کو غصہ دلایا جائے لیکن ناکام رہا۔
ایک روز اس نے کہا آج تو ابوحنیفہ ضرور غصہ میں آئے گا اور مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا، اس نے آپ کے گھر دروازے پر دستک دی، آپ باہر تشریف لائے، کہنے لگا، "ابو حنیفہ میں آپ کی والدہ کے لیے نکاح کا پیغام لایا ہوں، میں ان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"۔ امام صاحب نے بڑے تحمل سے جواب دیا، جی بہت اچھی بات ہے میں آپ کی خواہش کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن اس فیصلے کا حق میرے پاس نہیں ہے میں اپنی والدہ سے پوچھ کر آتا ہوں، ان کی رضا مندی ضروری ہے۔ اگر وہ راضی ہین تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ " آپ یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے۔ اسی اثناء میں اس شخص کا کلیجہ پھٹ گیا، اس کے جسم سے خون رسنے لگا اور وہ مر گیا۔ آپ جب تک آپ باہر تشریف لائے وہ مر چکا تھا۔
اس کے بعد مشہور ہو گیا کہ فلاں شخص کو ابو حنیفہ کے صبر نے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"سر! ہم سے تو ضبط نہیں ہوتا، ہم تو برملا اظہار کردیتے ہیں ہمارا تعلق ہے ان سے اور ہم تو دفاع میں اچھی خاصی بحث پر آجاتے ہیں۔ سر! آپ تو اس ادارے کے پڑھے ہوئے ہیں، وہاں استاد بھی رہ چکے ہیں، آپ کے حلقۂ احباب میں آپ کی اس موضوع پر بحث نہیں ہوتی؟ یا آپ کس طرح اپنی شخصیت کو غیر جانبدار رکھتے ہیں؟ "
" بیٹا! ٹھیک ہے ہمارا تعلق ہے اور ہمارے اعتبار سے ان کا نقطۂ نظر درست ہے، ہمیں اس کا پرچار بھی کرنا چاہیے، لیکن بات کے پہنچانے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ میں بحث میں کبھی نہیں پڑتا نہ جذبات میں آتا ہوں۔ لوگ اختلاف کر سکتے ہیں ان کی اپنی رائے ہے۔ ہر ایک کو رائے رکھنے اور دینے کا حق ہے۔ "
"جہاں تک بات غیر جانبداری کی ہے تومیں فقط اتنا کہتا ہوں کہ "ان کی یہ رائے ہے اور اس پر یہ دلیل ہے؛ ہم ان سے بعض باتوں میں اختلاف کرتے ہیں اور بعض سے اتفاق۔ آپ کی اپنی رائے ہے، یقینا آپ اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ مجھ سے ایک مسئلے کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو وہ میں مطالعہ کی روشنی میں عرض کیے دیتا ہوں۔ "
" بیٹا! آپ ابھی جوان ہیں جذبات کا آنا فطری ہے، لیکن ضبط سیکھیں۔ تحمل سے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ حکمت سے کام لیں۔ عوامی جگہوں پر اس کا بے جا اظہار مت کریں۔ کوشش کریں خود کو غیر جانبدار پیش کریں۔ اس سے لوگ آپ کو سنیں گے اور آپ کی دلیل بھی مانیں گے، وگرنہ آپ کی سچی دلیل کو بھی محض اس تعلق کی وجہ سے رد کردیا جائے گا۔ "
"سر! یہ تحمل کیسے لایا جائے، ضبط کیسے ممکن ہے؟ "
"اپنا مطالعہ بڑھائیں، جب آپ کا مطالعہ وسیع ہوگا، خود بخود آپ میں ضبط آئے گا۔ آپ دوسروں کی رائے کا احترام کریں گے۔" "اس ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، "
"حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تحمل اور ضبط بہت مشہور تھا، ایک شخص نے کہا میں ابو حنیفہ کا ضبط توڑوں گا۔ وہ شخص آپ کے پاس آنے لگا، مجلس میں بیٹھنے لگا۔ دوران گفتگو اکثر امام صاحب کی تضحیک کرتا آپ کے دلائل کا مذاق اڑاتا۔ جب اس سے بھی کام نہ بنا تو وہ گالیوں پر اتر آیا۔ اس نے قریب ہر حربہ استعمال کرلیا کہ کسی طرح امام صاحب کو غصہ دلایا جائے لیکن ناکام رہا۔
ایک روز اس نے کہا آج تو ابوحنیفہ ضرور غصہ میں آئے گا اور مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا، اس نے آپ کے گھر دروازے پر دستک دی، آپ باہر تشریف لائے، کہنے لگا، "ابو حنیفہ میں آپ کی والدہ کے لیے نکاح کا پیغام لایا ہوں، میں ان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"۔ امام صاحب نے بڑے تحمل سے جواب دیا، جی بہت اچھی بات ہے میں آپ کی خواہش کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن اس فیصلے کا حق میرے پاس نہیں ہے میں اپنی والدہ سے پوچھ کر آتا ہوں، ان کی رضا مندی ضروری ہے۔ اگر وہ راضی ہین تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ " آپ یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے۔ اسی اثناء میں اس شخص کا کلیجہ پھٹ گیا، اس کے جسم سے خون رسنے لگا اور وہ مر گیا۔ آپ جب تک آپ باہر تشریف لائے وہ مر چکا تھا۔
اس کے بعد مشہور ہو گیا کہ فلاں شخص کو ابو حنیفہ کے صبر نے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
آخری تدوین: