عاطف ملک
محفلین
کافی عرصے بعد کچھ اشعار ہوئے ہیں بلکہ کہے ہیں۔اساتذہ اور محفلین کی خدمت میں اس امید کے ساتھ پیش ہیں کہ اپنی رائے ضرور دیں گے۔
ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو
آہ کہتا ہوں مَیں پلکوں سے گرے پانی کو
جس کے ہونے سے نہ محسوس ہو نادار کا دُکھ
زہر کہتا ہوں میں اس شے کی فراوانی کو
زندگانی میں محبت ہی تو ہر چیز نہیں
کون سا نام دوں ہمدم تری نادانی کو
دردمندی ہی یہاں ہو گا شرف کا معیار
ہم سنواریں گے اب اس خطۂِ انسانی کو
اب سبھی کچھ ہے مرے پاس محبت کے سوا
دیکھ لو آج مری بے سرو سامانی کو
جراتِ عشق ہی ہوتی ہے کہ کوئی عاطفؔ
چاند کہتا ہے کسی پیکرِ انسانی کو
عاطفؔ ملک
اگست ۲۰۲۱
ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو
آہ کہتا ہوں مَیں پلکوں سے گرے پانی کو
جس کے ہونے سے نہ محسوس ہو نادار کا دُکھ
زہر کہتا ہوں میں اس شے کی فراوانی کو
زندگانی میں محبت ہی تو ہر چیز نہیں
کون سا نام دوں ہمدم تری نادانی کو
دردمندی ہی یہاں ہو گا شرف کا معیار
ہم سنواریں گے اب اس خطۂِ انسانی کو
اب سبھی کچھ ہے مرے پاس محبت کے سوا
دیکھ لو آج مری بے سرو سامانی کو
جراتِ عشق ہی ہوتی ہے کہ کوئی عاطفؔ
چاند کہتا ہے کسی پیکرِ انسانی کو
عاطفؔ ملک
اگست ۲۰۲۱