محمود احمد غزنوی
محفلین
شاعر کا نام تو نہیں معلوم۔ ۔ لیکن اچھی ٹمپلیٹ بنائی ہے کسی نے۔
ایک لڑکا ہے اصیل النسل عالی خاندان
عمر ہے لڑکے کی ففٹی سکسٹی کے درمیان
قبض رہتا ہے نہ اس کو نزلہ کی تحریک ہے
ایک دن ٹی بی ہوئی تھی اب طبیعت ٹھیک ہے
آنکھ کی اک شمع روشن، دوسری تھوڑی سی گل
مختصر یہ ہے کہ لڑکا ہے بہت ہی بیوٹی فل
پی کے ما اللحم جب ملتا ہے داڑھی پر خضاب
اس کے چہرہ پر نظر آتے ہیں آثار شباب
طالب رشتہ، قیود علم سے آزاد ہے
کچھ ادیبوں کی طرح وہ فطرتاً استاد ہے
اس کے ہاتھوں میں کسی بھی ’’ ازم ‘‘ کا تیشہ نہیں
اس مسلماں کو کسی فتوے کا اندیشہ نہیں
عالموں کے ساتھ رہ کر وہ بھی جید ہو گیا
پہلے جانے کیا تھا، رفتہ رفتہ سید ہو گیا
بر بنائے مصلحت یا بر بنائے انتقام
آج تک کنوارا ہے یہ وحدت پرستوں کا امام
اس کے بارے میں یہی کہتی ہے دنیا بالعموم
وہ موحد ہے اور اس کا کیش ہے ترک رسوم
شب کو براتے میں کہتا ہے مجھے دولہا بناؤ
کوئی بیوہ ہو تو اس کو میری منکوحہ بناؤ
کیا بتاؤں کس قدر دلچسپ باتیں اس کی ہیں‘‘
’’نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں‘‘
شادیوں کی آج چونکہ گرمئی بازار ہے
کوئی کنوارا شہر میں بچنا بہت دشوار ہے
سوچتا ہے اب کہ سہرا باندھ لے یہ نونہال
پیر نابالغ کو اب آیا ہے شادی کا خیال
اس کو لڑکی چاہیئے، لڑکی جو آوارہ نہ ہو
درحقیقت چاند ہو، مصنوعی سیارہ نہ ہو
جامعہ کی کوئی بھی ڈگری ہو اس کے ہاتھ میں
کوئی ڈپلومہ نہ لائی ہو سند کے ساتھ میں
زلف پیچاں کی جگہ پٹھے نہیں رکھتی ہو وہ
گھر پہ پہرہ کے لئے ’’ کتے ‘‘ نہیں رکھتی ہو وہ
اس کو لڑکی چاہئے، جو صورتاً لڑکا نہ ہو
جس کے دل میں شعلہ مردانگی بھڑکانہ ہو
لڑکی میکے میں قیام مستقل فرمائے گی
حال میں دو چار دن سسرال بھی آ جائے گی
لڑکی اپنے ساتھ لائے کم سے کم دو لاکھ کیش
تاکہ لڑکا بعد شادی کر سکے آرام و عیش
مستعد شوہر تو بس لیٹا رہے گا، صبح و شام
نان نفقہ کا بھی بیگم خود کریں گی انتظام
کوئی دوشیزہ اگر ہو حامل جملہ صفات
خط میں لکھ بھیجے کہ کس دن اس کے گھر پہنچے برات
عمر ہے لڑکے کی ففٹی سکسٹی کے درمیان
قبض رہتا ہے نہ اس کو نزلہ کی تحریک ہے
ایک دن ٹی بی ہوئی تھی اب طبیعت ٹھیک ہے
آنکھ کی اک شمع روشن، دوسری تھوڑی سی گل
مختصر یہ ہے کہ لڑکا ہے بہت ہی بیوٹی فل
پی کے ما اللحم جب ملتا ہے داڑھی پر خضاب
اس کے چہرہ پر نظر آتے ہیں آثار شباب
طالب رشتہ، قیود علم سے آزاد ہے
کچھ ادیبوں کی طرح وہ فطرتاً استاد ہے
اس کے ہاتھوں میں کسی بھی ’’ ازم ‘‘ کا تیشہ نہیں
اس مسلماں کو کسی فتوے کا اندیشہ نہیں
عالموں کے ساتھ رہ کر وہ بھی جید ہو گیا
پہلے جانے کیا تھا، رفتہ رفتہ سید ہو گیا
بر بنائے مصلحت یا بر بنائے انتقام
آج تک کنوارا ہے یہ وحدت پرستوں کا امام
اس کے بارے میں یہی کہتی ہے دنیا بالعموم
وہ موحد ہے اور اس کا کیش ہے ترک رسوم
شب کو براتے میں کہتا ہے مجھے دولہا بناؤ
کوئی بیوہ ہو تو اس کو میری منکوحہ بناؤ
کیا بتاؤں کس قدر دلچسپ باتیں اس کی ہیں‘‘
’’نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں‘‘
شادیوں کی آج چونکہ گرمئی بازار ہے
کوئی کنوارا شہر میں بچنا بہت دشوار ہے
سوچتا ہے اب کہ سہرا باندھ لے یہ نونہال
پیر نابالغ کو اب آیا ہے شادی کا خیال
اس کو لڑکی چاہیئے، لڑکی جو آوارہ نہ ہو
درحقیقت چاند ہو، مصنوعی سیارہ نہ ہو
جامعہ کی کوئی بھی ڈگری ہو اس کے ہاتھ میں
کوئی ڈپلومہ نہ لائی ہو سند کے ساتھ میں
زلف پیچاں کی جگہ پٹھے نہیں رکھتی ہو وہ
گھر پہ پہرہ کے لئے ’’ کتے ‘‘ نہیں رکھتی ہو وہ
اس کو لڑکی چاہئے، جو صورتاً لڑکا نہ ہو
جس کے دل میں شعلہ مردانگی بھڑکانہ ہو
لڑکی میکے میں قیام مستقل فرمائے گی
حال میں دو چار دن سسرال بھی آ جائے گی
لڑکی اپنے ساتھ لائے کم سے کم دو لاکھ کیش
تاکہ لڑکا بعد شادی کر سکے آرام و عیش
مستعد شوہر تو بس لیٹا رہے گا، صبح و شام
نان نفقہ کا بھی بیگم خود کریں گی انتظام
کوئی دوشیزہ اگر ہو حامل جملہ صفات
خط میں لکھ بھیجے کہ کس دن اس کے گھر پہنچے برات