مرحوم جنرل ضیاالحق ایک نہایت ہی زیرک انسان تھے۔ محترم
اکمل زیدی صاحب نے کہا ہے کہ ان کی بوئی فصل آج کے نوجوان کاٹ رہے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے لیکن انھوں نے اپنی کاشت کی ہوئی فصل کا رخ ازلی دشمن کی طرف موڑ دیا تھا۔ 1986 کے اواخر تک کشمیر ایک شعلہ بن چکا تھا اور آئے روز تحریک آزادی کشمیر میں شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی۔ دوسری طرف بھارتی ایجنسیوں کی اندرا گاندھی کو وقتی فائدہ پہنچانے کے لیے خالصتان تحریک کو پہلے اٹھانا اور پھر اس کے خلاف ایکشن لینا بھی ان کے گلے میں طوق کی طرح لٹک گیا تھا اور تحریک خالصتان بھی عروج پر تھی۔
دراصل ہوا یہ کہ بھٹو کے دھڑن تختے سے لیکر اگلے نو سال تک قومی و عالمی پالیسی سازی میں کوئی بھی سیاستدان شریک نہیں ہوا یا کیا گیا اور 17 اگست 1988 کے حادثے میں آخری فیصلہ کرنے والے تمام بڑے عہدے داران دنیا سے چلے گئے۔ اس کے بعد صدر وہ ملا جو بابوؤں کی گود میں پلتا بڑھتا یہاں تک پہنچا تھا، جس کے پاس مقامی سازشی سیاسی شعور تو تھا، لیکن عالمی و علاقائی سیاست پر نہلا تھا۔ پھر بدقسمتی یہ رہی کہ اوپر نیچے آنے والے دونوں وزرا اعظم علاقائی سیاست کو اس فہم و ادراک سے نہ سمجھ پائے جس سے جنرل کے زمانے میں ان کی ٹیم دلیری سے نبرد آزما ہوتی تھی۔ وہ ساری کاشت جس کے مستقبل کے استعمال کو جنرل نے متعین کر دیا تھا، اُس کو ضیاالحق کے بعد بننے والے جنرلز اور حکمرانوں نے اٹھایا ہی نہیں۔ رہی سہی کسر مشرف کے یو ٹرن نے نکال دی۔
اس تیار ہوئی کھیتوں میں جلتی سڑتی فصل کی سڑاند اب تک معاشرے میں بکھری پڑی ہے۔
زمانہ امن ہو تو عقلمند وہی ہوتا ہے جو دشمن کو اس کے اپنے ہی گھر میں انگیج کر کے رکھے۔ اور اس کی مثال آج سے پندرہ سال پہلے اور ابھی تک کے پاکستان سے زیادہ کیا دی جا سکتی ہے۔