فرخ منظور

لائبریرین
طائرِ دل

اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر، گھبراگیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے
کہا، " میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے
اسی کے زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے"
بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے
 

فرخ منظور

لائبریرین

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ سر جی یاد رکھنے کا
آپ کا بڑا پن ہےاور میری خوش نصیبی ہے کہ آپ ہم جیسے چھوٹوں کو بھی یاد رکھتے ہیں

حضور کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ چھوٹے بڑے کا کیا سوال۔ آپ نے بہت اعلیٰ کام کیا ہے اور بے لوث اردو ادب کے لئے کام کرنے والے لوگ تو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں۔ خوش رہیں ہمیشہ۔ :)
 
Top