الف نظامی
لائبریرین
طارق سلطانپوری --- دبستانِ رضا کا گُلِ سرسبد
ما حلقہ بگوشِ سخنِ عشق و جنونیم
صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری
ما حلقہ بگوشِ سخنِ عشق و جنونیم
صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری
سیدی الوریٰ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھنا، پڑھنا اور سننا بامرِ الٰہی ایک عظیم عبادت ہے۔ اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ نے بارگاہِ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام بھیجنے کا جس میں زبان و قلم دونوں شامل ہیں، واضح حکم دیا ہے۔ (1) یہ درود و سلام منثور بھی ہوسکتا ہے اور منظوم بھی۔ منثور صلوٰة و سلام کی بہترین مثال فنا فی الرسول، امامِ وقت، ولیِ کبیر، قطبِ شہیر، سید العارفین، حضرت الشیخ سیدنا ابو عبد اللہ محمد بن سلیمان الجزولی سملالی حسنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ولادت 807ھ/ 1404ء۔ وفات 870ھ/ 1465ء) کی مشہور زمانہ تالیف دَلَائِلُ الْخَیْرَاتِ وَشوارقُ الْاَنْوَارِ فِی ذِکْرِ الصَّلٰوةِ عَلَی النَّبِیِّ الْمُخْتَارِ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
منظوم درود و سلام بے شمار لکھے گئے ہیں۔ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ ہمایونی سے لے کر آج تک ہر دور، ہر علاقہ اور ہر زبان کے اہلِ ایمان شعراء نے منظوم درود و سلام لکھنے میں طبع آزمائی کی ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ صبحِ قیامت تک جاری رہے گا بلکہ بروز حشر اور بعدِ حساب و کتاب جنت کی فضاؤں میں بھی جاری و ساری رہے گا۔ لفظ ”نعت“ کے لغوی و اصطلاحی معانی کی تفصیل میں جائے بغیر مختصراً یوں سمجھئے کہ ان منظوم صلوٰة و سلام کو ہی نعت کہا جاتا ہے۔
عربی نعتیہ قصائد میں حضرت امام شرف الدین بوصیری علیہ الرحمة والرضوان کے قصیدہٴ بردہ شریف کو جو شہرت و مقام ملا ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ اسی طرح فارسی زبان میں جید اور افاضل شعراء کرام نے نعتیں کہی ہیں مثلاً ابو معید ابو الخیر (م440ھ/ 1049ء)، حکیم سینائی (م 545ھ)، خاقانی نظامی گنجوی، فرید الدین عطار، شیخ سعدی وغیرہم اور دورِ جدید میں علامہ اقبال معروف نعت گو شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ امام احمد رضا بریلوی (م1921ء) نے بھی فارسی میں نعتیں کہی ہیں (2) لیکن مولائے روم علیہ الرحمة کی مثنوی شریف اور علامہ جامی قدس سرہ کے کلام کو جو مقبول عام نصیب ہوا، وہ شاید دوسروں کو نہیں مل سکا۔ ہندوستان کے دیگر فارسی شعراء میں حضرت امیر خسرو، عرفی، شیرازی، مرزا بیدل، قدسی، غالب معروف ہیں۔
اردو نعت کا آغاز اردو زبان کی ابتداء کے ساتھ ہی ہوا۔ (سولہویں صدی عیسوی کا آخر اور سترہویں صدی کا آغاز) اردو زبان میں نعتیہ ادب کا پہلا نمونہ صوفیائے کرام کے قصائد، عارفانہ گیتوں اور جکریوں (ذکری اشعار) میں ملتا ہے جو انہوں نے تبلیغِ اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و خصائل کے بیان کے سلسلے میں لکھی گئی تصانیف میں شامل کیے ہیں (3) جس میں دکن کے مشہور و معروف ولی اللہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمة والرضوان سرفہرست ہیں۔ ان کا قصیدہٴ نعتیہ بہت مشہور ہوا جس کا مطلع ہے:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجلو جم جم جلوہ تیرا
ذات تجلی ہوگی سیں سپور نہ سیرا
بعض دیگر اشعار ملاحظہ ہوں:
واحد اپنی آپ تھا اپیں آپ نجہایا
پر کٹہ جلوے کار نے الف میم ہو آیا
عشقوں جلوہ دینے کو کاف نون بسایا
لولاک لما خلقت الافلاک خالق پالائے
فاضلافضل جتنے مرسل ساجد سجود آئے
امت رحمت بخشش ہدایت تشریف پائے
ان کے بعد فخر الدین نظامی، قطب علی شاہ اور ولی دکنی تک بہت سے صوفی شعراء کرام کے نام آتے ہیں۔
اسی طرح دوسرے دور میں شمالی ہند میں سودا، میر، مصحفی، مومن وغیرہ کے نام نعتیہ شاعری کے حوالہ سے بہت نمایاں ہیں۔ (4)
شمالی ہند میں اردو نعتیہ شاعری کے دوسرے دور کی ابتداء کرامت علی شہیدی، مولانا کفایت علی کافی، مولانا غلام امام شہید، مولانا لطف بریلوی اور مولانا تمنا مراد آبادی سے ہوتی ہے۔ بقول ڈاکٹر ریاض مجید، ان نعت گو شاعروں نے اردو نعت کو تقلیدی دور سے نکال کر تشکیلی دور میں داخل کیا۔ انہوں نے اپنے شغفِ نعت سے نہ صرف یہ کہ نعت گوئی کی ترویج و تشہیر میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں بلکہ نعت کے اعلیٰ نمونے بھی تخلیق کیے ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب غزل کے دیوان کی طرح پہلی بار ردیف وار نعتیہ دیوان مرتب کرنے کا آغاز ہوا۔ (5) شہید ِ آزادی حضرت مولانا کافی قدس سرہ کا جب ذکر آیا ہے تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمة والرضوان کے حوالے سے ایک واقعہ کا بیان اہلِ علم کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس کا اعتراف تمام ناقدینِ نعتیہ ادب نے کیا ہے کہ اعلیٰ حضرت نعت گوئی میں آدابِ شریعت کا خاص خیال رکھتے تھے اس لیے وہ صرف ان شعراء کے نعتیہ اشعار سننا پسند فرماتے تھے جنہیں وہ سمجھتے تھے کہ وہ نعت گوئی میں آدابِ شریعت اور مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں امام صاحب کے ملفوظات میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ کسی شاعر نے آپ کو نعت سنانی چاہی تو آپ نے جواب میں فرمایا:
”سوا دو کے کلام کے، میں قصداً کسی کا کلام نہیں سنتا۔ مولانا کافی اور حسن میاں مرحوم کا کلام اول سے آخر تک شریعت کے دائرے میں ہے۔۔۔ باقی اکثر دیکھا گیا ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ حقیقت میں نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں۔ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔“ (6)
امام احمد رضا محدثِ بریلوی قدس سرہ شہید ِ جنگ ِ آزادی مولانا کفایت علی کافی علیہ الرحمة کی نعتیہ شاعری کے کس قدر دلدادہ تھے، وہ ان کی ایک رباعی سے بھی ظاہر ہے جس میں انہوں نے علامہ کافی کو اقلیمِ نعت کا سلطان تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو
مہکا ہے میرے بوئے دہن سے عالم
یاں نغمہٴ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافی سلطانِ نعت گویاں ہے رضا
ان شاء اللہ میں وزیرِ اعظم (7)
بعض ناقدانِ فنِ نعت گوئی کے مطابق مولانا کفایت علی کافی کے دور کے بعد یہی روایت امیر مینائی اور محسن کاکوروی کے دور تک پہنچ کر تکمیلِ فن کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔
امیر مینائی (م1318ھ) نے نعت کے علاوہ غزل اور دوسری اصنافِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کا زیادہ تر کلام نعتیہ موضوعات پر ہے۔ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مروج اور معروف و مقبول موضوعات پر نعتیں لکھی ہیں۔ ان کی ایک ترجیح بند نعت جو تیرہ بندوں پر مشتمل ہے اور غزلِ مسلسل کے انداز میں لکھی ہوئی محامدخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر لکھی ہوئی ان کی نعتیں بہت مقبول ہوئیں اور مجالسِ میلاد شریف میں اکثر پڑھی جاتی رہی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
1۔ ترجیح بند:
کردو خبر یہ محفلِ میلادِ شاہ ہے
یاں آمدِ جنابِ رسالت پناہ ہے
اُمت چلے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہ جلوہ گاہ ہے
سیدھی یہی بہشت میں جانے کی راہ ہے
دربارِ عام گرم ہوا اشتہار دو
جن و بشر سلام کو آئیں، پکار دو (
2۔ محامد ِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم:
مژدہ اے امت کہ ختم المرسلیں پیدا ہوا
انتخابِ صنعِ عالم آفریں پیدا ہوا
نور جس کا قبلِ خلقت تھا، ہوا اس کا ظہور
رحمت آئی، رحمت اللعالمیں پیدا ہوا
………………
چاہئے تعظیم کو اٹھیں جو ہیں محفل نشیں
نائبِ خاصِ خدائے ماء و طیں پیدا ہوا (9)
ان کی غزلیہ نعتیں بھی بہت مشہور ہوئیں۔ عقیدت و محبت، عشق و سرمستی، جاں نثاری، شیفتگی و جاں سپردگی کا جذبہ ان کی نعتوں کی جان ہے۔ ایک مشہور نعتیہ غزل کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
جب مدینے کا مسافر کوئی پاجاتا ہوں
حسرت آتی ہے یہ پہنچا، میں رہا جاتا ہوں
دو قدم بھی نہیں چلنے کی ہی مجھ میں طاقت
شوق کھینچے لئے جاتا ہے، میں کیا جاتا ہوں
قافلے والے چلے جاتے ہیں آگے آگے
مدد اے شوق کہ میں پیچھے رہا جاتا ہوں (10)
سید محمد محسن کاکوروی (م1323ھ) کے ہاں دیکھا جائے تو اردو نعت گوئی کے گذشتہ ادوار کے مقابلے میں پہلی بار اردو نعت گوئی کا فن تکمیلی مراحل طے کرتا نظر آتا ہے۔ تقلیدی اور تشکیلی ادوار کی روش سے ہٹ کر محسن کا نعتیہ کلام پہلی بار اردو نعت گوئی کی تاریخ میں نعت کا ایک مثالی معیار پیش کرتا ہے۔ مزید برآں ایک جداگانہ صنفِ سخن کے طور پر فنِ نعت کو متعارف کرانے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا تعین بھی کرتا نظر آتا ہے۔ بیشتر ناقدینِ فن نے محسن کاکوروی کے نعتیہ کلام کا جائزہ لیتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان کی نعتوں میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔ یہ اس لیے کہ اگرچہ نعت گوئی ہمیشہ سے موجود تھی اور اردو زبان کے ابتدائی مراحل میں بھی اس کا رواج تھا لیکن اسے فن کی حیثیت سے کسی اردو شاعر نے محسن سے پہلے اختیار نہیں کیا اور نہ ہی ان سے قبل جن لوگوں نے محض عقیدت کی بناء پر نعت گوئی کو اپنا شعار بنایا، انہوں نے کوئی شاعرانہ کمال پیدا کیا۔ محسن کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ ان کا کلام جذبات کی غیرفانی بنیادوں یعنی عشقِ صادق، شیفتگی اور عقیدت، جو ان کی زندگی کے عناصر تھے، پر استوار ہے۔ (11)
غرض کہ محسن کاکوروی کا کلیات سراپا نعت ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری مختلف النوع اصنافِ سخن پر مشتمل ہے۔ ان کی مثنویوں میں ”صبحِ تجلی“ اور ”چراغِ کعبہ“ زیادہ معروف ہیں جبکہ قصائد میں ”مدیحِ خیر المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم“ جس کا دوسرا نام ”قصیدہٴ لامیہ“ بھی ہے۔
مثنوی صبحِ تجلی تقریباً پونے دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا ابتدائیہ ملاحظہ ہو، کیا خوبصورت منظر نگاری ہے:
بیضاوی صبح کا سماں ہے
تفسیرِ کتابِ آسماں ہے
ہے خاتمہ شبِ دل افروز
دیباچہ نگارِ نسخہٴ روز
آثارِ سحر ہوئے نمایاں
سیپارہ لیے ہوئے ہے دوراں
والیل کو ختم کرچکا ہے
آمادہٴ دورِ والضحیٰ ہے
عنوانِ فلک ہے درِّ منثور
لوحِ زرّیں سے ہے سورہٴ نور
اطرافِ بیاض مطلع صاف
والفجر کے حاشیہ پہ کشّاف (12)
بے ساختہ رعایاتِ لفظی، جاندار تشبیہات و استعارات کا استعمال ان کے کلام کی خوبی ہے۔ مثنوی چراغِ کعبہ کے آخر میں مناجات کے چند اشعار میں یہی رنگ و آہنگ ہے:
اے پرتوِ مہر لایزالی
بے مثل مثالِ بے مثالی
شمعِ حرم خدانمائی
قندیلِ حریمِ کبریائی
……***……
جس طرح ملا تو اپنے رب سے
انداز سے شوق سے ادب سے
یوں ہی تِرے عاصیانِ مہجور
اِک دن ہوں تری لقا سے مسرور
صدقے میں تِرے یہ آرزو ہے
دم میں رہِ آخرت کریں طے
ہو حشر کا دن خوشی کی تمہید
جس طرح سے صبحِ صادقِ عید
یاں شوق، خلوص و التجاء ہو
واں میں ہوں، آپ ہوں، خدا ہو (13)
محسن کاکوروی کے نعتیہ قصائد میں سرِ فہرست وہ لامیہ قصیدہ ہے جس کا عنوان مدیحِ خیر المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس کا مطلع ہے:
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگاجل (14)
محسن کا یہ قصیدہ بہت مشہور ہوا۔ اس کی شہرت کی بناء پر ان کے دوسرے نعتیہ قصیدے ”گلدستہٴ رحمت“، ”ابیاتِ نعت“، ”نظمِ دل افروز“ اور ”انیسِ آخرت“ اپنی فنّی خوبیوں کے باوصف مشہور نہ ہوسکے۔
لیکن بایں ہمہ رنگ و آہنگ اور منفرد فنّی خصوصیات اس قصیدہ کی بہاریہ تشبیب میں ہندوانہ رسم و رواج اور ہندوانہ مذہب و تہذیب سے خاص روایات، تقریبات و تلمیحات کی کثرت سے استعمال نے اس نعتیہ قصیدے کی فضاء کو ”مناسباتِ کفر“ کے رنگ میں رنگ دیا ہے جس کو بعض اہلِ علم اور ناقدانِ فن نے سخت گرفت کی ہے لیکن امیر مینائی اور بعض دیگر ناقدین شعر و ادب نے قصیدہ کی بہاریہ تشبیب کے آغاز میں ”مناسباتِ کفر“ (ہندوانہ رسم و رواج اور مذہب کی اصطلاحات) کے غیر مشروع استعمال کا دفاع کیا ہے اور سند میں مشہور عربی قصیدہ ”بانتِ سعاد“ کہ جس کی تشبیب بھی مشروع نہیں، کی مثال پیش کی ہے کہ اس قصیدہ کو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پڑھا گیا اور رسول مجتبیٰ و مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اس کی تحسین فرمائی۔ (15)
عصرِ جدید کی نعتیہ شاعری کی ابتداء جنگِ آزادی (1857ء) سے ہوتی ہے اور قیامِ پاکستان (1947ء) تک اردو شعر و ادب کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات اور لب و لہجہ میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ اسلوبِ بیان میں جدت طرازی کے ساتھ نعتیہ شاعری تشکیلی دور سے نکل کر ارتقاء پذیری کی طرف گامزن ہوئی۔ یہ دور ہندوستان میں قومی و ملّی تحریکوں کا زمانہ ہے۔ اس عرصہ میں جو دیکھا جائے تو تقریباً ایک صدی پر محیط ہے، مسلمانانِ ہند کے جذبہٴ جہادِ آزادی اور اس کے لیے چلنے والی قومی و ملّی تحریکوں نے بھی اردو نعت کے موضوعات اور اسالیب کو متاثر کیا۔ چنانچہ نعت کے موضوعات میں سید عالم آقا و مولیٰ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور مصائبِ آلام پر انفرادی عرضِ حال، استمداد اور استغاثہ کی بجائے قومی و ملی آشوب پر اجتماعی استغاثے کی صورتیں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ بقول ڈاکٹر ریاض مجید:
”عصر جدید کی نعت گوئی کا بڑا دھارا ملّی و قومی موضوعات لیے ہوئے ہے۔ اس میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کے بیان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ تذکارِ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نعت گو شاعروں نے اصلاحِ احوال کا کام لیا اور معجزات اور جمالِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور سیرت کو نعتوں کا موضوع بنایا گیا۔“ (16)
امام احمد رضا خاں رضا بریلوی (م1921ء) اسی دور کے مشاہیر نعت گو شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔
اس دور کے دیگر مشاہیر نعت گو شعراء حسبِ ذیل ہیں:
1۔ مولوی الطاف حسین حالی (م1914ء)
2۔ مولوی شبلی نعمانی (م 1914ء)
3۔ مولوی سید علی حیدر نظم طباطبائی (م1933ء)
4۔ مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی (م1908ء)
5۔ آسی سکندر پوری (م 1916ء)
6۔ درگاسہائے سرور (م1910ء)
7۔ دلّورام کوثری (م1931ء)
8۔ مولانا محمد علی جوہر (م1931ء)
9۔ مولانا حامد رضا خاں حامد بریلوی (م 1942ء)
10۔ راجہ کشن پرشاد شاد حیدرآبادی (م 1940ء)
11۔ مولانا حسرت موہانی (م 1951ء)
12۔ بیدم وارثی (م 1944ء)
13۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال (م 1938ء)
14۔ اکبر وارثی میرٹھی (م1954ء)
15۔ مولانا مصطفی رضا خاں نوری بریلوی (م1981ء)
16۔ مولوی ظفر علی خاں (م1956ء)
17۔ حفیظ جالندھری (پ 1317ھ) (17)
”محسن کے بعد امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمة (م1921ء) نے اردو کی نعتیہ شاعری میں چار چاند لگادیے۔ امام احمد رضا خاں محدثِ بریلوی 10/شوال المکرم 1272ھ/ 14/جون 1856ء کو ہندوستان کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور 25/صفر المظفر 1340ھ/ 28/اکتوبر 1921ء میں اسی شہر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ بلاشبہ وہ اپنے دور کے ایک جید عالمِ دین، متبحر حکیم، عبقری فقیہہ، صاحبِ نظر صوفی، بے نظیر مفسر قرآن، عظیم محدث، سحر بیان خطیب، صاحبِ طرز قلم نگار، شاعر، ادیب اور تصانیف کثیرہ کے مالک تھے۔
ان کے عہد تک اردو شاعری عاشقانِ مجازی کے پیچ و خم میں الجھی رہی اور محرماتِ شرعیہ کی ترغیب و تشویق اس کی انتہائی منزل تھی۔ امام احمد رضا کا یہ احسان ہے کہ شعر و شاعری کی اس مکدر فضاء کو خواجہ میردرد نے مصفی و مزکیٰ کیا اور عشق و محبت کے سچے جذبات سے اردو شاعری کو روشناس کیا اور بقول شاعر یہ پیش گوئی فرمائی
پھولے گا اس زبان میں گلزارِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا
اور مولانا احمد رضا اس گلزارِ معرفت میں نسیمِ سحر بن کر آئے۔ اگر وہ نہ آتے تو گلشن پر بہار نہ آتی۔“ (1
اردو کے معروف نقاد ڈاکٹر ریاض مجید، امام احمد رضا کی شخصیت اور نعتیہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
”(مولانا احمد رضا خاں بریلوی) برصغیر کے معروف عالمِ دین ہیں۔ محسن کاکوروی کے بعد اردو کے دوسرے بڑے نعت گو ہیں جنہوں نے اپنے شغفِ نعت اور اجتہادی صلاحیت سے اردو نعت کی ترویج و ارتقاء میں تاریخ ساز کام کیا۔ اردو نعت کی تاریخ میں اگر کسی فردِ واحد نے شعرائے نعت پر سب سے گہرے اثرات مرتسم کیے ہوں تو وہ بلاشبہ مولانا احمد رضا کی ذات ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود نعت میں وقیع شاعری کی بلکہ اپنے ہم مسلک شاعروں، خلفاء اور تلامذہ میں نعت گوئی کو ایک تحریک کی شکل دی۔ اردو نعت میں بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں شاعروں کے ذوقِ نعت کو جِلا مولانا ہی کی نعت گوئی سے ملا۔
”حدائقِ بخشش‘ مولانا احمد رضا خان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے سب سے پہلا تاثر جو قاری کے ذہن پر مرتسم ہوتا ہے، وہ مولانا کے تبحرِ علمی کا ہے۔ مولانا اردو نعت کی تاریخ میں واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے وسیع مطالعے کو پوری طرح اپنے فنِ نعت میں برتا۔ انہوں نے نعتیہ مضامین کے بیان میں قرآن و حدیث سے لے کر منطق و ریاضی، ہیئت و نجوم، ہندسہ و مابعد الطبیعیات وغیرہ علوم و فنون کی مختلف اصطلاحوں کو نہایت سلیقے سے برتا۔“ (19)
ڈاکٹر ریاض مجید ایک اور جگہ امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمة کی نعت گوئی اور فروغِ نعت میں ان کی خدمات اور مستقبل کے نعت گو شعراء پر ان کے اثرات کا ایک نہایت جامع جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”نعت کے باب میں اگر مولانا احمد رضا خاں کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اردو نعت کی ترویج و اشاعت میں ان کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ کسی ایک شاعر نے اردو نعت پر وہ اثرات نہیں ڈالے جو مولانا احمد رضا خاں کی نعت گوئی نے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ معیاری نعتیں تخلیق کیں بلکہ ان کے زیرِ اثر نعت کے ایک منفرد دبستان کی تشکیل ہوئی۔ ان کی نعت گوئی کی مقبولیت اور شہرت نے دوسرے شاعروں کو نعت گوئی کی ترغیب دی۔ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آج بھی ان کا کلام ایک موٴثر تحریکِ نعت کا درجہ رکھتا ہے۔“ (20)
حضرت رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری اور اس میں پنہاں ان کے فکری و علمی پیغامات اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مہمیز لگانے والی حرکی قوت کے مستقبل کی نعت کی تاریخ پر اثرات کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر منظر عالم جاوید صدیقی صاحب کا یہ تبصرہ بھی بڑا فکر انگیز ہے۔
”یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمة نے اردو نعت کی تاریخ میں عصرِ حاضر کے نعت گوؤں پر سب سے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ انہوں نے اپنے شغفِ نعت اور اجتہادی صلاحیت سے نعت کی ترویج و ارتقاء میں عہد ساز کام کیا۔ اپنے وسیع مطالعہ کو بھرپور انداز میں فنِ نعت میں سمویا۔ انہوں نے نعتیہ مضامین کے بیان میں قرآن و حدیث، منطق و ریاضی، ہیئت و نجوم، ہندسہ، مابعد الطبیعیات اور مختلف علمی و فنّی اصطلاحات و حوالہ جات کو نہایت نفاست اور تخلیقی انداز سے اپنی نعت گوئی کا جزو بنایا۔ انہوں نے نعتیہ مضامین کے اظہار میں مختلف علوم وفنون کے بیان سے نہ صرف اپنی نعت گوئی کو وقیع بنایا ہے بلکہ اردو نعت کے علمی و فکری دائرے کو بھی وسعت دی ہے۔“ (21)
ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی اپنے مقالہٴ ڈاکٹریٹ ”اردو نعت گوئی اور فاضلِ بریلوی“ میں امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری کے مضامین و موضوعات پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
”سید محمد محسن کاکوروی نے بلاشبہ نعت کو فن و ادب کے مقام پر پہنچاکر اسے ایک اعلیٰ شاعری کا درجہ دیا۔ یہ فن پہلی بار انہی کے ہاں تکمیل آشنا ہوتا ہوا نظر آیا۔ لیکن امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے نعت کو نئی سمتوں اور جہتوں سے آشنا کیا۔ اسے علمی اور شرعی وقار کا بھی حامل بنایا۔ مضامین و موضوعات کی وسعت، تکنیک سازی، ساختیاتی و لسانی تجربے کے اعتبار سے یہ محسن سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ محسن کی زبان بے شک دیرپا اور حسین ہے لیکن رضا کے یہاں ایسی بھی غزلیں ہیں جن پر جدید شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ رضا کا انداز نرالا ہے۔ لگتا ہے الفاظ نگینوں کی مانند انگشتریٴ شعر میں خیال و جذبہ کے ساتھ خودبخود فٹ ہوتے چلے گئے ہیں۔ ان کا کلام بالکل وہبی اور الہامی معلوم ہوتا ہے۔ معنی آفرینی سے پرسادگی کا نمونہ ہے۔
محسن کا کلام اس قدر اپیلنگ (appealing) اور اثر آفریں نہیں ہے جس قدر رضا کا کلام ہے۔ محسن کے یہاں خارجیت کا غلبہ ہے مگر رضا کے ہاں داخلیت کا۔“ (22)
علامہ سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی فرماتے ہیں:
”اعلیٰ حضرت نے شاعری کی سب سے مشکل صنف یعنی نعت کو مشقِ سخن کے لیے منتخب کیا۔ انگریزی ادب میں لارڈ ٹینی سن، فارسی میں سعدی و شیرازی اور اردو میں جوش کے ذخیرہٴ الفاظ کی بڑی دھوم ہے۔ ذرا حدائقِ بخشش کے اوراق الٹئے، زبان و بیان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جس رنگ و آہنگ کو پیش کیا ہے وہ دوسروں کے نصیب میں اس لیے نہیں کہ دوسرے یا تو معشوق کی زلفوں کے خم میں پھنسے رہ گئے یا غلو و مبالغہ کے دلدل میں۔ اعلیٰ حضرت نے جو کچھ لکھا قرآنِ مقدس اور حدیث حمید کی روشنی میں لکھا، خود فرماتے ہیں
ہوں اپنے کلام سے نہایت محظوظ
بے جا سے ہے المنة للہ محفوظ
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکامِ شریعت ملحوظ
امام احمد رضا کے تبحر علمی اور وسعتِ فکری کے سامنے شعر گوئی کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن آپ نے شاعری برائے شاعری نہیں کی بلکہ اسے اپنے اظہارِ مسلک کا ذریعہ بنایا اور اپنے کلامِ بلاغت نظام سے اردو شاعری کے دامن میں صالح شعر و ادب کے وہ موتی بکھیرے جس کی مثال پوری دنیائے شاعری میں بہت کم ملے گی، ان کی نعت کا یہ مقطع تعلّی نہیں بلکہ حقیقت کا بیان ہے
یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہدیٰ، مجھے شوخیٴ طبعِ رضا کی قسم“ (23)
خلاصہٴ کلام یہ کہ امام احمد رضا کے نعتیہ کلام نے اپنے اور بعد کے آنے والے دور میں جس میں عصرِ جدید بھی شامل ہے جسے 1947ء کے بعد کا دور کہا جاتا ہے، شعر و ادب کے سرمایہ، شریعت و طریقت کے معمولات اور مسلم تہذیب و تمدن پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ تحریکِ آزادیٴ ہند بالخصوص تحریک پاکستان جو عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوکر اور نظامِ اسلام کے نفاذ کے لیے چلائی گئی اس پر امام احمد رضا علیہ الرحمة کی فکر اور ان کے متوسلین علماء، ادباء، شعراء، دانشوارانِ ملت کی مساعی جلیلہ کی گہری چھاپ ہے۔ اس لیے ان کا منثور و منظوم کلام ہماری قومی، تہذیبی اور ادبی وراثت کا حصہ ہیں۔ بقول ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی:
”جذبہ و فن، مضامین و موضوعات کی وسعت اور مختلف ادبی و علمی اوصاف کے اعتبار سے اردو نعت گوئی کی تاریخ میں امام احمد رضا کا مقام سب سے زیادہ بلند و بالا ہے اور اگر کیفیت کے اعتبار سے ان کی نعت گوئی پر کوئی شاعری اترتی ہے تو (وہ) صرف سید محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری ہے۔ امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی نے اردو شاعری کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ تقدیس، جذبہ، اور طہارتِ لفظی کی راہ! نعت کی ترویج و اشاعت میں امام احمد رضا بریلوی کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ان کے زیرِ اثر نعت کے ایک منفرد دبستان کی تشکیل ہوئی ہے۔“ (24)
بقول ڈاکٹر انور سدید:
”حضرت رضا بریلوی نے نعت کے شجر سایہ دار کو پاکستان اور ہندوستان کی مٹی میں اگانے کی کوشش کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت ہندوستان و پاکستان کے لوگوں میں زیادہ مقبول اور ان کے دلوں سے زیادہ قریب ہے۔ اس نعت نے گم کردہ راہ مسافروں کو وحدت اور نبوت میں یقین پختہ کرنے میں بڑی معاونت کی ہے۔“
(خیابانِ رضا، ص:45)
عصرِ جدید کے دور کے آخر میں کچھ شاعر ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد کی ادبی و شعری فضا بالخصوص نعت کو بہت متاثر کیا۔ ان میں درج ذیل نعت گو شعراء قابلِ ذکر حیثیت رکھتے ہیں: سہیل اعظم گڑھی، امجد حیدر آبادی، عزیز لکھنوی، حمید صدیقی، ماہر القادری، مولانا ضیاء القادری، حافظ مظہر الدین، حافظ لدھیانوی، راسخ عرفانی، اعظم چشتی، عاصی کرنالی، عزیز حاصل پوری، قمر یزدانی، بہزاد لکھنوی، شمسمینائی، درد کاکوروی، شمس بریلوی، افق کاظمی امروہوی، اثر صہبائی، اسد ملتانی، اختر الحامدی، انور صابری، کوثر جائسی، کوثر امجدی، ادیب رائے پوری، قتیل دانا پوری، حق بنارسی، شمیم جے پوری، عثمان عارف، طیش صدیقی، عمر انصاری، حیات وارثی، قیصر وارثی لکھنوی، والی آسی، تسنیم فاروقی، اسلم بستوی، نسیم بستوی، قمر سلیمانی، راز الٰہ آبادی، بیکل اُتساہی، کوثر نیازی، عبد العزیز خالد، خالد نقشبندی، فنا نظامی کانپوری، شفیق جونپوری، سرور انبالوی، مولانا ریحان رضا خاں ریحان بریلوی، مولانا اختر رضا خاں اختر بریلوی، معراج فیض آبادی، صابر براری، حفیظ جالندھری، حفیظ تائب، انور جلال پوری، وسیم بریلوی، اقبال عظیم، مظفر وارثی، طارق سلطانپوری، ابو الحسن واحد رضوی، راجہ رشید محمود، احسان دانش، محشر رسول نگری، راغب مراد آبادی، محمد علی ظہوری، تابش قصوری، عارف محمود، مہجور رضوی، خواجہ غلام فخر الدین سیالوی، رحمان کیانی، ارم حسانی، نصیر الدین نصیر گولڑوی، نظمی مارہروی، درد اسعدی، اعجاز رحمانی، سرور اکبر آبادی، منیر الحق کعبی بہل پوری وغیرہم۔
پاکستان میں فروغِ نعت کے حوالے سے سن 60ء اور سن 70ء کی دہائی بہت اہم ہے۔ اس دور میں بڑے سیاسی انقلابات آئے اور معاشرتی تبدیلیاں ہوئیں۔ قادیانیت کے خلاف (خلیفہٴ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں) علامہ ابو الحسنات قادری علیہما الرحمة کی قیادت میں تحفظِ ناموس و عقیدہٴ ختم رسالت کی تحریکیں چلیں۔ ہندوستان سے دو جنگیں لڑی گئیں، پھر علامہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمة کی سربراہی میں تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفی چلی، ملی نغمے لکھے گئے، معروف شعراء کرام نے نعتیہ قصائد، غزلیں اور بزرگانِ کرام بالخصوص سیدنا علی بن عثمان ہجویری معروف بہ داتا صاحب علیہ الرحمة، اعلیٰ حضرت عظیم البرکت اور دیگر بزرگانِ کرام کی شان میں منقبتیں لکھیں اور عام جلسوں میں پڑھی جانے لگیں۔ غرض کہ جذبہٴ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ضمن میں حبِ وطن کے جذبے کو ہر طرح سے ابھارا گیا۔ اسی دوران برصغیر پاک و ہند کے اہلِ سنت سے تعلق رکھنے والے اہلِ درد علماء، اسکالر، دانشوروں اور اہلِ علم و قلم نے امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمة کے غیر مطبوعہ فتاویٰ اور نایاب و مخطوط تصانیف کی اشاعت کی مہم چلائی۔ اس کے سربراہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة کے صاحبزادہٴ اصغر مفتی اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی مصطفی رضا خاں تھے اور ان کے تلامذہ و تلامذہٴ تلامذہ، اساتذہ و اراکین مصباح العلوم جامعہ اشرفیہ مبارکپور (اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا) نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ادھر پاکستان میں حضرت حکیم موسیٰ امرتسری مرحوم نے مولانا عارف ضیائی صاحب، مفتی عبد القیوم ہزاروی علیہ الرحمة، علامہ عبد الحکیم شرف قادری، مولانا عبد النبی کوکب علیہما الرحمة اور دیگر مخلصین احباب کے ساتھ مل کر مرکزی مجلسِ رضا (موٴسسہ 1968ء) کی بنیاد ڈالی اور امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمة کی شخصیت اور علمی کارناموں کو اجاگر کرنے کے لیے علماء کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ طبقوں کے نمائندہ اسکالرز سے مقالات لکھوائے گئے اور 25/صفر امام احمد رضا کے یومِ وصال کو یومِ رضا کے طور پر منانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ اس موقع پر ہر سال سیمینار کا اہتمام ہوتا جن میں جامعات اور کالجوں کے اساتذہ، علماء اور دانشور حضرات مقالات پڑھتے اور پھر یہ مقالات کتابی صورت میں شائع ہوتے۔ حکیم موسیٰ مرحوم اور علامہ اختر شاہجہاں پوری علیہما الرحمة کی ترغیب و تشویق پر پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب مظہری نقشبندی صاحب امام احمد رضا کی طرف متوجہ ہوئے۔ پھر اَسّی اور نوے کی دہائی تک امام احمد رضا کے حوالے سے پروفیسر صاحب کے لکھے ہوئے تحقیقی مقالات مثلاً فاضلِ بریلوی اور ترکِ موالات، حیاتِ مولانا احمد رضا خاں بریلوی، فاضلِ بریلوی علماء حجاز کی نظر میں، گناہِ بے گناہی، عبقریٴ شرق، وغیرہم نے جدید علمی، تحقیقی و ادبی حلقوں کو حیرت زدہ کردیا۔ اہلِ علم و قلم امام احمد رضا کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ اسی دوران کراچی میں 1980ء کے اواخر میں حضرت مولانا سید ریاست علی قادری علیہ الرحمة کی سربراہی اور قبلہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود صاحب اور علامہ شمس بریلوی مرحوم اور علامہ مفتی تقدس علی خاں علیہ الرحمة کی سرپرستی میں ادارہٴ تحقیقاتِ امام احمد رضا کا قیام عمل میں آیا جس کا راقم بھی ایک بنیادی رکن ہے۔ پھر تو گویا دبستاں کھل گیا۔ امام احمد رضا پر تحقیقات کے دروازے واہوگئے۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر ایم۔فِل اور پی۔ایچ۔ڈی کے مقالات لکھے جانے لگے۔ بحمداللہ اب تک 25 ملکی اور غیر ملکی اسکالرز پی۔ایچ۔ڈی کی اسناد حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر مسعود صاحب اور ادارہٴ ہٰذا کی کاوشوں کی بدولت پشاور سے چٹاگانگ اور وہاں سے لے کر جامعہ ازھر کے ایوانِ علم ”مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام“ کی گونج سے گونجنے لگے۔ اب حال یہ ہے ”گونج گونج اٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں“۔ اس پسِ منظر میں ”دبستانِ رضا“ سے حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبوئیں چہار طرف پھیلنے لگیں، کلامِ رضا سے اٹھنے والی حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو کے بھبھوکوں نے ”بلبلانِ باغِ مدینہ“ کو مست کردیا۔
افسوس کہ دنیائے اہلِ سنت کا یہ عظیم محقق، رضویات کا ماہر 28/اپریل 2008ء کو کراچی میں انتقال فرماگیا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمتہ واسعہ (وجاہت)
رضا بریلوی کے قصیدہٴ نوریہ جس کا ایک مصرعہ ”مست بوہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا“ محافلِ نعت و میلاد میں جھوم جھوم کر پڑھا جانے لگا۔ فروغِ نعت کو مہمیز ملی، شعراء کرام طرز و اندازِ رضا میں نعتیں کہنے اور پڑھنے لگے۔ ایک زمانہ تھا کہ حضرت رضا بریلوی نے آج سے تقریباً سوا سو سال قبل سلطانِ نعت گویاں شہید جنگِ آزادی 1857ء علامہ مولانا مفتی کفایت علی کافی علیہ الرحمة کے ”سوزِ دروں“ کے حصول کے لیے یوں اظہارِ تمنا کیا تھا
پرواز میں جب مدحتِ شہ میں آؤں
تا عرش پروازِ فکرِ رسا میں جاؤں
مضمون کی بندش تو میسر ہے رضا
کافی کا دردِ دل کہاں سے لاؤں؟
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبہٴ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ان کو خوب نوازا، ان کے قلب مجلّٰی و مصفّٰی پر علم و عرفان اور معرفت و حکمت کی وہ موسلادھار بارش ہوئی کہ ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہر سطر اور زبان سے نکلا ہوا ہر شعر خلقِ خدا کی زبان بن گیا، اہلِ علم و معرفت نے انہیں ”صاحبِ امروز“، ”اعلیٰ حضرت“ ، ”امام وقت“، ”مجددِ عصر“ کہا اور ان کا کلام ”کلام الامام امام الکلام“ کی سند حاصل کرگیا۔ ”دبستانِ رضا“ کے غنچے چٹکنے لگے، بلبلیں چہکنے لگیں، خالد نقشبندی نے دعا کی
دردِ جامی ملے نعت خالد لکھوں
اور اندازِ احمد رضا چاہئے
تابش قصوری یوں مدحت سرا ہوئے
یا الٰہی حشر تک سنتا رہوں
نعتِ حضرت( صلی اللہ علیہ وسلم)، مدحتِ احمد رضا
عزیز حاصل پوری نئے انداز سے نغمہ سرا ہوئے
ہر طرف نہریں ہیں جاری آپ کے فیضان کی
قلزمِ عرفان و حکمت حضرتِ احمد رضا
آپ ٹھہرے اِک امام نعت گویانِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم)
میرِ بزمِ فنِّ مدحت حضرتِ احمد رضا
”دبستانِ رضا“ کے ایک گوشے سے محمد علی ظہوری کی یہ فردوس گوش آوز کانوں میں رس گھولنے لگی
مجھے بھی اقتداء حاصل ہے ان کی نعت گوئی میں
ظہوری درحقیقت وہ امامِ نعت گویاں ہیں
خم خانہٴ رضا کے کیف و کم چشیدہ ارم حسانی مست و بے خود ہوکر یوں لب کشا ہوئے
بقا ہے اس کی نعتوں کو ابھی ہے دم قدم اس کا
خُمِ نعتِ نبی سے ہے عبارت کیف و کم اس کا