الف نظامی
لائبریرین
طارق محمودملک کے ساتھ میری پہلی ملاقات 1999میں ہوئی تھی‘ ہم نے بارانی یونیورسٹی میں پریکٹیکل جرنلزم کا چھوٹا سا ڈیپارٹمنٹ بنایا تھا‘ یہ دو سال کا پراجیکٹ تھا اور ہم اس پراجیکٹ میں نوجوانوں کو الیکٹرانک میڈیا کی ٹریننگ دیتے تھے۔
طارق محمود دوسرے بیچ میں طالب علم بن کر آیا تھا‘ اس کی کہانی دل چسپ تھی‘ یہ تلہ گنگ میں اسکول ٹیچر تھا اور ٹیچنگ سے پہلے یہ ڈرافٹس مین تھا‘ یہ نقشے بناتا تھا اور اس سے اپنا دال دلیہ چلاتا تھا لیکن یہ شروع ہی میں جان گیا تھا تلہ گنگ‘ نقشے اور اسکول ٹیچنگ اس کی منزل نہیں‘ اس نے ان سب سے آگے نکلنا ہے چنانچہ اسلام آباد آیا اور ہمارا کورس جوائن کر لیا‘ اس کی پرسنیلٹی ابا جی ٹائپ تھی‘ آپ نے اگر چھوٹے شہروں کے والد دیکھے ہوں تو آپ کو ان کی شخصیت‘ چہرے کی سنجیدگی اور آواز کا اتار چڑھائو بھی یاد ہو گا۔
یہ دیسی والد جب بھی گلی یا گھر میں قدم رکھتے ہیں تو کسی کونے سے آواز آتی ہے ’’اوئے ابا جی آ گئے‘‘ اور پھرگلی یا گھر میں دوڑ لگ جاتی ہے‘ طارق محمود بھی اباجی ٹائپ تھا چنانچہ ڈیپارٹمنٹ نے اس کا نام ابا جی رکھ دیا تھا‘ وہ اس وقت ویسے بھی عملاً ابا جی تھا بھی‘ شادی شدہ تھا اور باقاعدہ بال بچے دار تھا‘ چار دن پڑھتا تھا اور تین دن تلہ گنگ جا کر نقشے بناتا تھا‘ سلجھا ہوا تھا اور ذرا سا سلو موشن بھی تھا‘ اس سے کچھ بھی پوچھا جاتا تھا تو وہ سوچ کر‘ ٹھہر ٹھہر کر جواب دیتا تھا‘ وہ آخری سمسٹر میں تھا۔
ایک دن میرے پاس آیا اور آہستہ آواز میں بولا ’’سر کیا مجھے میڈیا میں کوئی جاب مل سکتی ہے‘‘ میرے پاس اس وقت ایک مذہبی اخبار کا ایڈیٹر بیٹھا تھا‘ میں نے اس سے ریکویسٹ کی
’’مولانا یہ بڑا زبردست نوجوان ہے‘ ہلکی سی داڑھی بھی ہے بس یہ ابھی آپ کے فرقے میں داخل نہیں ہوا‘ آپ اگر اسے جاب دے دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں یہ آج شام سے آپ کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر دے گا‘‘
مولانا کے منہ سے قہقہہ نکل گیا اور طارق محمود صحافت میں داخل ہو گیا‘ یہ سال بھر اس اخبار میں رپورٹنگ کرتا رہا‘ مطمئن تھا۔
خوش بھی تھا لیکن پھر اس کا چیف رپورٹر بدل گیا اور اس نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا‘ یہ دوسری مرتبہ میرے پاس آیا اور اس کی خوش قسمتی سے اس دن ایک چیف ایڈیٹر میرے پاس تشریف لائے ہوئے تھے‘ میں نے انھیں طارق محمود دکھایا اور عرض کیا
’’یہ مولوی اندر سے بالکل مولوی نہیں ہے‘ یہ مکمل لبرل ہے‘ آپ اگر اسے جاب دے دیں تو یہ حیران کر دے گا‘‘
وہ چیف ایڈیٹر بھی ہنس پڑے اور یوں یہ ’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ میں آ گیا اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ یہ اخبارات سے ٹیلی ویژن چینلز میں آگیا اور پھر ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے ادارے میں چھلانگیں لگاتا رہا۔
میں داستان آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے 2001میں اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنانا شروع کیا تھا‘ میں خود کو آرکی ٹیکٹ اور سول انجینئر بھی سمجھتا تھا لہٰذا میں اس میں بری طرح پھنس گیا اگر طارق محمود مجھے اس میں ریسکیو نہ کرتا تو میں پاگل ہو چکا ہوتا‘یہ دوڑ کر تلہ گنگ سے مستری لے آیا اور ان دونوں نے بڑی مشکل سے مجھے اس صورتحال سے نکالا‘ مستری نذیر بھی اس کی طرح ایک دلچسپ کردار تھا‘ مستری نذیر آنیوالے دنوں میں ٹھیکے دار نذیر بن گیا اور یہ بھی طارق محمود کی طرح میری زندگی کا حصہ ہو گیا۔
یہ بھی گاہے بگاہے مجھے ملتا رہا‘ طارق محمود زندگی میں جب بھی کہیں پھنس جاتا تھا تو یہ میرے پاس آتا تھا اور مسکرا کر کہتا تھا ’’سر پھر سٹک (Stuck) ہو گیا ہوں‘‘ اور ہم ایک لمبی واک کرتے اور ہمیں اس مشکل کا کوئی نہ کوئی حل مل جاتا تھا‘ یہ دو ماہ قبل آخری مرتبہ مجھے ملنے آیا‘ یہ ہم ٹی وی میں جاب کر رہا تھا‘ تنخواہ وقت پر مل رہی تھی اور یہ اس بات پر خوش تھا‘ سمجھ دار تھا چنانچہ گھر سے واک کے جوتے پہن کر آیا تھا‘ ہم نے واک شروع کر دی‘ یہ راستے میں مجھ سے پوچھنے لگا‘ میں آپ کو 21 برسوں سے جانتا ہوں‘ میں حیران ہوں آپ کسی پریس کانفرنس میں جاتے ہیں اور نہ ہی میں نے آپ کو آج تک کسی کے پاس بیٹھے دیکھا‘ آپ لوگوں سے کیوں دور رہتے ہیں‘‘۔
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’اللہ تعالیٰ نے برسوں پہلے مجھ پر رحم کر دیا تھا‘ اس نے مجھے سمجھا دیا تھا، یہ زندگی میری ہے اور اسے مجھے گزارنا چاہیے‘ میں کوشش کرتا ہوں میں اپنی زندگی کو خود گزاروں‘ دوسروں کو نہ گزارنے دوں چنانچہ میں اپنا سارا وقت اپنی فیملی‘ کتابوں‘ فلموں‘ سفر‘ ایکسرسائز اور اپنے ٹریننگ کلائنٹس کو دیتا ہوں اور خوش رہتا ہوں‘ اپنے لیے کماتا ہوں اور جو کماتا ہوں وہ خرچ کر دیتا ہوں اور بات ختم‘‘ وہ ہلکا سا مسکرایا اور بولا ’’سر اﷲ تعالیٰ نے آپ پر خصوصی کرم کیا‘ اس نے آپ کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا موقع دے دیا۔
آپ کو اگر ہماری طرح کسی دفتر جانا پڑتا تو میں پھر آپ سے پوچھتا آزادی کیا ہوتی ہے اور اس کا بھائو کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے اس سے اتفاق کیا‘ وہ بولا ’’سر آپ یقین کریں، دنیا میں فنانشل انڈی پینڈنس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہوتی اور میں تیس سال سے یہ تلاش کر رہا ہوں‘‘ وہ رکا‘ ہنسا اور آہستہ آواز میں بولا ’’اور سر ننانوے فیصد صحافی میری جیسی آزمائش سے گزر رہے ہیں‘ آپ جیسے صرف ون پرسنٹ ہیں اور آپ لوگ اﷲکا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہو گا‘ آپ ہر وقت شکر ادا کرتے رہا کریں اور زندگی میں کبھی یہ نہ کہیں میں یہ کرتا ہوں یا میں نے یہ کیا۔
آپ لوگوں پر بس اﷲ کا کرم ہے ورنہ صحافت میں ہزاروں لوگ آپ سے زیادہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے ہیں‘ اﷲ اگر انھیں موقع دے دیتا تو یہ آپ سے سیکڑوں میل آگے ہوتے‘‘ میں اعتراف کرتا ہوں، مجھے آج اس کی بات میں وزن محسوس ہوتا ہے لیکن اس رات میں صرف اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا اور وہ مجھے بارانی یونیورسٹی کا اباجی محسوس ہو رہا تھا‘ خواہ مخواہ کا مشیر‘ خواہ مخواہ کا چلتا پھرتا ناصح‘ وہ راستے سے لوٹ گیا جب کہ میں چلتے چلتے گھر پہنچ گیا‘ میں آنیوالے چند دنوں میں طارق محمود اور اس کے ساتھ آخری واک بھول گیا‘ میں نے جمعرات کی دوپہر فون کھولا تو نذیر ٹھیکے دار کا چھوٹا سا میسج آیا ہوا تھا‘یہ کسی کے جنازے کا کلپ تھا‘ میں نے نذیر کو میسج کیا ’’یہ کس کا جنازہ ہے‘‘۔
اس کا حیرت میں ڈوبا ہوا جواب آیا ’’کیا آپ نہیں جانتے طارق محمود کا انتقال ہو گیا ‘‘ میں سناٹے میں آ گیا‘ اس کی موت میرے لیے غیر متوقع تھی‘ آپ کی زندگی میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہوں گے جن کے بارے میں آپ کے لیے یہ سوچنا بھی مشکل ہو گا ’’یہ بھی مر سکتے ہیں‘‘ اور طارق محمود ان لوگوں میں شامل تھا‘ وہ محتاط تھا‘ سمجھ دار تھا اور جوان بھی تھا اور ایسے شخص کی اچانک موت خوف ناک ہوتی ہے‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں سارا دن ہاتھ ملتا رہا‘ یہ ارشد وحید چوہدری کے بعد میڈیا کی نئی لاٹ کی دوسری موت تھی جس نے اسلام آباد کی صحافتی برادری کو دکھی کر دیا۔
ہم زندگی کی دوڑ میں مبتلا لوگ ہیں اور یہ دوڑ کورونا سے زیادہ خوف ناک بیماری ہے‘ یہ آپ کو رکنے‘ سوچنے اور سوچ کر زندگی کو ری آرگنائز کرنے کی مہلت نہیں دیتی‘ ہمارے دائیں بائیں موجود لوگ مرتے رہتے ہیں‘ ہم ان کے جنازے بھی پڑھتے ہیں اور ہم انھیں دفن بھی کرتے ہیں لیکن تدفین‘ افسوس اور جنازوں کے باوجود ہمارے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال دستک نہیں دیتا، آج ہم بھی ان کی جگہ ہو سکتے تھے یا ہم نے بھی کسی دن اس جگہ پہنچنا ہے‘ ہم انسان یہ سوچتے ہی نہیں ہیں چنانچہ ہم قبرستانوں میں کھڑے ہو کر بھی کفن بیچ لیتے ہیں اور ہم قبر کی مٹی‘ ہڈیوں اور تابوتوں کا سودا بھی کرتے رہتے ہیں‘ کورونا اس بار سیکڑوں شان دار لوگوں کو ہم سے چھین کر لے گیا۔
عبدالقادر حسن جیسا سونا بھی مٹی میں مل گیا‘ یہ بھی کیا شان دار انسان تھے‘ خاندانی‘ وضع دار اور وسیع القلب‘ میں جب بھی ترکی اور ازبکستان کے بارے میں لکھتا تھا تو ان کا فون ضرور آتا تھا‘ ازبکستان اور ترکی ان کے لہو میں گردش کرتا تھا‘ یہ مولانا روم کے عاشق بھی تھے لیکن یہ عاشق بھی دنیا سے رخصت ہو گیا اور طارق محمود ملک بھی چپکے سے روانہ ہو گیا‘ بالکل اسی طرح چپکے سے جس طرح یہ میری زندگی میں آیا تھا‘ خاموش‘ دھیما اور متفکر‘ مجھے آج بھی یاد ہے اس نے 2010 میں مجھ سے پوچھا تھا
’’سر یہ بتائیں جو مالکان اپنے ورکرز کو تنخواہیں نہیں دیتے کیا انھیں رات کو نیند آ جاتی ہے‘‘۔
میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا تھا
’’یہ ظالم لوگ ہیں اور ظالموں کو رات کیا دن میں بھی نیند آ جاتی ہے‘‘
اور اس نے مسکرا کر زور سے کہا تھا ’’اچھا جی‘‘
اس کے اچھا جی میں بہت کچھ تھا بلکہ ٹھہریے سب کچھ تھا‘ وہ چلا گیا لیکن اس کا اچھا جی آج بھی میرے کانوں میں زندہ ہے اور اچھا جی بازگشت بن کر میڈیا انڈسٹری سے پوچھ رہا ہے، آپ لوگ ورکروں کو تنخواہیں کیوں نہیں دیتے؟ آپ اگر جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تو آپ سنگ دل ہیں اور اگر آپ میں تنخواہوں کی استطاعت نہیں تو پھر آپ اخبارات اور چینلز کھول کر طارق محمود ملک جیسے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں‘ پھر آپ سے بڑا ظالم کوئی نہیں!۔
طارق محمود دوسرے بیچ میں طالب علم بن کر آیا تھا‘ اس کی کہانی دل چسپ تھی‘ یہ تلہ گنگ میں اسکول ٹیچر تھا اور ٹیچنگ سے پہلے یہ ڈرافٹس مین تھا‘ یہ نقشے بناتا تھا اور اس سے اپنا دال دلیہ چلاتا تھا لیکن یہ شروع ہی میں جان گیا تھا تلہ گنگ‘ نقشے اور اسکول ٹیچنگ اس کی منزل نہیں‘ اس نے ان سب سے آگے نکلنا ہے چنانچہ اسلام آباد آیا اور ہمارا کورس جوائن کر لیا‘ اس کی پرسنیلٹی ابا جی ٹائپ تھی‘ آپ نے اگر چھوٹے شہروں کے والد دیکھے ہوں تو آپ کو ان کی شخصیت‘ چہرے کی سنجیدگی اور آواز کا اتار چڑھائو بھی یاد ہو گا۔
یہ دیسی والد جب بھی گلی یا گھر میں قدم رکھتے ہیں تو کسی کونے سے آواز آتی ہے ’’اوئے ابا جی آ گئے‘‘ اور پھرگلی یا گھر میں دوڑ لگ جاتی ہے‘ طارق محمود بھی اباجی ٹائپ تھا چنانچہ ڈیپارٹمنٹ نے اس کا نام ابا جی رکھ دیا تھا‘ وہ اس وقت ویسے بھی عملاً ابا جی تھا بھی‘ شادی شدہ تھا اور باقاعدہ بال بچے دار تھا‘ چار دن پڑھتا تھا اور تین دن تلہ گنگ جا کر نقشے بناتا تھا‘ سلجھا ہوا تھا اور ذرا سا سلو موشن بھی تھا‘ اس سے کچھ بھی پوچھا جاتا تھا تو وہ سوچ کر‘ ٹھہر ٹھہر کر جواب دیتا تھا‘ وہ آخری سمسٹر میں تھا۔
ایک دن میرے پاس آیا اور آہستہ آواز میں بولا ’’سر کیا مجھے میڈیا میں کوئی جاب مل سکتی ہے‘‘ میرے پاس اس وقت ایک مذہبی اخبار کا ایڈیٹر بیٹھا تھا‘ میں نے اس سے ریکویسٹ کی
’’مولانا یہ بڑا زبردست نوجوان ہے‘ ہلکی سی داڑھی بھی ہے بس یہ ابھی آپ کے فرقے میں داخل نہیں ہوا‘ آپ اگر اسے جاب دے دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں یہ آج شام سے آپ کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر دے گا‘‘
مولانا کے منہ سے قہقہہ نکل گیا اور طارق محمود صحافت میں داخل ہو گیا‘ یہ سال بھر اس اخبار میں رپورٹنگ کرتا رہا‘ مطمئن تھا۔
خوش بھی تھا لیکن پھر اس کا چیف رپورٹر بدل گیا اور اس نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا‘ یہ دوسری مرتبہ میرے پاس آیا اور اس کی خوش قسمتی سے اس دن ایک چیف ایڈیٹر میرے پاس تشریف لائے ہوئے تھے‘ میں نے انھیں طارق محمود دکھایا اور عرض کیا
’’یہ مولوی اندر سے بالکل مولوی نہیں ہے‘ یہ مکمل لبرل ہے‘ آپ اگر اسے جاب دے دیں تو یہ حیران کر دے گا‘‘
وہ چیف ایڈیٹر بھی ہنس پڑے اور یوں یہ ’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ میں آ گیا اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ یہ اخبارات سے ٹیلی ویژن چینلز میں آگیا اور پھر ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے ادارے میں چھلانگیں لگاتا رہا۔
میں داستان آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے 2001میں اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنانا شروع کیا تھا‘ میں خود کو آرکی ٹیکٹ اور سول انجینئر بھی سمجھتا تھا لہٰذا میں اس میں بری طرح پھنس گیا اگر طارق محمود مجھے اس میں ریسکیو نہ کرتا تو میں پاگل ہو چکا ہوتا‘یہ دوڑ کر تلہ گنگ سے مستری لے آیا اور ان دونوں نے بڑی مشکل سے مجھے اس صورتحال سے نکالا‘ مستری نذیر بھی اس کی طرح ایک دلچسپ کردار تھا‘ مستری نذیر آنیوالے دنوں میں ٹھیکے دار نذیر بن گیا اور یہ بھی طارق محمود کی طرح میری زندگی کا حصہ ہو گیا۔
یہ بھی گاہے بگاہے مجھے ملتا رہا‘ طارق محمود زندگی میں جب بھی کہیں پھنس جاتا تھا تو یہ میرے پاس آتا تھا اور مسکرا کر کہتا تھا ’’سر پھر سٹک (Stuck) ہو گیا ہوں‘‘ اور ہم ایک لمبی واک کرتے اور ہمیں اس مشکل کا کوئی نہ کوئی حل مل جاتا تھا‘ یہ دو ماہ قبل آخری مرتبہ مجھے ملنے آیا‘ یہ ہم ٹی وی میں جاب کر رہا تھا‘ تنخواہ وقت پر مل رہی تھی اور یہ اس بات پر خوش تھا‘ سمجھ دار تھا چنانچہ گھر سے واک کے جوتے پہن کر آیا تھا‘ ہم نے واک شروع کر دی‘ یہ راستے میں مجھ سے پوچھنے لگا‘ میں آپ کو 21 برسوں سے جانتا ہوں‘ میں حیران ہوں آپ کسی پریس کانفرنس میں جاتے ہیں اور نہ ہی میں نے آپ کو آج تک کسی کے پاس بیٹھے دیکھا‘ آپ لوگوں سے کیوں دور رہتے ہیں‘‘۔
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’اللہ تعالیٰ نے برسوں پہلے مجھ پر رحم کر دیا تھا‘ اس نے مجھے سمجھا دیا تھا، یہ زندگی میری ہے اور اسے مجھے گزارنا چاہیے‘ میں کوشش کرتا ہوں میں اپنی زندگی کو خود گزاروں‘ دوسروں کو نہ گزارنے دوں چنانچہ میں اپنا سارا وقت اپنی فیملی‘ کتابوں‘ فلموں‘ سفر‘ ایکسرسائز اور اپنے ٹریننگ کلائنٹس کو دیتا ہوں اور خوش رہتا ہوں‘ اپنے لیے کماتا ہوں اور جو کماتا ہوں وہ خرچ کر دیتا ہوں اور بات ختم‘‘ وہ ہلکا سا مسکرایا اور بولا ’’سر اﷲ تعالیٰ نے آپ پر خصوصی کرم کیا‘ اس نے آپ کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا موقع دے دیا۔
آپ کو اگر ہماری طرح کسی دفتر جانا پڑتا تو میں پھر آپ سے پوچھتا آزادی کیا ہوتی ہے اور اس کا بھائو کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے اس سے اتفاق کیا‘ وہ بولا ’’سر آپ یقین کریں، دنیا میں فنانشل انڈی پینڈنس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہوتی اور میں تیس سال سے یہ تلاش کر رہا ہوں‘‘ وہ رکا‘ ہنسا اور آہستہ آواز میں بولا ’’اور سر ننانوے فیصد صحافی میری جیسی آزمائش سے گزر رہے ہیں‘ آپ جیسے صرف ون پرسنٹ ہیں اور آپ لوگ اﷲکا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہو گا‘ آپ ہر وقت شکر ادا کرتے رہا کریں اور زندگی میں کبھی یہ نہ کہیں میں یہ کرتا ہوں یا میں نے یہ کیا۔
آپ لوگوں پر بس اﷲ کا کرم ہے ورنہ صحافت میں ہزاروں لوگ آپ سے زیادہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے ہیں‘ اﷲ اگر انھیں موقع دے دیتا تو یہ آپ سے سیکڑوں میل آگے ہوتے‘‘ میں اعتراف کرتا ہوں، مجھے آج اس کی بات میں وزن محسوس ہوتا ہے لیکن اس رات میں صرف اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا اور وہ مجھے بارانی یونیورسٹی کا اباجی محسوس ہو رہا تھا‘ خواہ مخواہ کا مشیر‘ خواہ مخواہ کا چلتا پھرتا ناصح‘ وہ راستے سے لوٹ گیا جب کہ میں چلتے چلتے گھر پہنچ گیا‘ میں آنیوالے چند دنوں میں طارق محمود اور اس کے ساتھ آخری واک بھول گیا‘ میں نے جمعرات کی دوپہر فون کھولا تو نذیر ٹھیکے دار کا چھوٹا سا میسج آیا ہوا تھا‘یہ کسی کے جنازے کا کلپ تھا‘ میں نے نذیر کو میسج کیا ’’یہ کس کا جنازہ ہے‘‘۔
اس کا حیرت میں ڈوبا ہوا جواب آیا ’’کیا آپ نہیں جانتے طارق محمود کا انتقال ہو گیا ‘‘ میں سناٹے میں آ گیا‘ اس کی موت میرے لیے غیر متوقع تھی‘ آپ کی زندگی میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہوں گے جن کے بارے میں آپ کے لیے یہ سوچنا بھی مشکل ہو گا ’’یہ بھی مر سکتے ہیں‘‘ اور طارق محمود ان لوگوں میں شامل تھا‘ وہ محتاط تھا‘ سمجھ دار تھا اور جوان بھی تھا اور ایسے شخص کی اچانک موت خوف ناک ہوتی ہے‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں سارا دن ہاتھ ملتا رہا‘ یہ ارشد وحید چوہدری کے بعد میڈیا کی نئی لاٹ کی دوسری موت تھی جس نے اسلام آباد کی صحافتی برادری کو دکھی کر دیا۔
ہم زندگی کی دوڑ میں مبتلا لوگ ہیں اور یہ دوڑ کورونا سے زیادہ خوف ناک بیماری ہے‘ یہ آپ کو رکنے‘ سوچنے اور سوچ کر زندگی کو ری آرگنائز کرنے کی مہلت نہیں دیتی‘ ہمارے دائیں بائیں موجود لوگ مرتے رہتے ہیں‘ ہم ان کے جنازے بھی پڑھتے ہیں اور ہم انھیں دفن بھی کرتے ہیں لیکن تدفین‘ افسوس اور جنازوں کے باوجود ہمارے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال دستک نہیں دیتا، آج ہم بھی ان کی جگہ ہو سکتے تھے یا ہم نے بھی کسی دن اس جگہ پہنچنا ہے‘ ہم انسان یہ سوچتے ہی نہیں ہیں چنانچہ ہم قبرستانوں میں کھڑے ہو کر بھی کفن بیچ لیتے ہیں اور ہم قبر کی مٹی‘ ہڈیوں اور تابوتوں کا سودا بھی کرتے رہتے ہیں‘ کورونا اس بار سیکڑوں شان دار لوگوں کو ہم سے چھین کر لے گیا۔
عبدالقادر حسن جیسا سونا بھی مٹی میں مل گیا‘ یہ بھی کیا شان دار انسان تھے‘ خاندانی‘ وضع دار اور وسیع القلب‘ میں جب بھی ترکی اور ازبکستان کے بارے میں لکھتا تھا تو ان کا فون ضرور آتا تھا‘ ازبکستان اور ترکی ان کے لہو میں گردش کرتا تھا‘ یہ مولانا روم کے عاشق بھی تھے لیکن یہ عاشق بھی دنیا سے رخصت ہو گیا اور طارق محمود ملک بھی چپکے سے روانہ ہو گیا‘ بالکل اسی طرح چپکے سے جس طرح یہ میری زندگی میں آیا تھا‘ خاموش‘ دھیما اور متفکر‘ مجھے آج بھی یاد ہے اس نے 2010 میں مجھ سے پوچھا تھا
’’سر یہ بتائیں جو مالکان اپنے ورکرز کو تنخواہیں نہیں دیتے کیا انھیں رات کو نیند آ جاتی ہے‘‘۔
میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا تھا
’’یہ ظالم لوگ ہیں اور ظالموں کو رات کیا دن میں بھی نیند آ جاتی ہے‘‘
اور اس نے مسکرا کر زور سے کہا تھا ’’اچھا جی‘‘
اس کے اچھا جی میں بہت کچھ تھا بلکہ ٹھہریے سب کچھ تھا‘ وہ چلا گیا لیکن اس کا اچھا جی آج بھی میرے کانوں میں زندہ ہے اور اچھا جی بازگشت بن کر میڈیا انڈسٹری سے پوچھ رہا ہے، آپ لوگ ورکروں کو تنخواہیں کیوں نہیں دیتے؟ آپ اگر جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تو آپ سنگ دل ہیں اور اگر آپ میں تنخواہوں کی استطاعت نہیں تو پھر آپ اخبارات اور چینلز کھول کر طارق محمود ملک جیسے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں‘ پھر آپ سے بڑا ظالم کوئی نہیں!۔