ہندوستان کے ممتاز سیاستدان، سابق رکن پارلیمان اور سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر غلام محمود بنات والا کا انتقال ہوگیا ہے۔
بنات والا مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے ہندوستانی پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے کے لیے جانے جاتے تھے۔
بنات والا کے انتقال کو ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک طاقتور آواز کے خاموش ہوجانے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
ان کی غیر متنازعہ شخصیت ہندوستان میں ہر مسلک و مشرب کے لیے محترم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی رحلت پر ملک کی مقتدر ہستیوں نےگہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت میں مسلم لیگ کو جلا بخشنے والے رہنما جی ایم بنات والا کا انتقال ممبئی میں بدھ کو دل کا دورا پڑنے سے ہوا ہے۔ وہ 74برس کے تھے۔
مسلم لیگ کے ذریعہ سیاسی کیرئیر شروع کرنے والے مرحوم بنات والا 1977 میں لوک سبھا میں پہلی مرتبہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے اور 1999 تک وہ سات بار کیرالا کے ایک مسلم اکثریتی حلقے پونّائي سے پارلیمانی نمائندگی کرتے رہے۔
فی الوقت پوناّئي پارلیمانی حلقے کی نمائندگی انڈین مسلم لیگ کے رہمنا اور مرکزی وزیر مملکت برائے خارجہ ای احمد کر رہے ہیں۔
بنات والا ایک بہترین مقرر تھے اور پارلیمان میں اکثر مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھاتے تھے۔ بابری مسجد کے انہدام اور مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے انہوں نے زبردست مہم چلائی تھی۔مشہور شاہ بانو مقدمہ اور مسلم پرسنل لاء پر بھی انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی آواز بلند کی تھی۔
مبصرین کے خیال میں صرف بنات والا کو یہ افتخار حاصل تھا کہ پارلمینٹ میں بے باک طریقہ سے مسلمانوں کے مسائل پر توجہ مبدول کرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اور جب ایوان میں تقریر کرتے تھے تو فرقہ وارانہ ذہنیت کے مالک سیاسیتدان بھی ان کی بات کو بغور سنتے تھے۔
بنات والا کی پیدائش صنعتی شہر ممبئی میں ہوئی تھی لیکن سیاسی نکتہ نظر سے کیرالا ان کا مرکز تھا جہاں انڈین یونین مسلم لیگ ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔
انڈین یونین مسلم لیگ ایک مسلم قوم پرست سیاسی جماعت ہے۔اور اس وقت مرکز میں حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد میں شامل ہے۔ پارٹی کا محور شمالی کیرالا ہے تاہم مخصوص اثر صوبے تمل ناڈو میں بھی ہے۔
(یہ رپورٹ بی بی سی کی26 جون کی اشاعت سے لی گئی)
بنات والا مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے ہندوستانی پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے کے لیے جانے جاتے تھے۔
بنات والا کے انتقال کو ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک طاقتور آواز کے خاموش ہوجانے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
ان کی غیر متنازعہ شخصیت ہندوستان میں ہر مسلک و مشرب کے لیے محترم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی رحلت پر ملک کی مقتدر ہستیوں نےگہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت میں مسلم لیگ کو جلا بخشنے والے رہنما جی ایم بنات والا کا انتقال ممبئی میں بدھ کو دل کا دورا پڑنے سے ہوا ہے۔ وہ 74برس کے تھے۔
مسلم لیگ کے ذریعہ سیاسی کیرئیر شروع کرنے والے مرحوم بنات والا 1977 میں لوک سبھا میں پہلی مرتبہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے اور 1999 تک وہ سات بار کیرالا کے ایک مسلم اکثریتی حلقے پونّائي سے پارلیمانی نمائندگی کرتے رہے۔
فی الوقت پوناّئي پارلیمانی حلقے کی نمائندگی انڈین مسلم لیگ کے رہمنا اور مرکزی وزیر مملکت برائے خارجہ ای احمد کر رہے ہیں۔
بنات والا ایک بہترین مقرر تھے اور پارلیمان میں اکثر مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھاتے تھے۔ بابری مسجد کے انہدام اور مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے انہوں نے زبردست مہم چلائی تھی۔مشہور شاہ بانو مقدمہ اور مسلم پرسنل لاء پر بھی انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی آواز بلند کی تھی۔
مبصرین کے خیال میں صرف بنات والا کو یہ افتخار حاصل تھا کہ پارلمینٹ میں بے باک طریقہ سے مسلمانوں کے مسائل پر توجہ مبدول کرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اور جب ایوان میں تقریر کرتے تھے تو فرقہ وارانہ ذہنیت کے مالک سیاسیتدان بھی ان کی بات کو بغور سنتے تھے۔
بنات والا کی پیدائش صنعتی شہر ممبئی میں ہوئی تھی لیکن سیاسی نکتہ نظر سے کیرالا ان کا مرکز تھا جہاں انڈین یونین مسلم لیگ ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔
انڈین یونین مسلم لیگ ایک مسلم قوم پرست سیاسی جماعت ہے۔اور اس وقت مرکز میں حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد میں شامل ہے۔ پارٹی کا محور شمالی کیرالا ہے تاہم مخصوص اثر صوبے تمل ناڈو میں بھی ہے۔
(یہ رپورٹ بی بی سی کی26 جون کی اشاعت سے لی گئی)