فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز کبھی بھی طالبان، پختون يا کسی مخصوص قبيلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ہرگز نہيں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40سے زائد ممالک دہشت گرد کے خلاف جاری مہم ميں نہ تو امريکہ کی حمايت کر رہے ہوتے اور نہ ہی عملی طور پر اس سارے عمل ميں شامل ہوتے۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔ ان عناصر کے خلاف متحدہ عالمی کاوشوں اور لڑائ بدستور افغانستان ميں ہمارا اہم ترين مقصد رہے گآ۔
اس خطے سے ابھرنے والے دہشت گردی کے خطرات اور ان سے دنيا بھر ميں بے گناہ شہريوں کو درپيش خطرات کو پس پشت ڈالنا نہ تو ہماری حکمت عملی ہے اور نہ ہی ممکنہ پائيدار حل۔
امريکی نائب صدر جو بائيڈن کے حاليہ بيان کے بعد کچھ تبصرہ نگاروں کی جانب سے پھيلائے جانے والے اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت نے کبھی بھی دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بےشمار تعميراتی منصوبے اور اربوں ڈالرز کی لاگت سے جاری ترقياتی منصوبے جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں، اس حقيقت کو واضح کرتے ہيں کہ طاقت کا استعمال صرف انھی دہشت گرد گروہوں تک مخصوص ہے جو ہتھيار ڈالنے سے انکاری ہيں اور ايک وسيع سياسی دھارے ميں شامل ہونے پر يقين نہيں رکھتے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall