اقبال جہانگیر
محفلین
طالبان اور مذاکرات
وزیراعظم نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں، دہشت گردی کی کارروائیاں فوراً بند کی جائیں کیونکہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے بات ہوگی، آپریشن کا فیصلہ کیا تو پوری قوم ساتھ کھڑی ہوگی، ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت ڈال رہے ہیں تاہم دہشت گردی کی اس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آگ اور بارود کا یہ کھیل اب ختم ہونا چاہئے، شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بدھ کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کے ایشو پر قومی اسمبلی میں پالیسی خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جس میں وزیراعظم کے خصوصی معاون عرفان صدیقی، رحیم اللہ یوسف زئی، میجر (ر) محمد عامر اور سابق سفیررستم شاہ مہمند شامل ہیں جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثار کمیٹی کی معاونت کریں گے اور وزیراعظم نے خود مذاکراتی عمل کی براہ راست نگرانی کرنیکا بھی اعلان کیا ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، ایک عام پاکستانی با خبر ہے کہ یہ رویہ اسلامی احکامات کے خلاف ہے اور دنیا کا کوئی مفتی اور عالم اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا، پاکستان سے لے کر سعودی عرب تک تمام علماء متفق ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں، نوازشریف نے بتایا کہ اﷲ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبے میں اسی کی تاکید فرمائی، آپ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ ِ کرام کے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا: یہ کون سا مہینہ ہے؟۔ کیا یہ حج کا مہینہ نہیں ہے؟ سب نے جواب دیا: یا رسول اللہ ﷺ یہ حج کا مہینہ ہے۔ پھر آپﷺ نے پوچھا۔ آج کون سا دن ہے؟ کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ سب نے کہا! جی ہاں یا رسول اﷲﷺ ۔ پھر آپؐ نے پوچھا:یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ شہرِ امن نہیں ہے۔ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اﷲﷺ۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزتیں اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن، اور شہر مکہ محترم ہیں۔ اسی بات کو آپ ﷺ نے ایک اور موقع پر یوں بیان کیا کہ انسانی جان کی حرمت بیت اﷲ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ انسانی جان کے احترام میں اس سے بڑی بات نہیں کہی جا سکتی جو ہمارے پیارے رسولؐﷺ نے فرمائی ہے، یہی بات ہماراآئین بھی کہتا ہے۔ اس لیے ہر پاکستانی کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کی دینی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا ہر واقعہ میرے لیے تکلیف دہ تھا، میں اُس ماں کے دکھ کو جانتا ہوں جسے اپنے جوان بیٹے کی لاش کو بوسہ دینا پڑے، میں اُس باپ کے غم کو سمجھتا ہوں جسے اپنا بیٹا اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارنا پڑا، میں نے اسکول یونیفارم میں ملبوس پھولوں جیسے ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے جن کے وجود خون میں نہلا دیے گئے۔
کالعدم تحریک طالبان نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا ہے ٗ حکومتی پیشکش کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں، مذاکرات کےلیے تمام امور کا جائزہ لیا جائےگا ٗآئندہ چندروز میں شوریٰ اپنے فیصلے سے آگاہ کرے گی، اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ ملافضل اللہ بات چیت کے حق میں نہیں،تحریک طالبان پاکستان مولوی فضل اللہ کی قیادت میں متحد ہے ٗجبکہ پنجابی طالبان اورجنود الحفصہ نےبھی مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہوئے بات چیت شروع ہوتے ہی ملک میں دہشت گرد کارروائیاں روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی مسلم لیگ (ن)کو جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں ٗ نوازشریف نے پاکستان کو تباہی سے بچالیا،مولانا فضل الرحمن،منور حسن ،عمران خان اور سمیع الحق مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہاکہ شوریٰ اجلاس کے بعد مذاکراتی کمیٹی پر رائے دیں گے ، ٹی ٹی پی میں دھڑے بندی نہیں ، ترجمان نے کہاکہ کمیٹی میں شامل افراد مجھےقابل قبول ہیں تاہم اس کا فیصلہ مرکزی شوری کرے گی ،ادھر کالعدم تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ نیٹو اور امریکا شمالی وزیرستان میں آخری معرکہ لڑنا چاہتے ہیں، ہم نے ہمیشہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے،مسلم لیگ ن یاد ر کھے کہ لڑائیوں کے بیج بونا آسان مگر فصل کاٹنا مشکل ہوتی ہے،امریکا پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتاہے۔شمالی وزیرستان کے عوام کو ہجرت پر مجبور کیا گیا تو تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو بھی گھر چھوڑنا پڑیں گے۔ دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق عصمت اللہ معاویہ نے کہاکہ تحریک طالبان پاکستان اور مولانا فضل اللہ کا ردعمل بھی مجھ سے مختلف نہیں ہوگا تاہم ہم صرف اپنے قول و فعل کے ذمے دار ہیں عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ ان کی تنظیم ان مذاکرات میں شامل ہو گی بلکہ دیگر گروپوں کے ساتھ بھی مشاورت کرکے انہیں بھی اس عمل کا حصہ بننے میں مدد دے گی۔عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ نواز شریف نے مذاکرات کا ایک اور موقع دینے کا اعلان کر کے سنجیدگی ظاہر کر دی ہے۔نواز شریف نے مذاکرات کا اعلان کر کے پاکستان کو آگ اور خون کے کھیل میں دھکیلنے والی قوتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچا لیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ جنگ ہویامذاکرات، شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔ مجلس شوریٰ کے اجلاس کے دوسرے روز تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے بیان میں کہاکہ ٹی ٹی پی کا مقصد شریعت کا نفاذ ہے ، جنگ ہویا مذاکرات ، شریعت نافذ ہونی چاہیے ، پہلے بھی مذاکرات کی پیشکش کی تھی ۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومتی رویہ مخلص ہواتو مثبت جواب دیں گے.
تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کے امیر نے اپنی تنظیم کی جانب سے مذاکرات شروع ہوتے ہی ملک میں دہشت گرد کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا:
’جہاں تک تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کا تعلق ہے تو میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں ہماری کارروائیاں رک جائیں گی۔ اگر حکومت کچھ نہیں کرے گی تو ردعمل بھی نہیں ہو گا۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ وہ یہ بیان صرف اپنی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے جاری کر رہے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مذاکراتی سلسلہ پیچیدہ اور کٹھن عمل ہوگا جس کے بالکل آغاز ہی میں بعض اہم رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں اس کی بنیادی وجہ طالبان کی جانب سے سخت شرائط سامنے آنے کا امکان ہے، جن کو پورا کرنا نہ صرف حکومت بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مشکل ہوگا۔ طالبان اب بھی ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں نہیں اور اس کے بجائے حکومت کے لیے مطالبات کا پلندا تیار کررہے ہیں جن کو قبول کرنے کا سیدھا مطلب ریاست کے اختیار کو سرنڈر کرنا ہوگا۔ امن معاہدے کے بدلے میں حکومت سے طالبان کے ممکنہ مطالبات میں پاک افغان سرحد پر فوجی آپریشن کی بندش، طالبان جنگجوئوں کے لیے عام معافی، سزا یافتہ اور زیر سماعت طالبان قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کو روکنا، امریکا سے تمام تعلقات کا خاتمہ، افغان جنگ میں پاکستان کی عدم مداخلت اور ملک میں قانون شریعت کو سپریم قرار دینے کے لیے آئینی اصلاحات کرنا شامل ہوں گے، تاہم مذاکرات کے مستقبل کا فیصلہ طالبان کی مذاکرات ٹیم کی تشکیل سے ہوگا، تحریک طالبان پاکستان کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل نواز شریف حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے دو ہفتہ قبل ٹوٹ گیا تھا کیونکہ حکومت نے تین طالبان کمانڈروں کو رہا کرکے ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات ان کے ساتھ کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا تھا اور طالبان کے حلقے اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ ملافضل اللہ کی قیادت میں پاکستانی طالبان اس مطالبے کو دہرائیں گے جو حکومت کے لیے قبول کرنا مشکل ہوگا، ان گرفتار تین طالبان کمانڈر مسلم خان، محمود خان اور مولوی عمر کا تعلق ملافضل اللہ کے علاقے سوات سے ہے اور وہ فضل اللہ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔
ادہر پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کی بات کرنیوالے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مقتدر طبقہ یادرکھے عوام کودہشتگردی کے رحم وکرم پرچھوڑنے والے عوامی غیظ وغضب سے نہ بچ سکیںگے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں جانورتو محفوظ ہیں مگرانسان کاخون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ میڈیا سیل کے مطابق انہوں نےکہاکہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے ریاست کے آہنی ہاتھوں کو حرکت میں آناہوگا۔کراچی رینجرز ہیڈ کوار ٹر پربم دھماکوں میں فوجی جوانوں کی شہادت قومی سانحہ ہے۔ دہشتگردی کے ناسور پرقابو پانے کیلئے پوری قوم افواج پاکستان کی قربانیوں کوخراج تحسین پیش کرتی ہے۔ دہشتگرد ملک اورعوام کے بدترین دشمن ہیں ان کیخلاف پوری قوم کوایک ہوکرلڑنا ہوگا۔ عوام کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کوموجودہ نظام کیخلاف سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
قران کی سورۂ انفال میں ہدایت کی گئی ہے ’’اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہو تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاؤ، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بے شک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے‘‘یعنی اللہ کے نزدیک صلح و آشتی اتنی پسندیدہ چیز ہے کہ دشمن سے دھوکے کا اندیشہ ہو تب بھی اللہ کے بھروسے پر صلح کے راستے کو ترجیح دینے کو کہا گیاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام جو امن و سلامتی کا دین ہے، حتی الامکان خونریزی کو روکنا چاہتا ہے اور کوئی دوسری صورت باقی نہ رہنے کی شکل ہی میں مسلح جنگ کی اجازت دیتا ہے۔
اگر مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا کوئی حل نکل سکتا ہے تو حکومت کے اس فیصلہ پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمیں زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہئیے اور ان حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے خون خرابہ ختم ہو گا اور ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے اور طالبان قومی سیاسی دھارے میں بھی آ سکتے ہیں مگر طالبان کو بھی امن کی اس خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھنا چاہئیے۔
طالبان کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئیےکیونکہ تشدد و دہشت گردی سے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ ملایا جاسکتا اور نہ ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔مذاکرات اور پر امن جمہوری جدوجہد سے ہی مسائل کا دیر پا حل ممکن ہے.
دنیا بھر میں آج تک صرف اور صرف پر امن جمہوری تحریکیں ہی کا میابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جس میں تحریک حصول پاکستان شامل ہے۔
فوج یا سیاسی قیادت طالبان کے ساتھ تازہ امن کوششوں کے مثبت نتائج کے بارے میں پُر امید نہیں، وزیراعظم کی جانب سے پرامن حل کو ایک موقع اور دینے کا بنیادی مقصد امن عمل کی ناکامی کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا دہشت گردی کا نیٹ ورک حتمی طور پر ختم کرنے کیلئے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی مضبوط عوامی حمایت حاصل کرنا ہے ، فوجی کارروائی کے ذریعہ نمٹنے پر واضح اتفاق کے باوجود وزیراعظم کی جانب سے شاخ زیتون ( امن کی پیشکش) پیش کرنے کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کے باوثوق اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان کی دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلے میں فوجی قیادت شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف بڑا آپریشن کرنے کیلئے تیار تھی مگر وزیراعظم عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں موجودہ اسٹیٹس کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ اعلیٰ فوجی قیادت اور سویلین ساتھیوں سے طویل صلاح مشورے کے بعد وزیراعظم نے طالبان کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں جنگ کیلئے اپنا ذہن بنا لیا۔ ذرائع کے مطابق طالبان سے ماضی کے سات معاہدوں اور طالبان کی جانب سے ان کی خلاف ورزی کے تناظر میں فوجی و سیاسی قیادت نئی امن کوششوں کے ممکنہ نتائج سے بخوبی واقف ہیں، طالبان کے ممکنہ غیر لچکدار رویہ، ہتھیار ڈالنے اور دہشت گرد سرگرمیاں بند کرنے سے انکار کے سبب امکانی طور پر مذاکرات ناکام ہو جائیں گے جس کے بعد شمالی وزیرستان میں بڑا فوجی آپریشن شروع کرنے کی بھرپور عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم نے امن مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے ، اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بنوں اور راولپنڈی میں دہشت گردی کے بعد فوجی حکام سے اجلاس میں وزیراعظم نے طالبان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کی منظوری دے دی تھی تاہم اس کیلئے کوئی ٹائم فریم طے نہیں ہوا تھا تاہم وزیراعظم نے طالبان کی مذاکرات کی پیشکش اس لئے قبول کرلی کہ بات چیت کے حامی سیاستدان ان پر یہ الزام نہ لگائیں کہ مکالمہ کا آپشن استعمال کئے بغیر آپریشن شروع کر دیا ۔ذرائع کا کہنا تھا کہ مکمل فوجی آپریشن، جس میں زمینی دستوں کی کارروائی بھی شامل ہوگی، اگلے مرحلے میں ( ممکنہ طور پر مارچ کے شروع میں ) شروع کر دیا جائے گا جب تک امن مذاکرات کا نتیجہ بھی سامنے آجائے گا ، ایک سوال پر ذرائع نے واضح کیا کہ قبائلی علاقوں میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں پر جب بھی حملہ ہوا تو فوج شمالی وزیرستان میں مزید حملوں سے قطعی نہیں ہچکچائے گی ۔
طالبان موجودہ جمہوری نظام کو کفر کا نظام گردانتےہیں اور آئینِ پاکستان کو نہ مانتے ہیں۔ جس شریعت کے نفاذ کی بات طالبان کرتے ہیں وہ وہ کسی مسلمان کی سمجھ سے بالاتر ہے اور کوئی پاکستانی مسلک اس کو قبول کرنے کو تیار نہ ہے۔ شریعتِ اسلامی کے تحت عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ہتھیار نہ اٹھانے والوں پر حملہ کر کے ان کو قتل نہ کیا جا سکتا ہےجب کہ اطالبان کا سب سے بڑا نشانہ ہی یہ بے گناہ اور معصوم بوڑھے، بچے، عورتیں اور مرد ہیں۔ یہ کیسی اسلامی شریعت ہے جس سے کوئی مسجد محفوظ ہے نہ امام بارگاہ، کوئی چرچ محفوظ ہے نہ مدرسہ اوریہ کیسے مسلمان ہیں جو جنازوں پر بھی خود کش حملے کرنے سے باز نہیں آتے؟ طالبان پاکستان کے موجودہ سیاسی اور سماجی نظام و ڈہانچےکو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اس سیاسی و سماجی ڈہانچے کو بزور طاقت گرانے کے خواہاں ہیں۔ طالبان جمہوریت کو بھی غیر اسلامی گردانتے ہیں جبکہ مفتی اعظم دیو بند کا خیال ہے کہ طالبان اسلامی اصولوں کو مکمل طور پر نہ سمجھتے ہیں۔ویسے بھی شرائط والی طالبانی پیشکش ایک مذاق ہے اور طالبان کی اپنے آدمیوں کو رہا کرانے کا ایک حربہ ہے۔ طالبان کا پیش کردہ حل ،موجودہ سیاسی سیٹ اپ سے مطابقت نہ رکھتا ہے۔ ریاست کسی گروہ کو یہ اجازت نہ دے سکتی ہے کہ وہ دہشت گرد گروہ کو جو کہ آئین پاکستان کو نہ مانتا ہو، مسلسل دہشت گردی میں مصروف ہیں، ریاست اور حکومت کو شرائط تسلیم کرنے کے لئے ڈکٹیٹ کرے ۔
تحریک طالبان کو سوچنا چاہئے کہ وہ عملاً پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے اس ایجنڈے کا حصہ کیوں بن گئے ہیں؟
طالبان اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں ،مگر انہوں نے اس کا کوئی ماڈل پیش نہ کیا ہے؟
کیا اسلامی نظام کے نفاذ کا طریقہ یہی ہے کہ انسانیت کا بے دریغ قتل عام کیا جائے اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے؟
کیا طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لئے کوئی سازگار ماحول پیدا کیا گیا ہے؟
طالبان خود کو ریاست کے اندر ریاست سمجھتے ہیں جن کی اس خام خیالی کی موجودگی میں مذاکرات کسی صورت پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں۔ نیز اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل کو طالبان ہتھیار پھینک کر دہشت گردی سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور اس جمہوریت کو،جسے طالبان غیر اسلامی سمجھتے ہیں، تسلیم کرلیں گئے اورمسلمہ جمہوری اصولوں و ضوابط کی پاسداری کریں گے؟ اور مزید اس چیز کی کیا ضمانت ہے اور کون گارنٹی دے گا کہ طے شدہ شرائط و معاہدہ پرطالبان خلوص نیت سے عمل کریں گے؟
ایک طرف طالبان حملے کرتے ہیں ،ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں؟
طالبان کے ساتھ معاہدوں کا اور ان کی طرف سے معاہدوں کو توڑنے کا سابقہ تجربہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہ ہے۔
اس وقت سیاسی جماعتیں منقسم ہیں ۔مذہبی جماعتیں حکومت کو باور کروارہی ہیں کہ وہ فوجی آپریشن کی غلطی نہ کرے وگرنہ اسے سنگین نتائج برداشت کرنے ہونگے ۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ جنگ قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے شہری علاقوں میں داخل ہوگی جو حکومت کے لیے نئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے ۔
طالبان کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کر کے حکومت نے گیند طالبان کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ آئندہ حالات بتائیں گے کہ یہ مذاکرات کس کروٹ بیٹھتے ہیں؟
وزیراعظم نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں، دہشت گردی کی کارروائیاں فوراً بند کی جائیں کیونکہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے بات ہوگی، آپریشن کا فیصلہ کیا تو پوری قوم ساتھ کھڑی ہوگی، ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت ڈال رہے ہیں تاہم دہشت گردی کی اس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آگ اور بارود کا یہ کھیل اب ختم ہونا چاہئے، شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بدھ کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کے ایشو پر قومی اسمبلی میں پالیسی خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جس میں وزیراعظم کے خصوصی معاون عرفان صدیقی، رحیم اللہ یوسف زئی، میجر (ر) محمد عامر اور سابق سفیررستم شاہ مہمند شامل ہیں جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثار کمیٹی کی معاونت کریں گے اور وزیراعظم نے خود مذاکراتی عمل کی براہ راست نگرانی کرنیکا بھی اعلان کیا ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، ایک عام پاکستانی با خبر ہے کہ یہ رویہ اسلامی احکامات کے خلاف ہے اور دنیا کا کوئی مفتی اور عالم اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا، پاکستان سے لے کر سعودی عرب تک تمام علماء متفق ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں، نوازشریف نے بتایا کہ اﷲ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبے میں اسی کی تاکید فرمائی، آپ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ ِ کرام کے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا: یہ کون سا مہینہ ہے؟۔ کیا یہ حج کا مہینہ نہیں ہے؟ سب نے جواب دیا: یا رسول اللہ ﷺ یہ حج کا مہینہ ہے۔ پھر آپﷺ نے پوچھا۔ آج کون سا دن ہے؟ کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ سب نے کہا! جی ہاں یا رسول اﷲﷺ ۔ پھر آپؐ نے پوچھا:یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ شہرِ امن نہیں ہے۔ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اﷲﷺ۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزتیں اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن، اور شہر مکہ محترم ہیں۔ اسی بات کو آپ ﷺ نے ایک اور موقع پر یوں بیان کیا کہ انسانی جان کی حرمت بیت اﷲ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ انسانی جان کے احترام میں اس سے بڑی بات نہیں کہی جا سکتی جو ہمارے پیارے رسولؐﷺ نے فرمائی ہے، یہی بات ہماراآئین بھی کہتا ہے۔ اس لیے ہر پاکستانی کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کی دینی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا ہر واقعہ میرے لیے تکلیف دہ تھا، میں اُس ماں کے دکھ کو جانتا ہوں جسے اپنے جوان بیٹے کی لاش کو بوسہ دینا پڑے، میں اُس باپ کے غم کو سمجھتا ہوں جسے اپنا بیٹا اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارنا پڑا، میں نے اسکول یونیفارم میں ملبوس پھولوں جیسے ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے جن کے وجود خون میں نہلا دیے گئے۔
کالعدم تحریک طالبان نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا ہے ٗ حکومتی پیشکش کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں، مذاکرات کےلیے تمام امور کا جائزہ لیا جائےگا ٗآئندہ چندروز میں شوریٰ اپنے فیصلے سے آگاہ کرے گی، اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ ملافضل اللہ بات چیت کے حق میں نہیں،تحریک طالبان پاکستان مولوی فضل اللہ کی قیادت میں متحد ہے ٗجبکہ پنجابی طالبان اورجنود الحفصہ نےبھی مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہوئے بات چیت شروع ہوتے ہی ملک میں دہشت گرد کارروائیاں روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی مسلم لیگ (ن)کو جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں ٗ نوازشریف نے پاکستان کو تباہی سے بچالیا،مولانا فضل الرحمن،منور حسن ،عمران خان اور سمیع الحق مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہاکہ شوریٰ اجلاس کے بعد مذاکراتی کمیٹی پر رائے دیں گے ، ٹی ٹی پی میں دھڑے بندی نہیں ، ترجمان نے کہاکہ کمیٹی میں شامل افراد مجھےقابل قبول ہیں تاہم اس کا فیصلہ مرکزی شوری کرے گی ،ادھر کالعدم تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ نیٹو اور امریکا شمالی وزیرستان میں آخری معرکہ لڑنا چاہتے ہیں، ہم نے ہمیشہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے،مسلم لیگ ن یاد ر کھے کہ لڑائیوں کے بیج بونا آسان مگر فصل کاٹنا مشکل ہوتی ہے،امریکا پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتاہے۔شمالی وزیرستان کے عوام کو ہجرت پر مجبور کیا گیا تو تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو بھی گھر چھوڑنا پڑیں گے۔ دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق عصمت اللہ معاویہ نے کہاکہ تحریک طالبان پاکستان اور مولانا فضل اللہ کا ردعمل بھی مجھ سے مختلف نہیں ہوگا تاہم ہم صرف اپنے قول و فعل کے ذمے دار ہیں عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ ان کی تنظیم ان مذاکرات میں شامل ہو گی بلکہ دیگر گروپوں کے ساتھ بھی مشاورت کرکے انہیں بھی اس عمل کا حصہ بننے میں مدد دے گی۔عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ نواز شریف نے مذاکرات کا ایک اور موقع دینے کا اعلان کر کے سنجیدگی ظاہر کر دی ہے۔نواز شریف نے مذاکرات کا اعلان کر کے پاکستان کو آگ اور خون کے کھیل میں دھکیلنے والی قوتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچا لیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ جنگ ہویامذاکرات، شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔ مجلس شوریٰ کے اجلاس کے دوسرے روز تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے بیان میں کہاکہ ٹی ٹی پی کا مقصد شریعت کا نفاذ ہے ، جنگ ہویا مذاکرات ، شریعت نافذ ہونی چاہیے ، پہلے بھی مذاکرات کی پیشکش کی تھی ۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومتی رویہ مخلص ہواتو مثبت جواب دیں گے.
تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کے امیر نے اپنی تنظیم کی جانب سے مذاکرات شروع ہوتے ہی ملک میں دہشت گرد کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا:
’جہاں تک تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کا تعلق ہے تو میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں ہماری کارروائیاں رک جائیں گی۔ اگر حکومت کچھ نہیں کرے گی تو ردعمل بھی نہیں ہو گا۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ وہ یہ بیان صرف اپنی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے جاری کر رہے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مذاکراتی سلسلہ پیچیدہ اور کٹھن عمل ہوگا جس کے بالکل آغاز ہی میں بعض اہم رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں اس کی بنیادی وجہ طالبان کی جانب سے سخت شرائط سامنے آنے کا امکان ہے، جن کو پورا کرنا نہ صرف حکومت بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مشکل ہوگا۔ طالبان اب بھی ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں نہیں اور اس کے بجائے حکومت کے لیے مطالبات کا پلندا تیار کررہے ہیں جن کو قبول کرنے کا سیدھا مطلب ریاست کے اختیار کو سرنڈر کرنا ہوگا۔ امن معاہدے کے بدلے میں حکومت سے طالبان کے ممکنہ مطالبات میں پاک افغان سرحد پر فوجی آپریشن کی بندش، طالبان جنگجوئوں کے لیے عام معافی، سزا یافتہ اور زیر سماعت طالبان قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کو روکنا، امریکا سے تمام تعلقات کا خاتمہ، افغان جنگ میں پاکستان کی عدم مداخلت اور ملک میں قانون شریعت کو سپریم قرار دینے کے لیے آئینی اصلاحات کرنا شامل ہوں گے، تاہم مذاکرات کے مستقبل کا فیصلہ طالبان کی مذاکرات ٹیم کی تشکیل سے ہوگا، تحریک طالبان پاکستان کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل نواز شریف حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے دو ہفتہ قبل ٹوٹ گیا تھا کیونکہ حکومت نے تین طالبان کمانڈروں کو رہا کرکے ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات ان کے ساتھ کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا تھا اور طالبان کے حلقے اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ ملافضل اللہ کی قیادت میں پاکستانی طالبان اس مطالبے کو دہرائیں گے جو حکومت کے لیے قبول کرنا مشکل ہوگا، ان گرفتار تین طالبان کمانڈر مسلم خان، محمود خان اور مولوی عمر کا تعلق ملافضل اللہ کے علاقے سوات سے ہے اور وہ فضل اللہ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔
ادہر پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کی بات کرنیوالے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مقتدر طبقہ یادرکھے عوام کودہشتگردی کے رحم وکرم پرچھوڑنے والے عوامی غیظ وغضب سے نہ بچ سکیںگے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں جانورتو محفوظ ہیں مگرانسان کاخون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ میڈیا سیل کے مطابق انہوں نےکہاکہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے ریاست کے آہنی ہاتھوں کو حرکت میں آناہوگا۔کراچی رینجرز ہیڈ کوار ٹر پربم دھماکوں میں فوجی جوانوں کی شہادت قومی سانحہ ہے۔ دہشتگردی کے ناسور پرقابو پانے کیلئے پوری قوم افواج پاکستان کی قربانیوں کوخراج تحسین پیش کرتی ہے۔ دہشتگرد ملک اورعوام کے بدترین دشمن ہیں ان کیخلاف پوری قوم کوایک ہوکرلڑنا ہوگا۔ عوام کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کوموجودہ نظام کیخلاف سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
قران کی سورۂ انفال میں ہدایت کی گئی ہے ’’اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہو تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاؤ، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بے شک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے‘‘یعنی اللہ کے نزدیک صلح و آشتی اتنی پسندیدہ چیز ہے کہ دشمن سے دھوکے کا اندیشہ ہو تب بھی اللہ کے بھروسے پر صلح کے راستے کو ترجیح دینے کو کہا گیاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام جو امن و سلامتی کا دین ہے، حتی الامکان خونریزی کو روکنا چاہتا ہے اور کوئی دوسری صورت باقی نہ رہنے کی شکل ہی میں مسلح جنگ کی اجازت دیتا ہے۔
اگر مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا کوئی حل نکل سکتا ہے تو حکومت کے اس فیصلہ پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمیں زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہئیے اور ان حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے خون خرابہ ختم ہو گا اور ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے اور طالبان قومی سیاسی دھارے میں بھی آ سکتے ہیں مگر طالبان کو بھی امن کی اس خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھنا چاہئیے۔
طالبان کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئیےکیونکہ تشدد و دہشت گردی سے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ ملایا جاسکتا اور نہ ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔مذاکرات اور پر امن جمہوری جدوجہد سے ہی مسائل کا دیر پا حل ممکن ہے.
دنیا بھر میں آج تک صرف اور صرف پر امن جمہوری تحریکیں ہی کا میابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جس میں تحریک حصول پاکستان شامل ہے۔
فوج یا سیاسی قیادت طالبان کے ساتھ تازہ امن کوششوں کے مثبت نتائج کے بارے میں پُر امید نہیں، وزیراعظم کی جانب سے پرامن حل کو ایک موقع اور دینے کا بنیادی مقصد امن عمل کی ناکامی کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا دہشت گردی کا نیٹ ورک حتمی طور پر ختم کرنے کیلئے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی مضبوط عوامی حمایت حاصل کرنا ہے ، فوجی کارروائی کے ذریعہ نمٹنے پر واضح اتفاق کے باوجود وزیراعظم کی جانب سے شاخ زیتون ( امن کی پیشکش) پیش کرنے کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کے باوثوق اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان کی دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلے میں فوجی قیادت شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف بڑا آپریشن کرنے کیلئے تیار تھی مگر وزیراعظم عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں موجودہ اسٹیٹس کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ اعلیٰ فوجی قیادت اور سویلین ساتھیوں سے طویل صلاح مشورے کے بعد وزیراعظم نے طالبان کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں جنگ کیلئے اپنا ذہن بنا لیا۔ ذرائع کے مطابق طالبان سے ماضی کے سات معاہدوں اور طالبان کی جانب سے ان کی خلاف ورزی کے تناظر میں فوجی و سیاسی قیادت نئی امن کوششوں کے ممکنہ نتائج سے بخوبی واقف ہیں، طالبان کے ممکنہ غیر لچکدار رویہ، ہتھیار ڈالنے اور دہشت گرد سرگرمیاں بند کرنے سے انکار کے سبب امکانی طور پر مذاکرات ناکام ہو جائیں گے جس کے بعد شمالی وزیرستان میں بڑا فوجی آپریشن شروع کرنے کی بھرپور عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم نے امن مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے ، اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بنوں اور راولپنڈی میں دہشت گردی کے بعد فوجی حکام سے اجلاس میں وزیراعظم نے طالبان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کی منظوری دے دی تھی تاہم اس کیلئے کوئی ٹائم فریم طے نہیں ہوا تھا تاہم وزیراعظم نے طالبان کی مذاکرات کی پیشکش اس لئے قبول کرلی کہ بات چیت کے حامی سیاستدان ان پر یہ الزام نہ لگائیں کہ مکالمہ کا آپشن استعمال کئے بغیر آپریشن شروع کر دیا ۔ذرائع کا کہنا تھا کہ مکمل فوجی آپریشن، جس میں زمینی دستوں کی کارروائی بھی شامل ہوگی، اگلے مرحلے میں ( ممکنہ طور پر مارچ کے شروع میں ) شروع کر دیا جائے گا جب تک امن مذاکرات کا نتیجہ بھی سامنے آجائے گا ، ایک سوال پر ذرائع نے واضح کیا کہ قبائلی علاقوں میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں پر جب بھی حملہ ہوا تو فوج شمالی وزیرستان میں مزید حملوں سے قطعی نہیں ہچکچائے گی ۔
طالبان موجودہ جمہوری نظام کو کفر کا نظام گردانتےہیں اور آئینِ پاکستان کو نہ مانتے ہیں۔ جس شریعت کے نفاذ کی بات طالبان کرتے ہیں وہ وہ کسی مسلمان کی سمجھ سے بالاتر ہے اور کوئی پاکستانی مسلک اس کو قبول کرنے کو تیار نہ ہے۔ شریعتِ اسلامی کے تحت عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ہتھیار نہ اٹھانے والوں پر حملہ کر کے ان کو قتل نہ کیا جا سکتا ہےجب کہ اطالبان کا سب سے بڑا نشانہ ہی یہ بے گناہ اور معصوم بوڑھے، بچے، عورتیں اور مرد ہیں۔ یہ کیسی اسلامی شریعت ہے جس سے کوئی مسجد محفوظ ہے نہ امام بارگاہ، کوئی چرچ محفوظ ہے نہ مدرسہ اوریہ کیسے مسلمان ہیں جو جنازوں پر بھی خود کش حملے کرنے سے باز نہیں آتے؟ طالبان پاکستان کے موجودہ سیاسی اور سماجی نظام و ڈہانچےکو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اس سیاسی و سماجی ڈہانچے کو بزور طاقت گرانے کے خواہاں ہیں۔ طالبان جمہوریت کو بھی غیر اسلامی گردانتے ہیں جبکہ مفتی اعظم دیو بند کا خیال ہے کہ طالبان اسلامی اصولوں کو مکمل طور پر نہ سمجھتے ہیں۔ویسے بھی شرائط والی طالبانی پیشکش ایک مذاق ہے اور طالبان کی اپنے آدمیوں کو رہا کرانے کا ایک حربہ ہے۔ طالبان کا پیش کردہ حل ،موجودہ سیاسی سیٹ اپ سے مطابقت نہ رکھتا ہے۔ ریاست کسی گروہ کو یہ اجازت نہ دے سکتی ہے کہ وہ دہشت گرد گروہ کو جو کہ آئین پاکستان کو نہ مانتا ہو، مسلسل دہشت گردی میں مصروف ہیں، ریاست اور حکومت کو شرائط تسلیم کرنے کے لئے ڈکٹیٹ کرے ۔
تحریک طالبان کو سوچنا چاہئے کہ وہ عملاً پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے اس ایجنڈے کا حصہ کیوں بن گئے ہیں؟
طالبان اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں ،مگر انہوں نے اس کا کوئی ماڈل پیش نہ کیا ہے؟
کیا اسلامی نظام کے نفاذ کا طریقہ یہی ہے کہ انسانیت کا بے دریغ قتل عام کیا جائے اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے؟
کیا طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لئے کوئی سازگار ماحول پیدا کیا گیا ہے؟
طالبان خود کو ریاست کے اندر ریاست سمجھتے ہیں جن کی اس خام خیالی کی موجودگی میں مذاکرات کسی صورت پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں۔ نیز اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل کو طالبان ہتھیار پھینک کر دہشت گردی سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور اس جمہوریت کو،جسے طالبان غیر اسلامی سمجھتے ہیں، تسلیم کرلیں گئے اورمسلمہ جمہوری اصولوں و ضوابط کی پاسداری کریں گے؟ اور مزید اس چیز کی کیا ضمانت ہے اور کون گارنٹی دے گا کہ طے شدہ شرائط و معاہدہ پرطالبان خلوص نیت سے عمل کریں گے؟
ایک طرف طالبان حملے کرتے ہیں ،ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں؟
طالبان کے ساتھ معاہدوں کا اور ان کی طرف سے معاہدوں کو توڑنے کا سابقہ تجربہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہ ہے۔
اس وقت سیاسی جماعتیں منقسم ہیں ۔مذہبی جماعتیں حکومت کو باور کروارہی ہیں کہ وہ فوجی آپریشن کی غلطی نہ کرے وگرنہ اسے سنگین نتائج برداشت کرنے ہونگے ۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ جنگ قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے شہری علاقوں میں داخل ہوگی جو حکومت کے لیے نئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے ۔
طالبان کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کر کے حکومت نے گیند طالبان کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ آئندہ حالات بتائیں گے کہ یہ مذاکرات کس کروٹ بیٹھتے ہیں؟