مہوش علی
لائبریرین
ہمارے لیڈران فقط "طالبان سے مذاکرات" کی رٹ لگاتے رہے، مگر انہوں نے "طالبانی سوچ" کا دلائل سے جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس لیے آج طالبان غلط ہوتے ہوئے بھی شریعت کے پاسبان بن کر سامنے آ رہے ہیں اور پاکستانی ریاست اور آئین کافرانہ نظام بن کر سامنے آ رہا ہے۔
مذاکرات میں بنیادی طور پر 3 اہم مسائل درپیش ہیں جنکے گرد یہ 15 مطالبات گھوم رہے ہیں۔ پہلا ہے ڈرونز اور جنگ کا مسئلہ، اور دوسرا ہے پاک فوج کی فاٹا سے واپسی، اور تیسرا ہے طالبانی شریعت کے نفاذ کا مسئلہ۔
ڈرونز و جنگ کا مسئلہ:۔
یہ مطالبہ تو عوام کو طالبان سے کرنا چاہیے۔ طالبان بہت طرم خان بنتے ہیں اور امریکہ کا للکار رہے تھے۔ مگر جب امریکہ نے حملہ کیا تو یہ طالبان اپنی عورتوں، بچوں اور معصوم شہری آبادی کو امریکی طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اچھلتے کودتے، چھپتے فرار ہوتے پاکستان پہنچ گئے۔ اگر امریکہ پاکستان پر حملہ کرے گا تو پھر پاکستانی ریاست کہاں جائے گی؟ کیا پاکستان ریاست بھی اچھلی کودتی پہاڑوں میں جا کہیں جا کر چھپ جائے طالبان کی طرح؟
پاکستانی ریاست کا فیصلہ بالکل درست ہے کہ موجودہ حالات میں ہمیں امریکہ سے جنگ نہیں کرنی ہے۔ پاکستانی ریاست نے افغانی طالبان کو بالکل درست مشورہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو تحقیقات کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیں۔ رسول (ص) نے انہی نامساعد حالات کے تحت حدیبیہ کے مقام پر کفار سے صلح کی تھی اور اسکی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا۔ اسی شرط کے تحت حضرت ابو جندل کو واپس کفار مکہ کے حوالے کر دیا گیا۔
نہ صرف مشرف حکومت، بلکہ بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں کا فیصلہ بھی یہ ہی ہے کہ طالبان کی خاطر پاکستانی ریاست امریکہ سے ٹکر مول نہیں لے سکتی۔ اور عمران خان جو طالبان کی خاطر امریکہ سے ٹکر مول لینے کا کہتے ہیں، تو یہ بے وقوفی ہے کہ امریکی ایف 16 طیاروں سے آپ امریکی ڈرونز گرانے کی بات کریں۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست طالبان جیسے چھوٹے گروہ سے جنگ نہیں جیت سکتی، مگر دوسری طرف آپ امریکہ سے جنگ کے طبل بجائیں۔ تو امریکی طیاروں نے حملہ کیا تو پھر عمران خان صاحب آپ طالبان کی طرح چھپتے فرار ہوتے کہاں جائیں گے؟
چنانچہ طالبانی لیڈران پاکستان میں شہریوں کے پیچھے چھپ کر انہیں ڈرون کے خلاف بطور انسانی ڈھال استعمال کرنے کی بجائے افغانستان جائیں اور امریکہ سے جہاد کریں اور عوام کو اور پاکستان کو ان ڈرونز سے نجات دلوائیں۔
ڈرون حملوں میں مرنے والے تمام تر شہریوں کے خون و مال کی تلافی کے ذمہ دار بذات خود طالبان و امریکہ ہیں اور پاکستانی ریاست ذمہ دار نہیں۔
پاکستانی ریاست نے افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آنے والے جہادیوں کو پیشکش کی تھی کہ وہ اپنی رجسٹریشن کروائیں اور پاکستانی آئین کو تسلیم کریں اور اپنی دہشتگردانہ کاروائیاں بند کر دیں تو انہیں امان دی جائے گی۔ مگر ان جہادیوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت کی اور اسکے بعد پاکستانی ریاست پر انکی کوئی ولایت اور کوئی ذمہ داری باقی نہیں ہے۔
جوابی نکات:۔
۔1۔ امریکہ کی آمد اور ڈرونز حملوں کے ذمہ دار طالبان ہیں۔ پاکستانی ریاست نے یہ جنگ شروع نہیں کی تھی، بلکہ طالبان نے کی تھی اور وہ ہی عوام کو امریکی ڈرونز سے نجات دلوانے کی ذمہ دار ہیں۔
۔2۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے طالبان کا کوئی خون بہا پاکستانی ریاست کے ذمہ نہیں۔ صرف عام شہریوں کو حکومت پاکستان معاوضہ ادا کرے گی، اور فقط اتنا معاوضہ ہی ادا کرے گی جتنا کہ طالبان کے خود کش حملوں میں مارے جانے والے پاکستانی شہداء کو ادا کرتی ہے۔ اگر انکے لواحقین کو نوکریاں دینا ہے، تو پھر طالبان کے حملوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو بھی نوکریاں دی جائیں۔
۔3۔ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اور دیگر غیر ملکی دہشتگردوں کو فقط یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ وہ اگر اپنا فتنہ چھوڑ کر پاکستانی قانون کی پاسداری کا عہد کریں اور پاکستانی سرزمین کو اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہ کریں، تو پھر انکے خلاف مقدمات ختم کیے جا سکتے ہیں، اور انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔
پاک فوج کی قبائلی علاقوں سے انخلاء کی شرط
پاک فوج کو کوئی شوق نہیں کہ وہ قبائلی علاقوں میں رہے اور وہ طالبانی فتنے کی آمد سے قبل جس پوزیشن میں تھی، اسی پوزیشن پر واپس جا سکتی ہے، مگر طالبان کے پاس کوئی حق نہیں کہ پاک فوج کا پاکستانی قبائلی علاقہ جات سے نکالنے کی شرط عائد کریں۔
قبائلی علاقہ سے پاک فوج صرف اس وقت واپس بلائی جائے گی جب طالبان اپنے ہتھیار رکھ چکے ہوں گے۔ طالبان مزید کوئی جتھہ نہیں بنائیں گے، طالبان بذور طاقت اصلاح کے نام پر کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔ جب پاکستانی ریاست کو یقین ہو جائے گا کہ طالبان کا کوئی خطرہ باقی نہیں ہے، صرف اسکے بعد رفتہ رفتہ چوکیوں پر نگرانی ختم کی جائے گی، مگر فوج پھر بھی موجود رہے گی۔ مکمل یقین ہونے کے بعد اگلے مرحلے میں فوج کے انخلاء کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔
سوات امن ڈیل سے قبل پاک فوج نے مار مار کر طالبان کی سوات میں ایسی کی تیسی پھیر دی تھی۔ مگر پھر ہمارے بے وقوف حکمرانوں نے سوات امن ڈیل کے نام پر پاک فوج کو سوات سے نکال لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تتر بتر طالبان دوبارہ سے منظم ہوئے اور انہوں نے کلاشنکوف کے زور پر پورے علاقے پر قبضہ کر کے اپنا خونی نظام جاری کر دیا اور لوگوں کو سوات کے بازار میں اسلام کے نام پر گلے کاٹ کر ذبح کرنے لگے، اور پھر بندوق کے زور پر اپنی خونی شریعت کو اسلام آباد پر نافذ کرنے کے لیے بونیر کی طرف چل پڑے۔ مجبور ہو کر ان بے وقوف حکمرانوں کو پھر سے فوج کو سوات میں بھیجنا پڑا۔ مگر اس دفعہ طالبان کی صفائی کی قیمت قوم کو بہت زیادہ چکانی پڑی اور 10 لاکھ افراد آئی ڈی پیز بنے۔
طالبان پاک فوج کا انخلاء کیوں چاہتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ طالبان کو جہاں اور جب موقع ملتا ہے وہ پاکستان سے وفادار قبائل اور امن لشکروں پر خود کش حملے کرتی ہے اور انکے گلے کاٹ کر انہیں پاکستان سے وفاداری کے جرم میں ذبح کر ڈالتی ہے۔ پاک فوج کے انخلاء کا مطلب ہے ایک بار پھر ان پاکستان سے وفادار قبائلیوں کو طالبان کے ہاتھوں ذبح کروانا۔
چنانچہ پاک فوج کسی صورت بھی طالبانی فتنے کے 100 فیصد ختم ہو جانے کے یقین ہونے تک علاقے سے نہیں نکلے گی۔ نگران چوکیاں ختم کی جا سکتی ہیں، مگر فوج علاقے میں رہے گی تاکہ طالبان نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی تو اسکا جواب دیا جا سکے۔
طالبانی خونی خارجی شریعت کا مسئلہ:۔
طالبانی خونی شریعت کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ خارجی شریعت ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستانی آئین مکمل طور پر قرآن و سنت کی بنیاد پر بنا ہے اور طالبانی خونی خارجی شریعت کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ اسلامی ہے۔ عدالتوں میں 100 فیصد اسلامی قرآن و سنت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ مسئلہ پاکستان کے آئین کے کاکفرانہ ہونے کا ہرگز نہیں ہے، بلکہ معاشرے میں جو برائیاں ہیں، اسکے ذمہ دار ہمارے نااہل حکمران ہیں۔
سود کا مسئلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ سود غیر اسلامی ہے۔ سپریم کورٹ نے 90 کی دہائی میں حکومت کو وقت دیا تھا کہ وہ سودی نظام کو ختم کر دے۔ موجودہ حالات میں یہ آسان ٹاسک نہیں اور سعودی عرب اور عرب امارات تیل کی دولت ہونے کے باوجود مکمل طور پر اس سودی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ آجکل مفتی تقی عثمانی حکومت کی طرف سے بینکوں کے ساتھ مل کر سودی نظام کے رفتہ رفتہ خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
طالبان حمایتی مذہبی طبقات جھوٹ بولتے ہیں کہ پاکستان میں اللہ کی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی حاکمیت ہے اور وہ جیسے چاہے قوانین بنا دے۔ نہیں، بلکہ پاکستانی آئین کے مطابق حاکمیت اعلیٰ فقط اللہ کی ہے۔ پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔ ایسے کسی بھی قانون کو شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
اور لال مسجد جیسے کسی گروہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اصلاح کے نام پر ہتھیار ہاتھ میں لے کر عوام کو میں فساد پھیلانا شروع کر دے۔
اور اگر کسی کو مخلوط تعلیم نظام پر اعتراض ہے، تو اسکے لیے راستہ کھلا ہے کہ جائے اور جا کر شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں دلائل کے ساتھ ثابت کر دے کہ مخلوط نظامِ تعلیم اسلام کے خلاف ہے۔ اسکے لیے طالبان کو قتل و غارت اور لڑکیوں کے سکول کالجز اڑانے کی ضرورت نہیں۔ (بلکہ طالبان کی اصل شرط تھوڑی دیر بعد عوام کے سامنے آئے گی جسکے تحت مخلوط نظام تعلیم کو تو چھوڑئیے، لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی ہو گی)۔
اور جو دیگر معاشرے میں کچھ برائیاں ہیں، تو وہ پاکستانی آئین کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہیں۔ اسکے خلاف بے شک احتجاج کریں، مگر یہ کیا کہ اسکے نام پر آپ نے 50 ہزار دیگر معصوم پاکستانیوں کو خود کش بم دھماکوں میں اڑا دیا؟ آپ عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں، انہیں تبلیغ کریں، انکے شعور کو اجاگر کریں اور عوام کی مدد سے حکومت بنا لیں اور حکومت میں آ کر ان برائیوں کو دور کر لیں۔ ایسا کیوں ہے کہ عوام کے نام پر آپکے پیش میں پیچش کے مڑوڑ اٹھنے لگتے ہیں اور عوام کی جگہ آپ سب کام بندوق کی نال پر کرنا چاہتے ہیں؟
اور جو طالبان جمہوریت کے کافرانہ نظام ہونے کی رٹ لگا رہے ہیں، تو اس میں کوئی صداقت نہیں۔ رسول (ص) نے اپنی وفات کے بعد حکمرانوں کے چناؤ کا کوئی معین طریقہ کار نہیں بتلایا بلکہ اسے وقت اور حالات کے تحت مسلمانوں کے اجماعی شعور پر چھوڑ دیا۔ چاروں خلفائے راشدین کا انتخاب مختلف طریقوں سے ہوا۔ اسکے بعد خلافت کے نام پر ملوکیت شروع ہو گئی اور ملوکیت میں اور موروثی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں۔
اگر طالبان سچے ہیں کہ انکا طریقہ کار زیادہ اسلامی ہے، تو وہ پھر عوام کو دلیل کے ساتھ کیوں نہیں راضی کرتے؟ انہیں پوری آزادی ہے کہ عوام میں تبلیغ کریں، انہیں اپنے نظام کی اچھائیاں (اگر کوئی ہیں) بتا کر خود کو ووٹ دینے کے لیے تیار کیوں نہیں کرتے؟ طالبان کو تبلیغ سے بھی ڈر لگتا ہے اور مسلمان عوام سے بھی۔
طالبان کا خونی خارجی نظام بالکل نامنظور ہے جس میں بندوق کے زور اور مسلمان کے خون کے دریا بہا کر زبردستی حکومت پر قبضہ کیا جاتا ہے۔نظام کی تبدیلی کا واحد طریقہ کار یہ ہے کہ طالبان اور انکی حمایتی مذہبی جماعتیں ووٹ حاصل کر کے دکھائیں کہ عوام ان پر اعتماد کرتی ہے، اور پھر عوام کی تائید سے نظام بدل لیں۔ پاکستانی آئین میں اسکا طریقہ کار درج ہے۔
آخر میں رسول (ص) حدیث جو کہ طالبان پر حجت ہے، اور جسکی روشنی میں طالبان کو ہر صورت اپنا فتنہ چھوڑنا ہے۔
عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ(ص) کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں، اور جن کے لئے تم دعا کرتے ہو اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) کیا ایسے موقع پر ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ(ص) نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے، مگر ہر گز اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(مسلم:1855)۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایاتاکہ ہم ہر حالت کے لیے سمع و طاعت کی بیعت کریں کہ نرمی و جبر، تنگی و فراخی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیے جانے(کے باوجود بھی حکمران کی اطاعت سے نہیں نکلیں گے)، اور نہ ان سے جھگڑا کریں گے۔ فرمایا کہ صرف (اس صورت میں تم حکمران کی اطاعت سے نکل سکتے ہو) کہ تم کوئی صریح کفر اس کی طرف سے دیکھو، جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی واضح حجت ہو۔
طالبان نے پاکستانی ریاست کی اطاعت کرنے کی بجائے فساد پیدا کرتے ہوئے 50 ہزار معصوم پاکستانی مسلمانوں کا خون کر دیا ہے، انکے گلے کاٹ ڈالے ہیں، اسلام کو فقط بدنام کروایا ہے۔ اللہ طالبان کے شر سے پاکستانی قوم کو محفوظ رکھے۔ امین۔
مذاکرات میں بنیادی طور پر 3 اہم مسائل درپیش ہیں جنکے گرد یہ 15 مطالبات گھوم رہے ہیں۔ پہلا ہے ڈرونز اور جنگ کا مسئلہ، اور دوسرا ہے پاک فوج کی فاٹا سے واپسی، اور تیسرا ہے طالبانی شریعت کے نفاذ کا مسئلہ۔
ڈرونز و جنگ کا مسئلہ:۔
یہ مطالبہ تو عوام کو طالبان سے کرنا چاہیے۔ طالبان بہت طرم خان بنتے ہیں اور امریکہ کا للکار رہے تھے۔ مگر جب امریکہ نے حملہ کیا تو یہ طالبان اپنی عورتوں، بچوں اور معصوم شہری آبادی کو امریکی طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اچھلتے کودتے، چھپتے فرار ہوتے پاکستان پہنچ گئے۔ اگر امریکہ پاکستان پر حملہ کرے گا تو پھر پاکستانی ریاست کہاں جائے گی؟ کیا پاکستان ریاست بھی اچھلی کودتی پہاڑوں میں جا کہیں جا کر چھپ جائے طالبان کی طرح؟
پاکستانی ریاست کا فیصلہ بالکل درست ہے کہ موجودہ حالات میں ہمیں امریکہ سے جنگ نہیں کرنی ہے۔ پاکستانی ریاست نے افغانی طالبان کو بالکل درست مشورہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو تحقیقات کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیں۔ رسول (ص) نے انہی نامساعد حالات کے تحت حدیبیہ کے مقام پر کفار سے صلح کی تھی اور اسکی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا۔ اسی شرط کے تحت حضرت ابو جندل کو واپس کفار مکہ کے حوالے کر دیا گیا۔
نہ صرف مشرف حکومت، بلکہ بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں کا فیصلہ بھی یہ ہی ہے کہ طالبان کی خاطر پاکستانی ریاست امریکہ سے ٹکر مول نہیں لے سکتی۔ اور عمران خان جو طالبان کی خاطر امریکہ سے ٹکر مول لینے کا کہتے ہیں، تو یہ بے وقوفی ہے کہ امریکی ایف 16 طیاروں سے آپ امریکی ڈرونز گرانے کی بات کریں۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست طالبان جیسے چھوٹے گروہ سے جنگ نہیں جیت سکتی، مگر دوسری طرف آپ امریکہ سے جنگ کے طبل بجائیں۔ تو امریکی طیاروں نے حملہ کیا تو پھر عمران خان صاحب آپ طالبان کی طرح چھپتے فرار ہوتے کہاں جائیں گے؟
چنانچہ طالبانی لیڈران پاکستان میں شہریوں کے پیچھے چھپ کر انہیں ڈرون کے خلاف بطور انسانی ڈھال استعمال کرنے کی بجائے افغانستان جائیں اور امریکہ سے جہاد کریں اور عوام کو اور پاکستان کو ان ڈرونز سے نجات دلوائیں۔
ڈرون حملوں میں مرنے والے تمام تر شہریوں کے خون و مال کی تلافی کے ذمہ دار بذات خود طالبان و امریکہ ہیں اور پاکستانی ریاست ذمہ دار نہیں۔
پاکستانی ریاست نے افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آنے والے جہادیوں کو پیشکش کی تھی کہ وہ اپنی رجسٹریشن کروائیں اور پاکستانی آئین کو تسلیم کریں اور اپنی دہشتگردانہ کاروائیاں بند کر دیں تو انہیں امان دی جائے گی۔ مگر ان جہادیوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت کی اور اسکے بعد پاکستانی ریاست پر انکی کوئی ولایت اور کوئی ذمہ داری باقی نہیں ہے۔
جوابی نکات:۔
۔1۔ امریکہ کی آمد اور ڈرونز حملوں کے ذمہ دار طالبان ہیں۔ پاکستانی ریاست نے یہ جنگ شروع نہیں کی تھی، بلکہ طالبان نے کی تھی اور وہ ہی عوام کو امریکی ڈرونز سے نجات دلوانے کی ذمہ دار ہیں۔
۔2۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے طالبان کا کوئی خون بہا پاکستانی ریاست کے ذمہ نہیں۔ صرف عام شہریوں کو حکومت پاکستان معاوضہ ادا کرے گی، اور فقط اتنا معاوضہ ہی ادا کرے گی جتنا کہ طالبان کے خود کش حملوں میں مارے جانے والے پاکستانی شہداء کو ادا کرتی ہے۔ اگر انکے لواحقین کو نوکریاں دینا ہے، تو پھر طالبان کے حملوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو بھی نوکریاں دی جائیں۔
۔3۔ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اور دیگر غیر ملکی دہشتگردوں کو فقط یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ وہ اگر اپنا فتنہ چھوڑ کر پاکستانی قانون کی پاسداری کا عہد کریں اور پاکستانی سرزمین کو اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہ کریں، تو پھر انکے خلاف مقدمات ختم کیے جا سکتے ہیں، اور انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔
پاک فوج کی قبائلی علاقوں سے انخلاء کی شرط
پاک فوج کو کوئی شوق نہیں کہ وہ قبائلی علاقوں میں رہے اور وہ طالبانی فتنے کی آمد سے قبل جس پوزیشن میں تھی، اسی پوزیشن پر واپس جا سکتی ہے، مگر طالبان کے پاس کوئی حق نہیں کہ پاک فوج کا پاکستانی قبائلی علاقہ جات سے نکالنے کی شرط عائد کریں۔
قبائلی علاقہ سے پاک فوج صرف اس وقت واپس بلائی جائے گی جب طالبان اپنے ہتھیار رکھ چکے ہوں گے۔ طالبان مزید کوئی جتھہ نہیں بنائیں گے، طالبان بذور طاقت اصلاح کے نام پر کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔ جب پاکستانی ریاست کو یقین ہو جائے گا کہ طالبان کا کوئی خطرہ باقی نہیں ہے، صرف اسکے بعد رفتہ رفتہ چوکیوں پر نگرانی ختم کی جائے گی، مگر فوج پھر بھی موجود رہے گی۔ مکمل یقین ہونے کے بعد اگلے مرحلے میں فوج کے انخلاء کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔
سوات امن ڈیل سے قبل پاک فوج نے مار مار کر طالبان کی سوات میں ایسی کی تیسی پھیر دی تھی۔ مگر پھر ہمارے بے وقوف حکمرانوں نے سوات امن ڈیل کے نام پر پاک فوج کو سوات سے نکال لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تتر بتر طالبان دوبارہ سے منظم ہوئے اور انہوں نے کلاشنکوف کے زور پر پورے علاقے پر قبضہ کر کے اپنا خونی نظام جاری کر دیا اور لوگوں کو سوات کے بازار میں اسلام کے نام پر گلے کاٹ کر ذبح کرنے لگے، اور پھر بندوق کے زور پر اپنی خونی شریعت کو اسلام آباد پر نافذ کرنے کے لیے بونیر کی طرف چل پڑے۔ مجبور ہو کر ان بے وقوف حکمرانوں کو پھر سے فوج کو سوات میں بھیجنا پڑا۔ مگر اس دفعہ طالبان کی صفائی کی قیمت قوم کو بہت زیادہ چکانی پڑی اور 10 لاکھ افراد آئی ڈی پیز بنے۔
طالبان پاک فوج کا انخلاء کیوں چاہتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ طالبان کو جہاں اور جب موقع ملتا ہے وہ پاکستان سے وفادار قبائل اور امن لشکروں پر خود کش حملے کرتی ہے اور انکے گلے کاٹ کر انہیں پاکستان سے وفاداری کے جرم میں ذبح کر ڈالتی ہے۔ پاک فوج کے انخلاء کا مطلب ہے ایک بار پھر ان پاکستان سے وفادار قبائلیوں کو طالبان کے ہاتھوں ذبح کروانا۔
چنانچہ پاک فوج کسی صورت بھی طالبانی فتنے کے 100 فیصد ختم ہو جانے کے یقین ہونے تک علاقے سے نہیں نکلے گی۔ نگران چوکیاں ختم کی جا سکتی ہیں، مگر فوج علاقے میں رہے گی تاکہ طالبان نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی تو اسکا جواب دیا جا سکے۔
طالبانی خونی خارجی شریعت کا مسئلہ:۔
طالبانی خونی شریعت کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ خارجی شریعت ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستانی آئین مکمل طور پر قرآن و سنت کی بنیاد پر بنا ہے اور طالبانی خونی خارجی شریعت کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ اسلامی ہے۔ عدالتوں میں 100 فیصد اسلامی قرآن و سنت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ مسئلہ پاکستان کے آئین کے کاکفرانہ ہونے کا ہرگز نہیں ہے، بلکہ معاشرے میں جو برائیاں ہیں، اسکے ذمہ دار ہمارے نااہل حکمران ہیں۔
سود کا مسئلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ سود غیر اسلامی ہے۔ سپریم کورٹ نے 90 کی دہائی میں حکومت کو وقت دیا تھا کہ وہ سودی نظام کو ختم کر دے۔ موجودہ حالات میں یہ آسان ٹاسک نہیں اور سعودی عرب اور عرب امارات تیل کی دولت ہونے کے باوجود مکمل طور پر اس سودی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ آجکل مفتی تقی عثمانی حکومت کی طرف سے بینکوں کے ساتھ مل کر سودی نظام کے رفتہ رفتہ خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
طالبان حمایتی مذہبی طبقات جھوٹ بولتے ہیں کہ پاکستان میں اللہ کی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی حاکمیت ہے اور وہ جیسے چاہے قوانین بنا دے۔ نہیں، بلکہ پاکستانی آئین کے مطابق حاکمیت اعلیٰ فقط اللہ کی ہے۔ پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔ ایسے کسی بھی قانون کو شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
اور لال مسجد جیسے کسی گروہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اصلاح کے نام پر ہتھیار ہاتھ میں لے کر عوام کو میں فساد پھیلانا شروع کر دے۔
اور اگر کسی کو مخلوط تعلیم نظام پر اعتراض ہے، تو اسکے لیے راستہ کھلا ہے کہ جائے اور جا کر شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں دلائل کے ساتھ ثابت کر دے کہ مخلوط نظامِ تعلیم اسلام کے خلاف ہے۔ اسکے لیے طالبان کو قتل و غارت اور لڑکیوں کے سکول کالجز اڑانے کی ضرورت نہیں۔ (بلکہ طالبان کی اصل شرط تھوڑی دیر بعد عوام کے سامنے آئے گی جسکے تحت مخلوط نظام تعلیم کو تو چھوڑئیے، لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی ہو گی)۔
اور جو دیگر معاشرے میں کچھ برائیاں ہیں، تو وہ پاکستانی آئین کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہیں۔ اسکے خلاف بے شک احتجاج کریں، مگر یہ کیا کہ اسکے نام پر آپ نے 50 ہزار دیگر معصوم پاکستانیوں کو خود کش بم دھماکوں میں اڑا دیا؟ آپ عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں، انہیں تبلیغ کریں، انکے شعور کو اجاگر کریں اور عوام کی مدد سے حکومت بنا لیں اور حکومت میں آ کر ان برائیوں کو دور کر لیں۔ ایسا کیوں ہے کہ عوام کے نام پر آپکے پیش میں پیچش کے مڑوڑ اٹھنے لگتے ہیں اور عوام کی جگہ آپ سب کام بندوق کی نال پر کرنا چاہتے ہیں؟
اور جو طالبان جمہوریت کے کافرانہ نظام ہونے کی رٹ لگا رہے ہیں، تو اس میں کوئی صداقت نہیں۔ رسول (ص) نے اپنی وفات کے بعد حکمرانوں کے چناؤ کا کوئی معین طریقہ کار نہیں بتلایا بلکہ اسے وقت اور حالات کے تحت مسلمانوں کے اجماعی شعور پر چھوڑ دیا۔ چاروں خلفائے راشدین کا انتخاب مختلف طریقوں سے ہوا۔ اسکے بعد خلافت کے نام پر ملوکیت شروع ہو گئی اور ملوکیت میں اور موروثی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں۔
اگر طالبان سچے ہیں کہ انکا طریقہ کار زیادہ اسلامی ہے، تو وہ پھر عوام کو دلیل کے ساتھ کیوں نہیں راضی کرتے؟ انہیں پوری آزادی ہے کہ عوام میں تبلیغ کریں، انہیں اپنے نظام کی اچھائیاں (اگر کوئی ہیں) بتا کر خود کو ووٹ دینے کے لیے تیار کیوں نہیں کرتے؟ طالبان کو تبلیغ سے بھی ڈر لگتا ہے اور مسلمان عوام سے بھی۔
طالبان کا خونی خارجی نظام بالکل نامنظور ہے جس میں بندوق کے زور اور مسلمان کے خون کے دریا بہا کر زبردستی حکومت پر قبضہ کیا جاتا ہے۔نظام کی تبدیلی کا واحد طریقہ کار یہ ہے کہ طالبان اور انکی حمایتی مذہبی جماعتیں ووٹ حاصل کر کے دکھائیں کہ عوام ان پر اعتماد کرتی ہے، اور پھر عوام کی تائید سے نظام بدل لیں۔ پاکستانی آئین میں اسکا طریقہ کار درج ہے۔
آخر میں رسول (ص) حدیث جو کہ طالبان پر حجت ہے، اور جسکی روشنی میں طالبان کو ہر صورت اپنا فتنہ چھوڑنا ہے۔
عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ(ص) کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں، اور جن کے لئے تم دعا کرتے ہو اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) کیا ایسے موقع پر ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ(ص) نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے، مگر ہر گز اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(مسلم:1855)۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایاتاکہ ہم ہر حالت کے لیے سمع و طاعت کی بیعت کریں کہ نرمی و جبر، تنگی و فراخی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیے جانے(کے باوجود بھی حکمران کی اطاعت سے نہیں نکلیں گے)، اور نہ ان سے جھگڑا کریں گے۔ فرمایا کہ صرف (اس صورت میں تم حکمران کی اطاعت سے نکل سکتے ہو) کہ تم کوئی صریح کفر اس کی طرف سے دیکھو، جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی واضح حجت ہو۔
طالبان نے پاکستانی ریاست کی اطاعت کرنے کی بجائے فساد پیدا کرتے ہوئے 50 ہزار معصوم پاکستانی مسلمانوں کا خون کر دیا ہے، انکے گلے کاٹ ڈالے ہیں، اسلام کو فقط بدنام کروایا ہے۔ اللہ طالبان کے شر سے پاکستانی قوم کو محفوظ رکھے۔ امین۔