طالبان شریعت کے حامی نہیں،صاحبزادہ معاذالمصطفیٰ

طالبان شریعت کے حامی نہیں،صاحبزادہ معاذالمصطفیٰ
26 مارچ 2014

لاہور(سپیشل ر پورٹر) آستانہ عالیہ غوثیہ قادریہ کے سجادہ نشین صاحبزادہ معاذالمصطفیٰ قادری نے کہا کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلا ف استعمال ہونا افسوس ناک ہے ۔طالبان شریعت کے حامی نہیں باغی ہیں.

نفاذ شریعت کےلئے بندوق کا استعمال خلاف شریعت ہے اسلامی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ طالبان کے گمراہ کن فہم شریعت کو مسترد کرتے ہیں مسجدوں، مدرسوں، مزاروں، اعراس،امام بارگاہوں،پاک فوج ،پاک پولیس ،سکولوں ،کالجوں ،مارکیٹوں ،ہسپتالوں، جنازوں، چرچوں، پولیو ورکرز، غیر ملکی کھلاڑیوں ،اور سیاحوں پر حملے کرنے والے شریعت کے علمبدار نہیں ہو سکتے ۔آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیر اسلامی قرار دینا گمراہ کن سوچ ہے 1973ءکے آئین پر تمام مکتبہ فکر کے جید علماءومشائخ نے دستخط کر رکھے ہیں ۔آئین میں شامل غیر اسلامی دفعات کو قرآن وسنت کے مطابق بنانے کے لےے متعلقہ نمائندہ فورم اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ تجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے آئین میں شامل کیا جائے اور آئین پاکستان کا عملی نفاذ قراردادمقاصد کی روشنی میں یقینی بنایا جائے ۔اس لےے آئین شریعت کے نفاذ کی ضمانت دیتا ہے ملک میں شریعت نفاذ ہوگئی تو طالبان اور ان کے حمایتی پھانسی چڑیں گے ۔حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے آئینی تقاضے پورے کرے ۔

http://www.dailypakistan.com.pk/metropolitan4/26-Mar-2014/86190
 
طالبانائزیشن ایک آ ئیڈیالوجی کا نام ہے اور اس کے ماننے والے وحشی اور درندے طالبان، انتہا پسند،تشدد پسند اور دہشت گرد نظریات و افکار پر یقین رکھتے ہیں اور صرف نام کے مسلمان ہیں، جن کے ہاتھ پاکستان کے معصوم اور بے گناہ شہریوں،طلبا و طالبات، اساتذہ اور ہر شعبہ ہائے ذندگی کے لوگوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں.
مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی صورت حال کو قرآن مجید میں حرابہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کے خلاف ایک سنگین جرم ہے انتہا پسند و دہشت گرد پاکستان کا امن تباہ کرنے اور اپنا ملک تباہ کرنے اور اپنے ہیلوگوں کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں، ایسے لوگ جہاد نہ کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردی میں ملوث ہیں اور دہشت گرد انسانیت کے سب سے بڑےد شمن ہیں۔
خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہےمعصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرنا،یا زخمی کرناخلاف شریعہ ہے۔


............................................................................................

لاہور میں بسنت کے رنگ

http://awazepakistan.wordpress.com/
 

x boy

محفلین
سب مال کا چکر ہے آستانے والے بابے مزاروں کے مجاور یا بم دھماکے کروانے والے۔


امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے،آستانہ اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی، پیر، جن اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ ( الغاشیۃ : 1-4 )
قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔ ( آمین )۔
 
Top