گرائیں
محفلین
بریگیڈئر (ر) امتیاز احمد پاکستان کی تاریخ کے پندرہ اہم برسوں تک خفیہ اداروں آئی بی اور آئی ایس آئی میں اہم عہدوں پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ انیس سو نوے میں ریٹائر ہوئے تھے تاہم انہیں وقتا فوقتاً سیاست میں مداخلت یا بدعنوانی کے الزامات کے تحت بےنظیر بھٹو اور صدر مشرف کے ادوار میں آٹھ برس تک قید بھی جھیلنا پڑی۔ ان پر بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے کے لیے ’آپریشن مڈنائٹ جیکل’ میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انیس برس کی طویل خاموشی توڑتے ہوئے انہوں نے بی بی سی اردو سروس کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جسے دو اقساط میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلی قسط افغانستان، طالبان اور شدت پسندی سے متعلق ہے جبکہ دوسری قسط میں بریگیڈئر امتیاز ’آپریشن مڈنائٹ جیکال‘ میں اپنے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔
پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈئر ریٹائرڈ امتیاز احمد کے مطابق طالبان امریکہ کی پیداوار ہیں اور ’طالبان کا جن بوتل سے امریکہ نے نکالا تھا تاکہ اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کر سکے‘۔
بریگیڈئر ریٹائرڈ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیرِداخلہ رحمان ملک اور سابق وزیرِداخلہ جنرل نصیر اللہ بابر امریکی ایماء پر افغانستان میں اس اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالنے گئے تھے۔ اس سوال کے جواب میں کہ طالبان کے خالق تو پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کو سمجھا جاتا ہے ستر سالہ بریگیڈئر امتیاز نے واضح کیا کہ وہ اور رحمان ملک اس وقت کی سیاسی حکومت کے دور میں اکثر افغانستان جاتے رہے تھے۔’ لیکن وہ( رحمان ملک اور نصیر اللہ بابر) امریکی ایماء پر، اس کے علم میں ہوتے ہوئے اور ان کی رضامندی سے جاتے رہے۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاید ہدایات لے کر وہاں جاتے ہوں تاکہ وہاں کیا کیا اہداف یا ہدایات دینی ہیں۔ وہ امریکی ایماء پر ہی ایسا کر رہے تھے‘۔
جب بریگیڈئر امتیاز سے دریافت کیا گیا کہ آیا یہ سب کچھ ان کی ذاتی رائے تھی یا خفیہ اداروں کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت خفیہ ادارے میں تھے ان کے پاس معلومات بھی تھیں اور ’کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو خود بولتی ہیں۔ لیکن جو کچھ میں کہہ رہا ہوں میں مطمئن ہوں کہ وثوق سے بول رہا ہوں‘۔
بریگیڈئر امتیاز کے مطابق امریکہ طالبان کو حکومت کا موقع دے کر انہیں نااہل ثابت کروانا چاہتا تھا۔ ’ان کو معلوم تھا کہ طالبان کا سخت گیر رویہ کسی کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ وہ بہت زیادہ انتہا پسند اور غیرفطری سوچ کے حامل تھے۔ وہ حکومت زیادہ دن نہیں چلاسکیں گے‘۔
لیکن ایک سوال کے جواب میں کہ وہ اس وقت بھی تو حامد کرزئی جیسی کسی شخصیت کو افغانستان لا سکتے تھے، بریگیڈئر امتیاز کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جنیوا معاہدے کے بعد اس خطے پر مسلط ہونے کا منصوبہ تیار کر لیا تھا جس میں حامد کرزئی ان کے ’ٹروجن ہارس‘ تھے۔ ’ اگر انہیں ابتداء میں لایا جاتا تو شاید وہ زیادہ دیر نہ چل پاتے‘۔
اس مبینہ امریکی منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ سات مجاہدین جماعتوں کے اتحاد کو ناکام بھی پہلے امریکہ نے کروایا اور پھر طالبان کی شکل میں پیادہ جگجوؤں کو بھی انہوں نے فیل کروایا تاکہ اپنے منصوبوں کو کامیاب کرسکیں۔ ’ان دونوں کی موجودگی میں حامد کرزئی تو کچھ نہیں کرسکتے تھے‘۔
’حامد کرزئی کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ویلیم کیسی کے ساتھ تعلقات تھے اور اب بھی ہیں۔ حامد کرزئی کے بھائی کے بھی جارج بش سے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ ٹروجن ہارس موجود تھا صرف اسے لانے کا مناسب وقت چاہیے تھا۔ حامد کرزئی نے شملہ میں چار سال تعلیم حاصل کی۔ آج افغانستان میں جتنے بڑے تعمیر نو کے منصوبے ہیں وہ بھارت کے پاس ہیں۔ ان منصوبوں پر تقریبا چار سو انجینئر کام کر رہے ہیں جن کی حفاظت کے لیے ساڑھے چار ہزار بھارتی تعینات ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ان میں سے آدھی فورس را آپریٹ کر رہی ہے‘۔
آخر امریکہ کا مقصد کیا ہے اس خطے میں؟ اس بارے میں بریگیڈئر امتیاز کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان پر مکمل قبضہ اور بھارت کو علاقائی طاقت بنا کر پاکستان کی اہمیت ختم کرنا چاہتا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے اس ملک کو ایک اعلی صلاحیت کی حامل قیادت کی ضرورت ہے۔
کیا موجودہ خفیہ اداروں کے پاس اس مبینہ امریکی منصوبے کو ناکام بنانے کی صلاحیت موجود ہے؟ جواب میں ان کا الزام تھا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے تمام اداروں کو نقصان پہنچایا جن میں وہ بھی شامل تھے جو ملکی سلامتی کے ذمہ دار تھے۔ ’انہوں نے بڑے ننگے انداز سے خفیہ اداروں کی پیش ورانہ تربیت اور جذبہ تھا اسے دوسری جانب موڑ دیا۔ انہوں نے ان کا فیلڈ کمپیٹنس معیار تھا اس کو بری طرح نقصان پہنچایا‘۔
یاد رہے کہ بریگیڈئر امتیاز کو بھی سابق صدر مشرف نے گرفتار کر کے بدعنوانی کے الزام میں کئی برس تک قید رکھا تھا جبکہ بعد میں عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا۔
بریگیڈئر امتیاز نے کہا کہ ’اس وقت پاکستانی خفیہ ایجنسیاں ’ہینڈی کیپڈ‘ (معذور) ہیں‘۔ ان کے مطابق اندرونی اور بیرونی چیلنج کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور موجودہ ایجنسیاں ان سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
ان سے کشمیر میں جہادی تنظیموں پر صدر مشرف کی جانب سے پابندی کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا جواب تھا کہ ’صدر صاحب کہتے کچھ تھے اور کرتے کچھ‘۔
بریگیڈئر امتیاز نے انکشاف کیا کہ جب وہ آئی ایس آئی میں تعینات تھے اور جنرل مشرف جی ایچ کیو کی ایم ایس برانچ میں تھے تو انہوں (امتیاز) نے ہرے پال پوائنٹ پین کے ساتھ صدر مشرف کے بارے میں ایک مشاہدہ ریکارڈ کیا تھا کہ وہ ’ہائیلی انٹرو ورٹ اینڈ ڈینجرسلی ایمبیشئس شخص ہیں جو اعلی عہدوں پر فائز ہونے کے لیے شاید مناسب نہیں ہیں‘۔
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ملکی کے سکیورٹی ادارے یا خفیہ ادارے شدت پسندوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان جہاد کے خاتمے کے ساتھ اس وقت خفیہ اداروں کے اہلکار ریٹائر ہوچکے ہیں اور اب سب نئی قیادت ہے۔’موجودہ لاٹ کو تو اسامہ اور بیت اللہ کی خصوصیات کا بھی علم نہیں ہوگا۔ یہ بھی را اور امریکی گیم پلان ہے۔ امریکہ کو نائن الیون کے چار طیاروں کے ہائی جیک ہونے کا تو علم نہیں ہوا تاہم آج امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق یہ معلوم ہوگیا کہ اس حملے میں ملوث لوگ پاکستان میں ہیں‘۔
روسیوں کے خلاف افغانستان میں جنگ کے فیصلے کے بارے میں بریگیڈئر امتیاز کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت سکیورٹی اداروں کا جنرل ضیاء کی قیادت میں مشترکہ فیصلہ تھا۔’روس میں کہوں گا پاکستان کا دشمن تھا۔ وہ بھارت کو علاقائی طاقت کے طور پر استوار کرنا چاہتا تھا‘۔
دریافت کیا کہ اب یہ کام تو امریکہ یہاں کر رہا ہے تو فائدہ کیا ہوا؟ بریگیڈئر امتیاز کا ماننا تھا کہ یہ درست ہے۔ ’اس وقت کے حالات میں وہ پالیسی درست تھی تاہم موجودہ حالات کو دیکھ نہیں سکی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکی گیم پلان کو وہ اس وقت نہیں سمجھ سکے‘۔
بریگیڈئیر امتیاز کا انٹرویو ان کی آواز میں سننے کے لئے یہاں تشریف لائیں۔۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انیس برس کی طویل خاموشی توڑتے ہوئے انہوں نے بی بی سی اردو سروس کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جسے دو اقساط میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلی قسط افغانستان، طالبان اور شدت پسندی سے متعلق ہے جبکہ دوسری قسط میں بریگیڈئر امتیاز ’آپریشن مڈنائٹ جیکال‘ میں اپنے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔
پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈئر ریٹائرڈ امتیاز احمد کے مطابق طالبان امریکہ کی پیداوار ہیں اور ’طالبان کا جن بوتل سے امریکہ نے نکالا تھا تاکہ اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کر سکے‘۔
بریگیڈئر ریٹائرڈ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیرِداخلہ رحمان ملک اور سابق وزیرِداخلہ جنرل نصیر اللہ بابر امریکی ایماء پر افغانستان میں اس اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالنے گئے تھے۔ اس سوال کے جواب میں کہ طالبان کے خالق تو پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کو سمجھا جاتا ہے ستر سالہ بریگیڈئر امتیاز نے واضح کیا کہ وہ اور رحمان ملک اس وقت کی سیاسی حکومت کے دور میں اکثر افغانستان جاتے رہے تھے۔’ لیکن وہ( رحمان ملک اور نصیر اللہ بابر) امریکی ایماء پر، اس کے علم میں ہوتے ہوئے اور ان کی رضامندی سے جاتے رہے۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاید ہدایات لے کر وہاں جاتے ہوں تاکہ وہاں کیا کیا اہداف یا ہدایات دینی ہیں۔ وہ امریکی ایماء پر ہی ایسا کر رہے تھے‘۔
جب بریگیڈئر امتیاز سے دریافت کیا گیا کہ آیا یہ سب کچھ ان کی ذاتی رائے تھی یا خفیہ اداروں کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت خفیہ ادارے میں تھے ان کے پاس معلومات بھی تھیں اور ’کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو خود بولتی ہیں۔ لیکن جو کچھ میں کہہ رہا ہوں میں مطمئن ہوں کہ وثوق سے بول رہا ہوں‘۔
بریگیڈئر امتیاز کے مطابق امریکہ طالبان کو حکومت کا موقع دے کر انہیں نااہل ثابت کروانا چاہتا تھا۔ ’ان کو معلوم تھا کہ طالبان کا سخت گیر رویہ کسی کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ وہ بہت زیادہ انتہا پسند اور غیرفطری سوچ کے حامل تھے۔ وہ حکومت زیادہ دن نہیں چلاسکیں گے‘۔
لیکن ایک سوال کے جواب میں کہ وہ اس وقت بھی تو حامد کرزئی جیسی کسی شخصیت کو افغانستان لا سکتے تھے، بریگیڈئر امتیاز کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جنیوا معاہدے کے بعد اس خطے پر مسلط ہونے کا منصوبہ تیار کر لیا تھا جس میں حامد کرزئی ان کے ’ٹروجن ہارس‘ تھے۔ ’ اگر انہیں ابتداء میں لایا جاتا تو شاید وہ زیادہ دیر نہ چل پاتے‘۔
اس مبینہ امریکی منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ سات مجاہدین جماعتوں کے اتحاد کو ناکام بھی پہلے امریکہ نے کروایا اور پھر طالبان کی شکل میں پیادہ جگجوؤں کو بھی انہوں نے فیل کروایا تاکہ اپنے منصوبوں کو کامیاب کرسکیں۔ ’ان دونوں کی موجودگی میں حامد کرزئی تو کچھ نہیں کرسکتے تھے‘۔
’حامد کرزئی کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ویلیم کیسی کے ساتھ تعلقات تھے اور اب بھی ہیں۔ حامد کرزئی کے بھائی کے بھی جارج بش سے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ ٹروجن ہارس موجود تھا صرف اسے لانے کا مناسب وقت چاہیے تھا۔ حامد کرزئی نے شملہ میں چار سال تعلیم حاصل کی۔ آج افغانستان میں جتنے بڑے تعمیر نو کے منصوبے ہیں وہ بھارت کے پاس ہیں۔ ان منصوبوں پر تقریبا چار سو انجینئر کام کر رہے ہیں جن کی حفاظت کے لیے ساڑھے چار ہزار بھارتی تعینات ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ان میں سے آدھی فورس را آپریٹ کر رہی ہے‘۔
آخر امریکہ کا مقصد کیا ہے اس خطے میں؟ اس بارے میں بریگیڈئر امتیاز کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان پر مکمل قبضہ اور بھارت کو علاقائی طاقت بنا کر پاکستان کی اہمیت ختم کرنا چاہتا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے اس ملک کو ایک اعلی صلاحیت کی حامل قیادت کی ضرورت ہے۔
کیا موجودہ خفیہ اداروں کے پاس اس مبینہ امریکی منصوبے کو ناکام بنانے کی صلاحیت موجود ہے؟ جواب میں ان کا الزام تھا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے تمام اداروں کو نقصان پہنچایا جن میں وہ بھی شامل تھے جو ملکی سلامتی کے ذمہ دار تھے۔ ’انہوں نے بڑے ننگے انداز سے خفیہ اداروں کی پیش ورانہ تربیت اور جذبہ تھا اسے دوسری جانب موڑ دیا۔ انہوں نے ان کا فیلڈ کمپیٹنس معیار تھا اس کو بری طرح نقصان پہنچایا‘۔
یاد رہے کہ بریگیڈئر امتیاز کو بھی سابق صدر مشرف نے گرفتار کر کے بدعنوانی کے الزام میں کئی برس تک قید رکھا تھا جبکہ بعد میں عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا۔
بریگیڈئر امتیاز نے کہا کہ ’اس وقت پاکستانی خفیہ ایجنسیاں ’ہینڈی کیپڈ‘ (معذور) ہیں‘۔ ان کے مطابق اندرونی اور بیرونی چیلنج کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور موجودہ ایجنسیاں ان سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
ان سے کشمیر میں جہادی تنظیموں پر صدر مشرف کی جانب سے پابندی کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا جواب تھا کہ ’صدر صاحب کہتے کچھ تھے اور کرتے کچھ‘۔
بریگیڈئر امتیاز نے انکشاف کیا کہ جب وہ آئی ایس آئی میں تعینات تھے اور جنرل مشرف جی ایچ کیو کی ایم ایس برانچ میں تھے تو انہوں (امتیاز) نے ہرے پال پوائنٹ پین کے ساتھ صدر مشرف کے بارے میں ایک مشاہدہ ریکارڈ کیا تھا کہ وہ ’ہائیلی انٹرو ورٹ اینڈ ڈینجرسلی ایمبیشئس شخص ہیں جو اعلی عہدوں پر فائز ہونے کے لیے شاید مناسب نہیں ہیں‘۔
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ملکی کے سکیورٹی ادارے یا خفیہ ادارے شدت پسندوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان جہاد کے خاتمے کے ساتھ اس وقت خفیہ اداروں کے اہلکار ریٹائر ہوچکے ہیں اور اب سب نئی قیادت ہے۔’موجودہ لاٹ کو تو اسامہ اور بیت اللہ کی خصوصیات کا بھی علم نہیں ہوگا۔ یہ بھی را اور امریکی گیم پلان ہے۔ امریکہ کو نائن الیون کے چار طیاروں کے ہائی جیک ہونے کا تو علم نہیں ہوا تاہم آج امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق یہ معلوم ہوگیا کہ اس حملے میں ملوث لوگ پاکستان میں ہیں‘۔
روسیوں کے خلاف افغانستان میں جنگ کے فیصلے کے بارے میں بریگیڈئر امتیاز کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت سکیورٹی اداروں کا جنرل ضیاء کی قیادت میں مشترکہ فیصلہ تھا۔’روس میں کہوں گا پاکستان کا دشمن تھا۔ وہ بھارت کو علاقائی طاقت کے طور پر استوار کرنا چاہتا تھا‘۔
دریافت کیا کہ اب یہ کام تو امریکہ یہاں کر رہا ہے تو فائدہ کیا ہوا؟ بریگیڈئر امتیاز کا ماننا تھا کہ یہ درست ہے۔ ’اس وقت کے حالات میں وہ پالیسی درست تھی تاہم موجودہ حالات کو دیکھ نہیں سکی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکی گیم پلان کو وہ اس وقت نہیں سمجھ سکے‘۔
بریگیڈئیر امتیاز کا انٹرویو ان کی آواز میں سننے کے لئے یہاں تشریف لائیں۔۔